اردو افسانے میں غلام عباس کا مقام متعین کرنا تو سکہ بند نقادوں کی ذمہ داری ہے۔ ہماری رائے میں تو غلام عباس نے جس زمانے میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا اردو کی ادبی دنیا میں منٹو، عصمت، بیدی اور کرشن چندر کا طوطی بول رہا تھا۔ ان بڑے اور بے مثال افسانہ نگاروں کی موجودگی اور مقبولیت میں اپنی راہ الگ کرنا، اپنی انفرادیت کو منوانا کوئی آسان نہ تھا لیکن غلام عباس نے مطالعے، محنت و ریاضت سے اپنے فن میں ایسی مہارت پیدا کی ماجرے کے بیان، کردار نگاری، واقعے کی جزئیات اور چھوٹی چھوٹی بامعنی تفصیلات سے افسانے کی فضا کی تعمیر اور پھر کہانی کے پلاٹ میں اپنے زرخیز تخیل اور مشاہدے کے تال میل سے حقیقت کا ایسا رنگ بھرا کہ ہر افسانہ گویا زندگی کے کسی ایک پہلو کی گہری جیتی جاگتی تصویر بن گیا۔ ’’آنندی‘‘، ’’کتبہ‘‘، ’’اوورکوٹ‘‘ ایسے ہی افسانے ہیں جنہیں عالمی معیار کی کہانیوں کی صف میں باآسانی رکھا جاسکتا ہے۔
غلام عباس کو سن تیس کی دہائی کے افسانہ نگاروں کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس عہد کے قد آور افسانہ نگاروں کی تقسیم یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ اس طرح کے افسانہ نگار تو وہ تھے جن کی ذات بھی افسانوی تھی۔ افسانہ اور ان کی زندگی میں کوئی بہت تفاوت نہ تھا۔ جو زندگی وہ گزارتے تھے، جو زندگی ان کے اردگرد چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، وہ اس میں پوری طرح ڈوبے ہوئے تھے، زندگی سے بے حجابانہ، بے باکانہ، اٹوٹ وابستگی ہی ان کے افسانوں کا اصل ماخذ تھا، وہ جو کچھ دیکھتے، جو اذیتیں بھگتے، جن دُکھوں کو اپنے وجود سے گزارتے وہی کچھ لکھ دیتے۔ چناں چہ ان کے افسانے میں زندگی کا براہِ راست اظہار، سیدھے سبھائو عکاسی ملتی ہے، وہ کرداروں کے ایسے رُخ دکھاتے ہیں جس سے انسانی روح، انسانی دماغ، مزاج اور کیفیات ہی کو نہیں خود گلے سڑے رواجوں اور سال خوردہ سماجی روایات و اقدار کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے افسانے کی گہرائی میں اُترنے کے لیے دماغ سوزی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ان کے افسانوں کے کردار، واقعات اور واقعات میں اچانک آنے والے موڑ پوری طرح اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ یہ افسانے ہمارے ساتھ ساتھ چلتے ہیں جیسے زندگی ساتھ ساتھ چلتی ہے، ہنساتی اور اس سے کہیں زیادہ رلاتی، جھنجھلاتی ہوئی۔ منٹو اور عصمت ایسے ہی افسانہ نگار تھے اور ان کی مقبولیت یا رسوائی کا سبب ہی یہ تھا کہ انہوں نے زندگی کو برہنہ اور بے باکی کی آنکھ سے دیکھا اور سچائی اور سفاکی سے اپنے افسانوں میں دکھا دیا۔ ایسا کڑوا زہریلا سچ جس سے زندگی سے ہی نہیں خود اپنے آپ سے گھن اور نفرت کے جذبات پیدا ہوں، کب قابل برداشت اور گوارا ہوئے ہیں۔ اس کے برعکس وہ افسانہ نگار جن کی اپنی زندگی اور جن کی اپنی ذات کے گرد کوئی ایسا ہالہ نہ تھا جسے افسانوی کہا جاسکے لیکن جو افسانے کے فن کے پارکھ، زندگی اور انسان اس کی حدتوں، خواہشوں، مجبوریوں اور نارسائیوں کو گہرائی میں اُتر کر دیکھتے اور سمجھتے تھے اور پھر نہایت محنت اور و ریاضت کے تھکا دینے والے تخلیقی عمل سے گزر کر زندگی کو افسانہ بناتے تھے، پلاٹ پر گھنٹوں دنوں سوچتے، کرداروں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھتے، اس میں تہہ واری پیدا کرنے کے لیے نت نئے پہلو تلاش کرتے، جزئیات اور تفصیلات میں باریک بینی سے حقیقت کا رنگ بھرتے تو اس طرح ان کے افسانوں میں بہ ظاہر غیر اہم واقعات تخیل کی آمیزش اور پھر لکھنے میں غیر معمولی احتیاط، توجہ، حساسیت، لکھنا اور لکھ کر کاٹنا، کئی کئی بار لکھنا تو گویا تکنیک اور کرافٹ پر یہ جاں کاں محنت رائیگاں تو نہ جاتی تھی پھر جو افسانہ وجود میں آتا اسے پڑھنے اور اس کی تہہ تک اُترنے کے لیے باذوق اور تربیت یافتہ قاری کا ہونا ضروری ٹھہرا۔
