میں آفس جاتے ہوئے اکثر سولجر بازار کا راستہ اختیار کرتا تھا۔ گھر سے آفس تک کا فاصلہ یوں تو کم ہوجاتا تھا، لیکن ذہنی دباؤ خوامخواہ بڑھ جاتا تھا۔ اس کی وجہ فاصلہ کم مگر اسپیڈ بریکر زیادہ، سڑک کی ناہمواری کم مگر سڑک کے درمیان موجود مین ہولوں کی تعداد زیادہ، یا شاید ہجوم کم مگر بھکاریوں کی تعداد زیادہ تھی۔ راستے میں آنے والے اسپتال کے سامنے ایک کلومیٹر تک کی سڑک کے فٹ پاتھ پر کم و بیش آٹھ دس بھکاری بلا مبالغہ صبح تڑکے سے موجود ہوتے تھے، اور ان کا بوریا بستر دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہی ان کا مستقل ٹھکانہ ہے۔
ان ہی بھکاریوں میں وہ مائی بھی تھی جس کا چہرہ ہیبت ناک حد تک بگڑا ہوا تھا، جہاں جا بجا کھروچوں اور جلنے کے نشانات تھے۔ اس کے پاس سے شاید شدید بو بھی آتی تھی، لوگ منہ پر رومال رکھ کر گزرتے ہوئے اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے تھے۔ وہ روز اپنے مقررہ مقام پر بیٹھی نظر آتی تھی۔ آج جب میں وہاں سے گزرا تو وہ مجھے گھٹنوں میں سر دیئے اپنے ہلتے وجود کے ساتھ روتی محسوس ہوئی۔
مجھے بائیک کے بریک پر اپنے پاؤں کا دباؤ بڑھتا محسوس ہوا، جو اس احساس کے زیراثر تھاکہ اس نفسانفسی کے دور میں کسی سے ہمدردی کے دو بول بولناب ھی نیکی ہے۔ میں بائیک روک کر اسی انسانی ہمدردی کے پیش نظر اس کے پاس فاصلے سے بیٹھ گیا۔ لوگ مجھے عجیب شکی اور حقیر نظروں سے دیکھ کر گزر رہے تھے، مگر میں نے ان کی نظروں کی پروا کیے بغیر اس سے پوچھا’’کیا ہوا مائی، کیوں رو رہی ہو؟‘‘ اس نے جھکے سر سے ہی جواب دیا ’’کچھ نہیں باؤ جی‘‘۔ میں نے پھر پوچھا ’’کچھ مدد چاہیے؟‘‘ تو آواز آئی ’’نہیں‘‘۔
میں حیران ہوا کہ مدد نہیں چاہیے، نہ کوئی مسئلہ ہے تو یہاں پھٹے ٹوٹے حلیے کے ساتھ کیوں بیٹھی ہے! میں نے پھر پوچھا ’’مائی آپ کیوں رو رہی ہیں، مجھے بتائیں، ہوسکتا ہے میں کچھ کام آسکوں‘‘۔ اس نے طنزیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے تمسخرانہ انداز میں کہا ’’میاں اپنا رستہ لو، بھلا تم مجھ بھکارن کو اس خودغرض معاشرے میں باعزت مقام دلا سکتے ہو؟‘‘ میں اس بھکارن کے اتنے بلیغ اور غیر متوقع سوال پر گڑبڑا گیا، اور اس کے اندازِ گفتگو پر حیرانی کے ساتھ جھجھکتے ہوئے گویا ہوا ’’آپ مجھے کچھ بتائیں گی تو ہی کچھ کرسکوں گا ناں۔‘‘
