سوُد کے متعلق اسلامی احکام
یہ ہماری بحث کا عقلی پہلو تھا۔ اب ہم نقل کے اعتبار سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کی رُو سے ’’سود‘‘ کیا شے ہے‘ اس کے حدود کیا ہیں‘ اسلام میں اس کی حرمت کے جو احکام وارد ہوئے ہیں وہ کن کن معاملات سے متعلق ہیں اور اسلام اس کو مٹا کر انسان کے معاشی حالات کو کس قاعدہ پر چلانا چاہتا ہے۔
ربوٰ کا مفہوم
قرآن مجید میں سود کے لیے ’’ربوٰ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مادہ ’’رَبَ وَ‘‘ ہے جس کے معنی میں زیادت‘ نمو‘ بڑہوتری اور چڑھنے کا اعتبار ہے۔ رَبَا بڑھا اور زیادہ ہوا ربا فلان البرابیۃ: وہ ٹیلے پر چڑھ گیا۔ رَبَا فَلاَنَ السویق: اس نے ستو پر پانی ڈالا اور ستو پھول گیا۔ ربا فی حجرہ: اس نے فلاں کی آغوش میں نشوو نما پایا۔ ادبی الشیٔیَ چیز کو بڑھایا۔ ربوۃ: بلندی‘ رابیہ: وہ زمین جو عام سطح پر بلند ہو۔ قرآن مجید میں جہاں جہاں اس مادّے کے مشتقات آئے ہیں سب جگہ زیادت اور علو اور نمو کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ مثلاً: ’’جب ہم نے اس پر پانی برسایا تو وہ لہلہا اٹھی اور برگ وبار لانے لگی۔‘‘ (الحج:5)۔
’’اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘ (الرعد 17)۔
’’جھاگ جو اوپر اٹھ آیا تھا اس کو سیلاب بہا لے گیا۔‘‘ (الحاقہ۔10)۔
’’اس نے ان کو پھر زیادہ سختی کے ساتھ پکڑا۔‘‘ (النحل:92)۔
’’تاکہ ایک قوم دوسری قوم سے بڑھ جائے۔‘‘ (المومنون: 50)۔
’’ہم نے مریم اور مسیح کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی۔‘‘
اسی مادّے سے ’’ربوٰ‘‘ ہے اور اس سے مراد مال کی زیادتی اور اس کا اصل سے بڑھ جانا ہے۔ چنانچہ اس معنی کی تصریح بھی خود قرآن میں کر دی گئی ہے۔ ’’اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو… اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہیں اپنے راس المال (یعنی اصل رقم) لینے کا حق ہے۔‘‘ (البقرہ: 279)۔
’’اور جو سود تم نے دیا ہے تاکہ لوگوںکے اموال بڑھیں تو اللہ کے نزدیک اس سے مال نہیں بڑھتا۔‘‘(والروم: 39)۔
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اصل رقم پر جو زیادتی بھی ہوگی وہ ’’ربوٰ‘‘ کہلائے گی۔ لیکن قرآن مجید نے مطلق ہر زیادتی کو حرام نہیں کیا ہے۔ زیادتی تو تجارت میں بھی ہوتی ہے۔ قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے‘ اسی لیے وہ اس کو ’’الربوٰ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہلِ عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملہ کی اس خاص نوعیت کو اسی اصطلاحی نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ مگر وہ ’’الربوٰ‘‘ کو بیع کی طرح جائز سمجھتے تھے جس طرح موجودہ جاہلیت میں سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے آکر بتایا کہ راس المال میں جو زیادتی بیع سے ہوتی ہے وہ اس زیادتی سے مختلف ہے جو ’’الربوٰ‘‘ سے ہوا کرتی ہے۔ پہلی قسم کی زیادتی حلال ہے اور دوسری قسم کی زیادتی حرام۔
’’سود خواروں کا یہ حشر اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی ’’الربوٰ‘‘ کے مانند ہے‘ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال اور ربوٰ کو حرام کیا ہے۔‘‘ (البقرہ: 275)۔