راجندر سنگھ بیدی اور غلام عباس ایسے ہی افسانہ نگار تھے جنہوں نے پہلے اپنے آپ کو خود افسانہ نگاروں سے منوایا اور پھر ان کی ہر دلعزیزی بتدریج بڑھتی گئی۔ انہوں نے منٹوں اور عصمت کی طرح چونکایا اور نہ ہراساں ہی کیا۔ ہاں سوچنے پر، افسانہ پڑھنے کے بعد ایک طرف رکھ کر غور کرنے کی تحریک دی۔ تو اردو افسانے کے یہ دو الگ اور مختلف رنگ ہیں۔ چناں چہ محمد عسکری نے غلام عباس پر اپنے مضمون میں ان کی ناقدری یا اہمیت نہ دیے جانے کا شکوہ کیا تو وجہ یہی تھی کہ غلام عباس کا فن، منٹو اور عصمت کی طرح زندگی کا برجستہ اظہار نہ تھا۔ ان کا فن بے پناہ ریاضت اور محنت سے نکھرا تھا اور اس کی معنویت تک عام قاری کی رسائی بھی وقت مانگتی تھی۔ چناں چہ انہیں صحیح معنوں میں اہمیت اور توجہ ان کے انتقال سے چند برس پہلے ہی ملی۔ ان کے شاہ کار افسانوں کا جادو سر چڑھ کر بول چکا تھا۔ خصوصاً ’’آنندی‘‘ نے اشاعت کے ساتھ ہی انہیں منٹو، عصمت اور بیدی کے فن کی بلندی تک پہنچادیا تھا لیکن عام پزیرائی میں وقت لگا۔ جب میں انٹرویو کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ دس پندرہ انٹرویو دے کر تھک چکے تھے، پی ٹی وی ان پر گھنٹے بھر کا پروگرام ٹیلی کاسٹ کرچکا تھا۔ اس تھکن اور اُکتاہٹ کا مظاہرہ انہوں نے اس طرح کیا کہ مجھ سے پہلی ملاقات میں وہ کسی ادبی موضوع یا خود اپنے فن پر بات کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہوئے اور ایسے اخباری موضوعات پر گفتگو کرتے رہے جن سے کم سے کم مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان کے اطمینان کے لیے میں بے دلی سے نوٹس لیتا رہا اور کچھ کہے بغیر چپ چاپ واپس چلا آیا۔ چند روز بعد میں نے پھر انہیں فون کرکے حاضری کی اجازت لی۔ انہوں نے بہ خوشی اجازت دے دی۔ اس ملاقات میں، میں نے ان پر واضح کیا کہ وہ مجھے ان انٹرویو نگاروں میں شمار نہ کریں جن کو وہ اب تک انٹرویو دے چکے ہیں۔ میں اُن سے ایک خالص ادبی انٹرویو لینے کا خواہش مند ہوں، اگر وہ دینا چاہیں تو میں حاضر ہوں ورنہ پچھلی گفتگو کے نوٹس میں لے کر آیا ہوں اسے آپ کے حوالے کرکے واپس چلا جاتا ہوں۔ غلام عباس صاحب نے میری معروضات توجہ سے سُنی پھر انہوں نے اپنی گفتگو کے نوٹس کو اپنے ہی ہاتھوں سے چاک کرکے پھینکا اور مجھے انٹرویو نئے سرے سے کرنے کی ہدایت کی۔ انہیں میری صاف گوئی بھاگئی تھی جس کا اظہار بھی کیا۔ انٹرویو سادہ طریقے سے ہوا، و مزاجاً ویسے بھی مجھے سادہ سے لگے۔ نہ میں نے ان سے جرح کی اور نہ انہیں کٹہرے میں کھڑا کرکے تابڑ توڑ سوالوں اور اعتراضوں کی بوچھاڑ کی۔ یہ سلوک، یہ انداز میرے انٹرویو کا ہر ادیب کے ساتھ نہیں ہوتا۔ ان ہی کے ساتھ ہوتا ہے جو ادیب کے علاوہ کسی سرکاری ذمہ داری یا سماجی مرتبے پر فائز رہے ہوں اور ان ذمہ داریوں اور فرائض کے حوالے سے عام ذہنوں میں جو شکوک و شبہات اور شکایات موجود ہوتی ہیں، یہ خاکسار ان کی ترجمانی کرکے ایسے اصحاب فن کو یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ اگر وہ سچے اور اچھے ہیں تو اپنا دفاع کریں۔ انٹرویو کا میرا یہ انداز کوئی نیا اور انوکھا نہیں۔ اور یانافلاچی، اطالیہ کی مشہور انٹرویور اپنی جارحانہ انداز کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کے انٹرویو کی کتاب Interview with History میں نے اپنے انٹرویو کی کتاب کی اشاعت کے بعد پڑھی۔ اور ویسے بھی اس نے ادیبوں کے نہیں سربراہان مملکت اور عالمی سیاست دانوں کے انٹرویو کیے ہیں۔ مجھے اپنی انٹرویو نگاری کی بابت طول نگاری کی چنداں ضرورت نہیں۔ یہ چند باتیں وضاحتاً یوں لکھنی پڑیں کہ ہمارے ایک دوست ادیب نے جن سے قلبی تعلق ہے، اپنے انٹرویو کی کتاب میں غلام عباس کے مذکورہ واقعے کا تذکرہ توڑ مروڑ کر کیا ہے اور خاکسار کی انٹرویو نگاری پر نام لیے بغیر کڑی گرفت کی ہے جس کا انہیں پورا حق ہے۔ لیکن ریکارڈ کی درستی ضروری تھی، اس لیے اوپر کی وضاحت کو نظر انداز کرنا مناسب نہ تھا۔