وہ مائی ہنوز استغراقی کیفیت میں بیٹھی رہی، پھر آواز آئی ’’کیا تم میری باتوں پر یقین کرلو گے؟‘‘
میں نے کہا ’’آپ بتائیں تو سہی، جس حد تک ممکن ہوا آپ کی مدد کروںگا۔‘‘
میں تجسس میں وہیں بیٹھ گیا کہ آفس تو روز جاتے ہی ہیں، آج اس بھکارن کے بھیس میں چھپی ہستی کا کھوج لگایا جائے۔ میں اس کے انداز سے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ بھکارن یا تو پہنچی ہوئی فقیرنی ہے، یا کوئی بہت بڑا ڈراما…‘‘
’’میری پیدائش قیامِ پاکستان سے بہت پہلے کی ہے۔ میں اور میرے خاندان نے قیام پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا‘‘۔ میں نے اچنبھے سے بغور اس کی طرف دیکھاکہ شاید دماغی خلل کے کچھ اثرات نظر آجائیں، لیکن اس کا حلیہ، عمر اور اندازِ گفتگو کہیں سے اس کی چغلی کھاتا محسوس نہ ہوا۔ ’’ہمیں نہیں پتا تھاکہ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہمیں اپنے ہی ملک اور قومی اداروں سے بے دخل کردیا جائے گا۔ مولوی عبدالحق کو مجھ سے بہت محبت تھی۔ میں نے ان کے ساتھ بہت کام کیا، لیکن ان کے بعد غیر محسوس طریقے سے میں اور میرے سب اہلِ خانہ اس قوم کی نظر میں مجرم سے ٹھیر گئے۔‘‘
میں نے ایک بار پھر مائی پر نظریں گاڑ دیں کہ شاید مخبوط الحواسی کے کچھ آثار اس کے چہرے پر نظر آجائیں۔ لیکن اس کی آنکھیں گہری اور سنجیدہ تھیں۔ شاید قیام پاکستان کے وقت مائی کا خاندان ختم ہوگیا ہوگا، جس کے صدمے نے مائی کو نیم پاگل کردیا ہے۔ میں نے اس کی عمر کا حساب لگاتے ہوئے پھر سوچا، لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ قیام پاکستان سے کتنے سال پہلے وہ پیدا ہوئی ہوگی۔ اس لیے کچھ پوچھنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اس کی باتیں سننے پر توجہ مرکوز رکھی۔
’’بس بیٹا! اب تو ہم ہر جگہ سے دھتکار دیے گئے ہیں۔ مجھے نہیں پتا میرے ساتھی کہاں اور کس حال میں ہیں۔‘‘
آپ تو خاصی پڑھی لکھی لگ رہی ہیں۔کسی چھوٹے موٹے اسکول میں ہی ملازمت مل سکتی تھی آپ کو، بھلا بھکارن بننے کی کیا ضرورت تھی! ویسے بھی اب تو پرائیویٹ اسکول بھی کھل گئے ہیں۔‘‘ میں اس کے اندازِ گفتگو سے جہاں تھوڑا متاثر ہورہا تھا، وہیں کچھ محتاط بھی ہوگیا کہ پتا نہیں وہ بھکارن کے روپ میں کون ہو!
