میں نے منیر نیازی کو گیت لکھنا سکھایا ہے
گرد آلود میدان کے اس پار جھاڑیوں اور درختوں میں سانس لیتے اَن گنت قیدی بنگلوں میں سے ایک کے دروازے پر وہ بوڑھا اپنی عینک سے یقینا دندھدلائی ہوئی دنیا کو دیکھتا ہوگا۔ شور مچاتے بچوں اور شام کی خاموشیوں کے بیچ سے گزرتا ہوا میں وہاں پہنچا اور بوڑھے نے گردن موڑ کر دیکھا۔ اس کی آنکھیں کیسی عجیب سی ہیں۔ میں نے خواہ مخواہ سوچا۔ لگتا ہے آنکھوں میں آنسو بھرے ہوں لیکن یہ بہتے کیوں نہیں۔ مجھے اس سے کیا۔ دو قدم آگے بڑھ کر میں نے اس سے کچھ پوچھا اور سوال سنتے ہی چیخ اٹھا ’’آپ کو کس نے بتایا؟‘‘
’’مجھے معلوم ہے جناب۔ میں سو فیصد یقین سے کہہ سکتا ہوں۔‘‘
’’بالکل غلط۔‘‘ بوڑھا بحث پر آمادہ ہوگیا ’’کون قیوم نظر میں تو اسے جانتا بھی نہیں۔‘‘
اس کے رویے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مجھے فوراً یہاں سے چلتا کر دینا چاہتا ہے لیکن میں نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ ان سے ملے بغیر میرا یہاں سے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دفعتاً بوڑھے کو میں نے غور سے دیکھا۔ وہ اپنی زندگی کے تمام خوب صورت دن اچھے اور برے دن گزار چکا تھا۔ وہ عام سے کپڑوں میں ملبوس قطعی طور پر ان بوڑھوں سے مختلف نہ تھا جو اپنے ننھے منے پوتوں کی انگلیاں تھانے قریب کی دکان پر جاتے ہیں اور اپنے پنشن کے پیسوں سے انہیں بسکٹ اور ٹافیاں خرید کر دیتے ہیں۔
’’قیوم نظر آپ ہی ہیں۔‘‘ میں نے اچانک کہہ دیا اور اتنا سننا تھا کہ وہ پھٹ پڑا۔ ’’ارے تم نے یہ کیا کہہ دیا۔ آخر تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے اور کیا تم راہ چلتے کسی بھی شخص کو قیوم نظر کہہ دو گے۔ اس کا حق تمہیں کس نے دیا ہے؟‘‘
اب میں پریشان ہو چلا تھا۔ میں نے الجھن سے بچنے کے لیے اس سے نرمی سے گفتگو کی کہ اس گھر میں قیوم نظر نامی جو شخص بھی رہتا ہے مجھے اس سے ملنا ہے۔ وہ تھوڑی دیر تک سوچ میں ڈوبا رہا۔ اس کی آنکھیں اب بالکل ڈبڈبا چکی تھیں جیسے وہ اب رو دے گا یا شاید اب تک چپکے چپکے روتا رہا ہو۔
’’فرمایئے!‘‘ میں مڑا لیکن بوڑھا وہیں جما ہوا تھا۔ ’’اچھا تو میرا اندازہ درست تھا۔ بے حد خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘ میں نے مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ اسے تھما دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے ہاتھ بری طرح سے ہل رہے ہیں‘ جھٹکے کھا رہے ہیں۔ تب کھلا کہ ان کے ہاتھوں میں رعشہ ہے۔ ’’ہاں تو میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ میں ایک اخبار سے منسلک ہوں اور وقتاً فوقتاً ادبی شخصیات سے انٹرویو کرتا رہتا ہوں اور میں حاضر ہوا تھا کہ آپ سے بھی…‘‘
’’ہاہاہا… مجھ سے۔‘‘ وہ خوب زور سے ہنسے ’’مجھ میں اب کیا رکھا ہے۔ ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام۔ ایک مرگ ناگہانی اور ہے۔‘‘ ہاہاہا۔‘‘
’’بہت مایوسی جھلکتی ہے آپ کی گفتگو سے‘ لیکن کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مایوسی؟ ہاں ایک بار جسٹس ایس اے رحمن نے بھی مجھ سے یہی کہا تھا کہ قیوم نظر تمہاری شاعری میں تو بڑی رجائیت ہے لیکن تمہاری گفتگو اتنی قنوطی کیوں ہے؟‘‘ میں نے اس کا جواب دیا ’’ہر شاعر ایک خول کے اندر بند ہوتا ہے اور وہ اپنی شاعری میں اس خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے۔ شاید میں اندر سے رجائیت پسند ہوں۔ کل ہی میں نے ایک قبرستان دیکھا اور سوچا کہ اگر میں کل یا آج مر جائوں تو یہ بہتر ہوگا کہ مجھے اسی قبرستان میں دفن کر دیا جائے۔ لاش کو ایک شہر سے دوسرے شہر لے جانے میں بڑی دشواری ہوتی ہے‘ ہوتی ہے ناں؟ ہاہاہا۔‘‘
