قسط نمبر2
ترکی کے ساتھ محبت اور الفت تو تحریکِ اسلامی کے ساتھ فکری وابستگی کے باعث روز افزوں تھی۔ نشر و ابلاغ کے جدید ذرائع نے اس کے ساتھ مزید جوڑ دیا۔ اگرچہ اس عشق کی کوئی دوا تو نہیں کی‘ مگر پھر بھی مرض بڑھتا گیا۔ میں ریٹائرمنٹ کے تقریباً ایک سال بعد تک ’’آفٹر شاکس‘‘ کا شکار۔ پنشن کے معاملات‘ 32 سالہ تدریسی و انتظامی معمولات کے بعد گردشِ ایام کو نئے حالات کے ساتھ موافق اور خود اس کے روش پر چلنے کے لیے ذہنی‘ جسمانی تیاری میں مصروف رہا۔ ایک سال بعد کچھ ہوش آیا تو اپنے تحریری کام کی فائلیں کھولیں۔ مسودات کا جائزہ لیا اور اللہ کا نام لے کر اپنی پہلی کتاب ’’قولِ حسن‘‘ کی تیاری کا کام شروع کردیا۔ اس کے مراحلِ کار کی دشت کی سیاحی نے باقی سب کچھ بھلا دیا۔ بالآخر نومبر 2019ء میں مرحلۂ شوق طے ہوا‘ مگر سفرِ شوق تو ابھی شروع ہوا تھا۔ سال 2020ء میں دوسری‘ تیسری اور چوتھی کتابیں ترتیب‘ تسوید اور طباعت و اشاعت کے بعد تقسیم مراحل سے گزریں‘ الحمدللہ۔
انہی دنوں ترکی کا مشہور و مقبول ڈراما ’’ارطغرل‘‘ نجی اور سرکاری طور پر نشر بلکہ لوگوں کے حواسوں پر چھانے لگا۔ ہر طرف ’’ارطغرل‘‘ اس کے کردار اور واقعات کے چرچے ہونے لگے۔ میرے اپنے بیڈ روم میں اہلیہ محترمہ اس میں مصروف اور ارد گرد سے بے خبر نظر آتیں‘ مجھے بارہا اسے دیکھنے کی دعوت ملی اور کچھ نہیں بلکہ خاصی ’’خفگی‘‘ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ کچھ مناظر دکھائے بھی گئے اور کچھ واقعات سنائے بھی جاتے۔ مگر میں اپنی شدید تصنیفی و طباعتی مصروفیات کے باعث اس جانب متوجہ نہیں ہوسکا۔ میرا تجربہ اور بصیرت بتا رہے تھے کہ اگر ایک بار اس کام میں لگ گیا تو اس کی دلدل سے نکلنا ممکن ہوگا نہ ہی عمر کے اس حصے میں ذہنی اور جسمانی طور پر کسی اور کام کے قابل رہ سکوں گا۔ لہٰذا باوجود شدید مالیاتی اور ازدواجی دبائو اور احساسِ کمتری کے‘ میں اس سے دامن محفوظ رکھنے میں کامیاب تو ہوا اور ملک کے ان چند لوگوں میں شمار ہوا جنہوں نے ابھی تک اس ڈرامے کی کوئی قسط نہیں دیکھی‘ نہ ارطغرل نہ اس کی کسی ساتھی‘ نہ ڈرامے کی دیگر کاسٹ سے متعارف ہوا۔ البتہ دل چاہا کہ مسلسل اور طویل کتابی مصروفیات کی یکسانیت سے کچھ وقفہ آسودگی ٔ جسم و ذہن ملے۔ مگر کیسے! یہ ابھی واضح نہیں تھا۔
اگست کی حَبس میں ٹھنڈک
اپنی والدہ کی ارطغرل‘ حلیمہ اور ابن عربی کے ساتھ شدید مانوسیت (Involvenment) دیکھتے ہوئے ہمارے بیٹے انس اعجاز نے پاسپورٹ دینے کا تقاضا کیا‘ تو پتا چلا کہ وہ اپنی والدہ کو ارطغرل کے دیس میں بھیجنے کا ارادہ کر چکا ہے اور مجھے ’’محرم‘‘ کے طور پر ان کے ساتھ جانا ہوگا۔ میں سفر کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہوا۔ چند دن کے سفر کے لیے بہت سارے بکھیڑے پالنا پڑتے ہیں۔ جوانی کے سفر کے تقاضے کچھ اور ہیں اور بڑھاپے کے سفر کے کچھ اور۔ سفر کو وسیلۂ ظفر کہاجاتا ہے۔ یہ اس ساری محنت کا ایک دل کش پہلو ہے۔ ضروری نہیں کہ انسان سفر میں کچھ معاشی اور کاروباری مفادات ہی حاصل کر پائے۔ مختلف قوموں‘ تہذیبوں‘ طرزِ بود و باش‘ مقامات اور آثار و نشاناتِ ماضی و تاریخی اہمیت کی جگہوں سے تعارف و آگہی اور تاریخ کے روشن ابواب اور کہیں کہیں عبرت کے نشانوں کا مشاہدہ و مطالعہ اور اپنی سوچ‘ نظر اور بصیرت کے مطابق نئے حقائق سے آگہی بجائے خود سفر کے بنیادی مقصد میں سے ہیں۔ قرآن عظیم نے ’’تسیروافی الارض‘‘ کی ترغیب دے کر سفر کو وسیلۂ ظفر بنانے کی دعوت دی ہے۔