غلام عباس نے رخصت ہوتے ہوئے مجھے اپنی دو کتابیں ’’جزیرئہ سخنوراں‘‘ اور ’’دھنک‘‘ کے ساتھ اشاعت کے لیے پطرس بخاری کی غیر مطبوعہ رائے جو ان کی فن افسانہ نگاری کی بابت تھی، عنایت تھی۔ چوں کہ یہ رائے پطرس مرحوم کی کتاب کے پچھلے ایڈیشنوں میں چھپ چکی ہے اس لیے خوف طوالت سے اسے حذف کردیا گیا ہے۔ غلام عباس کی زندگی میں ان کا انٹرویو اخبار میں چھپ گیا لیکن جب کتاب چھپی تو وہ دنیا سے جاچکے تھے۔ وہ افسوس ناک دن یکم نومبر 1982ء کا تھا۔
کوائف کے مطابق غلام عباس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ پہلا افسانہ ’’جلاوطن‘‘ جنوری 1925ء میں رسالہ ’’ہزار داستان‘‘ میں چھپا۔ یہ افسانہ ٹالسٹائی کے ایک افسانے سے اخذ کردہ تھا۔ ان کا پہلا طبع زاد افسانہ ’’مجسمہ‘‘ 1932ء میں ’’کارواں‘‘ کے سال نامے میں شائع ہوا۔ ان کی ادبی شہرت ’’آنندی‘‘ سے استوار ہوئی جو 1939ء میں لکھا گیا۔
غلام عباس مرحوم کے ادبی سفر کا آغاز پندرہ سال کی عمر میں ہوا۔ بچپن ہی میں انہوں نے اردو کا کلاسیکی ادب پڑھ ڈالا تھا۔ ابتدا میں سرشار اور شرر سے متاثر ہوئے۔ غیر ملکی افسانہ نگاروں میں چیخوف اور موپساں کے اثرات قبول کیے۔ صحافی کی حیثیت سے ’’پھول‘‘ ’’تہذیب نسواں‘‘ اور ’’آہنگ‘‘ کی ادارت کی۔ 1948ء میں پنجاب ایڈوائری بورڈ لاہور نے ان کی ادبی خدمات پر نقد ادبی انعام سے نوازا۔ 1967ء میں حکومت پاکستان نے ستارئہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا۔ افسانوی مجموعے ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ پر آدم جی ایوارڈ ملا۔
تصانیف:
-1 جزیرئہ سخنوراں، 1941ء، -2آنندی، 1947ء، -3 ’’الحمرا کے افسانے (انتخاب)، -4 جاڑے کی چاندنی، 1960ء، -5 کن رس، 1969ء، -6 دھنک (ناولٹ) 1969ء، -7 گوندنی والا تکیہ (ناول) 1983ء، -8 زندگی، نقاب، چہرے، 1984ء، -9 چاند تارا، -10 سابق صدر ایوب خان کی خود نوشت ’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ کا ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے عنوان سے کیا۔
طاہر مسعود: آپ نے اپنے کسی انٹرویو میں کہا تھا کہ جو شخص لکھنا جانتا ہے وہ افسانہ بھی لکھ سکتا ہے۔ کیا آپ اپنے اس بیان کی وضاحت کرنا پسند کریں گے؟
غلام عباس: افسانہ نگار ہونے کا مطلب آپ کے اندر صلاحیت کا موجود ہونا ہے کہ آپ ان واقعات کو بیان کرنے پر قادر ہیں جنہیں آپ نے دیکھا اور محسوس کیا ہے۔ فرض کیجیے آپ کسی نئے شہر میں پہنچ کر وہاں سے اپنے دوستوں کو خط لکھتے ہیں اور انہیں اس نئے شہر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ آپ نے وہاں کیا دیکھا۔ کن لوگوں سے ملے۔ ان لوگوں کا رہن سہن کیا ہے۔ وہ کس قسم کے کپڑے پہنتے ہیں وغیرہ۔ اگر آپ چھ سات صفحات پر مشتمل خط میں یہ سب کچھ خوب صورتی اور کامیابی سے بیان کردیتے ہیں تو اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ میں قوت مشاہدہ اور اسے بیان کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ زیادہ آسان زبان میں، میں اس بات کو یوں کہوں گا کہ افسانہ، ادب کی تمام اصناف میں سب سے سہل صنف ہے اور اس کی مبادیات کو اس طرح سیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جس طرح شاعری کی صنف کو۔ ایک شاعر کے لیے عروض کا جاننا ضروری ہے۔ ایک تاریخ کی کتاب لکھنے کے لیے مواد جمع کرنا اور سوانح عمری تحریر کرنے کے لیے سوانح نگار کو تمام حالات زندگی سے واقفیت حاصل ہونا لازمی ہے لیکن افسانہ نویسی کے لیے یہ تمام باتیں ناگزیر نہیں۔ صرف قوت مشاہدہ اور قوت بیان ہی کافی ہے۔
طاہر مسعود: آپ نے افسانہ لکھنے کے لیے جن شرائط کا ذکر کیا اس پر تو ’’حور‘‘ اور ’’زیب النساء‘‘ میں شائع ہونے والے افسانے بھی پورے اترتے ہیں، آپ ان افسانوں کو کیا کہیں گے؟
