تہذیبِ اسلامی کی چوکھٹ پر پہرہ کون دے گا؟۔

962

مغرب سے اہلِ مشرق پر رب تعالیٰ کی حجت، داعیہ تہذیب اسلامی محترمہ مریم جمیلہ ؒ۔

کیا آپ نے غور کیا کہ اسلامی تہذیب کے مقابلے پر ’’لادینیت‘‘ اپنا تسلط جمانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہے۔ اس کے لیے مغربی تہذیب کی اصطلاح عام ہے مگر میں تو مغربی تہذیب کو تہذیب ہی نہیں مانتا اس لیے اس کی کیفیت سمجھانے کے لیے ’’لادینیت‘‘کا عنوان دیتا ہوں اور اُس کو مقابلے پر نہیں بلکہ حملہ آور سمجھتا ہوں۔
یہ حملہ اِس وقت مربوط منصوبہ بندی کے ساتھ ’جمالیات‘ (aesthetics) کو ’عقیدہ‘ (faith) کے مقابلہ میں استعمال کر رہا ہے! تھوڑی مشکل بات ہے مگر اپنا عقیدہ بچانے کے لیے اس کو سمجھنا بے حد اہم ہے۔ اس کی تازہ مثال اسلام کے تصورِ ’جہاد‘ پر مغرب کے پیدا کردہ ’تصوف‘ کی تشہیر ہے۔ کیا آپ نے حالیہ دنوں فرانسیسی صدر کے بیانات کو نوٹ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ فرانسیسی صدر کو آپ صرف فرانس کا صدر نہیں کہہ سکتے وہ درحقیقت مغربی بیانیہ کا ترجمان ہے۔ اس نے واضح بیانیہ دیا ہے کہ وہ کسی دوسرے اسلام کی بات کر رہا ہے۔ یہ ’’دوسرا‘‘ کون سا اسلام ہے؟ جی یہ وہ ’’اسلام‘‘ ہے جس کی اجازت مغرب دے گا،جس کی تشریح مغرب کرے گا جومغرب کو قبول ہوگا۔ بقول اقبالؒ

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت
مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ پاک

اس کی ایک اور نمایاں ترین مثال مسلم معاشروں میں اُن عورتوں کو نمایاں کرنا ہے جن کی تربیت کا پس منظر تو روایتی و تہذیبی ہی کیوں نہ ہو لیکن باطنی طور پر وہ خود اس ’فتنہ شوق تجدد‘ (مطلب جدیدیت یعنی Modernism) کی راہ پر شعوری و لا شعوری طور پرچل پڑی ہوں۔
ترکی، پاکستان ، ملیشیا سمیت کئی ممالک میں اِسی قسم کی عورتوں کو نمایاں کیا جارہا ہے تاکہ ’جدید و قدیم کا حسین امتزاج‘ ، ’ایجوکیٹڈ ویمن‘، ’سوشل ایکٹیوسٹ‘ ، ’ورکنگ ویمن‘ کے ذوق تجدد کو ہماری راسخ العقیدہ روایتی و تہذیبی خواتین میں بھی عام کیا جاسکے! دینی و تحریکی یا انقلابی فکر رکھنے والی خواتین میں بھی جبکہ خواتین کی نئی نسل میں تو یہ زہر پہلے ہی سرایت کر چکا ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ اب اگر مغرب اپنے لیے عورت کی جمالیات کو کسی بھی پروڈکٹ کا ذریعۂ تشہیر بنائے یا مذہبی جمالیات کو مغربی روپ میں پیش کر کے عنوان تشہیر بنائے، بہرصورت دونوں مذموم ہیں! اور ایک ہی نتیجہ پانے کے لیے ہیں۔
اس لیے ہر ہر موقع پر، ہر نازک لمحہ پر مستقل جنگ میں جاری ’تہذیبی مقدمہ‘ کی یہ گندی چال اور اس کا پورا شعور دینا ضروری سے بھی کچھ زیادہ ضروری ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اس انداز سے ہمیں صدی بھر پہلے سمجھایا مگر…۔

مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِّ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کوآشیاں سمجھا ہے تو

