اپنا محاسبہ کیجیے

1193

سال مہینوں کی طرح، مہینے دنوں کی طرح، اور دن گھنٹوں کی طرح گزرتے چلے جارہے ہیں۔ ہر گزرتا ہوا دن ہماری عمر کو کم کرتا جارہا ہے۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر جاندار کے لیے موت کا وقت مقرر کررکھا ہے اور موت کو بلاتفریق سب ہی تسلیم کرتے ہیں۔
اللہ کے سوا کسی بشر کو نہیں معلوم کہ کس مقام پر اور کس عمر میں اسے موت آئے گی۔ بعض بچپن میں، بعض جوانی میں چلے جاتے ہیں۔ بعض ادھیڑ عمری تک جیتے ہیں اور بعض طویل عمری تک پہنچتے ہیں اور پھر داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہیں۔ بعض نوجوان پلاننگ کررہے ہوتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ ان کی تلاش میں روانہ ہوچکا ہے۔
گزشتہ برس ہی دیکھ لیجیے،کورونا کی وبا نے دیکھتے ہی دیکھتے کتنے لوگوں کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا۔ آئے دن ہونے والے حادثات میں کیسے کیسے نوجوان ملک الموت اپنے ساتھ لے گیا۔ ایک دن ہمیں بھی اللہ کے ہاں حاضر ہونا ہے اور حساب کتاب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآنِ عظیم الشان میں موت کی حقیقت کو بیان فرمایا ہے: ’’تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں آپکڑے گی، گو تم مضبوط قلعوں میں ہو‘‘ (سورہ النساء)۔ ’’کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے پھرتے ہو، وہ تو تمہیں پہنچ کر رہے گی۔ ‘‘ (سورہ جمعہ)
متعدد آیات ہیں جن میں اللہ پاک نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ اپنی آخرت کی فکر کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جلدی سے نیکیاں کرلو، اس سے پہلے کہ اندھیری رات کی طرح فتنے چھا جائیں، جس میں صبح کے وقت آدمی مومن ہوگا تو شام کو کافر بن جائے گا، یا شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر بن جائے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
گزشتہ سال کتنے لوگ ہمارے ساتھ تھے۔ اب قبروں میں ان کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہوچکی ہوں گی۔ آج ہم بقیدِ حیات ہیں ،کچھ خبر نہیں کب ملک الموت ہماری جان نکالنے آجائے۔ تب ہمیں دنیا کی کوئی طاقت اس سے نہ بچا سکے گی۔ اسی لیے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو قیمتی مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی رہنمائی فرمائی اور موقع ہاتھ سے جانے سے پہلے پہلے اچھا کرگزرنے کی ترغیب دی، اور فرمایا: ’’پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت جانو! جوانی کو بڑھاپے سے پہلے، تندرستی کو بیماری سے پہلے، امیری کو فقیری سے پہلے، فراغت کو مصروفیت سے پہلے، اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ ( سنن نسائی)
زندگی کو غنیمت جانو کیونکہ موت کے ساتھ ہی عمل منقطع ہوجاتے ہیں، انسان کی امیدیں مٹی میں مل جاتی ہیں اور اس کی ندامت کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اپنی صحت کو غنیمت جانو کیونکہ بیمار ہونے کے بعد انسان بہت سے اعمال کی سکت نہیں رکھتا اور صرف تمنا ہی کرتا رہتا ہے کہ کاش! نماز پڑھتا، یا روزہ رکھ لیتا، یا نیک اعمال کرلیتا۔ اپنی فراغت کو مصروفیات کے آنے سے پہلے غنیمت جانو، کہ کہیں تمہیں وقت مصروف نہ کردے اور تم نیک اعمال کرنے سے محروم رہ جائو۔ اپنی جوانی کو غنیمت جانو، اس سے پہلے کہ تم عمر رسیدہ ہوجاؤ، جسم بھاری ہوجائے، اعضا جواب دینے لگیں اور فرائض کی بجا آوری بھی دشوار ہوجائے۔ اپنی امیری کو غنیمت سمجھو، صدقات کرو، اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اس سے پہلے کہ تمہارا مال تم سے بچھڑ کر کسی اور کا بن جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ’’قیامت کے دن انسان کے قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے نہ ہٹیں گے جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے متعلق سوال نہ کرلیا جائے اور وہ ان کے جوابات دے دے۔ اس کی عمر کے بارے میں کہ کس چیز میں خرچ کی؟ اور اس کی جوانی کے متعلق کہ کہاں لگائی؟ اس کے مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور جن باتوں کا علم تھا ان پر کتنا عمل کیا؟‘‘ (سنن ترمذی)۔
اس حدیثِ مبارکہ پر غور کیجیے۔ آج اپنا محاسبہ کرنے کا وقت ہے۔ آج ہم اپنی عمر کا بیشتر حصہ کہاں خرچ کررہے ہیں؟ ہم کن کاموں میں اپنا وقت اور صلاحیتیں لگارہے ہیں؟ اللہ کی اطاعت میں زندگی خرچ کررہے ہیں یا معصیت میں؟ ہمارے مال کمانے کے ذرائع حلال ہیں یا حرام؟ اور ہم اس مال کو خرچ کہاں اور کیسے کررہے ہیں؟ کیا ہم نے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اللہ سے نفع بخش تجارت کی؟ مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق پورے کیے؟
ابن عساکر نے حضرت ابوالدرداءؓ سے روایت کی کہ ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے قیامت میں سوال ہوگا کہ تم عالم تھے یا نرے جاہل؟ اگر تم نے کہا کہ میں عالم تھا تو سوال ہوگا کہ اپنے علم پر عمل کیا؟ اور اگر تم نے کہا کہ جاہل تھا تو فرمایا جائے گا کہ تم جاہل کیوں رہے؟ تمہیں کیا عذر تھا۔ یاد رہے یہاں علم سے مراد علمِ دین ہے۔ اپنا محاسبہ کیجیے کہ گزشتہ سال ہم نے کتنی نیکیاں کیں اور کتنے گناہ کیے؟ کیا ہم نے اپنے نامہ اعمال میں ایسی نیکیاں درج کروائیں جو روز ِقیامت ہمارے لیے خوشی و مسرت کا باعث بنیں گی؟ یا ہم غفلت میں ڈوبے رہے؟ اور اپنے نامۂ اعمال میں اپنی کوتاہیوں اور غفلت سے وہ درج کروا بیٹھے جو روزِ قیامت ہمارے لیے حسرت اور ندامت کا باعث بنے گا؟ گزشتہ سال کورونا وائرس کی جو وبا آئی اُس سے ہم میں کیا تبدیلی آئی؟ کیا ہم میں تقویٰ پیدا ہوا؟ کیا ہم نے رجوع الی اللہ کیا؟ کیا ہم پر اللہ کے، اس کے رسولؐ کے، اپنے عزیزو اقارب کے، پڑوسیوں کے جو حقوق تھے وہ ہم نے ادا کیے؟ کیا ہم نے لوگوں کی راحت کا کچھ سامان کیا؟ یا ان کی ایذا رسانی کا سبب بنے رہے؟ کیا اس سال بھی ہماری ساری کوششیں، مال و اسباب صرف اور صرف دنیا بنانے میں خرچ ہوتے رہے یا ہم نے کچھ توشہ آخرت بھی جمع کرلیا؟

حصہ