’’کیا اس انوکھے آدمی کے قہقہوں میں مجھے بھی ساتھ دینا چاہیے؟‘‘ میں نے دل میں سوچا۔ ’’کیا اس کے قہقہے سچے ہیں؟‘‘
’’چلو خط ڈال آئیں۔‘‘ قیوم نظر کے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں نے دو لفافوں کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا اور اب ہم ایک خوش گوار اور سنسان سی سڑک پر چلے جا رہے تھے۔ ’’ایک دن ن م راشد میرے پاس آیا‘ کہنے لگا ’’قیوم نظر مجھے شراب پلائو۔‘‘ میں نے کہا ’’راشد خدا کا خوف کرو‘ میں مسلمان آدمی ہوں‘ میں شراب نہیں پیتا۔ وہ بہ ضد ہو گیاکہ کچھ بھی ہو جائے میں آج تم ہی سے شراب پیوں گا۔ اور فیض کے کیا حال ہیں؟‘‘ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایک دم ٹھٹھک کر پوچھا۔ ’’سنا ہے اس نے خود کو جلا وطن کیا ہوا ہے۔ یہ سب بیٔ کار باتیں ہیں۔ کیا رکھا ہے۔ میں نے اتنی کتابیں لکھی ہیں‘ میں انہیں نہ لکھتا تو کیا فرق پڑ جاتا؟ ایں؟‘‘ انہوں نے ہاتھ ملا کر زور سے قہقہہ لگایا۔ ’’کوئی فرق نہیں پڑتا نا؟‘‘
ان کے لہجے میں اتنا خلوص تھا کہ مجھے اخلاقاً متفق ہونا پڑا۔
بے روزگاری اور ترقی پسند تحریک
’’میں پہلے اپنی بات مکمل کروں گا۔‘‘ اگلے دن دوپہر ایک بجے اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے انہوں نے کہا ’’پھر جو جی میں آئے پوچھ لینا۔‘‘
’’جی‘ بہت بہتر۔‘‘ میں نے سعادت مندی سے جواب دیا۔ انہوں نے بولنا شروع کیا۔
’’1930ء میں بے روزگاری عروج پر تھی۔ ن م راشد ایم اے اکنامکس ہو کر ڈی سی ملتان کے دفتر میں ملازم تھے۔ کرشن چندر ایم اے ایل ایل بی کرکے بے کار پھرتا تھا۔ راجندرسنگھ بیدی ڈاک خانے میں مہریں لگاتے تھے۔ مختار صدیقی اور یوسف ظفر کلرک تھے۔ ادیبوں کا اتنا بڑا طبقہ معاشی نا آسودگی کا شکار نہ ہوتا تو شاید ترقی پسند تحریک جنم نہ لیتی۔ سب کلرک تھے۔ بے روزگاری کے مارے ہوئے تھے۔ سرمایہ داری سے نفرت کرتے تھے اور ترقی پسندی انہیں اپیل کرتی تھی۔ وہ سوچتے تھے۔ ’’اچھا تو سرمایہ داروں کے پاس اتنا مال ہے اور ہم بے کار پھر رہے ہیں۔‘‘ خود میرا یہ حال تھا کہ میرے والد خواجہ رحیم بخش سرکاری ملازم تھے۔ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ چار بھائیوں اور دو بہنوں کا بوجھ بہ حیثیت بڑے بھائی مجھ پر آپڑا تھا۔ میں نے ٹیوشن اور ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم مکمل کی تھی اور اورینٹل کالج لاہور سے اردو میں ایم اے کرنے کے بعد اکائونٹنٹ جنرل آفس میں لگا ہوا تھا۔ 1939ء میں جنگ چھڑی تو احکامات آئے کہ جو جوان جنگ پر جانا چاہے کمیشن لے سکتا ہے۔ میں نے درخواست دے دی لیکن اکائونٹنٹ جنرل پنجاب جے جی بھنڈاری نے مجھے فوج میں جانے سے روک دیا۔ اس نے اوپر خط لکھ دیا کہ اس لڑکے کو ہم نے کام سکھایا ہے لہٰذا اسے پانچ سال تک باہر نہ جانے دیا جائے۔ یہ تھا ہمارے ساتھ ہندوئوں کا برتائو۔ اے جی آفس میں مسلمانوں کے کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہونے کے لیے گریجویٹ ہونا لازمی تھا۔ ایک واقعہ سنو! ایک دن میں ایک فائل ٹھیک کرانے اپنے دفتری نصیرالدین کے پاس گیا تو کیا دیکھتا ہوں اس کی جگہ ایک خوب صورت سکھ کوٹ ٹائی پہنے بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے نصیرالدین کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو دو ماہ کی چھٹی پر گیا ہوا ہے اور اس کی جگہ میں آ گیا ہوں۔ میں ٹھٹھک گیا۔ ایک سوٹڈ بوٹڈ آدمی چپڑاسی کے عہدے پر۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ اس کی عمر زیادہ ہو رہی تھی اور وہ سرکاری ملازمت کے لیے نااہل ہوتا جارہا تھا۔ اس لیے اے جی صاحب کی سفارش پر اسے یہاں ملازمت مل گئی ہے اور نصیرالدین کو چھٹی پر بھیج دیاگیاہے۔ وہ سکھ ڈبل ایم اے تھا۔
