بزم شعر و سخن کا شمار کراچی کی معروف اور بڑی ادبی تنظیموں میں ہوتا ہے اس کی ادبی سرگرمیوں میں ماہانہ مشاعرے، کتابوں کی رونمائی اور ایک بڑا سالانہ مشاعرہ شامل ہے اس تنظیم نے اپنے ادارے کے بانی رکن انجینئر اسلام الدین ظفر کی یاد میں 16 جنوری 2021ء کو ایس او پیز کے ساتھ ایک مشاعرے کا انعقاد کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے صدارت کی۔ سعید اسماعیل، مہمانِ خصوصی اور تاجدار عادل مہمانِ اعزازی تھے۔ عبید ہاشمی نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے تمام شعراء اور سامعین کو خوش آمدید کہا اور اپنے ادارے کی غرض و غایت بیان کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ رومن انگلش میں اردو زبان لکھ کر سے ہم اردو زبان کو قتل کررہے ہیں اردو کا سافٹ ویئر موجود ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اردو میں اپنا نکتہ نظر بیان کریں۔ طاہر سلطان پرفیوم والد نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو کتب بینی کے شوق میں ڈالیں اپنے گھروں میں اپنے بچوں سے اردو میں بات چیت کریں انہیں اردو زبان کی اہمیت سے آگاہ کریں۔ اس موقع پر صاحب صدر پروفیسر پیرزادہ قاسم، اجمل سراج، فیاض علی فیاض، ڈاکٹر اقبال پیرزادہ، رخسانہ صبا، قیصر وجدی، محمود غزنوی، اے ایچ خان زادہ، نزہت عباسی، عائشہ یحییٰ، ہدایت سائر، سیمان نوید، کامران نفیس، حبیب مصطفی اور جنید حسن جنیدی نے اپنا اپنا کلام نذرِ سامعین کیا۔ یہ مشاعرہ فیس بک پر لائف چل رہا تھا شعرا کو یادگاری شیلڈز سے نوازا گیا۔ اس مشاعرے کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ایک بچے نے تمثیلی طور پر جون ایلیا کا روپ ڈھالا اور ان کے اشعار سنائے۔ مشاعرے کے صدر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ بزم شعر و سخن اپنی پوری توانائی کے ساتھ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں کامیاب ہے۔ اس بزم کے مشاعروں میں سامعین ہوتے ہیں جس سے شعر و سخن کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔ آج کے پروگرام میں شرکت کے لیے باقاعدہ رجسٹریشن کی گئی ہے یہ ایک نیا طریقہ سامنے آیا ہے جس کا فائدہ ہے کہ صرف شعر فہم حضرات ہی سامعین میں شامل ہوتے ہیں۔ مہمانِ خصوصی نے کہا کہ مشاعرہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے، بزم شعر و سخن نے آج بہت عمدہ محفل سجائی ہے آج بہترین کلام سامنے آیا ہے اس کا سارا کریڈٹ بزم کے ذمہ داران کو جاتا ہے کہ جنہوں نے یہ سارا اہتمام کیا۔ تاجدار عادل نے کہا کہ وہ بزم شعر و سخن کے بیشتر پروگراموں میں شامل ہوتے رہتے ہیں ان کی ہر تقریب میں سامعین ہوتے ہیں جو بڑے سلیقے سے اشعار سماعت کرتے ہیں اور شعراء کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ ان کا ہر پروگرام کامیاب رہے گا۔ مشاعرے کی نظامت ہدایت سائر، شکیل خان اور عبید ہاشمی نے کی۔
ادارۂ فکرِ نو کا طرحی نعتیہ مشاعرہ اور بہاریہ مشاعرہ