اس لیے صرف شعور ہی نہیں بلکہ ’سراب‘ کو ’گلستاں‘ سمجھنے والوں کو حقیقت کے ساتھ متبادل بھی دینا ہوگا وگرنہ رول ماڈل نہ دینے کی صورت میں دوبارہ کوئی رستہ نہ پا کر مغربیت ہی اسلامی روپ دھار کر جگہ بنا لے گی۔
اس ضمن میں فی زمانہ خواتین کے لیے رول ماڈل کے طور پر ’جدیدیت پر نازاں‘ خواتین نہیں بلکہ صرف و صرف مریم جمیلہ مرحومہ ہو سکتی ہیں! انہیں ہم داعیہ تہذیب اسلامی کہیں تو کسی طور غلط نہ ہوگا۔ مریم جمیلہ مرحومہ وہ ہیں کہ جنہوں نے غیر مذہبی خواتین سے زیادہ مذہبی خواتین کو مغربی یونیورسٹیوں کے گلیمر سے نکال کر چار دیواری سے وابستگی اور قرآنی پیوستگی کا درس دیا۔
مریم جمیلہ وہ ہیں جنہوں نے دعوت یا معاش یا کسی بھی نام پر ’دارالکفر‘ میں اپنی نسلوں کو پروان چڑھانے کے بجائے ’راہ ہجرت ‘کو ترجیح دی اور یوں اقدار زندگی کو معیار زندگی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا۔
مریم جمیلہ آج کی وہ مثال ہیں جنہوں نے ’اسلامک فیمینزم ‘کا خالص مغربی بیانیہ اختیار نہیں کیا جوکہ اْن کے لیے بہت آسان تھا۔بلکہ انہوں نے ببانگ دہل مغرب کی اسلام کاری (Islamization of Weas)کو اقسام شرک میں سے مستقل قسم شرک قرار دیا۔
مریم جمیلہ وہ مثال ہیں کہ جنہوں ’یورپی دارالکفر ‘ترک کیا تو زندگی بھر کبھی نگاہ اٹھا کر بھی اس صنم خانے کی طرف نہ دیکھا۔ مریم جمیلہ وہ ہیں کہ جو لاہور کے علاقے منصورہ میں رہنے کے باوجود قریب کی لائبریری تک کا سفر نہ پسند کرتی تھیں۔
زندگی بھر اپنے کمرے ہی کو دار المطالعہ بنائے رکھا نہ کہ ’عنوان تعلیم ‘ میں عورت کو ملفوف کر کے تہذیب بیزار کردیا ! اس تناظرمیں اقبال کے اس شعر کو بار بار یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خود ی کو
ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے اُسے پھیر