غلام عباس: میں نے چھلانگ لگانے کی تکنیک بتادی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنی لمبی چھلانگ لگائی جائے۔ میں نے صرف افسانہ لکھنے کی تکنیک بتائی ہے اور کہا ہے کہ افسانہ لکھنے میں وہ مشکلات نہیں ہیں جو اور اصناف کو درپیش ہیں۔ اس میں ایک بڑی بات یہ ہے کہ جسے فکشن کہتے ہیں وہ عموماً ایک خیالی اور جھوٹی کہانی ہوتی ہے لیکن اس کا مقصد بعض افسانہ نویسوں کے نزدیک (جن میں چیخوف کو بھی شامل کرتا ہوں) مطلق سچائی اور خلوص دل سے سچائی کا بیان ہے۔ چیخوف کا کمال تھا کہ اس نے اپنے مقصد کو نہایت خوب صورتی سے نبھایا۔ اس نے فکشن میں سچائی کو اس طرح سے بیان کیا کہ کوئی اور مصنف اس فن میں اس سے بازی نہ لے جاسکا۔
طاہر مسعود: آپ ایک اچھے افسانے کی کیا تعریف کریں گے؟
غلام عباس: محض واقعات بیان کردینے سے افسانہ نہیں بنتا۔ اس میں زندگی کا کوئی نہ کوئی پہلو ایسا ہونا چاہیے جو اتفاق سے آپ کو نظر آگیا ہو لیکن لوگوں کی نظروں سے چھپا ہو، مثلاً میرے قریبی عزیز ہیں، وہ اپنے بچے کو چھوٹی عمر سے لائق فائق بنانا چاہتے تھے، لہٰذا بچے کو دو تین برس کی عمر میں میر اور غالب کے اشعار یاد کرائے گئے۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو تعلیم دینا اچھا ہوتا ہے لیکن اس کی بھی ایک خاص حد ہوتی ہے۔ شیکسپیئر یا غالب کے اشعار جن بچوں کو بچپن ہی میں رٹائے جاتے ہیں وہ عموماً بڑے ہو کر نالائق نکلتے ہیں۔ یہ میرا اپنا تجربہ ہے، چناں چہ بچوں کو اس قسم کی باتیں سکھانے پر خیال آیا کہ ایک بندر والا بھی تو یہی کرتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بندر والا روزی کمانے کے لیے ایسا کرتا ہے جب کہ والدین صرف داد حاصل کرنے کے لیے۔ لہٰذا میں نے ایک افسانہ لکھا ’’بندر والا‘‘ اس میں، میں نے اسی خیال کو بیان کیا۔ ظاہر ہے افسانہ صرف سوچ سوچ کر نہیں لکھا جاسکتا۔
آج سے تیس چالیس برس پہلے کی بات ہے۔ ایڈیٹر ’’نیرنگ خیال‘‘ حکیم یوسف حسن نے ایک کتاب چھاپی کہ ’’میں افسانہ کس طرح لکھتا ہوں‘‘، اس میں اُس زمانے کے مشہور لکھنے والوں کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ ایک مختصر مضمون میں لکھنے کا طریقہ بتائیں۔ اس کتاب میں دس پندرہ معروف ادیبوں کے مضامین شامل تھے۔ نیاز فتح پوری اور پریم چند جیسے ادیبوں نے بھی مضامین لکھے تھے۔ منشی پریم چند نے تو یہ لکھا تھا کہ میں کہانیاں اپنے مشاہدات کی بنا پر لکھتا ہوں، کوئی چیز دیکھوں اس میں اصلاح کا پہلو نظر آیا تو کہانی لکھ ڈالی۔ نیاز فتح پوری نے لکھا کہ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو میرے ذہن میں کچھ نہیں ہوتا۔ ایک سادہ ورق ہوتا ہے چناں چہ میں افسانے کی ابتدا کرنے کے لیے پہلے ایک منظر کھینچتا ہوں، رفتہ رفتہ اس منظر میں کردار نمودار ہونا شروع ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ میں قصہ بُنتا ہوں اور قصہ مکمل ہوجاتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس طرح سے افسانہ لکھنے میں وہ کبھی کبھی بہت کامیاب افسانے لکھ لیتے تھے۔ یہی حال منٹو کا تھا۔ منٹو کو یہ دعویٰ تھا کہ آپ اسے کوئی موضوع یا عنوان بتا دیں وہ اس پر افسانہ لکھ ڈالیں گے۔ ایک دفعہ وہ اکڑوں بیٹھے تھے کسی نے کہا ’’منٹو صاحب! یہ نہ بیٹھے اس سے قبض ہو جاتا ہے۔‘‘
منٹو نے جواب دیا ’’بہت اچھا‘ تم نے مجھے بہت اچھا عنوان دیا…‘‘ اور انہوں نے اسی وقت ایک افسانہ لکھنا شروع کر دیا اس کا عنوان تھا ’’قبض۔‘‘
منٹو کو ایک ڈراما لکھنا تھا آل انڈیا ریڈیو کے لیے۔ ہم سب دہلی ریڈیو اسٹیشن پر کام کرتے تھے۔ ایک محفل میں کرشن چندر اور اشک وغیرہ موجود تھے۔ منٹو نے کہا ’’یار بتائو میں کیا لکھوں؟‘‘
کسی نے کہا ’’کبوتری پر لکھ دو۔‘‘ منٹو نے اسی وقت ٹائپ رائٹر پر افسانہ ’’کبوتری‘‘ لکھ مارا‘ لیکن میرا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ میں افسانہ سوچتا نہیں ہوں‘ وہ مجھے خود بہ خود سوجھ جاتا ہے اور جب تک نہیں سوجھتا‘ لکھنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اصل میں افسانہ خود کو سمجھانے کا کوئی خاص نسخہ نہیں ہے۔ مجھے یہ یوں ہی چلتے پھرتے سوجھ جایا کرتا ہے۔ مثلاً میں نے ایک سنگ تراش کی دکان پر سنگ مرمر کا ایک ٹکڑا دیکھا جس پر صرف ایک شخص کا نام لکھا تھا۔ صرف اور خالی نام ہونے کی وجہ سے کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کو کہاں لگایا جائے گا۔ دفتر کے دروازے پر یا دکان پر۔ اس پر مجھے خود بہ خود یہ خیال سوجھا کہ ایک غریب شخص کتبہ بناتا تو اس لیے ہے کہ شاید خدا اس کے دن پھیر دے اور وہ صاحب جائداد بن جائے تو اپنے مکان پر کتبہ لگائے لیکن اس کی یہ حسرت دل ہی میں رہتی ہے اور مرنے کے بعد یہ کتبہ اس کی قبر پر لگا دیا جاتا ہے۔ ’’اوور کوٹ‘‘ کی کہانی کا خیال یوں سوجھا کہ دہلی میں ایک رات کو ہِم ایک موٹر میں نظام الدین اولیا کو جانے والی سڑک پر چلے جارہے تھے۔ مقصد محض تفریح اور گپ بازی تھا۔ کار پطرس بخاری چلا رہے تھے۔ سردی کا موسم تھا۔ میںنے اوور کوٹ پہن رکھا تھا اور گلے پر سلک کا مفلر لپیٹ رکھا تھا۔ یہ اوور کوٹ اور مفلر بالکل ظاہر نہیں ہونے دیتا تھا کہ نیچے میں نے صرف پھٹا ہوا بنیان اور پائجاِمہ پہن رکھا ہے۔ میں اپنے دوستوں کو جو مجھے بلانے کے لیے گھر پر آئے تھے‘ زیادہ دیر انتظار کرانا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے ’’شب خوابی‘‘ کے لباس پر اوور کوٹ اور مفلر پہن لیا تھا۔ موٹر چلی جارہی تھی اور شعر و شاعری پر دل چسپ بحث ہو رہی تھی کہ اتنے میں سڑک کے بیچوں بیچ ایک ٹرک کچھ زیادہ تیز رفتاری سے سامنے آگیا۔ اگر پطرس صاحب جلدی سے موٹر کو ایک طرف نہ کر لیتے تو ٹکر ہو جانے میں کوئی کسر نہ رہ جاتی۔ ہم لوگ بال بال بچ گئے۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ مجھے خیال آیا کہ فرض کرو اگر ٹکر ہوگئی ہوتی اور ہم سب مرے پڑے ہوتے یا زخمی‘ ہمیں اسپتال میں پہنچایا جاتا تو دیکھنے والے یہ دیکھ کر حیران ہوتے کہ سب لوگ تو ٹھیک ٹھاک ہے لیکن ایک شخص نے عجیب حلیہ بنا رکھا ہے کہ اوپر سے قیمتی اوور کوٹ اور مفلر ہے اور اندر سے پھٹا بنیان اور پائجامہ ہے۔
میرا افسانہ ’’آنندی‘‘ بھی اسی قسم کے مشاہدے پرمبنی ہے جو میں نے طوائفوں کے علاقے کی تعمیر نو کے سلسلے میں کیا۔ یہ علاقہ میرے راستے میں تھا اور میں ہر روز دفتر آتے جاتے اسے بنتا سنورتا دیکھتا رہتا۔ مشاہدے کے ساتھ ساتھ تھوڑی سی خیال آفرینی افسانے کو کہاں سے کہاں پہنچا دیتی ہے۔ واقعہ صرف اتنا تھا کہ طوائفو ں کو چاوڑی سے نکال دیا گیا تھا اور میں نے اس طبقے کو شہر سے کوسوں دور ایک اجاڑ مقام پر لے جا پھینکا تھا۔ جب بیس برس بعد ان آبرو باختہ عورتوں کے اردگرد شہر آباد ہوگیا تو اس کی میونسپل کمیٹی نے بھی اپنے علاقے سے انہیں نکالنے کا مطالبہ کر دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہیٔ کہ بعض دفعہ مشاہدہ اپنے طور پر مکمل ہوتا ہے بعض دفعہ اس میں خیال آفرینی کرنی پڑتی ہے۔
طاہر مسعود: لیکن منٹو کے اس روّیے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے کہ موضوع ملا اور کہانی لکھ ماری؟
غلام عباس: بعض شاعری فی البدیہہ مگر اچھا شعر کہتے ہیں۔ میرا خیال ہے یہیں پر آکر ادب صحافت کے قریب آجاتا ہے اور موضوع کے تحت کہانیاں لکھنے میں اور روز کی کالم نویسی میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔
طاہر مسعود: آپ ایک بزرگ اور منجھے ہوئے افسانہ نگار کی حیثیت سے نئے افسانہ نگاروں کو کیا مشورہ دیں گے؟
غلام عباس: مجھے یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے نئے افسانہ نویسوں نے اپنے ہی فن یعنی افسانے کا زیادہ مطالعہ نہیں کیا۔ نئے افسانہ نگاروں میں جو بہت بڑی کمی ہے وہ یہ کہ انہوں نے افسانہ لکھنے سے پہلے اچھے افسانوں کو اچھی طرح سے پڑھا نہیں۔ میری مراد صرف اردو افسانوں سے نہیں ہے بلکہ دنیا کے جلیل القدر افسانوں سے ہے۔ یہیں پر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں افسانے کو نثری ادب کی سب سے بڑی صنف سمجھتا ہوں‘ ناول سے بھی بدرجہا بڑی۔ ناول خواہ کتنا ہی بلند اعلیٰ پائے کا اور اپیک کا درجہ لیے ہوئے کیوں نہ ہو مگر کئی مقام ایسے آتے ہیں کہ پڑھنیے والا پڑھتے پڑھتے زچ ہو جاتا ہے۔ اس میں سب سے عمدہ مثال ٹالسٹائی کا ’’وار اینڈ پیس‘‘ ہے۔ افسانے کا اختصار اور ٹو دی پوائنٹ ہونا اسے ادب کی انتہائی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ دنیا کے عظیم ناول کتنے ہیں تو شاید میں سات‘ آٹھ سے زیادہ نام نہ گنوا سکوں لیکن اگر آپ یہی سوال افسانے کے بارے میں کریں تو میں بغیر توقف کے پچاس‘ ساٹھ نام گنوا سکتا ہوں۔
