“یاسر!اٹھو بیٹا ، کلاس کا ٹائم ہوگيا ہے”،امی نے پیار سے ياسر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“بس ابھی اٹھتا ہوں…”،يہ کہہ کر یاسر دوسری طرف کروٹ لے کر پھر سے سو چکا تھا۔پندرہ منٹ کے بعد امی نے دوبارہ یاسر کو جگایا کہ اب تو کلاس شروع ہونے میں محض پانچ منٹ ہى رہ گئے تھے۔یہ سنتے ہى یاسر فوراً اٹھا، منہ ہاتھ دھو کر سیدھا لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا۔امی نے وہیں اسے دودھ کا گلاس تھمایا ،اتنی دیر میں یاسر کی کلاس شروع ہوگئى۔
“امی میری اردو کی کاپی نہیں مل رہی”،یاسر نے کمرے سے ہى آواز دی۔
“بیٹا اپنے بیگ میں دیکھو، وہیں ہوگی”
بمشکل تمام یاسر کی کاپی آخرکار اس کی اپنى دراز سے برآمد ہوئى اور وہ اردو کی کلاس لینے لگا۔ دو گھنٹے کے بعد اس کی آن لائن کلاس ختم ہوئى، وہ اپنا تمام سامان وہیں میز پر چھوڑ چھاڑ کرکھیل میں لگ گیا۔کچھ دیر بعد گیند سے دل بھرا تو اس نے گیند کو کک ماری اور برآمدے میں رکھے پودوں کو پانی ڈالنے میں مصروف ہو گیا۔دوپہر کا کھانا بھی اس نے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ہی کھایا ۔پھر مدرسے جانے کا وقت ہو گیا۔مگر اب مسئلہ يہ تھا کہ وہ کل کہیں سپارہ رکھ کر بھول چکا تھا۔سپارے کى تلاش میں کافى دير ہوچکى تھى اور جس کا ڈر تھا،وہى ہوا يعنى کہ قاری صاحب نے ڈانٹ سے تواضع کى، گھر واپس آ کر وہ سائیکل لے کر باہر نکل گیا۔مغرب سے ذرا پہلے گھر آیا تو امی نے اسے اسکول کا کام مکمل کرنے کو کہا جس پر وہ ٹال مٹول ہی کرتا رہا۔جب سے آن لائن کلاسز شروع ہوئى،تب سے ہى یاسر کافی لاپرواہ ہو گیا تھا۔اسى لیے آج اس کے ابو نے سمجھانے کى غرض سے اپنے کمرے میں بلايا۔
“آپ کو معلوم ہے کہ میں اپنا سامان ان کى جگہ پر کيوں رکھتا ہوں؟”
“تاکہ سامان وقت پر ملے اور آپ آفس سے ليٹ نہ ہوں..”،ياسر نے اپنى منطق لڑائى۔
اس کے ابو مسکرا دئيے”بالکل نقصان تو ميرا ہى ہوگا؟”
ياسر نے اثبات میں سر ہلا ديا
“بيٹے اگر آپ اپنی چیزیں ترتیب سے نہیں رکھیں گے تو اس میں نقصان آپ کا بھی ہے۔”
ياسر بغور اپنے بابا کو سن رہا تھا۔
” اگر آج آپ اپنے چھوٹے چھوٹے کام ذمہ داری سے نہیں کریں گے، تو کل بڑے کام بھی نہیں کر پائو گے۔اور آپ کی لاپرواہی کسی نقصان کا سبب بھی سکتی ہے۔”
ياسر بابا کے قريب آبيٹھا۔
“جیسے کسی عمارت کو بنانے کے لیےاس کی ہر اینٹ اپنی جگہ پر ہونی چاہیےتب ہی عمارت خوبصورت اور مضبوط بنے گی…اگر اینٹیں الٹے سیدھے انداز سے لگائی جائیں تو کيا ہوگا؟
بابا نے سوال کيا۔
عمارت پھر بھى بن جائے گى”،ياسر معصوميت سے بولا۔
“عمارت بن تو جائے گی لیکن دیکھنے میں نہ خوبصورت ہوگى اور نہ ہی مضبوط…”
“بالکل اسی طرح ہماری چھوٹی چھوٹی عادتیں یہ بات طے کرتی ہیں کہ بڑے ہو کر ہماری شخصیت کیسی ہوگی۔”
“اب مجھے کیا کرنا چایئے؟”،ياسر کو پريشانى ہوئى تو اس نے پوچھا۔
بابا نے بڑے پيار سے بولے” فکر کى بات نہیں..آپ ايسا کريں کہ ایک چھوٹا سا چارٹ بنائيں جس میں کوئی پانچ کام لکھو، جو سونے سے پہلے کرنے ہیں۔دو ہفتے بعد ان میں تین کام اور بڑھا لو تو اس طرح آپ میں ذمہ دارى کى عادت ہو جائے گی۔”
اپنے بابا کی بات پر عمل کرنے کا عزم لے کر یاسر اٹھا اور کاغذ قلم لینے کے لیے کمرے کی طرف تیزی سے بڑھ گيا۔