کئی سال پہلے کی بات ہے کہ امریکی صحافیوں کا ایک وفد سعودی عرب کے دورے پر آیا۔ وفد وہاں ایک ہفتہ ٹھہرا، سعودی عرب کی صورت حال کا جائزہ لینے کے دوران انہیں لگا کہ یہ جو سعودی عرب میں جرائم کی شرعی سزائیں سر عام دی جاتی ہیں۔ یہ سراسر زیادتی اور انسانی حقوق کے خلاف ہے، امریکا میں تو ایسی سزاؤں کا تصور بھی نہیں۔
وفد کی ملاقات اس وقت کے شاہ سعودی عرب، شاہ فیصل سے بھی طے تھی۔ ملاقات کے دوران ایک صحافی نے شاہ فیصل سے ان سزاؤں کا ذکر کیا کہ اتنی سخت سزائیں آپ نے کیوں نافذ کر رکھی ہیں۔ یہ تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ جب صحافی اپنی بات مکمل کر چکا تو شاہ فیصل کچھ دیر خاموش رہے۔ صحافی سمجھا کہ اس نے شاہ کو لاجواب کر دیا ہے۔ شاہ فیصل بولے۔ کیا آپ لوگ اپنی بیگمات کو ساتھ لے کر آئے ہیں؟ کچھ صحافیوں نے ہاں میں سر ہلایا۔
شاہ فیصل نے کہا۔ آپ اپنی بیگمات کے ساتھ شہر کی سونے کی مارکیٹ میں چلے جائیں اور اپنی خواتین سے کہیں کہ وہ اپنی پسند سے سونے کے زیورات کی خریداری کریں۔ زیورات کی قیمت میں اپنی جیب سے ادا کروں گا۔ پھر وہ زیورات پہن کر سعودی عرب کے بازاروں اور گلیوں میں آزادانہ گھومیں پھریں۔ ان زیورات کی طرف کوئی میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھے گا۔ اس کے بعد آپ کی امریکا واپسی ہوگی۔ کیا وہ زیورات پہنے آپ کی خواتین بلا خوف وخطر امریکا کے بازاروں میں گھوم پھر سکیں گی ؟
جب شاہ فیصل نے صحافیوں سے یہ سوال پوچھا تو سارے صحافی ایک دوسرے کا ہونقوں کی طرح منہ تکنے لگے۔ شاہ فیصل نے دوبار ہ پوچھا تو چند صحافیوں نے کہا۔ بلا خوف وخطر بازاروں میں گھومنا تو درکنار ہم قیمتی زیورات پہن کر ائرپورٹ سے باہر قدم بھی نہیں رکھ سکتے۔ شاہ فیصل نے جواب دیا، سعودی عرب میں اتنی سخت سزاؤں کا نفاذ ہی آپ کی پریشانی کا جواب ہے، آپ نے اپنے سوال کا جواب خود ہی دے دیا۔ یہ تو تھا شاہ فیصل کے سعودی عرب میں امن و امان کا راز۔
اب آتے ہیں پاکستان کی طرف، پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک جس سربراہ کے دور میں سب سے کم جرائم رہے وہ جنرل ضیا الحق کا دور ہے اور اس کی بڑی وجہ تھی سر عام سزائیں دینا۔ جب باغ بانپورہ لاہور کی ایک چھوٹی بچی کو اغوا اور زیادتی کے بعد قتل کیا گیا تو کچھ ہی دنوں میں مجرموں کو تلاش کر کے سرعام پھانسی دی گئی پھر کئی سال گزرنے کے بعد بھی اس علاقے میں کسی کو ایسی گھناؤنی حرکت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔
میانوالی میں ایک قاتل کو اسٹیڈیم میں تقریباً 30 ہزار لوگوں کے سامنے پھانسی دی گئی تو لوگ دوسروں کی جان لینے سے پہلے بھی سو بار سوچنے لگے۔
آج پاکستان میں ہر طرف عجیب انارکی پھیل چکی ہے۔ جگہ جگہ چوری، ڈاکے، فراڈ ، ملاوٹ، دھوکا دہی… یہ سب چیزیں بے سکونی‘ خوف واضطراب تو پیدا کرتی ہیں لیکن ایک چیز جو ان سب سے بڑھ کر ہے‘ جسے نہ غیرت برداشت کرتی ہے اور نہ ضمیر برداشت کرنے کی اجازت دیتا ہے وہ ہے معصوم بچوں اور خواتین کی عصمت دری… پھر اکثر کو جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔
پورے ملک سے ایسے دل سوز واقعات کی خبریں آرہی ہیں۔ ہر درد مند دل دکھی ہے‘ تو ایسے میں ہمیں ریاستِ مدینہ کے خواب دکھانے والی کابینہ میں سے ہی، وزارت قانون کا قلم دان سنبھالنے والا نااہل وزیر بڑے دھڑلے سے بیان دیتا ہے کہ مجرم کو سر عام پھانسی دینا انسانیت کی خلاف ورزی ہے۔
اس شخص کی عیار و بیمار عقل اللہ تعالیٰ کے حکم سے بڑھ کر ہے کیا؟ جس نے ایسے مجرموں کے لیے سزائیں بھی نافذ کیں اور ساتھ ایمان والے ہونے کے لیے یہ شرط بھی رکھ دی کہ اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو سزا دیتے وقت وہاں مومنین کی ایک جماعت ضرور موجود ہونی چاہیے۔ (سورہ نور آیت 2)
یعنی اللہ تعالیٰ نے لازم کر دیا ہے کہ مجرموں کو سزا سر عام دی جائے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں۔ لیکن پاکستان کیسا اسلامی ملک ہے جہاں نہ مال محفوظ ہے نہ عزتیں نہ جانیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ شرعی سزاؤں کا عدم نفاذ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا، شرابی کو کوڑے مارے جائیں گے، زانی کو کوڑے اور رجم کی سزا دی جائے گی، پاک دامن پر تہمت لگانے والوں کی سخت سرزنش کی جائے گی، عصمت دری کرنے والوں کو سرِ عام لٹکایا جائے گا، تو ان شاء اللہ ایسے جرائم دور دور تک نظر نہیں آئیں گے۔ ملک میں شرعی سزاؤں کے نفاذ کے لیے ہم سب کو مل کر تحریک چلانی ہو گی کیوں کہ ان کے نفاذ میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔ سب سے بڑھ کر میرے رب نے ان احکامات کے لیے زور دے کر فرمایا ’’اور ہم نے اسے فرض کر دیا۔‘‘(سورۃ النور)
جب ایسے مجرم کو سر عام سزا دینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے تو گنجائش کس بات کی۔