طاہر مسعود: کیا اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ اچھا ناول لکھنا نہایت مشکل‘ صبر آزما اور محنت طلب کام ہے۔ اس کے برعکس افسانہ ایک نشست میں لکھا جا سکتا ہے اور اسی لیے افسانے زیادہ لکھے گئے اور ناولوں کے مقابلے میں اچھے افسانوں کا تناسب بھی زیادہ ہے۔
غلام عباس: شاید یہی بات ہو لیکن میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ ناول پڑھتے پڑھتے آپ اکتا جاتے ہیں لیکن افسانہ پہلے وار میں گھائل کر دیتا ہے۔ طوالت ناول کی برائی نہیں لیکن اختصار افسانے کی عظمت ہے۔ جرمن‘ روسی اور انگریزی زبان میں بلند پایہ افسانے لکھے گئے ہیں۔ میری نئے افسانے نگاروں کو یہ نصیحت ہے کہ اگر وہ صحیح معنوں میں اچھے افسانہ نگار بننا چاہتے ہیں تو جو وقت انہوں نے ادب کے لیے وقف کر رکھا ہے‘ اس کا تناسب اس طرح ہونا چاہیے مطالعہ 80 فی صد‘ تخلیق ادب 20 فی صد۔ اور یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہنا چاہیے۔
طاہر مسعود: آپ نئے افسانہ نگاروں کو کن مغربی ادیبوں کے افسانوں کا مطالعہ کرنے کی سفارش کریں گے؟
غلام عباس: نئے افسانہ نگاروں کو انگریزی میں ڈی ایچ لارنس کو اور خاص طور پر اس کا افسانہ The Woman who Rode Away اور Captain’s Dollجوزف کانرڈ کا The Heart of Darkness اسی طرح جیمس جوائس کا افسانہ The Death جرمن میں تھامس مان کا افسانہ Death in Venus فرانسیسی زبان میں موپساں کا Duil de Suif روسی میں Ivan Bunin کی کہانی The Gentleman from Sanfransisco کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے ناول ایسی کہانیوں کے مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔
طاہر مسعود: آپ کے تجویز کردہ بیش افسانوں کے عنوانات میں ’’موت‘‘ کا لفظ مشترک ہے‘ اس کا کوئی خاص سبب؟
غلام عباس: (چونک کر) اچھا پھر ایسا کریں کہ اس میں گوگول کی کہانی ’’اوور کوٹ‘‘ شامل کر لیں اور ایک آدھ نام کم کر لیں جس میں موت کا ذکر ہو۔
طاہر مسعود: کافکا نے آپ کو متاثر نہیں کیا؟
غلام عباس: ہاں یاد آیا۔ آپ کافکا کی کہانی ’’قلب ماہیت‘‘ کو ضرور شامل کر لیں۔ نئے افسانہ نویسوں کو کافکا کو ہر صورت میں پڑھنا چاہیے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ عظیم ناول لکھنے کے لیے زندگی کو ایک کل کی حیثیت سے دیکھنے کا ڈھنگ آنا چاہیے جب کہ افسانہ زندگی کے کسی ایک گوشے یا حقیقت کے کسی ایک رُخ کو پیش کرتا ہے اس لیے ناول لکھنے کی ذمہ داری کو قبول کرنا بہت ہمت اور جان جوکھوں کا کام ہے‘ آپ کی کیا رائے ہے؟
غلام عباس: ناول میں کینوس بڑا ہوتا ہے‘ افسانے میں زندگی کا ایک رُخ دیکھا جاتا ہے۔ ناولوں میں زندگی ہر جہت سے بھاگتی‘دوڑتی رہتی سہتی نظر آتی ہے۔ ان کے جلو میں بہت سے کردار ہوتے ہیں‘ اس لیے ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ناول لکھنے کی ابتدا کیوں ہوئی؟ لوگ اپنے وقت Kill کرنا چاہتے تھے اور آج تک کر رہے ہیں‘ چنانچہ جاسوسی ناول وغیرہ محض دفع الوقتی کے لیے لکھے گئے‘ لیکن ادبی ناول میں آرٹ اور فن کا درجہ بہت اونچا ہوتا ہے۔ ایک اچھا ناول اگر آپ نے پڑھا ہے تو عمر بھر یاد رہتا ہے مثلاً دوستو فیسکی کا ’’برادرز کراموزوف‘‘، ’’ایڈیٹ‘‘، ’’کرائم اینڈ پیشنٹ‘‘ انہیں اگر آپ ایک دفعہ پڑھ لیں تو عمر بھر نہیں بھول سکتے۔ آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ دوستوفیکسی نے نہایت کم وقت میں بیش تر ناول ڈکٹیٹ کراکے مکمل کیے تھے۔
طاہر مسعود: ادب میں اوریجنل ہونے کی کتنی اہمیت ہے؟