پاسپورٹ کی تجدید
پاسپورٹ دیکھے تو Expire پائے۔ یہ بھی اچھا ہوا۔ پہلا پاسپورٹ سرکاری ملازمت کے دوران بنایا گیا تھا اور اس پر ’’سرکاری ملازمت‘‘ کا حوالہ درج ہونے کے باعث ہر سفر سے پہلے محکمانہ اجازت کے طویل مراحل سے گزرنا پڑتا تھا۔ پہلے رخصت‘ پھر NOC کے جھمیلے۔ 2015ء میں حج کے سفر کے دوران مجھے اس تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ شدید گرمی میں طویل قطاروں میں انتظار کے بعد جب آخری کائونٹر پر پہنچے تو NOC نہ ہونے کے باعث واپس لوٹا دیا گیا۔ ایک خود مختار (Atonomus) کالج کے گریڈ بیس کے پرنسپل ہونے کے باعث میں اکثر و بیشتر اپنے رفقا کو خود ہی NOC جاری کر دیا کرتا تھا۔ جب خود مجھے ضرورت پڑی تو طویل مراحل کا راستہ دکھا دیا گیا۔ ایک دو دن تو میں پریشان رہا۔ میرے لیے اپنا ادارہ چھوڑ کر فیصل آباد اور پھر لاہور کے چکر لگانا پھر پاسپورٹ آفس جانا ممکن نہ تھا۔ دو روز پریشان اور پاسپورٹ کے مراحل معطل رہنے کے بعد خیال آیا کہ اپنی ’’خود مختاری‘‘ کو استعمال کیا جائے‘ میں نے وائس پرنسپل سے کہا کہ خود مختار کالج کا اسٹیکر بنا کر فارم پر لگا دیا جائے اور وہ میرے NOC پر ’’برائے پرنسپل‘‘ دستخط فرما دیں۔ NOC لے کر جب متعلقہ کائونٹر پر پہنچا تو ’’افسر صاحب‘‘ نے ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ مہر اور دستخط موجود پا کر بغیر سوال کیے اور اپنا وقت ضائع کیے نیچے زمین پر پھینک کر پاسپورٹ کا بقیہ پراسیس مکمل کر دیا۔
اس بار چوکہ سرکاری بندشوں سے آزادی حاصل تھی‘ اس لیے کچھ کام آسان ہو گیا۔ البتہ پاسپورٹ اسٹیٹس تبدیل کرانے کے لیے ریٹائرمنٹ سے متعلقہ کاغذات‘ نوٹیفکیشن‘ پنشن سلپ وغیرہ پیش کرنا پڑے جو حسن اتفاق سے موبائل کی ای میل اپلیکیشن میں موجود تھے‘ وہاں سے آن لائن انہیں ٹرانسفر کیے اور ’’نادرا ایگزیکٹیو‘‘ نے پاسپورٹ کی بکنگ کرلی۔ یہ ایک اچھا اقدام ہے حکومت پاکستان کا کہ طویل قطار میں لگنے اور کئی کائونٹر پر مغز ماری کرنے کے بجائے معمول سے زائد سروس چارجز ادا کرکے ایک اچھے‘ آرام دہ اور باعزت ماحول میں باآسانی اپنی ضرورت پوری کر لی جائے۔
“السفر و صقر”
سفر وسیلۂ ظفر بھی ہے اور اسے مشکل اور اذیت ناک بھی کہا گیا۔ عربی میں ’’صقر‘‘ جہنم کے ایک اذیت ناک حصے کا نام ہے۔ ایک متوسط طبقے‘ بڑی عمر اور محدود وسائل رکھنے والے مسافر کے لیے سفر بالخصوص دیارِ غیر کا کچھ زیادہ آسان نہیں ہوتا۔ موسمی تحفظات‘ کھانے پینے کے مسائل‘ چلنے پھرنے اور سامان اٹھانے کی مشکلات‘ جسمانی عوارض اور ان کے تدارک کے سامان یعنی ادویات‘ زبان یا رہن کے مسائل‘ آب و ہوا اور اسی طرح کے مسائل اس اشتیاقِ سفر کو مدہم کر دیتے ہیں۔ بہترین سفری سہولیتیں اور قیام و طعام کے اعلیٰ ترین انتظامات کے باوجود بہت سی چیزوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ایسے میںجب آپ جیسا دوسرا ساتھی بھی ساتھ ہو اور وہ خاتون ہی نہیں‘ خاتونِ خانہ اور شریک حیات ہو‘ تو اس کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ’’مردانہ وقار‘‘ کے کندھوں پر پڑ جاتا ہے۔