سردار عبدالرب نشتر کی عنایت
میں اے جی آفس کی نوکری سے سخت اکتا گیا تھا لیکن اس سے گلو خلاصی بھی ممکن نہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد کیپٹن فیاض محمود نے میں فوج کمیشن کے امتحان کی زبان کو اردو کرنے کے لیے ایک ریسرچ سینٹر کھولا۔ اس میں انہوں نے ممتاز مفتی یوسف ظفر اور دیگر لکھنے پڑھنے والوں کو جمع کیا۔ مجھے بھی ملازمت کی آفر کی۔ میں تیار ہو گیا لیکن اکائونٹنٹ جنرل یعقوب شاہ نے فیاض محمود سے یہ کہہ کر مجھے ریلیز کرنے سے معذرت کر لی کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ جناب لیاقت علی خان مجھے چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔ میں سخت پریشان تھا۔ اتفاق سے یونی ورسٹی کے مشاعرے میں میری ملاقات گورنر پنجاب عبدالرب نشتر سے ہوگئی۔
پوچھا ’’کہاں ہوتے ہو؟‘‘
جواب دیا ’’اے جی آفس میں۔‘‘
پھر پوچھا ’’خوش ہو؟‘‘
میں نے برملا کہا ’’جی نہیں۔‘‘ یہ سن کر الگ لے گئے اور وجہ دریافت کی۔ اے جی آفس سے میری ناخوشی کا سن کر انہوں نے اپنی ذاتی کوشش سے میرا تبادلہ محکمہ تعلیم میں کروا دیا۔ تقسیم سے پہلے اے جی آفس کی ملازمت کا ایک دل چسپ واقعہ اب بھی یاد آتا ہے۔ میرے ہندو سپرنٹنڈنٹ نے اس زمانے کے اے جی آئی عثمانی صاحب کو رپورٹ دی کہ قیوم اپنی سیٹ پر بہت کم بیٹھتا ہے اور اِدھر اُدھر گھومتا شعر وغیرہ کہتا پھرتا ہے‘ جس پر عثمانی صاحب نے مجھے ایک خط جاری کر دیا جسے میں نے پھاڑ کر پھینک دیا۔ چپڑاسی خط کے پھٹے ہوئے ٹکڑوں کو لے کر عثمانی صاحب کے پاس پہنچ گیا اور انہیں بتایا کہ دیکھیے آپ کے خط کے ساتھ کیا حشر کیا گیا ہے۔ عثمانی صاحب نے مجھے فوراً طلب کیا اور کہا کہ میرا خط آپ کو مل گیا؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پوچھا آپ نے اس کا کیا کیا؟ میں نے جواب دیا ’’وہ میرے پاس محسوس ہے‘ میں جلد ہی جواب دے دوں گا۔‘‘ اس پر انہوں نے اپنی میز کی دراز سے پھٹے ہوئے ٹکڑوں کو نکالا اور مجھے دکھا کر پوچھا ’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں خاموش رہا۔ اس کے بعد انتہائی ناراض ہو کر کہنے لگے ’’سنا ہے آپ شعر وغیرہ بھی کہتے ہیں‘ تخلص کیا ہے آپ کا؟‘‘
میں نے بتایا ’’نظر تخلص ہے۔ پورا نام قیوم نظر ہے۔ (میں دفتر میں قیوم نظر سے معروف نہ تھا) اس پر کہنے لگے ’’میاں میں آپ سے آپ کا تخلص پوچھ رہا ہوں۔‘‘
عرض کی ’’میں تخلص ہی بتا رہا ہوں۔‘‘
بولے ’’قیوم نظر نام کے تو ایک مشہور شاعر پہلے سے موجود ہیں‘ آپ کہاں سے قیوم نظر ہو گئے؟‘‘
میں نے کہا ’’جناب میں وہی قیوم نظر ہوں۔‘‘
انہیں یقین نہیں آیا‘ فرمایا ’’یہ آپ ہی کا شعر ہے کہ آئیں جمال ناز دکھا کر چلی گئیں۔‘‘
میں نے عرض کی ’’سو فیصدی یہ میرا ہی ہے۔‘‘
یہ سن کر اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور انتہائی ادب و احترام سے کہا ’’براہِ کرم تشریف رکھیے۔‘‘ عثمانی صاحب اچھے آدمی تھے۔ اسی دوران اعلان کرا دیا کہ دفتر میں سب کام کریں گے اور قیوم نظر صرف شعر کہے گا کیوں کہ کام تو سب کر سکتے ہیں شعر صرف قیوم نظر ہی کہہ سکتا ہے۔