غلام عباس: (ہنس کر) یہ آپ نے نہایت مشکل سوال کیا ہے۔ جب میں نے ’’آنندی‘‘ لکھا تو بہت سے لوگوں کو مدتوں یہ خیال رہا کہ میں نے ’’آنندی‘‘ کا خیال کہیں سے چرا لیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اتنا اچھا افسانہ جسے دوسری زبانوں میں سراہا گیا ہے‘ وہ یہاں کے کسی رائٹر کے ذہن میں کیسے آسکتا ہے‘ چنانچہ یہ فرض کر لیا گیا کہ ہو نہ ہو ضرور کسی باہر کے رائٹر نے ’’آنندی‘‘ جیسی کہانی لکھی ہوگی۔ آخر میں مجھے ’’آنندی‘‘ کا پس منظر لکھ کر اس غلط فہمی کو دور کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ میری نئے افسانہ نگاروں کو ہدایت ہے کہ وہ اپنے افسانوں کا مقابلہ صرف اپنی زبانوں کے افسانوں سے نہ کریں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے ادبا کے افسانوں کو پڑھ کر ویسا لکھنے کی کوشش کریں۔ مجھے یوفں یاد آیا کہ جب میں نے ’’اوور کوٹ‘‘ لکھا تو مجھے یاد تھا کہ روسی استاد گوگول کا بھی اسی نام سے ایک بے حد مشہور افسانہ ہے۔ اسی طرح راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ ’’گرم کوٹ‘‘ کے نام سے میں پڑھ چکا تھا۔ میں نے اسے نہایت بے باکی اور جرأت مندی سے لکھا۔ اس کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوا تو اسے انعامات سے نوازا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اگر عنوان یکساں ہو تو سرقہ کے ذیل میں نہیں آتا۔
طاہر مسعود: یوں تو ایک ماں کو اپنے سارے ہی بچے عزیز ہوتے ہیں اور پیارے لگتے ہیں لیکن پھر بھی آپ سے یہ پوچھنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ آپ کو اپنا کون سا افسانہ سب سے زیادہ پسند ہے؟
غلام عباس: (مسکرا کر) ایک ماں کو اپنے شریر بچے زیادہ پیارے لگتے ہیں۔ مجھے اپنا افسانہ ’’حمام میں‘‘ بہت اچھا لگتا ہے۔ ’’کتبہ‘‘ اور ’’اوور کوٹ‘‘ کلاسیکل انداز کے ہیں۔ ’’آنندی‘‘ میں ایک بالکل نیا تجربہ کیا ہے کہ اس میں کوئی کردار نہیں۔سارا شہر اس کے کردار ہیں۔
طاہر مسعود: ’’آنندی‘‘ کی ایک اور خوبی بیان کی جاتی ہے کہ اس میں ایک شہر کو عدم سے وجود میں آتے اور آباد ہوتے دکھایا گیا ہے جو ظاہر ہے بالکل نیا تجربہ تھا۔
غلام عباس: جی ہاں ’’آنندی‘‘ پر بہت سے مضامین لکھے گئے اور اس کا بہت چرچا ہوا۔
طاہر مسعود: آل احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں کرشن چندر کو منٹو سے بڑا فن کار قرار دیا ہے جب کہ حسن عسکری مرحوم کی رائے منٹو کے حق میں ہے‘ آپ کی کیا رائے ہے کہ افسانے کے فن میں بڑا مرتبہ کس کا ہے؟
غلام عباس: یہ تو ہر دور میں ہوتا ہے کہ چند کسی اور کو۔ جہاں تک میری پسند کا تعلق ہے میں اردو افسانہ نویسوں میں محمد حسن عسکری‘ عصمت چغتائی اور بیدی کے بیش تر افسانوں کو پسند کرتا ہوں۔
طاہر مسعود: قرۃ العین حیدر کو ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ کی وجہ سے صرف ناول نگار کی حیثیت سے پینٹ کیا گیا ہے اور ان کے افسانوں کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا ہے جب کہ ان کے افسانے بھی نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس حوالے سے ان کے افسانوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
غلام عباس: جب اردو رسائل میں افسانے چھپنے شروع ہوئے تو ان کا انداز زیادہ تر رومانی تھا۔ سید سجاد حیدر یلدرم‘ نیاز فتح پوری‘ ل احمد اور دیگر ممالک کے افسانہ نگار آسکر وائلڈ‘ لارڈ ڈنسا‘ ٹیگور وغیرہ رومانی ادب کے دل دادہ تھے اور لکھتے ہی اس قسم کا ادب تھے۔ ہمارے افسانہ نویس بھی ان کی پیروی میں ایسے ہی افسانے لکھنے لگے۔ ہمارے افسانہ نویسوں کو چیخوف اور گورکی کے افسانوں کو پڑھ کر حقیقت پسندانہ ادب لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ چنانچہ بیدی‘ منٹو‘ عصمت چغتائی‘ پروفیسر احمد علی‘ اختر حسین رائے پوری نے اس دور میں لکھنا شروع کیا۔ قرۃ العین حیدر کے متعلق عام طور پر خیال کیا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنے والد اور حجاب امتیاز علی کے انداز میں رومانی ادب سے زیادہ شغف رکھتی ہیں‘ چنانچہ ترقی پسند نقادوں نے ان کا مذاق بھی اڑایا اور ایک مضمون ’’پوم پوم ڈارلنگ‘‘ لکھا گیا جس میں ان کے افسانوں کا مضحکہ اڑایا گیا۔ ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ ان کا پہلا افسانہ ہے جس میں انہوں نے حقیقت نگار افسانہ نویسوں کی پیروی کی ہے۔ قرۃ العین حیدر نے خاصے طویل ناول لکھے ہیں جس کی وجہ سے ان کی افسانہ نگاری کچھ دب سی گئی ہے لیکن ابھی ان کے قلم میں روانی ہے۔ جدید افسانے کے سلسلے میں ان سے بہت کچھ توقعات وابستہ کی جاسکتی ہیں۔
