وہ بھی ایک عجیب و غریب زمانہ تھا۔ آپ لوگوں نے اس طرح کا غلامی کا زمانہ نہیں دیکھا جو ہم دیکھ چکے ہیں۔ اس وقت انگریز ڈپٹی کمشنر ہوتے تھے۔ جب کوئی گورا گزرتا تھا تو ہم اس کو بڑے تپاک سے سلام کرتے۔ کبھی وہ جواب دے دیتا اور کبھی جواب نہیں دیتا تھا۔ پھر اچانک اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ ہمارے ضلع میں ایک ڈپٹی کمشنر آگیا جو گورا (انگریز) نہیں تھا۔ میرے والد نے گھر آکر خوشی سے میری والدہ کو بتایا کہ ایک نیا ڈپٹی کمشنر آیا ہے اور وہ گورا نہیں ہے۔ اس کا نام اختر حسین ہے۔ دوسری خوشی انہیں یہ تھی کہ وہ مسلمان ہے۔ اب ہم سب کی خواہش تھی کہ اختر حسین کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس شکل اور صورت کے آدمی ہیں۔
ہماری یہ دعائیں قبول ہوئیں اور وہ ہمارے قصبے کا دورہ کرنے آئے۔ تب ہم سب اسکول کے لڑکے ان کے استقبال کے لیے اچھے اچھے کپڑے پہن کر آئے۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ تھی کہ ڈپٹی کمشنر کا جو اسٹنٹ کمشنر تھا وہ ایک گورا تھا اور وہ اختر حسین صاحب کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ یہ وہی اختر حسین تھے جو بعد میں پنجاب کے گورنر بنے۔
(زاویہ)