یہی بیت اللہ ہے جس کی طرف ہزاروں میل کے فاصلے سے ساری عمر نمازیں پڑھتے رہے، جس کی طرف منہ کرنا فرض تھا آج ہماری نگاہوں کے سامنے ہے۔
یہاں اللہ کے بندے بیت اللہ کی دیوار اور اس کے غلاف سے چمٹے ہوئے اس طرح بلک بلک کر رو رہے تھے اور اللہ کے گھر کا واسطہ دے کر اس کی چوکھٹ سے لپٹ کر اللہ سے مانگ رہے تھے جس طرح ستائے ہوئے بچے اپنی ماں سے چمٹ کر روتے ہیں اور بلبلاتے ہیں۔ جس وقت رب البیت، یارب البیت۔ اے گھر والے، اے گھر کے مالک، کہتے تو ایک کہرام مچ جاتا ، سخت سے سخت دل بھی بھر آتا، آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اور دعائوں کی قبولیت کا ایک اطمینان ہو جانے لگتا۔ خدا کی طرف رجوع اور انابت کا یہ ایک ایسا منظر تھا کہ دنیا کی کوئی قوم اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی۔
(اپنے گھر سے بیت اللہ تک)