طاہر مسعود: ’’آگ کا دریا‘‘ کو اردو کا سب سے بڑا ناول سمجھا جاتا ہے‘ آپ کا کیا خیال ہے؟
غلام عباس: ’’آگ کا دریا‘‘ اچھا ناول ہے لیکن میں اسے بہت اونچا درجہ نہیں دیتا۔ اس کے باوجود ’’آگ کا دریا‘‘ اور ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ میں خواتین ناول نگاروذں نے کمال دکھایا ہے۔ (غلام عباس صاحب کے اس جملے کو قرۃ العین حیدر یقینا مرد شائونزم کا ایک ہلکا پھلکا شاہکار قرار دیں گی) اور جہاں تک بڑے ناول کا تعلق ہے ’’آگ کا دریا‘‘ اردو کا سب سے بڑا ناول ہرگز نہیں ہے۔ سب سے بڑا کہنا مشکل ہے۔ ہاں شیکسپیئر کو کہہ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا ڈراما نگار ہے۔
طاہر مسعود: آپ ترقی پسند تحریک میں شامل کیوں نہ ہوئے؟
غلام عباس: میری چیزیں ترقی پسندانہ رہیں لیکن میں نے لیبل لگانا پسند نہیں کیا۔ اس تحریک سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ میں سمجھتا تھا کہ ادب کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرنا غلط ہے۔ کسی سیاسی نقطہ نظر کو ادب یا ڈرامے کے ذریعے پھیلایا جائے تو میں اسے ادب نہیں سمجھتا۔ ترقی پسند تحریک دراصل کمیونسٹ تحریک تھی اور اسی لیے پروفیسر احمد علی اور احمد ندیم قاسمی اس تحریک کو چھوڑ کر بھاگ گئے کیوں کہ وہ کمیونسٹ نہ تھے۔
طاہر مسعود: کافی عرصے سے ’’اردو ادب پر جمود طاری ہے۔‘‘ کا نعرہ لگایا جارہا ہے‘ اگر چہ یہ بات ٹھیک ہے تو ادب اور بالخصوص افسانے کا کیا مستقبل ہے؟
غلام عباس: تیس چالیس برس کا عرصہ دنیائے ادب میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ نصف صدی سے کسی ملک میں بڑا ادب پیدا نہیں ہوا کیوں کہ ادب میں اتنا عرصہ تو یوں ہی گزر جاتا ہے۔ بیس برس کی خاموشی سے ادب پر جمود طاری نہیں ہوتا۔ اب دیکھیے کہ برنارڈشا اور سارتر کے بعد کون ہے؟ امریکا نے پورے ایک سو سال میں کتنے ادیب پیدا کیے ہیں۔ ہنری جیمز‘ اوہنری (اگرچہ گھٹیا ہے) براس بیئرز اور اب بعد میں ہمینگوے وغیرہ پیدا ہوئے۔ برنارڈ شاہ کو مرے ہوئے 30 برس گزر گئے کوئی اور ڈراما نویس سامنے نہیں آیا۔ خود اردو میں میر کے بعد غالب اور پھر اقبال ان تینوں شعرا کے درمیان طویل وقفے حائل ہیں تو کیا ہم ان وقفوں کو جمود کہیں گے؟ ادب میں چالیس برس تک کوئی نمایاں چیز نہ لکھا جانا جمود نہیں کہلاتا۔
طاہر مسعود: ادب میں اس ’’وقفے‘‘ کی آپ کیا توجیہہ پیش کریں گے؟
غلام عباس: اس کی کوئی توجیہہ نہیں ہے۔ ایک زمانے میں انگریزی میں بہت سے ادبی رسائل نکلتے تھے۔ اب ایک رسالہ بھی نہیں چھپتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا لوگ نالائق ہوگئے ہیں؟ میرا نظریہ ہے کہ بڑا ادب ادبار میں پیدا ہوتا ہے۔ ملک میں خوش حالی آئی اور ادب کا ناس ہوا۔ جب مسائل جنم لیتے ہیں‘ جبر و استبداد کا زمانہ ہوتا ہے‘ لوگ چیخ اٹھتے ہیں‘ تب ادب پیدا ہوتا ہے۔ یعنی ادب غربت‘ افلاس‘ تشدد اور جبر کے نتیجے میں جنم لیتا ہے۔ میر سے لے کر اقبال تک کے زمانے کا مطالعہ کر جایئے‘ آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ امریکا اور انگلستان میں بڑے ادیب‘ ادیبوں کی بری حالت کے دور میں پیدا ہوئے۔ برنارڈشا صابن کا ایک بکس لے کر ہائیڈ پارک میں تقریر کیا کرتے تھے۔ مختصراً یہ کہ اس بات کا عقلی جواز پیش کرنا ناممکن ہے۔ بہت سے اسباب ہیں مثلاً لوگوں کا شوق بدل گیا ہے‘ ہمارے ملک میں لوگ ڈائجسٹ پڑھنے لگتے ہیں‘ یہ بھی ایک وجہ ہے۔