ہم کیوں مسلمان ہوئے

552

شیخ بشیر احمد شاد (پاکستان)۔

میں1928 میں ضلع شیخوپورہ کے ایک گائوں دھیان گالو کے ایک عیسائی خاندان میں پیدا ہوا۔ میرے والد متھیاس صاحب مشہور پادری تھے اور تبلیغی خدمات کے سلسلے میں اپنے آبائی ضلع گورداسپور سے شیخوپورہ میں منتقل ہو گئے تھے۔ میرے دادا مسمی جھنڈے مل بھی پختہ اعتقاد عیسائی تھے اور تبلیغی خدمات انجام دیتے تھے۔
میرے والد صاحب مجھے بھی ایک کامیاب مبلغ اور پادری بنانا چاہتے تھے‘ چنانچہ ابتدا ہی سے میری تعلیم اور تربیت مذہبی نہج پر ہوئی۔ پرائمری تعلیم میں نے ایس ڈی اے مشن اسکول چوہڑکانہ منڈی میں حاصل کی۔ یہاں شروع ہی سے کوشش کی جاتی تھی کہ ہر بچہ بڑا ہو کر ایک اچھا مبلغ عیسائیت بن سکے۔ میں اپنی پڑھائی میں بڑا تیز تھا۔ اسکول کے مذہبی کاموں کے علاوہ تبلیغی لٹریچر تقسیم کرنے والی پارٹیوں میں بھی شامل ہوتا۔ مجھے بچپن سے تقریریں کرنے اور تبلیغی خدمات انجام دینے کا بہت شوق تھا اور میرے اس شوق کو سارے اساتذہ اور پادری قدر اور شفقت کی نظر سے دیکھتے تھے۔
پرائمری کے بعد میں ایس ڈی اے مشن ہائی اسکول رڑکی چلا گیا۔ وہاں بھی میری تعلیمی و تبلیغی کارکردگی نمایاں رہی۔ یہاں میں نے عیسائیت کے بنیادی اصولوں مثلاً تثیلث، مسئلہ ابنیت مسیحؑ، مسئلہ کفارہ، مسئلہ الوہیتِ مسیح اور الٰہیات کے بعض دیگر مسائل کی تربیت حاصل کی۔ اسکول میں بھی عام اساتذہ خصوصاً جناب ایچ سی الیگزینڈر میرے معاملے میں بہت خوش اور مطمئن تھے۔ انہیں بجا طور پر میری صورت میں مستقبل کا ایک کامیاب مبلغ اور پادری نظر آرہا تھا۔
اسی اثنا میں میرے والد کا تبادلہ راولپنڈی ہو گیا اور ساتھ ہی وہ حادثہ رونما ہوا جس نے میری دنیا تاریک بنا دی یعنی 1944ء میں میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ میرے والد صاحب نے دوسری شادی کر لی‘ تاہم ہماری نئی والدہ نے سارے بچوں سے محبت اور شفقت کا برتائو جاری رکھا اور آخر تک اس میں کوئی کمی نہ آئی۔
۔1947ء میں میرا تعلیمی اور تبلیغی کورس ختم ہو گیا اور میں نے اسی سال مسیحی کلیسا کے خادم کی حیثیت سے لاہور میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ میں رومن کیتھولک مشن کے ساتھ وابستہ ہوا تھا۔ 1947ء کے اواخر میں میری شادی شرق پور کے ایک پروٹسٹنٹ پادری گھرانے میں ہوئی۔ میری بیوی ایک راسخ العقیدہ عیسائی خاتون تھی۔
تبلیغی میدان میں میرا انداز بڑا جارحانہ تھا‘ جہاں میں عیسائیت کو دینِ حق کے طور پر پیش کرتا ہوں اسلام سے اس کا مقابلہ بھی کرتا اور زور شور کے ساتھ اسلام پر عیسائیت کی برتری ثابت کرتا۔ اس ضمن میں متعدد مسلمان علما سے میری بحثیں ہوئیں‘ تاہم یہ بات عجیب ہے کہ دورانِ گفتگو میرے منہ سے عموماً اسلامی تراکیب و اصطلاحات نکل جاتیں جس پر میرے ساتھی مجھے ٹوکتے اور خود میں بھی شرمندہ ہو جاتا۔ مثلاً الہامی کتب کا ذکر آتا تو میں بے ساختہ کہہ جاتا کہ الہامی کتابیں چار ہیں توراۃ‘ زبور‘ انجیل اور قرآن مجید۔ خدا کے بجائے عموماً اللہ کا اور حضرت مسیح کے بجائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے الفاظ بول جاتا۔ عبادت کو نماز کہہ جاتا وغیرہ وغیرہ۔