مریم جمیلہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے ’پردہ ‘پر ایسی استقامت اختیار کی کہ رنگے برنگے برقعوں کا کلچر بھی عام نہیں ہونے دیااور نہ ہی غیر شعوری طور پر مائل بہ غامدیت ہونے کے سبب چہرے کے پردے ہی کو اختلافی قرار دینے لگیں!
جی ہاں! مریم جمیلہ ہیں وہ جو کسی ٹی وی شو میں تو کبھی جلوہ افروز نہ ہوئیں الحمدللہ، لیکن اپنے کمرے کی چار دیواری میں طمانیت و للٰہیت کے ساتھ جو کچھ انہوں نے اسلام کا تہذیبی بیانیہ سپرد قلم کیا وہ آج بلا مبالغہ مشرق تا مغرب پڑھا جارہا ہے! ۔
مریم جمیلہ یقینا پوری دُنیا میں تحریک اسلامی کے تہذیبی آئیڈیل ازم کی ایک چلتی پھرتی تصویر ہیں جنہوں نے مذہبی و غیر مذہبی عورتوں کے لیے اس صدی میں چار دیواری کے نظریہ تقدس سے تا مرگ وابستگی کو عین الیقین کا سامان فراہم کیا ہے! یہ بات یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ رب تعالیٰ نے مریم کو مغرب سے اٹھا کر مشرق بھیجا ہی احساس کمتری کے مارے مشرقی لوگوں پر تہذیب اسلامی کی حجت قائم کرنے کے لیے تھا!
سیرت نبویؐ بھی ایسے ہی اسوۂ کی گواہ ہے کہ کبھی باطل کی آمیزش کو کسی طور قبول نہیں کیا گیا ، بدترین حالات میں بھی کسی دعوت یا کوئی اور دلیل کے ساتھ کسی قسم کے کمپرومائزنگ پوزیشن کی مثال نہیں ملتی۔
گزشتہ 200سال میں مغربی ممالک سے اسلام کو سوچ سمجھ کر قبول کرنے والوں کے تجربات پوری امت کے لیے خوش گوار رہے ہیں۔ دُنیا کے بڑے مفکرینِ، دانش ور ہوں یا اسکالرز سب نے اسلام ہی میں اپنی عافیت جانی۔ ہنگری سے ڈاکٹر عبدالکریم، لندن سے محمد پکتھال، جرمنی سے محمد اسد اور مراد ہاف مین، فرانس سے روجے گاڑے، جمیکا سے ڈاکٹر بلال فلپس، امریکا سے یوسف اسلام، مالک شہباز اور مریم جمیلہ کے نام قابلِ ذِکر ہیں۔
مارگریٹ مارکس 1934میں امریکی شہر نیو یارک کے ایک جرمن نژاد یہودی خاندان میں پیداہوئیں۔ ابراہیمؑ کی طرح انہوں نے بھی تلاش حق کی جستجو کی۔ اسلام اور دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ اور ملاقاتیں جاری رکھیں۔ مطالعہ کی وسعت میںمولانا مودودیؒکی ایک تحریر سے متاثر ہوئیں اورمولانا مودودیؒ سے سوالات کی صورت خط وکتابت شروع کر دی۔ 1961میں 27 سال کی عمر میں اللہ نے اُن کو قبولِ اسلام کی توفیق عطا کی۔ مولانا اُن کے سوالات کے جوابات دیتے رہے اور یوں مراسلت ایک سال بعد اختتام پذیر ہوئی جب مولانا مودودیؒ نے اُن کو پاکستان ہجرت کرنے کی دعوت دی۔
۔26 جون 1962 کو وہ اپنا سب کچھ امریکا چھوڑ کر پاکستان پہنچ گئیں۔ یہ صرف ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت نہیں تھی بلکہ اندھیرے سے اجالے، کفر سے اسلام، باطل سے حق کی جانب ہجرت تھی۔ مریم جمیلہ نے 34 کتابیں لکھیں جن میں ایک بڑا حصہ مغربی فکر و تہذیب پر انتہائی تلخ اور چبھتی ہوئی تنقید پر مشتمل ہے۔ انہوں نے فکر اسلامی کے احیاء اور اس کے دفاع، مغربی مفکرین اور مستشرقین کی کارستانیوں کا بہترین اور شائستہ اسلوب میں جواب دیا ہے اور مجدد دین کے ناپختہ خیالات کا بھی تنقیدی جائزہ لیا۔ اس عظیم کارِ خیر کے لیے اُمت مسلمہ ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔ وہ صرف گفتار کی غازی نہ تھیں بلکہ عمل کی خوگر بھی تھیں۔ انھوں نے جونہی اسلام قبول کیا، فوراً ہی اس کے فکر و تہذیب کے سانچے میں ڈھل گئیں۔
آج جب مغربیت ہر طرف در آئی ہے اور جس طرح مذہبی جماعتوں کے خواتین ونگ ’ماڈرن لبرل ڈسکورس‘ میں خود کو ’تہذیبی‘ نہیں بلکہ ماڈرن شناخت کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں خود مذہبی حلقوں کی دینی خواتین،خود اپنے مذہبی حلقوں میں اپنی کارکردگی و معنویت کے اظہار کے لیے اظہار تجدد (Modernism) کی محتاج ہیں جو نری احساس کمتری ہے۔
ایسے میں اقامت دین کے ہر سپاہی کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ اس ’زہریلے‘ بیانیے کی راہ میں رکاوٹ بنیں اور اسلام کی اصل تہذیبی بنیادوں کی طرف معاشرے کو رجوع کرائیں۔ نیز اپنے تحریکی و انقلابی حلقوں میں اس نظریہ کو عام کریں کہ تحریک اسلامی کی عصری آئیڈیل ’روایت کی پروردہ پر جدیدیت پر نازاں‘ خواتین نہیں بلکہ صرف مریم جمیلہ مرحومہ ہیں۔
یقین جانیے سخت کام ہے، مشکل کام ہے، اپنے ہی طعنے دیں گے، جملے کسے جائیں گے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ تہذیب اسلامی کی اس چوکھٹ پر پہرہ دینا ہر صاحبِ ایمان کلمہ گو کا فرض ہے۔ یہ نہ ہو کہ اپنوں کا اپنی تہذیبی اقدار پر مفاہمت کرنا ’گھر کوآگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘ کی تصویر پیش کرنے لگے۔

سُونا جنگل، رات اندھیری، چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو، چوروں کی رکھوالی ہے
آنکھ سے کاجل صاف چرالیں، یاں وہ چور بلا کے ہیں
تیری گٹھری تاکی ہے اور تو نے نیند نکالی ہے
جگنو چمکے، پتا کھڑکے، مجھ تنہا کا دل دھڑکے
ڈر سمجھائے کوئی پون ہے یا اگیا بیتالی ہے

حصہ