ادارئہ فکرِ نو کراچی کے بانی نور احمد میرٹھی تھے اُن کے انتقال کے بعد معروف صحافی و شاعر اختر سعیدی نے اس ادارے کی باگ دوڑ سنبھالی ہے۔ ان کی نگرانی میں ادارئہ فکرِ نور کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ اختر سعیدی روزنامہ جنگ کراچی سے مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہوچکے ہیں اور سہ ماہی رسالہ نکال رہے ہیں جس کے پہلے شمارے پر راقم الحروف نثار احمد نثار اپنے کالم میں سیر حاصل تبصرہ کرچکا ہے۔ میری معلومات کے مطابق اس سہ ماہی جریدے کا دوسرا ایڈیشن عنقریب شائع ہوجائے گا۔ اختر سعیدی نے روزنامہ جنگ کراچی کی ملازمت کے دوران بہت سے قلم کاروں کے انٹرویوز کیے تھے جو جنگ میں شائع ہوچکے ہیں۔ اب انہوں نے ان انٹرویوز کا پہلا ایڈیشن کتابی صورت میں شائع کیا ہے جس کا نام ’’دنیائے ادب کے تابندہ ستارے‘‘ ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جتنے انٹرویوز اختر سعیدی نے کیے ہیں شاید کسی دوسرے صحافی نے نہیں کیے۔ ان کا یہ کام بھی قابل ستائش ہے اس کے علاوہ اختر سعیدی بہترین پروگرام آرگنائزر بھی ہیں۔ انہوں نے 17 جنوری 2021ء کو دبستانِ وارثیہ کی دی گئی طرحی نعتیہ ردیف ’’باوقار‘‘ پر محمد علی گوہر کے گھر، مشاعرہ منعقد کیا جس میں قمر وارثی، صدرِ مشاعرہ، حامد الاسلام خان، مہمانِ خصوصی اور نسیم سحر، مہمانِ اعزازی تھے۔ علی کوثر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ عاشق شوکی نے خطبہ استقبالیہ میں اپنے ادارے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالنے کے علاوہ یہ بھی کہا کہ نعت گوئی کے فروغ میں ادارئہ فکر نو کی خدمات شامل ہیں۔ ہم ہر سال نعتیہ مشاعرہ، محفل مسالمہ اور اپنے محسنوں کے لیے تقریبات سجاتے ہیں، ہم ان شاء اللہ ادب کے فروغ میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں گے۔ صاحب صدر نے کہا کہ نعتیہ مشاعرے اسلامی تعلیمات کا حصہ ہیں اس محفل میں بیٹھنا کارِ ثواب ہے۔ مہمانِ خصوصی نے کہا کہ وہ ادارئہ فکر کے ساتھ ہیں اردو ادب کی ترقی ہمارا منشور ہے، اس مشاعرے میں قمر وارثی، نسیم سحر، عبیداللہ ساگر، اختر سعیدی، جمال احمد جمال، یامین وارثی، انور انصاری، محمد علی گوہر، یوسف چشتی، عزیز الدین خاکی، عاشق بلوچ، آسی سلطان، گل انور، احمد خیال، سحر وارثی، نشاط غوری، امین بنارسی، عاشق شوکی، تاج علی رانا، زبیر صدیقی، ناصر ظفر، کاشف اقبال اور علی کوثر نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ فیضانِ رحیم نے اظہار تشکر کیا۔ ادارئہ فکرِ نو کراچی کا دوسرا مشاعرہ دُعا ریسٹورنٹ سپر ہائی وے کراچی میں منعقد ہوا۔ جس میں حامد الاسلام خان صدر تھے اور مظہر بانی مہمانِ خصوصی جبکہ علی کوثر نے نظامت کی۔ اس مشاعرے میں جن شعراء نے شرکت کی ان میں مظہرہانی، اختر سعیدی، انور انصاری، محمد علی گوہر، اکمل نوید، عاشق شوکی، محمد علی اشرف اور علی کوثر شامل تھے۔ اس مشاعرے کو معروف شاعر رساچغتائی سے منسوب کیا گیا تھا۔ حامد الاسلام خان، مظہر ہانی اور انور انصاری نے رسا چغتائی کے بارے میں گفتگو کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسا چغتائی قادرالکلام شاعر تھے وہ کراچی میں سب سے سینئر شاعر تھے ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’زنجیر ہمسائیگی‘‘ اور دوسرا شعری مجموعہ ’’تیرے آنے کا انتظار رہا‘‘ ہے۔ رسا چغتائی وہ قلندر صفات انسان تھے وہ سہل ممتنع میں اشعار کہتے تھے۔ ان کی زبان عام انسان بھی سمجھ لیتے تھے ان کے انتقال سے جو خلاء پیدا ہوا ہے وہ پُر نہیں ہوسکے گا۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس عطا فرمائے۔
زبان و ادب کے فروغ میں مشاعرے بھی بہت اہم ہیں‘ شکیل فاروقی