چونکہ ’’الربوٰ‘‘ ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام تھا اور وہ معلوم و مشہور تھی‘ اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی اور صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا گیا کہ ’’اللہ نے اس کو حرام کیا ہے‘ اسے چھوڑ دو۔’’
جاہلیت کا ربوٰ
زمانۂ جاہلیت میں ’’الربوٰ‘‘ کا اطلاق جس طرز معاملہ پر ہوتا تھا‘ اس کی متعدد صورتیں روایات میں آئی ہیں۔
قتادہ کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰ یہ تھا کہ ایک شخص‘ ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقتِ مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔
مجاہد کہتے ہیں جاہلیت کا ربوٰ یہ تھا کہ ایک شخص کسی سے قرض لیتا اور کہتا کہ اگر تو مجھے اتنی مہلت دے دو میں اتنا زیادہ دوں گا۔ (ابن جریر: جلد سوم‘ صفحہ 62)۔
ابوبکر جماص کی تحقیق یہ ہے کہ اہل جاہلیت ایک دوسرے سے قرض لیتے تو باہم یہ طے ہو جاتا کہ اتنی مدت میں اتنی رقم اصل راس المال سے زیادہ ادا کی جائے گی۔ (احکام القرآن: جلد اوّل)۔
امام رازی کی تحقیق میں اہل جاہلیت کا یہ دستور تھا کہ وہ ایک شخص کو ایک معین مدت کے لیے روپیہ دیتے اور اس سے ماہ بہ ماہ ایک مقرر رقم سود کے طور پر وصول کرتے رہتے۔ جب وہ مدت ختم ہو جاتی تو مدیون سے راس المال کا مطالبہ کیا جاتا۔ اگر وہ ادا نہ کر سکتا تو پھر ایک مزید مدت کے لیے مہلت دی جاتی اور سود میں اضافہ کر دیا جاتا۔ (تفصیر کبیر جلد دوم: صفحہ 351)۔
کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں‘ انہی کو اہلِ عرب اپنی زبان میں ’’الربوٰ‘‘ کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید نازل ہوا۔
بیع اور ربوٰ میں اصولی فرق
اب اس امر پر غور کیجیے کہ بیع اور ربوٰ میں اصولی فرق کیا ہے‘ ربوٰ کی خصوصیات کیا ہیں جن کی وجہ سے اس کی نوعیت بیع سے مختلف ہو جاتی ہے اور اسلام نے کس بنا پر اس کو منع کیا ہے۔
بیع کا اطلاق جس معاملے پر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بائع ایک شے کو فروخت کے لیے پیش کرتا ہے‘ مشتری اور بائع کے درمیان اس شے کی ایک قیمت قرار پاتی ہے اور اس قیمت کے معاوضے میں مشتری اس شے کو لے لیتا ہے۔ یہ معاملہ دو حال سے خالی نہیں ہوتا یا تو بائع نے وہ چیز خود محنت کرکے اور اپنا مال اس پر صرف کرکے پیدا کی ہے یا وہ اس کو کسی دوسرے سے خرید کر لایا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ اپنے راس المال پر‘ جو اس نے خریدنے یا مہیا کرنے میں صرف کیا تھا‘ اپنے حق المحنت کا اضافہ کرتا ہے اور یہی اس کا منافع ہے۔
اس کے مقابلے میں ربوٰ یہ ہے کہ ایک شخ اپنا راس المال ایک دوسرے شخص کو قرض دیتا ہے اور یہ شرط کر لیتا ہے کہ میں اتنی مدت میں اتنی رقم تجھ سے راس المال پر زائد لوں گا۔ اس معاملے میں راس المال کے مقابل راس المال ہے اور مہلت کے مقابلے میں وہ زائد رقم ہے جس کی تعین پہلے بطور ایک شرط کر لی جاتی ہے۔ اسی زائد رقم کا نام سود یا ربوٰ ہے جو کسی خاص مال یا شے کا معاوضہ نہیں بلکہ محض مہلت کا معاوضہ ہوتا ہے۔ اگر بیع میں بھی قرار پا چکی ہو اور پھر مشتری سے یہ شرط کی جائے کہ ادائے قیمت میں مثلاً ایک مہینے کی دیر ہونے پر قیمت میں اتنا اضافہ کر دیا جائے گا تو زیادت سود کی تعریف میں آجائے گی۔