میری کلیسائی خدمت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ وہ مشنری حضرات جن کے ساتھ میں کام کرتا تھا‘ اپنے وطن بلجیم چلے گئے۔ میں نے ترقی ٔ دیہات کے سرکاری محکمے میں شمولیت اختیار کر لی اور شیخوپورہ چلا گیا۔ خان انور طہماسپ خان پی سی ایس ضلع شیخوپورہ کے ڈویلپمنٹ آفیسر تھے۔ انہوں نے خاص شفقت کا برتائو کیا اور دفتر ہی میں خدمت کا موقع عنایت فرمایا۔ چونکہ میرا نام مسلمانوں جیسا تھا اس لیے مجھے بعض احباب مسلمان سمجھتے تھے مگر جب انہیں پتا چلا کہ میں عیسائی ہوں تو بھی ان کے سلوک میں کوئی فرق نہیں آتا اور ان کا برتائو مہر و مروت میں گندھا ہوا ہوتا۔ خصوصاً خان انور طہماسپ صاحب‘ میاں غلام سرور‘ نواز رومانی صاحب اور چودھری صفدر علی صاحب کا لطف و کرم مثالی نوعیت کا تھا۔ ان حضرات کی وجہ سے اسلام کے بارے میں میرے شکوک و شبہات دور ہونے لگے۔ میرے دل میں اسلام کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوتا گیا اور میرے دل کی دنیا ایک صالح انقلاب کی طرف مائل ہونے لگی۔
اسی دوران میں بلجیم والے مشنری واپس آگئے اور مجھے دوبارہ تبلیغی خدمات انجام دینے کی دعوت دی مگر میں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا۔ اس ضمن میں میری بیوی‘ باپ اور سسر نے بھی بہت زور دیا بلکہ خفگی اور برہمی کا مظاہرہ کیا‘ مگر میں اپنی ضد پر قائم رہا۔ مسلمانوں کے اتنے قریب رہنے کے بعد اب مشنری خدمات انجام دینے کو جی نہیں چاہتا تھا۔
لیکن 1959ء میں ترقی ٔ دیہات یا ویلج ایڈ کا محکمہ ختم ہو گیا تو تبلیغی خدمات انجام دینے کے لیے مجھ پر دوبارہ زور ڈالا گیا اور اس مرتبہ میں دیر تک مزاحمت نہ کرسکا۔ تاہم یہ ارادہ ضرور کرلیا کہ اب عیسائیت کی تبلیغ کرتے ہوئے اسلام پر کبھی کوئی اعتراض نہیں کروں گا۔ بلکہ خدا نے موقع دیا تو اسلام کے خلاف ان تمام اعتراضات کو حقیقت و تحقیق کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش جاری رکھوں گا۔
میری تبلیغی مہمات کا مرکز شیخوپورہ تھا‘ مگر ہفتے میں دو مرتبہ مسیحی بشارت کے لیے ضلع لاہور میں بھی مدعو کیا جاتا۔ مجھے تبلیغی جوہر ورثے میں ملے تھے جنہیں میری محنت اور طباعی نے جلا عطا کی تھی۔ چنانچہ میں ہر قسم کی تقاریر خود ہی تیار کرتا۔ انجیل کے مختلف حصوں کو نظم کی صورت دیتا اور نہایت مؤثر اور خوب صورت آواز میں خود پیش کرتا۔ ایک خوش الحان پادری کی حیثیت سے میں عوام کو گھنٹوں متوجہ رکھتا تھا۔ میری مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بیشتر مقامی پادری میری نظمیں اور گیت الاپتے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے‘ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اسلامی ماحول نے مجھ پر کچھ ایسا جادو کردیا تھا کہ میں نے مسلمانوں میں اپنے حلقۂ احباب کو قائم ہی نہیں رکھا‘ بلکہ اسے وسعت بھی دی۔ میری بیوی اس پر سخت برافروختہ ہوتی اور اپنے اور میرے والدین کو آگاہ کرتی رہتی۔ کبھی جوش میں آکر گھر میں اسلام کی کوئی خوبی بیان کر دیتا تو گویا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا اور کئی روز تک فضا میں تلخی رہتی۔ پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری اور اسلام کے بارے میں میرا تجسس آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔
۔1961ء میں ایک مرتبہ میں اپنے والدین سے ملنے لاہور گیا۔ والد صاحب کے پاس کرسچن کونسل لٹریچر بورڈ کے سیکرٹری مسٹر پی جے ایکٹن بیٹھے ہوئے تھے۔ انہیں معلوم ہوا کہ میں سابق ویلج ایڈر ہوں اور فیلڈ کے تجربہ کے علاوہ لکھنے‘ بولنے اور گانے میں بھی ماہر ہوں تو انہوں نے میری خدمات حاصل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور ایک چٹھی دے کر گوجرانوالہ میں مسٹر پال ای ہوسٹیٹر کے پاس بھیجا۔ ہوسٹیٹر پاکستان میں مسیحی تعلیمِ بالغاں کے پروگرام کے ڈائریکٹر تھے۔ اس پروگرام کے چلانے کے لیے انہیں ایک موٹی ویٹر (Motivater) کی ضرورت تھی۔
مسٹر ہوسٹیٹر ماہر نفسیات و لسانیات تھے‘ انہوں نے بخوشی میری تقرری کر دی اور میں گوجرانوالہ منتقل ہوگیا۔ میری بیوی بچے بھی یہیں مشن کمپائونڈ کھوکھر کی گوجرانوالہ آگئے۔
تعلیم بالغاں کا یہ پراجیکٹ جو ویسٹ پاکستان کرسچن کونسل کی طرف سے شروع ہوا تھا‘ اس کی تمام مالی امداد نیویارک سے آتی تھی‘ اس کے حسب ذیل چار شعبے تھے:
-1 ریسرچ اینڈ پبلی کیشن (تحقیق و اشاعت)
-2 علمی تربیتی کورس برائے اساتذہ‘ سپروائزر وغیرہ۔
-3 مسیحی علمی لٹریچر کی تقسیم و فروخت۔
-4 تبلیغ و ترغیب‘ پبلسٹی وغیرہ۔
ان چاروں شعبوں کا بیشتر بوجھ میرے کندھوں پر ڈالا گیا اور میں پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ اس کام میں جت گیا۔ میں نے فرائض کی ادائیگی میں دن دیکھا نہ رات‘ چنانچہ اس علاقے کا ہر عیسائی اس امر کی گواہی دے گا کہ میں نے علمی‘ تعلیمی اور تبلیغی خدمات کس تندہی سے انجام دیں۔ ان فرائض کے سلسلے میں پاکستان کے تقریباً ہر بڑے شہر اور قصبے میں جانا پڑتا تھا۔ میری یہ خدمات اتنی وقیع تھیں کہ مسٹر پال ای ہوسٹیٹر نے مجھے ہر طرح کی سہولیات فراہم کر رکھی تھیں۔ سفر میں مجھے سیکنڈ کلاس کی سہولت حاصل تھی اگر گھر سے باہر کہیں رات بسر کرنی پڑتی تو تمام راتوں کا الائونس دس روپے فی رات ملتا تھا۔ دیگر اخراجاتِ سفر بھی ادارہ کے ذمے ہوتے۔ تنخواہ تقریباً چھ سو روپے ماہوار تھی اوور ٹائم اس کے علاوہ تھا‘ بچوں کے تعلیمی وظائف ایک اسپیشل فنڈ سے ادا ہوتے۔ میڈیکل الائونس بھی اسی میں سے ملتا۔ ہر کرسمس پر ڈیڑھ سو روپے الگ ملتے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں ایک ماہ کی زائد تنخواہ ملتی۔ گندم خریدنے کے لیے آسان قسطوں پر پانچ سو روپے کا قرضہ ملتا۔ میری ہر کتاب پر تین سو روپے تک رائلٹی ملتی یہاں تک کہ بیس ہزار روپے میں میرا حادثاتی بیمہ بھی کرا دیا گیا تھا تاکہ میری ناگہانی موت کے بعد میرے بیوی بچے بے سہارا نہ رہیں۔
یہ ساری سہولتیں میسر تھیں‘ مگر قلبی سکون حاصل نہ تھا۔ میں اپنے آپ کو اندھیروں میں بھٹکتا ہوا محسوس کرتا تھا‘ صاف نظر آرہا تھا کہ میں لوگوں بزمِ خویش حق کی تعلیم دیتا تھا‘ حالانکہ خود جہالت کی تاریکیوں میں سرگرداں تھا اور عوام کو روشنی کی طرف بلاتا تھا جب کہ خود نور کی ایک کرن کے لیے ترس رہا تھا۔ تبلیغی و علمی خدمات کے دوران میں یہ احساس مجھے متواتر تنگ کرتا رہتا۔ میں اپنے عہد کے مطابق اسلام پر اعتراض تو کوئی نہ کرتا تھا‘ مگر یہ خیال ذہن میں کچوکے لگاتا رہتا کہ میں عیسائیت کی تبلیغ کرکے اپنے آپ کو اور دنیا کو دھوکا دے رہا ہوں‘ خصوصاً دو سوال تو روح کی پھانس بن گئے اور میں ان کے بارے میں اکثر سوچتا رہتا۔