’’پڑھی لکھی‘‘ اس نے تمسخرانہ انداز میں میرے الفاظ دہرائے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ’’وہی لوگ تو زیادہ دھتکارتے ہیں۔ سب انجان نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جب تک مطلب نکل رہا ہوتا ہے استعمال کرتے ہیں، پھر ٹشو پیپر کی طرح ہاتھ صاف کرکے پھینک دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ اب تو اپنے گھر میں ہی بچے گھر سے نکالنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ کہنے کو سب میرے ہیں، مگر پوچھتا کوئی نہیں۔ کتنے وقت کے فاقے سے ہوں، لباس سے کیسی بساند آرہی ہے، کسی کو کوئی مطلب نہیں۔ بس ناک پہ رومال رکھ کر فاصلے سے ہی ملتے ہیں۔ زندہ رہوں نہ رہوں، کسی کو کیا! نہ دوست، نہ ہمدم کوئی‘‘۔ اپنے ساتھیوں کو یاد کرکے مائی پھر ہچکیوں سے رونے لگی۔
میں نے مائی کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ ’’اماں آپ مجھے اپنے دوست احباب میں سے کسی کا نام بتائیں۔ اگر آپ کی خدمات قومی سطح پر جانی جاتی ہیں تو کوئی نہ کوئی تو ایسا مخلص مل ہی جائے گا جسے آپ کے ساتھیوں کا پتا ہوگا۔‘‘
’’بیٹا جانتے تو تم بھی ہو گے، بس ہم سب کو ایک جگہ ملا دو‘‘، وہ بچوں کی طرح مچلنے لگی۔
میں اتنی بڑی ذمہ داری لینے پر ہچکچاتے ہوئے اس کے چہرے پر پھر پاگل پن کے آثار ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگا، مگر دور دور تک اس کے آثار نظر نہ آئے تو کہا ’’اماں! میں تو ایک عام سا شہری ہوں جو اپنے حصے کی ذمہ داری بھی ایمان داری سے پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس لیے وعدہ تو نہیں کرسکتا البتہ پوری کوشش کروں گا‘‘۔ اس نے دکھ سے مسکراتے ہوئے کہا ’’سب یہی کہتے ہیں، مگر تم پہلے شخص ہو جس میں مجھے کچھ انسانیت نظر آئی ہے۔‘‘
میں نے افسردگی سے اُس کے حلیے اور بگڑے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا ’’آپ مجھے کسی اچھے خاندان کی لگتی ہیں، اتنی صاف اردو بولتے میں نے پہلی بھکارن دیکھی ہے‘‘۔ میں واقعی اس مائی سے بہت متاثر ہوگیا تھا۔ وہ مسکرائی تو مجھے اُس کی آنکھوں میں عجیب وحشت نظر آئی۔ کہنے لگی ’’بیٹا کیا تم مجھے، یعنی اپنی مادری زبان اردو کو نہیں جانتے؟‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، تو خود کو اسکول کے سامنے سے گزرتا ہوا پایا۔ بھکاری تو بہت پیچھے رہ گئے تھے، مگر میرا ذہن ہمیشہ کی طرح بھکاریوں اور اپنی مادری زبان کا تقابلی جائزہ لینے میں کھو جاتا ہے جب سے میری بیٹی کو اپنے ہی ملک کے اسکول میں اردو بولنے پر شرمندہ کرنے کے لیے ’’اردو میڈیم‘‘ کا بورڈ لگاکر سزا کے طور پر پورے اسکول کے گراؤنڈ کا چکر لگوایا گیا تھا۔
حقیقت یہی ہے کہ میری مادری زبان اردو آج سب سے زیادہ مفلوک الحال ہے۔ ایک طرف تو اسکولوں میں انگلش پہ زور ہے اور اردو بولنے والا شرمندگی کا شکار ہے، تو دوسری طرف گھروں میں ہندی زبان و تہذیب بچوں میں پاکستانی ہونے کی شناخت ختم کررہی ہے۔ میرے کانوں میں گلی میں کھیلنے والے بچوں کی آوازیں گونجنے لگیں، جو آپس میں گفتگو کرتے ہوئے کہہ رہے ہوتے ہیں ’’اماں ابا کی پتنی ہیں، مجھے وشواس نہیں ہوتا‘‘۔ تو آگے سے دوسرا بچہ کہتا ہے ’’میں تمھاری بات سے پوری طرح سہمت ہوں‘‘۔ اور خواتین آپس میں گفتگو کرتے ہوئے فرماتی ہیں ’’آج کل بچوں کے وچار بگڑتے جارہے ہیں‘‘۔ مرے پہ سو درے یہ کہ کورونا وائرس کی طرح رومن اردو نے اب اردو رسم الخط کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی بنی تھی، اور اس کا سبب آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی غفلت تھی۔ آج ہم پھر اسی غفلت کا شکار ہیں۔ ہندوستان سے اپنے مذہب اور زبان کی شناخت کے ساتھ اس ملک کی بنیاد پڑی تھی۔ اب یہ سوچتا ہوں کہ شناخت یہ بھی اگر کھو دی تو کدھر جائیں گے؟