اے جی آفس میں مشفق خواجہ کے والد خواجہ وحید صاحب نے میری بڑی مدد کی۔ وہ مجھے ہمیشہ اے جی آفس چھوڑنے کا مشورہ دیتے تھے۔ لائل پور ریڈیو اسٹیشن میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے لیے آسامی نکلی۔ زیڈ اے بخاری صاحب وہاں تھے میں نے درخواست دے دی۔ بخاری صاحب نے کہا ’’اچھا ہوا تم آ گئے‘ کیوں کہ اب تمہارا ہی انتخاب ہوگا۔‘‘ میں نے کہا کہ لیکن مجھے اے جے آفس والے ریلیز نہیں کریں گے جس پر انہوں نے فرمایا کہ یعقوب شاہ میرے رشتے دار ہیں‘ میں ان سے بات کر لوں گا۔ اگلے دن وہ کہنے لگے قیوم نظر تم فوراً چلے جائو کیوں کہ تم نے مجھے نہیںٍ بتایا تھا کہ تم اتنے اہم آدمی ہو۔ میں نے یعقوب شاہ (اکائونٹنٹ جنرل) سے بات کی تھی‘ وہ کہہ رہے تھے کہ میں ایک دن میں تمہارے شہر میں پانچ سو شاعر پیدا کر دوں گا لیکن تم پانچ سال میں قیوم نظر جیسا ایک آڈیٹر پیدا نہیں کر سکتے۔ خدا کا شکر ہے کہ سردار نشتر صاحب نے مجھے اے جی آفس سے نجات دلا دی۔
۔1956ء میں مجھے یونیسکو کا کریٹیو رائٹر کا فیلو شپ ملا اور اس طرح مجھے فرانس‘ اٹلی‘ اسپین‘ ہالینڈ‘ سوئٹزر لینڈ‘ روم وغیرہ گھومنے اور وہاں کے تخلیقی فن کاروں سے ملاقات کا موقع ملا۔
ژاں پال سارتر سے جھڑپ
فرانس میں‘ میں نے وہاں کی اکیڈکیآف لیٹرز سے کہا کہ میں سارتر سے ملنا چاہتا ہوں۔ اکیڈمی نے جواب دیا ’’سارتر کا موڈ ٹھیک نہیں ہے‘ اس لیے اس سے نہ ملنا ہی بہتر ہوگا۔ البتہ آپ چاہیں تو ہم آپ کو فرانس کے دوسرے ادیبوں سے ملوا دیتے ہیں۔‘‘ لیکن میں صرف سارتر سے ملنا چاہتا تھا۔ انہوں نے مجھے میرے ارادے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی اور متعد دلائل دیے کہ مثلاً سارتر صرف فرانسیسی میں بات کرتا ہے۔ اس پر آج کل ہنگری کے لیے چند ہ جمع کرنے کا بھوت سوار ہے وغیرہ۔ خیر سارتر سے ملاقات کا اہتمام ہوا۔ میں نے دیکھا وہ ایک چھوٹے سے قد کا ٹھگنا آدمی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے آپ کے مضامین کا ترجمہ کیا ہے لیکن کچھ الجھنیں پیدا ہوگئی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سے گفتگو کروں تاکہ وہ دور ہو سکیں۔ سارتر کہنے لگا ’’دیکھو مسٹر ادب میں الجھنیں تو پیدا ہوتی رہتی ہیں اور دور بھی ہوتی رہتی ہیں۔ تم یہ بتائو کہ ہنگری کے لیے کیا کر رہے ہو؟‘‘ یہ سن کر پہلے تو میں ششدر رہ گیا‘ پھر میں نے پلٹ کر اس سے کہا کہ ’’یہ فرمایئے کہ آپ نے کشمیر کے لیے کیا کیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا کہ اس نے کشمیر کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ تب میں نے کہا کہ جب آپ کشمیر کے لیے کچھ نہیں کرسکتے تو میں ہنگری کے لیے کچھ کیوں کروں؟ میرے اس جواب سے سارتر ناراض ہو گیا اور غصے سے انگریزی سے فرانسیسی پر اتر آیا۔ میں نے اس سے کہا ’’مسٹر سارتر آپ انگریزی بولیں کیوں کہ مجھے فرانسیسی نہیں آتی اور اگر آپ مسلسل فرانسیسی بولتے رہے تو پھر میں اردو میں شروع ہو جائوں گا۔‘‘
وہ پستہ قد آدمی نخوت سے بولا ’’آپ بے شک شروع ہو جائیں۔‘‘
میں نے کہا ’’لیکن اردو آپ کی سمجھ میں نہیں آئے گی۔‘‘
وہ کہنے لگا ’’آپ کو اس سے مطلب‘ مجھے آئے یا نہ آئے۔ یہ میرا مسئلہ ہے‘ آپ اپنا کام کیے جایئے۔‘‘
غرض خاصی تلخی پیدا ہوگئی۔
اس نے کہا ’’میں نے تمہیں نہیں پڑھا ہے۔‘‘
میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ اگر تم نے مجھے نہیں پڑھا تو تم نے پڑھا کیا ہے۔ اطلاعاً عرض ہے کہ یونیسکو میری نظموں کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ کر چکی ہے۔