-1 اگر عیسائیت ایک سچا مذہب ہے اور اس کی تقلید پر انسان کی نجات کا دارومدار ہے تو یہ مذہب زوال کی طرف کیوں جارہا ہے؟ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد محبت و اخلاق پر ہے۔
-2 اس کے برعکس اسلام کو ہر عیسائی جھوٹا خیال کرتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی بنیاد ظلم و تشدد اور تلوار پر قائم ہے پھر یہ اس قدر ترقی کیوں کر گیا؟ جب کہ ظلم و تشدد انسانی فطرت کے خلاف ہے۔
انہی دو بنیادی مسائل کا تقابل مجھے راہِ تجسس پر دور تک کھینچتا چلا گیا اور میں ذہنی و قلبی اضطراب کو لیے ہوئے تلاشِ حق کے لیے اِدھر اُدھر سرگرداں رہا۔ علمائے کرام سے اعتراضات کی صورت میں گفتگو کا ایک ہی مقصد ہوتا اور علمی و تحقیقی طلب و جستجو کا بھی اب ایک ہی مدعا تھا یعنی دل کی اس خلش کا علاج جو متذکرہ بالا مسائل نے پیدا کر دی تھی۔
تجسس کی یہ مدت دس سال کے عرصے پر محیط ہو گئی۔ حتیٰ کہ الحمدللہ اندھیرے کے تمام پردے ایک ایک کرکے نگاہوں سے ہٹتے چلے گئے۔ ذہن کے سارے شکوک دور ہوگئے۔ اسلام ایک روشن جگمگاتا ہوا سورج بن کر میرے سامنے آگیا اور اب اس سے انکار کرنا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ 23 جون 1968ء کا مبارک دن تھاجب کہ میں اپنے دس افرادِ خانہ کے ساتھ گوجرانوالہ کی مکی مسجد میں گیا اور مولانا محمد یوسف کاشمیری کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔ (الحمدللہ)۔
یہاں پر ایک درد ناک حادثے کا ذکر بہت ضروری ہے۔ میں روحانی سکون کی تلاش کے آخری مراحل طے کر رہا تھا کہ میری دیرینہ رفیقۂ حیات ایک طویل بیماری کے بعد فوت ہو گئی۔ میں نے دوسری شادی کر لی اور اس خدا کی بندی سے جونہی میں نے اسلام کی بات کی‘ اس نے اس کی تائید کی اور تلاشِ حق کے سلسلے میں میری سرگرم موئید و مونس بن گئی۔ اللہ اسے جزائے خیر عطا کرے۔
آخر میں‘ میں نہایت اختصار کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے ان عقائد کا تجزیہ پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایک عرصے تک مجھے تحقیق و جستجو کے میدان میں محوِ سفر رکھا۔
سب سے پہلے مجھے تثلیث کے مسئلے پر پریشان کیا۔ عیسائی عقیدے کے مطابق ایک خدا میں تین اقانیم ہیں یعنی باپ‘ بیٹا اور روحِ پاک‘ جسے وہ انسان کے جسم میں تین چیزوں‘ میری سمجھ‘ میری یاد اور میری مرضی سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ تثلیث کو بہت بڑا بھید بھی کہتے ہیں جو انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ میں نے غور کیا تو پتا چلا کہ عیسائی لوگ پہلے ایک خدا کہہ کر توحید کا اقرار کرتے ہیں مگر پھر ایک خدا میں تین شخص کہہ کر توحید کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اقرار تو توحید کا کرتے ہیں مگر مانتے تثلیث کو ہیں۔ کہتے کچھ اور ہیں کرتے کچھ ہیں۔
پھر یہ بات بھی خاصی پریشان کن تھی کہ تثلیث کا بھید انسان کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ ظاہر ہے جو چیز شعور کے احاطے میں نہ آسکے اس پر عمل کی عمارت کیسے کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس زمین و آسمان‘ کائنات اور مخلوقات کا سارا نظام پکار پکار کر گواہی دیتا ہے کہ خالقِ حقیقی وحدہ لاشریک ہے یعنی توحید کا تصور عام فہم اور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ تمام الہامی کتابیں بھی اس کی شہادت دیتی ہیں مثال کے طور پر:
