مس نورجہاں (غصے سے): نورین تمہارا دماغ کہاں رہتا ہے! یہ ہے تمہارا کام! نالائق ہو، دیر سے سمجھ میں آتا ہے تمہیں۔ جائو دوبارہ صحیح جواب لکھو، اب اگر غلطی ہوئی تو میں چیک نہیں کروں گی۔
نورین کو اپنے ہم جماعتوں کے سامنے اپنی بے عزتی پر بڑی سبکی محسوس ہوئی، لیکن اس نے سوچا یہ تو مس نورجہاں کی عادت ہے کہ روز سب طالب علموں کے سامنے ایک دو کی اسی طرح کھنچائی کرتی رہتی ہیں۔
٭…٭
ساس (منہ بناتے ہوئے): اُف کتنا نمک ہے سالن میں، کیا ہمیں بیمار کرنے کا ارادہ ہے!
اب بیچاری ارم مہمانوں کے سامنے کیا جواب دیتی کہ کل ذرا سالن میں نمک کم ہوگیا تو ساس نے اسے اسی طرح برا بھلا کہا تھا۔ اس نے انگلی سے ذرا سالن چکھا تو اسے ہلکا سا نمک تیز لگا، لیکن اتنا زیادہ بھی نہ تھا کہ ناگوار محسوس ہو اور سب کے سامنے اس طرح بے عزت کرے۔ اس نے سوچا، اگر اماں اکیلے میں یہ بات مجھے کہتیں تو شاید مجھے برا محسوس نہ ہوتا۔
٭…٭
انچارج (ماتحت سے غصے میں): یہ فائل اٹھائیں اور اسے دوبارہ چیک کریں۔ یہ آفس ہے گھر نہیں کہ آپ لاپروائی سے کام کریں۔
اصغر (ماتحت) نے چاروں طرف بیٹھے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ سب کی نظریں اسی کی طرف تھیں۔ اسے انچارج کے اس رویّے پر بڑی بے عزتی اور شرمندگی محسوس ہوئی۔
٭…٭
ثوبیہ: آنٹی آپ کو سوٹ پسند آیا؟
ساس (آنٹی): ہاں صحیح ہے، لیکن مجھے یہ رنگ پسند نہیں۔
نئی نویلی دلہن کو اپنی ساس کی بات سن کر بہت دکھ ہوا۔ اس نے سامنے بیٹھی اپنی دونوں جیٹھانیوں اور دونوں نندوں کو دیکھا۔ وہ تو سمجھ رہی تھی کہ شادی کے بعد اپنی تنخواہ میں سے اپنی ساس کو تحفہ دے گی تو وہ خوش ہوں گی، لیکن…
٭…٭
مذکورہ بالا چند کرداروں کے یہ منفی رویّے ہیں جن سے کبھی کبھار ضرور ہمارا واسطہ پڑتا رہتا ہے جو سامنے والے کو شرمندہ بھی کردیتے ہیں، اور کچھ زیادہ حساس لوگوں پر تو اس کا زیادہ ہی اثر پڑتا ہے۔ کیا لوگوں کے ایسے رویّے درست ہیں؟ ان کے ایسے رویوں سے کیا ماحول میں کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے؟ یقیناً ایسے رویوں کی بدولت سامنے والوں کو تو شرمندگی اور سبکی محسوس ہوتی ہی ہوگی، لیکن ایسے لوگ خود بھی نقصان میں رہتے ہیں، کیونکہ لوگ ان سے کتراتے ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں میں سے اکثر کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ہم تو بات کے کھرے ہیں، دل میں نہیں رکھتے اس لیے سامنے والے کو سنا دیتے ہیں۔ بیشک بعض اوقات سچ اور حق کو دوسروں تک پہنچانا چاہیے، لیکن اس طرح ان کی بے عزتی کرکے کہ وہ دلبرداشتہ ہوجائیں، درست نہیں۔ ہمارے مذہب اسلام نے مثبت طریقوں سے دوسروں کی اصلاح کا راستہ دکھایا ہے کہ سامنے والے کو برا بھی نہ لگے اور مسئلہ بھی حل ہوجائے۔ انسان پسند نہیں کرتا کہ سب کے سامنے اس کی غلطیوں کی نشاندہی ہو۔ اکیلے میں اس کی اصلاح کرنا بہترین طریقہ ہے، یا براہِ راست کسی کو منتخب کرکے اس کو نشانہ بنانے سے بہتر ہے کہ اس کی غلطی کی اس طرح نشاندہی کی جائے کہ وہ شرمندگی محسوس نہ کرے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی صحابی نے ککڑی پیش کی، آپ کی عادت تھی کہ جو بھی ہدیہ آتا اپنے ساتھ بیٹھے صحابہ کرام کو اس میں سے پیش کرتے، لیکن آپؐ نے اس موقع پر ککڑی خود کھائی، دوسروں کو نہ دی۔ صحابہ کرام بہت حیران ہوئے کہ آج آپؐ نے ایسا کیوں کیا! صحابہ کرام کو جستجو ہوئی کہ ضرور اس میں بھی کوئی مصلحت و تعلیم پوشیدہ ہو گی، لہٰذا انہوں نے آپؐ سے اس کی وجہ پوچھی۔ آپؐ بھی انہیں تعلیم فرمانا چاہتے تھے اسی لیے آپؐ نے صحابہ کرام کے سامنے اس کی وجہ بیان کی کہ کیونکہ وہ ککڑی کڑوی تھی، میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ میں سے کوئی منہ بنائے یا کچھ اظہار کرے اور ہدیہ دینے والے کو شرمندگی ہو (سبحان اللہ)۔