اس جھڑپ کا گویا نتیجہ تو ہاتھ نہیں آیا لیکن وہ بھی کیا یاد کرے گا کہ وہ اکیلا نہیں تھا کچھ اور بھی لوگ تھے۔ (میں تذبذب میں رہا کہ یہ سارا بیان سچ ہے یا گپ؟)
شاعری کی تربیت
میں نے آپ کو سب کچھ بتایا لیکن میں نے اپنے شعری ذوق کی تربیت کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں۔ بات یہ ہے کہ شاعری کی ابتدا میں نے کالج ہی کے زمانے سے کر دی تھی۔ میں نے ایک دن اپنے استاد شمس العلما تاجور نجیب آبادی صاحب سے پوچھا کہ میں کیا تخلص رکھوں؟ بولے ’’میں اپنے شاگردوں میں اب مزید کسی باغی کا اضافہ کرنا نہیں چاہتا۔ ن م راشد‘ اختر شیرانی‘ کنور مہندر سنگھ اور دیگر کئی نامور شعرا ان کی شاگردی میں رہ چکے تھے۔) میں نے وعدہ کیا کہ میں بغاوت نہیں کروں گا اس پر مشورہ دیا کہ ’’نظر تخلص کر لو۔‘‘ مجھے یہ تخلص اچھا نہیں لگا۔ چند روز بعد میں نے پھر یہی سوال دہرایا۔ دوبارہ فرمایا ’’نظر تخلص ٹھیک رہے گا۔‘‘ میں نے عرض کی ’’جناب نظر تو مونث ہے۔‘‘ کہنے لگے ’’تم مونث ہو یا مذکر؟‘‘ بہ صد احترام کہا ’’مذکر‘‘ پھڑک کر بولے ’’تمہارے نام کے ساتھ لگ کر یہ بھی مذکر ہو جائے گا۔‘‘ پھر انہوںنے میری شاعری کی اصلاح کے لیے مجھے سید عابد علی عابد صاحب کے پاس بھیجا۔ میں نے انہیں اپنی غزل سنائی۔ فرمایا ’’نئی کہہ کر لائو۔‘‘ نئی کہہ کر لایا پھر زمین دی اور کہا ’’ اس پر کہو۔‘‘ اس زمین پر بھی خامہ فرسائی کی۔
کہا ’’سنائو۔‘‘ سنایا۔ کہا ’’اس زمین پر میں نے بھی غزل کی ہے‘ سنو گے؟‘‘ عرض کی ’’ارشاد‘‘ غزل سنانے کے بعد کہنے لگے ’’کس کی غزل اچھی ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’آپ کی۔‘‘ فرمایا ’’یاد رکھو جو چیز اچھی ہے صرف اسے رہنا چاہیے باقی کو ضائع کر دینا چاہیے۔‘‘ میں نے ان کی غزل رکھ لی اور اپنی پھاڑ دی اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔ عابد صاحب نے میری غزل پر کبھی کوئی اصلاح نہیں دی۔ ایک دن ایک مصرع طرح بتایا۔ اس کا قافیہ ’’من تن‘‘ اور ردیف ’’رہتا ہے‘‘ تھا۔ اس مصرع طرح پر اپنی غزل سنائی اور کہا پندرہ دن بعد اس پر اپنی غزل لکھ کر لانا۔ جب میں اپنی غزل لے گیا تو سننے کے بعد اس مصرع طرح پر اپنی غزل دے کر کہنے لگے ’’لو اب اسے پھاڑ دو‘ تمہاری غزل زیادہ اچھی ہے۔‘‘ اس کیریکٹر کے لوگ تھے۔
جب میں پہلی بار چھپا
کالج کے زمانے میں مجھ پر سید عابد علی عابد صاحب کا رنگ بری طرح غالب تھا۔ ایک غزل میں ان کے پاس کہہ کر لے گیا:۔
انجمن میں ان کی دل پر اختیار آساں نہیں
مشکلوں کا میری کر لینا شمار آساں نہیں
عابد صاحب نے کہا‘ غزل بہت اچھی ہے۔ میں نے ’’ادبی دنیا‘‘ میں چھپوانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دو ماہ بعد انہوں نے اطلاع دی کہ میری غزل چھپ چکی ہے۔ یہ میری پہلی مطبوعہ غزل تھی جو 1933ء میںچھپی تھی۔ لیکن اس کے ایڈیٹر منصور علی خاں کا کہنا ہے کہ قیوم نظر نام کا سرے سے کوئی آدمی ہی نہیں ہے اوریہ غزل سید عابد علی عابد کی ہے۔ خیر انہوں نے ایڈیٹر سے ہماری ملاقات کرائی تو بات صاف ہوئی۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ اور غزلیں بھی چھپوا دیں۔ فرمایا ’’سال میں صرف دو بار چھپو لیکن وقار کے ساتھ۔‘‘ میری تربیت میں انہوں نے بڑی سختی برتی تھی۔ ایک دن میں نے انہیں بتایا کہ میں نے گیت لکھے ہیں۔ بولے ’’قیوم نظر! میں تمہیں شریف آدمی سمجھتا تھا‘ گیت لکھنا توطوائفوں اور کنجریوں کا مشغلہ ہے۔‘‘
