ہم جہاں ہیں وہاں

211

ہم جہاں ہیں وہاں
زخم اپنی ہی خوشبو میں سرمست ہیں
درد اپنی ہی شدت سے سرشار ہے
ہم جہاں ہیں وہاں
روشنی نیم جاں دیپ کی تہ میں
اور آبرو طاق پر…
ہم جہاں ہیں وہاں
سر چھپانے کو جائے اماں بھی نہیں
سر اٹھائیں مگر آسماں بھی نہیں
لوٹ جائیں مگر
دور تک رفتگاں کا نشاں بھی نہیں
ہم جہاں ہیں وہاں
زندگی بے روائی کے ملبوس میں
شاعری بے نوائی کے کابوس میں
آدمی… ناشناسائے غم
ہم یہاں ہیں
یہاں آبرو طاق پر سج رہی
روشنی نیم جاں دیپ میں بس رہی
زخم اپنی ہی خوشبو میں سرمست
اور درد اپنی ہی شدت سے سرشار ہے
ناشناسائے غم آدمی اس خرابے میں معیار ہے
دہر میں آج بھی ہم ایسے معمارِ غم کا ادب بھی نہیں
ہم جہاں ہیں وہاں
بس حیا باختہ آرزو زور کرتی ہے
اپنی ہی خوشبو میں سرمست زخموں کی یاں کچھ طلب بھی نہیں

حصہ