جموں کے میدانوں میں مکئی کی فصل کھڑی تھی، سری نگر اور دیگر علاقوں سے سیب اور خشک میوہ جات بھی جموں کے بازاروں میں آنا شروع ہوگئے تھے۔ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی فصلوں کا پھل سمیٹنے کو تیار تھے۔ چنار کے سبز پتوں کے زردی میں تبدیل ہونے کا ابھی آغاز ہوا ہی تھا کہ دفعتاً جموں کے نواحی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہوگیا۔ تیار فصلیں کسانوں کے لہو سے رنگین ہونا شروع ہوگئیں۔ گائوں کے گائوں اجڑنا شروع ہوگئے۔ یہ سب اتنی چالاکی اور مہارت کے ساتھ کیا گیا کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوئی۔ عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 1947ء میں دو لاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کردیا گیا۔ اس بہیمانہ قتلِ عام کی انسانی تاریخ میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔مسلمانوں کے گھروں کو جلانے کا سلسلہ اکتوبر 1947ء ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ ڈوگرہ سپاہیوں اور ہندو انتہا پسندوں نے مسلم مردوں کا قتلِ عام کیا، جب کہ عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ بھارتی فوج گورکھا رجمنٹ اور ہندو بلوائیوں کے ظلم کا نشانہ جموں، کٹھوعہ، اودھم پور، ریاسی اور دیگر علاقوں کے کشمیری بنے۔ 1947ء سے قبل جموں میں 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی، لیکن اس قتل عام کے بعد مسلمان اقلیت میں بدل گئے۔ جموں کے 123 دیہات میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی، ان تمام دیہات کو ملیامیٹ کردیا گیا۔ ضلع کٹھوعہ میں مسلمانوں کی پچاس فیصد آبادی کو تہِ تیغ کردیا گیا۔ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد رام نگر میں سفاکی کی بھینٹ چڑھے۔
رائے پور گائوں کو مکمل طور پر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، کٹھوعہ، سانبہ، اودھم پور مسلمانوں کے مقتل بن گئے۔ یہی عمل کوٹلی، میرپور اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے سے شروع ہوچکا تھا۔ مسلمان پولیس افسران کو گھر بھیج دیا گیا، جب کہ مسلم فوجیوں سے اسلحہ بھی لے لیا گیا۔ اسی طرح جموں کینٹ میں تعینات مسلم بریگیڈیئر کی جگہ ہندو ڈوگرہ افسر کو تعینات کردیا گیا۔ مسلمان غریب الوطنی کا شکار ہوگئے، ریاستی اداروں میں مسلمانوں کی حیثیت مہاجروں جیسی تھی، ڈپٹی کمشنر کے دفاتر بھی آر ایس ایس کے حوالے کردیے گئے۔ مہاراجا پٹیالہ یادوندرا سنگھ نے فوجی جتھوں کو جموں بھیجا، جنہوں نے مسلمانوں کا بے دردی کے ساتھ قتل عام کیا۔
بھارتی فوج، ہندو انتہا پسندوں اور سکھ رجمنٹ کے مظالم کا عملی مشاہدہ کرنے کے لیے بھارتی وزیر داخلہ سردار والبھ بھائی پٹیل، وزیر دفاع بلدیو سنگھ اور مہاراجا پٹیالہ خود جموں آئے۔ انہوں نے کمالِ مکاری کے ساتھ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا لالچ دیا۔ 5 نومبر کو جموں سے مسلمانوں کو ٹرکوں میں لادا گیا، مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کے بجائے کٹھوعہ روڈ پر لے جایا گیا۔ یہاں مسلمان مہاجرین کی بسوں پر مسلح افراد نے حملہ کردیا اور ماوا کا مقام مسلمانانِ جموں کے لیے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم چار ہزار افراد شامل تھے، لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔ دوسرے روز 6 نومبر کو یہ کہانی پھر دہرائی گئی، اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوںکو بٹھایا گیا اور سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقے میں پیش آیا۔
7 نومبر کے قافلے میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے ’’نازیت‘‘ کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔ شہدائے جموں کی اس تاریخی شہادت اور جبر و ظلم کے واقعے پر جناب ایم کے نقشبندی اور ممتاز کشمیری مؤرخ جناب رشید ملک نے قومی جرائد میں بہت دفعہ لکھا۔ اکتوبر کے آخری ہفتے اور 6,5 نومبر 1947ء کے دوران ڈوگروں اور سکھوں نے تین لاکھ سے زائد کشمیریوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کردیا اور تقریباً پانچ لاکھ کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا۔ یوم شہدائے جموں کے حوالے سے برطانوی مؤرخ ایلسٹر لیمب نے اپنی کتاب میں مستند حقائق کے حوالے سے انکشاف کیا کہ پنجاب سے ہندوئوں اور سکھوں کے خونی جتھے جموں میں داخل ہوگئے جنہوں نے وحشیانہ قتل و غارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان) کی طرف دھکیل دیا۔ برطانوی اخبار دی ٹائمز لندن نے اس قتل عام کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ 2 لاکھ 73 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا، یہاں تک کہ وہ پاکستان بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ سب ڈوگرہ راج کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد سے صرف پانچ دن قبل شروع کیا گیا، جب کہ اس قتل عام کے 9 دن بعد مہاراجا نے بھارت سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن اسٹیفن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ خزاں 1947ء کے اختتام تک تقریباً دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا۔ ایک صحافی ہوریک الیگزینڈر کے مطابق جموں کے مسلمانوں نے پاکستان کی خاطر اپنی زندگی، دولت، رشتے دار اور جذبات قربان کیے۔
1947ء میں شروع ہونے والا کشمیری مسلمانوں کا قتل عام آج تک نہیں تھم سکا۔ کشمیری آج بھی قابض بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ وہ آج بھی بھارتی افواج کی گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں اور پاکستان کے پرچم میں لپٹ کر دفن ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