قصہ گیت لکھنے کا
کچھ عرصے بعد میرا جی سے ملاقات ہوئی۔ کہنے لگے تم نے گیت لکھے ہیں۔ میں گیتوں کا مجموعہ چھاپنا چاہتا ہوں‘ تم بھی اپنے گیت دو۔ مِیں نے کہا استاد نے منع کیا ہے‘ بولے جو یاد آئے وہی لکھ دینا۔ میں نے ایک گیت نہیں لکھ کر دیا۔ میرا جی نے کتاب بھی چھاپ ڈالی۔ ایک روز میرا جی بولے ’’لو جی قیوم نظر سنو! گیتوں والی کتاب کی پہلی گاہک اس علاقے سے آئی ہے جسے تم پسند نہیں کرتے یعنی ہیرا منڈی سے۔‘‘ سال گزر گیا میرا جی نے کہا کہ قیوم نظر وہ عورت پھر آئی تھی اور اس نے کتاب منہ پر مار دی اور کہا کہ سوائے ایک گیت کے کتاب کا اور کوئی گیت میرے طبلے پرپورا نہیں اترتا اور قیوم نظر وہ گیت تمہارا گیت ہے۔
سیکھ لیا جی دکھ سہنا
ٹک ٹک تکنا چپ چپ رہنا
سپنوں کا جادو ٹوٹ گیا
تکتے تکتے چندر ما کو جی تاروں چھوٹ گیا
حلقہ ارباب ِ ذوق اور میں
آپ نے حلقہ اربابِ ذوق کے بارے میں مجھ سے پوچھا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ بات میں نے تابش صدیقی کی زبانی سنی ہے کہ جب وہ کالج میں بی اے میں پڑھتے تھے تو ان کے ذہن میں ایک انجمن کا خاکہ تھا کہ دوست بیٹھ کر لکھنے لکھانے کی باتیں کریں۔ ان کے دوستوں میں نصیر احمد ایک شخص تھے جو انجمن ساز قسم کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے ملنے والوں سے بات کی اور ایک انجمن تشکیل کی۔ اس کی پہلی میٹنگ نذیر نیازی کے گھر ہوئی۔ نذیر نیازی کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں آم کھلائے تھے لیکن میٹنگ میں شریک نہیں ہوا تھا۔ نذیر صاحب نصیر احمد کے بھائی تھے۔ ابتدا میں جو لوگ شامل ہوئے ان میں تابش صدیقی‘ نصیر احمد‘ غلام علی‘ اکرام قمر‘ اختر ہوشیار پوری‘ محمد آصف‘ محمد افضل‘ حفیظ ہوشیار پوری‘ شیر محمد اختر اور کالج کے دیگر لڑکے۔ انہوں نے انجمن داستان گویاں بنائی جس میں صرف افسانے پڑھے جاتے تھے اور وہ بیٹھ کر اس کی تعریفیں کرتے تھے اور آخر میں شعر پڑھے جاتے تھے مزید واہ واہ کرنے کے لیے ان کی میٹنگ باری باری مختلف گھروں میں ہوتی تھی۔ بعد میں شیر محمد اختر کے بھائی محمد زمان کی دکان لاہور میں ایبٹ روڈ پر واقع تھی۔ وہ اتوار کو اپنی دکان بند رکھتےتھے چوں کہ مسلسل گھروں پر میٹنگیں رکھنا ناممکن سا تھا اس لیے یہ لوگ ایبٹ روڈ پر جمع ہونے اور مجلس کرنے لگے۔
اس دوران حفیظ ہوشیار پوری کے کہنے پر حلقے کا نام انجمن داستان گویاں سے تبدیل کرکے ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘ رکھا گیا۔ اس سے پہلے تابش صدیقی مجھ سے ملے تھے کہ میں بھی حلقے میں آیا کروں۔ چنانچہ انجمن کے اجلاس میں‘ میں گیا جو اس زمانے میں اختر ہوشیار پوری کے گھر مصری شاہ میں ہوتی تھی۔ بعد میں تابش نے مجھ سے کہا ’’میرا جی آپ کے دوست ہیں انہیں بھی لایا کریں۔‘‘چنانچہ ایبٹ روڈ پر میرا جی کا آنا جان شروع ہوا۔ اس دوران میں تابش صدیقی سے کہہ چکا تھا کہ یہ تحسین باہمی مجھے اچھی نہیں لگتی۔ اس میں ڈھنگ کی باتیں ہونی چاہئیں۔ اب جب کہ میرا جی آنا شروع ہوئے تو انہوں نے بھی اس بات پر زو ر دیا کہ حلقے میں تنقید ہونی چاہیے۔ لہٰذا افسانوں اور ڈارموں پر تنقید ہونے لگی لیکن نظم اور غزل کو مقدس شے شمارکیا جاتا تھا اور اس پر تنقید نہیں ہوتی تھی۔ آخر ایک دن یہ طلسم بھی ٹوٹ گیا اور شاعری پر بھی تنقید کے آغاز کا تہیہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں زیادہ مخالفت پرانے لوگوں کی جانب سے کی گئی۔ ان میں حرماں خیر آبادی‘ شمس العلما تاجور نجیب آبادی‘ سید امتیاز علی تاج اور حکیم احمد شجاع قسم کے لوگ شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ حلقے میں جمع ہونے والے لڑکے اس بات کے اہل نہیں کہ وہ شعر پر صحیح رائے زنی کر سکیں لیکن حلقے والوں کو اس بات سے اتفاق نہ تھا اور بالآخر حلقے میں پہلی بار یوسف ظفر نے اپنی نظم سید عابد علی عابدکی زیر صدارت تنقید کے لیے پیش کی یوں حلقے میں نثر و نظم پر تنقید ہونے لگی۔