-1 تورات خروج آیت۔ 22/20 ’’جو کوئی واحد خدا کو چھوڑ کر کسی اور معبود کے آگے قربانی چڑھائے گا وہ نسیت و نابود کر دیا جائے گا۔‘‘
-2 سلاطین آیت۔ 8/10 : ’’خداوند ہی خدا ہے‘ اس کی مانند اور کوئی خدا نہیں۔
-3 زبور۔ آیت 86/10 ’’تو ہی بزرگ ہے‘ تو ہی واحد خدا ہے۔‘‘
-4 انجیل۔ متی آیت 19/17 ’’تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے کیوں کہ نیک تو ایک ہی ہے۔‘‘
چنانچہ خدا کا شکر ہے کہ میں تثلیث کے غیر عقلی عقیدے سے منحرف ہو گیا اور توحید پر ایمان لے آیا۔
عیسائیت میں قرآن کو الہامی کتاب نہیں مانا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ قرآن دراصل تورات‘ زبور اور انجیل کی نقل ہے۔ چنانچہ توحید کے بعد مجھے ایسے دلائل مطلوب تھے جو قرآنِ پاک کو آسمانی کتاب ثابت کر دیں۔ شکر ہے کہ تحقیق نے یہ مسئلہ بھی حل کر دیا۔
رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں مسیحی فرقوں کی بائبلوں میں زبردست تضاد ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں فرقے ایک دوسرے کی کتابوں کو غلط کہتے ہیں اور ساتھ ہی ان کی الہامی ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ مثال کے ظور پر رومن کیتھولک کی بائبل میں عہد عتیق (پرانے عہد نامے) کے صحیفوں کی تعداد 46 ہے اور عہدِ جدید یا نئے عہد نامے کی تعداد 28 ہے۔ یعنی کل 74 ہے جب کہ پروٹسٹنٹ فرقے میں عہد عتیق اور عہدِ جدید کے صحیفوں کی بالترتیب تعداد 39 اور 27 ہے جو 66 بنتی ہے۔ بائبلوں میں تضاد ہونے کے علاوہ ان کی آیات میں بھی تضاد ہے۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:۔
پیدائش 3/9 آیت میں ہے کہ ’’خدا غیب کا علم نہیں رکھتا۔‘‘
متی 24/36ء میں مرقوم ہے کہ ’’خدا کو غیب کا علم ہے اور اس کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔‘‘ مجھے تحقیق کے باوجود آج تک کوئی عیسائی بائبل کا حافظ نہیں ملا‘ چنانچہ اگر دنیا بھر سے بائبل کے نسخے نابود ہو جائیں تو بائبل کا وجود ختم ہو جائے گا جب کہ یہ بات مسلّم الثبوت ہے کہ قرآن نہ صرف ہر نوع کے تضاد یا تحریف سے پاک ہے‘ بلکہ لاکھوں حفاظ کے سینوں میں محفوظ بھی ہے اور صدیاں گزر جانے کے باوجود اس کی زیر‘ زبر میں بھی فرق نہیں پڑا۔ بائبل کا متن پکار پکار کے کہتا ہے کہ یہ تغیر و تبدل کے بہت سے مراحل سے گزرا ہے‘ مگر قرآن کے بارے میں ایسی کوئی بات ثابت نہیں کی جاسکتی۔ محکم اور اٹل دلائل نے میرا ایمان قرآن پر راسخ کر دیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ فی الواقع یہ خدائے تعالیٰ کا کلامِ پاک ہے۔
بچپن سے سنتا آرہا تھا کہ اسلام ظلم و تشدد کا علمبردار ہے اور یہ تلوار کے زور سے پھیلا ہے‘ جب کہ عیسائیت محبت و اخلاق سے پھیلی ہے۔ اس میں کسی پر ظلم و زیادتی نہیں کی جاتی۔
مگر پیدائشی مسیحی ہوتے ہوئے یہ بات بھی میرے مشاہدے میں آتی رہی کہ برصغیر میں انگریزوں کے آنے کے بعد لوگ پیار و محبت سے عیسائی نہیں ہوئے بلکہ انہیں دنیاوی لالچ دے کر عیسائی بنایا گیا اور روحانی سکون کی طرف کھینچنے کی بجائے انہیں دنیاوی عیش و آرام کی طرف اکسایا جاتا ہے۔ چنانچہ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاک و ہند میں جتنے لوگ بھی عیسائی ہوئے وہ کسی نہ کسی دنیاوی مفاد اور مادّی لالچ میں گرفتار ہوئے۔
