ہم جہاں ہیں وہاں
زخم اپنی ہی خوشبو میں سرمست ہیں
درد اپنی ہی شدت سے سرشار ہے
ہم جہاں ہیں وہاں
روشنی نیم جاں دیپ کی تہ میں
اور آبرو طاق پر…
ہم جہاں ہیں وہاں
سر چھپانے کو جائے اماں بھی نہیں
سر اٹھائیں مگر آسماں بھی نہیں
لوٹ جائیں مگر
دور تک رفتگاں کا نشاں بھی نہیں
ہم جہاں ہیں وہاں
زندگی بے روائی کے ملبوس میں
شاعری بے نوائی کے کابوس میں
آدمی… ناشناسائے غم
ہم یہاں ہیں
یہاں آبرو طاق پر سج رہی
روشنی نیم جاں دیپ میں بس رہی
زخم اپنی ہی خوشبو میں سرمست
اور درد اپنی ہی شدت سے سرشار ہے
ناشناسائے غم آدمی اس خرابے میں معیار ہے
دہر میں آج بھی ہم ایسے معمارِ غم کا ادب بھی نہیں
ہم جہاں ہیں وہاں
بس حیا باختہ آرزو زور کرتی ہے
اپنی ہی خوشبو میں سرمست زخموں کی یاں کچھ طلب بھی نہیں