۔1940ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں حلقے میںسب ہی قسم کے لوگ آنا جانا شروع ہو گئے تھے یہاں تک کہ بعد میں فیض احمد فیض‘ ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر‘ صوفی تبسم‘ امتیاز علی تاج‘ پنڈت ہری چند اختر اور دوسرے بہت سے لکھنے والے شامل ہو گئے تھے۔ ہم نے حلقے کی ایک ورکنگ کمیٹی بنائی تھی اور یوں اس کی تشکیل سیکرٹری‘ جوائنٹ سیکرٹری اور تین دوسرے اراکین کیا کرتے تھے۔ حلقے کا تمام کاروبار میٹنگیں برپا کرنا‘ نوٹسیں دینا مجلس منتظم کے سپرد تھا۔ مجلس انتظامیہ میں شروع میں جن لوگوں نے بہت کام کیا اور اس کو ایک خاص نہج پر ڈھالا ان میں میرا جی‘ قیوم نظر خضوصی حیثیت رکھتے تھے۔ مجلس انتظامیہ کے ذمے یہ فرض بھی عائد تھا کہ حلقے کے لیے ایسی پالیسی اور لائحہ عمل بنائے اور تجویز کرے جو بہ یک وقت اپنے مستقبل اور ماضی سے ہم آہنگ ہوں۔ حلقے کے اغراض و مقاصد میںسب سے اہم شق تھی نئے لکھنے لکھانے والوں کی تعلیم و تفریح۔ علاوہ ازیں اردو زبان اور اس کے لکھنے والوں کے حقوق کا تحفظ بھی ہمارے مقاصد میں شامل تھا۔ ترقی پسندوں کے بالکل برعکس ہمارا کہنا تھا کہ جو جی چاہے لکھو لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ ادب پروڈیوس کرو۔ ہمارا بنیادی کام ادب تخلیق کرنا ہے اور ادب کا معیار مقامی نہیں بین الاقوامی ہے۔ ہمارے دوسر اس پر خفا ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود وہ آتے رہے۔ مثلاً احمد ندیم قاسمی‘ ظہیر کاشمیری وغیرہ۔ تقسیم سے پہلے حلقے کی شاخیں ایک طرف دلی میں تھیں تو دوسری طرف سری نگر میں۔
حلقے نے 1841ء میں پہلی مرتبہ ایک شعری مجموعہ ایڈیٹ کیا اور اس کا نام رکھا ’’1941ء کی بہترین نظمیں‘‘ اس کے مرتبین میں میرا جی‘ قیوم نظر اور یوسف ظفر شامل تھے۔ جب یہ مجموعہ مارکیٹ میں آیا اور اس کی ایک کاپی علی گڑھ پہنچی تو وہاں کے شعرا نے اخترالایمان‘ اسرار الحق مجاز‘ معین احسن جذبی اور ان کے ہم نوائوں نے اسے دیکھا اور اس کی کاپیاں خرید کر سرِ راہ جلائیں اور اس کی راکھ کو جوتوں سے بکھیرا۔ اس لیے کہ اس انتخاب میں اگرچہ بعض ترقی پسند بھی شامل تھے لیکن نظریاتی اعتبار سے یہ مجموعہ ان کے قواعد کے مطابق نہ تھا۔ حلقے نے ایسے مجموعے ہر سال شائع کیے اور یہ بہت مقبول ہوئے۔ ان مجموعوں میں صرف انہی نظموںکا انتخاب چھپتا تھا جو ملک بھر کے مختلف رسائل اور اخبارت میں چھپتی تھیں۔ منتخب ہونے والی نظموں میں خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ کوئی نظم اس وجہ سے باہر نہ رہ جائے کہ لکھنے والا حلقے کے اصولوں سے متفق نہیں ہے۔ اس لیے وہ نظم اگر ادبی معیارات پر پوری اترتی تو حلقے کے انتخاب میں جگہ پا لیتی خواہ اس کا لکھنے والا کوئی کیوں نہ ہو۔ اس انتخاب میں ن م راشد‘ معین احسن جذبی‘ فیض احمد فیض کی نظمیں‘ میرا جی‘ یوسف ظفر‘ مختار صدیقی اور دوسرے حلقے کے ممبروں کے دوش بہ دوش شائع ہوتی تھیں۔ حلقہ ارباب ذوق کا خیال تھا کہ ترقی پسندی کا لفظ غلط فہمی میں ڈالنے والا ہے کیوں کہ ہر انسان خواہ کسی مسلک سے تعلق رکھتا ہو‘ ترقی پسند ہے لیکن انجمن ترقی پسند مصنفین کے نزدیک حلقے کی یہ بات قابل قبول نہ تھی۔ ان کے خیال میں صرف وہی لوگ ترقی پسند کہلانے کے مستحق تھے جو ایک خاص نظریاتی زاویہ نظر رکھتے ہوں اور وہ زاویہ بعض دوسرے ملکوں سے درآمد کیا گیا تھا۔ جنگ سے پہلے انہوں نے ہماری چیزین چھاپنے پر پابندی لگا دی تھی اس کے باوجود ہم ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ آج کل جیسی صورت حال نہ تھی۔
حلقۂ ارباب ذوق روبہ زوال کیوں ہوا؟
گزشتہ دس پندرہ برس کے عرصے میں حلقہ زوال پذیر ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں جس زاویہ نظر کے خلاف حلقہ ابتدائی تیس برس سے لڑتا رہا ہے‘ اسی زاویہ نظر نے بالآخر حلقے میں سیند لگائی اور ان لوگوں نے حلقے کے پرانے کارکنوں کی پیرانہ سالی یا بکھر جانے کے باعث اس میں اپنے نظریات شامل کرنے شروع کر دیے یہاں تک کہ حلقے کی دو شاخیں ہوگئیں جن میں ایک گروپ اپنے آپ کو حلقہ اربابِ ذوق سیاسی اور دوسرا خود کو حلقہ ارباب ذوق ادبی کہنے لگا اور یہ تقسیم اب تک جاری ہے۔
سب سے پہلے یہ تقسیم اس وقت عمل میں آئی جب یوسف ظفر کی موت کے بعد حلقے کے اجلاس میں شہرت بخاری نے کہا کہ یوسف مرزا حلقے کے بنیادی رکن تھے اس لیے تعزیت کے بعد اجلاس برخاست کیا جائے لیکن انور سجاد اور شہزاد احمد نے اجلاس برخاست کرنے کی مخالفت کی جس پر شہرت بخاری‘ جو حلقے کا سیکرٹری تھا‘ حلقے کا اجلاس برخاست کرکے ٹی ہائوس چلا گیا لیکن لوگ بیٹھے اجلاس چلاتے رہے گو اختلاف تو درپردہ کافی عرصے سے چلے آرہے تھے یہ موقع مل گیا انہیں علیحدگی کا۔ شہرت بخاری ٹی ہائوس میں حلقہ چلاتے رہے لیکن بھٹو صاحب کا قلع قمع ہوا تو شہرت بخاری اور منو بھائی نے اپنا حلقہ بند کر دیا لیکن امجد الطاف نے اس کی مخالفت کی اور مقدمہ جاری رہا اور اب تو حلقہ تین گروپوں میں بٹ گیا ہے۔
میرا جی سے میری ملاقات
ہاں میں یہ بتانا بھول گیا کہ میرا جی سے میری پہلی ملاقات کب کہاں اور کیسے ہوئی؟ اچھا ہوا آپ نے یاد دلایا۔ ’’ادبی دنیا‘‘ میں بسنت سہائے اور میرا جی کے نام سے تنقیدی مضامین چھپتے تھے جو مجھے بہت پسند آتے تھے۔ میں مولانا صلاح الدین احمد کے پاس پہنچا کہ میرا جی کا پتا کروں کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے۔ انہوں نے پرسوں آنے کا کہا اور جب میں اس روز پہنچا تھوڑی دیر بعد ہی میرا جی آگئے۔ میں نے میرا جی سے کہا میں آپ کو تلاش کرتا پھر رہا ہوں۔ میرا جی نے کہا سچ پوچھیے تو میں خود آپ ک ڈھونڈ رہا ہوں۔ آپ کی نظمیں اچھی لگتی ہیں لیکن میں ان کے موضوعات سے متفق نہیںہوں۔ ملتے رہیے شاید کچھ بہتری ہوسکےپھر میری ان سے دوستی ہوگئی۔ میری اس دوستی پر تاجور صاحب اور عابد صاحب بے حد ناراض ہوئے۔ انہوں نےکہا کہ ایک اچھا شاعر کھو گیا ہے لیکن میرا جی نے تو مجھے ایک اور ہی دنیا دکھا دی۔ وہ مجھے پبلک لائبریری لے گیا۔ اس کا ممبر بنا دیا۔ لے جا کر شیلف دکھایا اور بتایا کہ تم ابھی تک کیٹس اور شیلی میں الجھے ہوئے ہو‘ تم ڈبلیو ایچ آرڈن کو پڑھو۔
وہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ’’جائزہ نظم‘‘ کے تحت ایک نظم منتخب کرکے ہر ماہ اس پر ریویو لکھتے تھے اور میں اور میرا جی لارنس گارڈن میں بیٹھ کر گفتگو کیا کرتے تھے اور نظموں کے نئے نئے معنی و مطالب ڈھونڈتے اور ان کے اسالیب پر غور کرتے تھے۔ میں نے میرا جی سے بہت کچھ سیکھا۔ (جاری ہے)