دنیا بھر میں اسلام کی تعلیمات اسی اصول کے مطابق پھیلائی گئیں۔ ہمارے سامنے صحابہ کرام علیہم اجمعین اور اولیاء اللہ کی مثالیں ہیں کہ انہوں نے نرم گوئی اور اخلاق کے ذریعے لوگوں میں تبدیلی پیدا کی۔ آپؐ اور صحابہ کرام کی اس خوش اخلاقی، درگزر اور مثبت رویوں کی بدولت کٹّر دشمنوں کے دل بھی موم ہوگئے اور وہ دائرئہ اسلام میں نہ صرف داخل ہوگئے بلکہ اپنی جان، مال سب آپؐ اور اسلام کی خاطر قربان کردیا۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ آپؐ کو قتل کرنے کے ارادے سے آئے۔ صحابہ کرام نے جو اُس وقت آپؐ کے گرد موجود تھے، تلواریں تان لیں لیکن آپؐ نے تبسم فرما کر فرمایا: عمر آئے ہیں، انہیں آنے دو… عمر فاروقؓ آپؐ کے اس مثبت رویّے سے متاثر ہوئے اور آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ عمر فاروقؓ اسلامی احکامات کی کھلے عام پیروی کرنے والے سپہ سالار تھے۔
ہمارے سامنے اسلام کے واضح احکامات موجود ہیں جن کی پیروی کرنے سے اسلامی معاشرے کو طاقت اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔ چاہے والدین کا اولاد سے تعلق ہو، اساتذئہ کرام کا شاگردوں سے، افسران کا ماتحتوں سے یا گھر کے بزرگوں کا افرادِ خانہ سے… اگر وہ مثبت رویّے، خوش اخلاقی، نرم خوئی سے سامنے والے کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے اس کی اصلاح کریں تو یقیناً فائدہ ہو گا اور سامنے والا بھی آپ کی قدر کرے گا۔
اس بچے کا واقعہ یقیناً آپ سب نے بھی سنا ہو گا کہ کس طرح اس نے اپنے سامنے ایک بزرگ کی اصلاح کی… جب مسجد کے وضو خانے میں اس نے ایک بزرگ کو غلط طریقے سے وضو کرتے دیکھا تو ان سے ادب سے فرمایا: مہربانی فرما کر میرا وضو کا طریقہ دیکھیں، کہیں میں غلط تو نہیں کر رہا ہوں؟ بزرگ نے جب اس بچے کو وضو کرتے دیکھا تو بہت متاثر ہوئے اور کہا: بیٹا آپ وضو بالکل صحیح کررہے ہیں البتہ مجھ سے کچھ غلطی ہو گئی تھی… اس موقع پر بچہ اگر بزرگ سے کہتا کہ آپ غلط وضو کررہے ہیں تو نہ صرف بزرگ کو شرمندگی ہوتی بلکہ وہ بچے پر ناراض بھی ہوتے…
اکثر لوگوں کو تنقید کرنےاور نقص نکالنے کی عادت ہوتی ہے، ان کی اس عادت سے سامنے والا ان سے دور بھاگتا ہے، گرچہ ہو سکتا ہے ان کی تنقید ’’صحیح‘‘ ہو، لیکن ان کے اس رویّے سے اصلاح کے بجائے سامنے والا ’’چڑ‘‘ جاتا ہے اور ان سے خائف رہتا ہے۔
میری والدہ مرحومہ اکثر ایک جملہ کہتی تھیں ’’کہو بیٹی کو، اور اصلاح بہو کی ہوجائے‘‘ یعنی اپنی بات سامنے والے کو اصلاح کی غرض سے بولیں لیکن براہِ راست اسے نشانہ نہ بنائیں۔ مثبت طریقے سے اُس کے کانوں تک اُس کی غلطی ضرور پہنچائیں۔ اماں نے ہم بیٹیوں اور بہوئوں کی اسی طرح تربیت و اصلاح کی، جس کا آج بھی ہماری بھابھیاں برملااظہار کرتی ہیں۔ اماں کے اس مثبت رویّے سے ان کی بہوئیں بھی خوش رہتیں۔بلکہ اس طریقے سے گھر کا ماحول بڑا خوشگوار رہتا۔
میں اپنے آس پاس بہت سے گھرانوں میں دیکھتی ہوں کہ اسی طریقہ کار کو بروئے کار لاکر گھر کے افراد ایک ہی چھت تلے خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ کچھ گھرانوں میں افرادِ خانہ ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے اور دور دور رہتے ہیں جس کی وجہ یہی بے جا تنقید کی عادت اور رویہ ہے۔ غلطیاں ہر ایک سے ہوسکتی ہیں جانے اور انجانے میں بھی۔ لہٰذا ایسے منفی رویوں سے پرہیز کرنا لازمی امر ہے جن کی وجہ سے رشتوں، ناتوں میں دراڑیں پیدا ہوں۔