کامیابی

230

“ایکسکیوزمی ٹیچر “،زینب نے ہاتھ اٹھا کر ٹیچر کو مخاطب کیا۔
“جی کہیے”، ٹیچر نے غور سے زینب کو دیکھا۔
“ٹی۔۔ٹی ۔۔۔ٹیچر ۔۔۔یہ میری ٹیسٹ کاپی میں کچھ گڑ بڑ ہے ،” زینب گھبراتے ہوئے بولی۔
“گڑ بڑ ؟ کیا مطلب ؟”،ٹیچر نے حیرت سے زینب کو ديکھا۔
زینب کی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں ،وہ اپنی بات کہہ نہیں پا رہی تھی ،پوری کلاس اسکی طرف توجہ سے دیکھ رہی تھی۔
زینب ٹیچر کے قریب گئی اور کاپی پر اپنا ٹیسٹ دکھایا،جس میں اسے دس میں سے صرف پانچ نمبر ملے تھے ،اور اس میں الفاظ معنی ،واحد جمع ،صحیح غلط جیسے سوالات کے صحیح جوابات کو کاٹ کر کسی نے غلط جوابات لکھے ہوئے تھے ،وہ لکھائی بھی بالکل الگ تھی،جس سے صاف نظر آرہا تھا کہ کسی نے اس کی کاپی چیک ہونے سے پہلے ہی کھول کر تبدیلی کر دی تاکہ زینب ہمیشہ کی طرح پورے نمبر نہ حاصل کر سکے ۔
ٹیچر نے جب غور کیا تو واقعی زینب کی بات ان کو سچ لگی،انہیں یاد آیا کہ جب انہوں نے ٹیسٹ لیا تھا توٹیسٹ کے بعد ہی انہیں کہیں ضروری کام سے جانا پڑ گیا اور انہوں نے سب كاپیاں کلاس کے شیلف میں رکھوا دی تھیں۔
“یقیناً یہ حرکت اسی دوران ہوئى ہو گی”،ٹیچر نے سوچا۔
ٹیچر نے زینب کو واپس بیٹھنے کا کہا اور اسے تسلّی دی کہ وہ پرنسپل سے بات کريں گى ۔
مس سائرہ بہت غصّے میں تھیں انہوں نے پوری کلاس کو بہت ڈانٹا اور کہا کہ حسد سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
زینب بہت ہی نیک اور سمجھدار لڑکی تھی ،شرو ع سے ہی بہت حساس اور کم گو لیکن پڑ ھائى میں ہمیشہ اوّل یا دوم ہی آتی تھی۔سب ہی لڑکیاں اس سے دوستی کرنا چاہتی تھیں مگر اس کی کلاس فيلو حرا اس سے بہت حسد کرتی تھی،اسکول میں کسی نہ کسی طرح اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرتی تھی ،کبھی اس کا مذاق اڑاتی کبھی اس کی چیزیں غائب کر دیتی ۔زینب اچھی طرح جانتی تھی کہ یہ حرکت حرا نے ہی کی ہے لیکن وہ خاموش رہی،اس نے ٹیچر کے سامنے حرا کا نام نہ لیا ۔
گھر آ کر زینب بہت روئی ،زینب کو روتا دیکھ کر اسکی باجی نے اس سے وجہ پوچھى، زینب نے پورا قصّہ اپنی باجی کو سنا دیا۔
“باجی میں تو کبھی کسی کے ساتھ غلط نہیں کرتی تو پھر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا ؟اب میں حرا کی شکایات ٹیچر سے کروںگی اور بتاؤں گی کہ وہ کتنی بُری ہے “،زینب روتے ہوئے بولے جا رہی تھی۔
“میری پیاری بہن ! کوئی آپ کے ساتھ برا کرے تو کیا آپ کو بھی شیطان کا ساتھ دیتے ہوئے بدلہ لینا چاہے ؟”
“نہیں ۔۔۔شیطان کا ساتھ تو ہرگز نہیں”۔ ۔۔زینب تيزى سے بولی۔
“تو پھر میری زینب درگزر کردو کیوں کہ یہی اچھے مسلمان کی نشانی ہے ۔ہمارے پیارے نبی صل اللّه علیہ وسلم کا اسوہ بھی تو يہى ہے”،باجى نے زینب کو مثال دے کر سمجھایا۔
“ہمم ۔۔۔صحيح کہا آپ نے”، زینب نے آہ بھری ،” کاش آج بھی ایسے لوگ ہوتے! ”
“کیوں؟ تم نہیں ہو سکتی ایسی؟”باجی نے پوچھا
“کیوں نہیں” ،زینب نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
کچھ ہی دن گزرے تھے امتحان سر پر آگئے ۔آج ریاضی کا پرچہ تھا، زینب بہت جلدی اسکول پہنچ گئی تھی،وہ کلاس میں اس کی نظر حرا پر پڑی جو کافی پریشان لگ رہی تھی۔يہ ديکھ کر اس سے رہا نہ گيا اور حرا سے پریشانی کی وجہ پوچھ ہى ڈالى۔
“وہ۔ ۔وہ مجھے یہ سوالات بالکل سمجھ نہیں آرہے ،میں تو فیل ہی ہو جاؤںگی “، یہ کہتے ہی حرا رونے لگی
“لاؤ میں سمجھاتی ہوں” ،زینب نے کاپی اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا ۔
“تم۔ ۔۔تم مجھے سمجھاو گی ؟۔۔لیکن ۔۔۔”حراشرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔
“ہاں تو کیا ہوا۔ ۔۔دوستوں کے کام آنا چاہیے ” زینب نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
حرا کی مشکل آسان کر کے زینب اپنی سیٹ پر آ کر بیٹھ گئی۔
پرچے کے بعد حرا بہت خوش تھی، اس نے زینب سے اپنے کئے کى معافى مانگى اور اس کو گلے لگایا۔ اس طرح ان دونو ں کی دوستی کی شروعات ہوئی۔
زینب نے اپنے اچھے اخلاق سے حرا کو بالکل بدل دیا تھا اب حرا بھی زینب کی طرح پڑھائی میں آگے آگے ہوتی ۔زینب بھی اب جان گئی تھی کہ حرا دل کی بری نہیں۔
زينب کو احساس ہو گیا تھا کہ اصل کاميابى تو برائى کا بدلہ اچھائى سے دينے میں ہے۔

حصہ