زبان و ادب کے فروغ میں مشاعرے بھی بہت اہم کردار ادار کرتے ہیں۔ ہر معاشرے میں شعراء کرام کاایک مقام ہوتا ہے۔ معاشرے کی فلاح وبہبود کے لیے جو تحریکیں چلتی ہیں اُن میں یہ ارباب ہنر اپنے اشعار کے ذریعے لوگوں کو خواب غفلت سے جگاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے تناظر میں شعراء کرام نے آزادی کی اہمیت پر قلم اُٹھایا اور آپ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی جنگوں میں شعراء کرام نے قومی گیت لکھ کر اپنی افواج کے حوصلے بڑھائے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر اور ماہر تعلیم شکیل فاروقی نے ٹیچرز کلب آف کراچی یونیورسٹی میں منعقدہ مشاعرے کے موقع پر کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جن تعلیمی اداروں نے شاعروں کو پروان چڑھایا ان میں کراچی یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ ہم یہاں اردو زبان و ادب کے لیے مشاعرے، مذاکرے اور دیگر ادبی پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ آج ہم نے اس نشست گاہ اساتذہ میں دس شعراء کو دعوت دی تھی لیکن آج کراچی شہر میں اس لیے ٹریفک جام ہے کہ ایک غیر ملکی کرکٹ ٹیم نیشنل اسٹیڈیم میں پریکٹس کررہی ہے جس کی سیکورٹی کے سبب بہت سی سڑکیں بند ہیں اس لیے کچھ لوگ یہاں نہیں آئے اور انہوں نے معذرت کرلی ہے۔ ہم ان شاء اللہ بہت جلد ایک بڑا مشاعرہ کررہے ہیں اس کے انتظام کے لیے متعلقہ اداروں سے ہم رابطہ کررہے ہیں۔ مشاعرے کے مہمانِ خصوصی سوئیڈن سے تشریف لائے ہوئے شاعر شکیل احمد خان نے کہا کہ وہ سوئیڈن کی ایک ادبی تنظیم پاک برٹش آرٹ کے نمائندے ہیں۔ اس تنظیم کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ ہم اردو زبان کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کریں۔ سوئیڈن میں انگریزی رائج ہے، ہماری نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے۔ کتب بینی کا شعبہ بھی کمزور ہورہا ہے۔ ہم پوری ذمہ داری کے ساتھ اردو کی ترقی کے لیے کام کررہے ہیں، ہم نے اس ادارے کے تحت کراچی چیپٹر کے لیے ناہید عظمی کو کوآرڈینیٹر مقرر کیا ہے تا کہ کراچی میں بھی ہم شعر و سخن کو فروغ دیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر شاداب احسانی، اجمل سراج، شکیل احمد، خالد معین، فیاض وید، شکیل فاروقی، راقم الحروف نثار احمد نثار، ڈاکٹر افتخار شفیع اور ناہید عظمی نے اپنا کلام پیش کیا۔ ڈاکٹر نورین نے مہمانوں کو تحائف پیش کیے۔ مشاعرے کے بعد ہونے والی گفتگو میں فیاض وید نے کہا کہ وہ اپنی پروفیشنل مصروفیات کے سبب اکثر مشاعروں میں شرکت نہیں کرپاتے، ہم چاہتے ہیں کہ شکیل فاروقی اس کلب میں ادبی پروگرام ترتیب دیں ہم ان کے ساتھ ہیں ہم یہاں اردو بیانیہ کے موضوع پر مذاکرہ کرنا چاہتے ہیں تا کہ اس موضوع کے مقاصد پوری طرح واضح ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعراء کرام کے ذریعے ہم ادبی ثقافت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مشاعرہ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ ہر زمانے میں یہ ادارہ بھی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے اور جب شعراء کرام اپنے حقوق سے رُوگردانی کرتے ہیں معاشرے کی ترقی رُک جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں شعراء کرام کی قدر کرنی چاہیے کہ یہ لوگ دو مصرعوں میں بڑے سے بڑا مضمون بیان کردیتے ہیں۔