پس سود کی تعریف یہ قرار پائی کہ قرض میں دیے ہوئے راس المال پر جو زائد رقم مدت کے مقابلے میں شرط اور تعین کے ساتھ لی جائے وہ ’’سود‘‘ ہے۔ راس المال پر اضافہ‘ اصافہ کی تعین مدت کے لحاظ سے کیے جانا اور معاملے میں اس کا مشروط ہونا یہ تین اجزائے ترکیبی ہیں جن سے سود بنتا ہے اور ہر وہ معاملہ قرض جس میں یہ تینوں اجزا پائے جاتے ہوں‘ ایک سودی معاملہ ہے‘ قطع نظر اس سے کہ قرض کسی بار آور کام میں لگانے کے لیے لیا گیا ہو یا کوئی شخص ضرورت پوری کرنے کے لیے اور اس قرض کا لینے والا آدمی غریب ہو یا امیر۔
بیع اور سود میں اصولی فرق یہ ہے کہ
-1 بیع میں مشتری اور بائع کے درمیان منافع کا مبادلہ برابری کے ساتھ ہوتا ہے کیوںکہ مشتری اس چیز سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اس نے بائع سے خریدی ہے اور بائع اپنی اس محنت‘ ذہانت اور وقت کی اجرت لیتا ہے جس کو اس نے مشتری کے لیے وہ چیز مہیا کرنے میں صرف کیا ہے۔ بخلاف اس کے سودی لین دین میں منافع کا مبادلہ برابری کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سود لینے والا تو مال کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے جو اس کے لیے بالیقین نفع بخش ہے‘ لیکن اس کے مقابلے میں سود مدیون کو صرف مہلت ملتی ہے جس کا نفع بخش ہونا یقینی نہیں۔ اگر قرض دار نے اپنی شخصی ضرورتوں پر خرچ کرنے کی غرض ے قرض لیا ہے تب تو مہلت اس کے لیے نافع نہیں بلکہ یقینا نقصان دہ ہے۔ اور اگر اس نے یہ قرض تجارت یا زراعت یا صنعت و حرفت میں لگانے کی غرض سے لیا ہے تو مہلت میں جس طرح اس کے لیے نفع کا امکان ہے اسی طرح نقصان کا بھی امکان ہے لیکن قرض خواہ بہر حال اس سے نفع کی ایک مقرر مقدار لے لیتا ہے‘ خواہ اس کو اپنے کاروبار میں فائدہ ہو یا نقصان۔ پس سود کا معاملہ یا تو ایک فریق کے فائدے اور دوسرے کے نقصان پر ہوگا ہے یا ایک کے یقینی اور متعین فائدے اور دوسرے کے غیریقینی اور غیر متعین فائدے پر۔
-2 بیع و شراء میں بائع مشتری سے خواہ کتنا ہی زیادہ منافع لے‘ بہرحال وہ صرف ایک ہی مرتبہ لیتا ہے۔ لیکن سود کے معاملے میں راس المال دینے والا مسلسل اپنے مال پر منافع وصول کرتا رہتا ہے اور وقت کی رفتار کے ساتھ ساتھ اسی کا منافع بڑھتا چلا جاتا ہے‘ مدیون نے اس کے مال سے خواہ کتنا ہی فائدہ حاصل کیا ہوا‘ بہر طور اس کا فائدہ ایک خاص حد تک ہی ہوگا۔ مگر اس کے معاوضے میں دائن جو نفع اٹھاتا ہے اس کے لیے کوئی حد نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی تمام کمائی‘ اس کے تمام وسائل ثروت اس کے تمام مایحتاج پر محیط ہو جائے اور پھر بھی اس کا سلسلہ ختم نہ ہو۔
-3 بیع و شرا میں شے اور اس کی قیمت کا مبادلہ ہونے کے ساتھ ہی معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مشتری کو کوئی چیز بائع کو واپس دینی نہیں ہوگی لیکن سود کے معاملے میں مدیون راس المال لے کر صرف کر چکتا ہے اور پھر اس کو وہ صرف شدہ چیز دوبارہ حاصل کرکے سود کے اضافے کے ساتھ واپس دینی پڑتی ہے۔
-4 تجارت اور صنعت و حرفت اور زراعت میں انسان محنت اور ذہانت صرف کرتا ہے اور اس کا فائدہ لیتا ہے مگر سودی کاروبار میں وہ محض اپنا ضرورت سے زائد مال دے کر بلا کسی محنت و مشقت اور صرفِ مال کے دوسروں کی کمائی میں شریک غالب بن جاتا ہے۔ اس کی حیثیت اصطلاحی ’’شریک‘‘ کی نہیں ہوتی جو نفع و نقصان دونوں میں شریک ہوتا ہے اور نفع میں جس کی شرکت نفع کے تناسب سے ہوتی ہے بلکہ وہ ایسا شریک ہوتا ہے جو بلا لحاظ نفع و نقصان اور بلا لحاظ تناسب نفع اپنے مقرر اور مشروط منافع کا دعویدار ہوتا ہے۔