ویسے تو سفر اکیلے کرنا چاہیے‘ مگر ہمدمِ دیرینہ کا ساتھ جہاں بہت سی پابندیوں اور الجھنوں کے ساتھ پائوں کی بیڑیوں کو جنم دیتا ہے وہیں بے شمار فوائد و مصالح کا سبب بھی بنتا ہے اور اس میں سب سے بڑا فائدہ اس ’’آنکھ مٹکے‘‘ سے تحفظ ہے جو بالعموم ہوش مند مردوں کی باوقار مردانگی کو بالائے طاق رکھ کر موقع سے فائدہ اٹھانے اور ’’دل کا رانجھا راضی کرنے‘‘ کی دعوت دیتا ہے۔ سو بقول مشتاق احمد یوسفی ہم سیاچن و برف کے گلیشیئر بھی گئے اور اپنے تھرموس میں برف کی ڈلیاں ڈال کر ساتھ لے گئے‘ لہٰذا حسین انسان سے نمٹنے کے بجائے تخلیق ِ خدا اور حسن و جلال پروردگار ہی میں مگن رہے۔ جہاں کہیں نظریں بھٹکنے لگتیں وہاں اپنی عمر کا خیال بھی آتا۔ غضِ بصر کا حکم بھی یاد آتا اور بیگم صاحبہ کی نقاب میں سے آشکار تند و تیز نگاہوںکی تاب نہ لاتے ہوئے نظر اور دل کو بے قابو ہونے اور تنہا چھوڑنے سے باز رہنا پڑتا۔ پاسبانِ عقل کے ساتھ پاسبانِ کردار بھی سفر میں ساتھ ہونا ضروری ہے۔
ویزا کا حصول
ترکی ویزا کے لیے دس ہزار روپے فیس ہے اور عموماً تین ہفتے لگ جاتے ہیں‘ اس کے لیے دو طریقے ہیں یا تو طالبِ ویزا خود ایمبیسی جائے‘ فیس جمع کرائے‘ انٹرویو دے یا پھر بڑے شہر میں موجود ویزا پراسیس ایجنسی Gerry’s یا Anatolia کے پاس یہ مراحل مکمل کرے۔ یاد رکھیے ویزا کے حصول کے لیے درج ذیل دستاویزات لازمی ہیں۔
(1) ریڈ ایبل پاسپورٹ جس کی مدت اختتام میں تاریخِ سفر سے چھ ماہ باقی ہوں۔ (2) تمام سابقہ پاسپورٹس اور ان کے استعمال شدہ صفحات کی فوٹو کاپی اور اگر اتفاق سے کوئی پاسپورٹ مسنگ یا گم ہو گیا ہو تو اس کی گمشدگی کی اطلاع کاسرٹیفکیٹ یعنی ایف آئی آر جو قریبی پولیس اسٹیشن میں بیان حلفی جمع کرانے سے مل سکے گا۔ (3) FRC یعنی فیملی رجسٹریشن سرٹیفکیٹ نادرا سے باآسانی حاصل ہو جائے گا۔ (4) ترکی میں سفر کا شیڈول۔ (5)ترکی کے سفر کے لیے کسی ائر لائن میں سیٹ بکنگ/ریٹرن ٹکٹ۔ (6) ترکی کے سفری شیڈول کے مطابق ہوٹلز یا رہائشی مقام کی بکنگ۔ (7) ہیلتھ انشورنس سرٹیفکیٹ۔ (8) بینک اکائونٹ کی تفصیل۔ کم از کم آخری چھ ماہ اور اکائونٹ میں کم از کم تین لاکھ روپے کی موجودگی۔ (9) اکائونٹ آپریشنل سرٹیفکیٹ کہ کب سے یہ اکائونٹ جاری ہے۔
سیریل نمبر 6,5,4 اور 7 کسی بھی ٹریول ایجنٹ سے کچھ معاوضے کے عوض کیے جاسکیں گے اگر مسافر کا ارادہ کسی ٹریول ایجنٹ اور ٹور آپریٹر کے ساتھ گروپ میں سفر کرنے کا ہے تو وہ اپنے پیکج میں اسے شامل کریں گے۔ سیریل نمبر 8 اور 9 اپنے بینک سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ کوشش کی جائے کہ ویزا درخواست جمع کروانے سے کچھ پہلے یہ دستاویزات بینک سے بنوائی جائیں اور زیادہ پرانی نہ ہوں۔
ویزا پراسیس ایجنسی کم و بیش ساڑھے سات ہزار روپے اپنا معاوضہ برائے ویزا پراسیس وصول کرے گی۔ ویزا کے حصول کے لیے کم از کم ایک ماہ بھی انتظار کرنا پڑ سکتا ہے۔ اسی مناسبت سے جہاز کی نشست بک کروانا مناسب ہوگا اور یہ کام ٹور آپریٹرز ہی کریں گے‘ مناسب یہی ہے کہ کسی گروپ کے ساتھ ٹور آپریٹرز کی راہنمائی میں سفر کیا جائے۔
(جاری ہے)