پھر یہ بات بھی میرے تجربے میں آئی کہ غیر ملکی مشنری امریکا اور یورپ سے بھاری رقمیں منگاتے تو مقامی عیسائیوں کی امداد کے نام پر ہیں مگر وہ خرچ اپنی ذات پر کرتے ہیں۔ انہیں کالے عیسائیوں سے کوئی محبت نہیں ہوتی۔ وہ اس کو کاروبار سمجھتے ہیں اور تبلیغ کے نام پر دراصل خود گلچھرے اڑاتے ہیں بلکہ یورپ کی طاقتوں نے خصوصاً اسلام کو ختم کرنے کے لیے بڑے سے بڑے ظلم اور دھونس اور دھاندلی سے بھی گریز نہیں کیا۔
اس کے برخلاف مجھے یاد نہیں کہ پاکستان میں کبھی کسی غیر مسلم کو مسلمان ہونے پر مجبور کیا گیا ہو۔ یہی عالم دوسری اسلامی دنیا کا ہے۔ ہندوستان میں صدیوں تک مسلمان حکمران رہے مگر ہندو آخر تک اکثریت میں رہے اور آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرتے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا میں کبھی اسلامی فوجیں گئی ہی نہیں مگر وہ اکثریتی مسلم ممالک ہیں۔ تلوار یا تو دفاع کے لیے ہے یا ظالم انسان دشمن قوتوں کے لیے ورنہ نبی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے لے کر ساری اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام رحم و کرم‘ محبت و شفقت اور انسانی ہمدردی کا بے نظیر مرقع ہے اور اس پر تشدد کا الزام جھوٹ اور بہتان کے سوا کچھ نہیں۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کو عیسائی خوب اچھالتے ہیں‘ چنانچہ میں بھی برسوں تک ایک پادری کی حیثیت سے اس امر کو اعتراض کی صورت دے کر پھیلاتا رہا‘ مگر تحقیق کی اور خدا نے میری آنکھیں کھول دیں تو معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات میں حکمت پوشیدہ تھی۔ انہوں نے جتنی بھی شادیاں کیں ان سب کے پس پردہ کسی نہ کسی جاہلی رسم کی تردید یا اسلامی تعلیم کی اشاعت کا مقصد ہوتا تھا۔ پھر تاریخ بتاتی ہے کہ کئی نبیوں نے بیک وقت بہت شادیاں کیں۔ خود حضرت عیسیٰ السلام بھی عورتوں سے متنفر نہ تھے اور کسی پیغمبر کو شادی کرنے سے نہیں روکا گیا۔
عیسائیوں کی طرف سے عام اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں۔ میں نے غور کیا کہ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اپنے نبیؐ کے طریقے پر عمل کرتے ہیں مگر عیسائی ایک شادی کرکے بھی اپنے ہی نبی کی سنت کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سرے سے شادی کی ہی نہیں تھی پھر ایک شادی کرنا اور بیک وقت بہت سی عورتوں کے ساتھ ناجائز مراسم استوار کرنا آخر کہاں کی دیانت اور شرافت ہے اور یہ سب کچھ عیسائیت کی کون سی تعلیم کے تحت کیا جاتا ہے؟
دین اسلام کے جس پہلو نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ مساوات کی تعلیم ہے۔ حلقۂ اسلام میں بلا امتیاز سب مسلمان برابر ہیں‘ فضیلت ہے تو صرف نیکی‘ پارسائی اور تقویٰ و پرہیز گاری کی۔ مساجد میں حاکم و محکوم‘ گورے کالے‘ امیر غریب سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہاں عیسائیوں کی مانند گوروں اور کالوں کے گرجے الگ الگ نہیں ہوتے۔ امیر لوگ عبادت کے وقت کرسیوں پر نہیں بیٹھتے نہ غریب اور ناخواندہ لوگ فرش پر بیٹھتے ہیں بلکہ یہاں تمام کی حیثیت برابر اور یکساں ہے۔ اسلام مساوات کا احترامِ انسانیت کا مذہب ہے اور جس دین میں مساوات ہے وہی دینِ حق ہے۔

حصہ