امریکہ زوال پذیر سپر طاقت

702

انسانی تاریخ بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ اس داستان میں بڑی طاقتیں ہمیشہ میر تقی میر کے اس شعر کی عملی تفسیر بنی نظر آتی ہیں

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا

لیکن کبریائی صرف خدا کے لیے زیبا ہے، چنانچہ تاریخ بڑی طاقتوں کے اس دعوے اور زعم کو ان کے منہ پر دے مارتی ہے۔ لیکن بڑی طاقتوں کے عروج کے زمانے میں بڑی طاقتوں کا غلبہ اور تسلط، ان کی ہیبت اور جلال ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے بڑے صاحبِ نظر اس دھوکے میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ بڑی طاقت کا غلبہ و تسلط دائمی ہے۔ صرف ایمان کی طاقت اور وجدان کی صلاحیت انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ حاضر و موجود کو پھلانگ کر مستقبل میں جھانک کر دنیا کو بتاسکے کہ آنے والے کل میں کیا ہونے والا ہے۔ ہماری حالیہ تاریخ میں اس کی ایک مثال اقبالؒ ہیں جنہوں نے مغربی تہذیب کی پیش قدمی کے عہد میں اس کے زوال کی پیش گوئی کی۔ اس کی ایک اور مثال مولانا مودودیؒ ہیں جنہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لندن اور پیرس میں سرمایہ دارانہ نظام اور ماسکو میں سوشلزم کو پناہ نہیں ملے گی۔ لیکن جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہوتا ہے وہ بڑی طاقتوں کے غلبے سے اس حد تک مبہوت ہوتے ہیں کہ انہیں بڑی طاقتوں کا غلبہ ’’دائمی‘‘ نظر آتا ہے۔
یہ 1980ء کے اواخر کا ذکر ہے۔ بھارت کے معروف ترقی پسند نقاد کمال صدیقی کراچی آئے ہوئے تھے۔ ہم اُس وقت جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغ عامہ میں بی اے آنرز سالِ اوّل کے طالب علم تھے۔ ہم سے ہمارے ایک بزرگ نے کہا کہ تم کمال صدیقی کا انٹرویو کرلو۔ انٹرویو کے دوران ہم نے کمال صدیقی سے کہا کہ سوویت یونین کو مجاہدین کے ہاتھوں افغانستان میں شکست کا سامنا ہے اور مولانا مودودیؒ کہہ چکے ہیں کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سوشلزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ ہماری بات سن کر وہ اس طرح مسکرائے جیسے کہہ رہے ہوں آپ کی عقل تو ٹھکانے پر ہے نا؟ پھر کہنے لگے کہ جس دن ایسا ہو آپ مجھے خط لکھ کر ضرور مطلع کیجیے گا۔
یہ کمال صدیقی کا معاملہ نہیں تھا۔ دنیا میں اربوں انسان ایسے تھے جو سوویت یونین کے عالمگیر غلبے کو دائمی سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ سوویت یونین کے سب سے بڑے دشمن امریکہ تک کو معلوم نہ تھا کہ سوشلزم ختم ہوجائے گا اور سوویت یونین ٹوٹ جائے گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ سوویت یونین سے کہیں زیادہ بڑی طاقت ہے۔ چنانچہ امریکہ کے زوال کے ذکر پر کوئی چونکتا ہے، کوئی طنز سے مسکراتا ہے، اور کوئی ناراض ہوجاتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ اطلاع کروڑوں لوگوںکے لیے حیران کن ہوگی کہ امریکہ کی 50 ریاستوں میں سے 20 ریاستوں کے لوگوں نے وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر ایک عرضداشت پوسٹ کی ہے جس میں امریکہ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ایسی عرضداشت کو وائٹ ہائوس کی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے کے لیے 150 لوگوں کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم اگر عرضداشت کو 25 ہزار افراد کے دستخط میسر آجائیں تو صدرِ امریکہ قانونی اعتبار سے عرضداشت کا جواب دینے کا پابند ہوجاتا ہے۔ تادم تحریر امریکی ریاست ٹیکساس کی عرضداشت کو 25 ہزار افراد کی حمایت فراہم ہوئی ہے اور باقی ریاستوں میں عرضداشت کے حامیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، اور ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک باقی ریاستوں کی عرضداشتیں بھی 25 ہزار حامی پیدا کرلیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ سے آنے والی یہ خبر ایک بڑے سیاسی دھماکے سے کم نہیں۔ لیکن چونکہ امریکہ کی عالمگیر بالادستی کا رعب اربوں لوگوں پر طاری ہے اس لیے اس خبر کو کہیں بھی اس طرح نہیں لیا گیا جس طرح لیا جانا چاہیے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یہ خبر امریکہ کے زوال کا اعلان ہے؟
دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو سرے سے اس سوال کو سوال ہی تسلیم نہیں کریں گے۔ حالانکہ امریکہ کے زوال کی پیشنگوئی خود امریکی کررہے ہیں۔ پال کینیڈی امریکہ کے ممتاز مؤرخ ہیں۔ 1988ء میں ان کی کتاب “The rise and fall of the great Powers” شائع ہوئی۔ اس کتاب میں پال کینیڈی نے دنیا کی کئی بڑی طاقتوں کے زوال کا جائزہ لیتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی تھی کہ امریکہ کی طاقت زوال پذیر ہے۔ پال کینیڈی کے اس تجزیے کی بنیاد مابعدالطبیعاتی یا اخلاقی نہیں ہے۔ پال کینیڈی تعقّل پسند ہیں اور ان کی نظر میں بڑی طاقتوں کے عروج و زوال کے اسباب صرف مادی ہوتے ہیں۔ انہوں نے بڑی طاقتوں کے زوال کا ایک مشترکہ سبب یہ بیان کیا ہے کہ بڑی طاقتیں خود کو اتنا پھیلا لیتی ہیں کہ وہ خود اتنا مالی یا مادی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں رہتیں۔ مثلاً انہوں نے سلطنت ِبرطانیہ کے زوال کے حوالے سے کہا ہے کہ برطانیہ نے اپنے ہاتھ پائوں اتنے پھیلا لیے تھے کہ اس کے اخراجات آمدنی سے بڑھ گئے تھے۔ پال کینیڈی کے بقول برطانیہ نے 1688ء سے 1815ء تک 2 ارب 29 کروڑ 34 لاکھ 83ہزار 837 پائونڈز کے اخراجات کیے، جب کہ اس دوران اس کی آمدنی صرف ایک ارب 62 کروڑ 29 لاکھ 24 ہزار 377 پائونڈ رہی۔ آمدنی اور خرچ کے اس عظیم فرق کو سلطنت برطانیہ نے قرضوں سے پورا کیا، اور آمدنی و اخراجات کا یہ عدم توازن برطانیہ کے (عسکری) زوال کا سبب بنا۔ سوویت یونین کے زوال کا تجزیہ کرتے ہوئے پال کینیڈی نے لکھا ہے کہ 1974ء میں جب سوویت یونین سے کئی گنا امیر اور پیداواری صلاحیت کا حامل امریکہ دفاع پر سالانہ 85 ارب ڈالر خرچ کررہا تھا تو سوویت یونین دفاع پر 109 ارب ڈالر خرچ کررہا تھا۔ اس عرصے میں ایک ارب آبادی کا حامل چین دفاع پر صرف 29 ارب، برطانیہ 9.7 ارب، فرانس 9.9 ارب اور جرمنی 13.7 ارب ڈالر صرف کررہا تھا۔ اسی طرح 1974ء میں امریکہ کے پاس 1054 اور سوویت یونین کے پاس 1575بیلسٹک میزائل تھے۔ امریکہ کے پاس درمیانے درجے تک مار کرنے والا ایک بھی میزائل نہ تھا مگر روس کے پاس درمیانے درجے تک مار کرنے والے 600 میزائل تھے۔ امریکہ کے پاس آب دوزوں میں استعمال ہونے والے میزائلوں کی تعداد 656، اور سوویت یونین کے پاس ایسے میزائلوں کی تعداد 720 تھی۔
پال کینیڈی نے اپنی کتاب کے صفحہ 665 پر لکھا ہے کہ اگرچہ امریکہ کے مسائل سوویت یونین کے مقابلے میں بہت کم ہیں مگر حالیہ دہائیوں میں امریکہ کی عالمی طاقت سوویت یونین کی عالمی قوت کے مقابلے پر زیادہ تیزی سے کم ہورہی ہے۔ اس کی ایک مثال پیش کرتے ہوئے پال کینیڈی نے کہا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ کے عوام میں اتنا غیر مقبول ہے کہ امریکہ کے لیے مشرق وسطیٰ کے لیے مربوط طویل المیعاد خارجہ پالیسی بنانا مشکل ہوگیا ہے۔ مشرقی ایشیا کی مثالیں دیتے ہوئے پال کینیڈی نے لکھا ہے کہ مشرقی ایشیا میں امریکہ کے لیے یہ بات ایک چیلنج بن گئی ہے کہ وہ تائیوان کو ترک کیے بغیر چین کے ساتھ مراسم کو کس طرح بہتر بنائے۔ امریکہ کے لیے یہ امر ایک مسئلہ بن گیا ہے کہ وہ جاپان کو مغربی بحرالکاہل میں زیادہ بڑا دفاعی کردار ادا کرنے پر مائل کرے اور علاقے کے دوسرے ملکوں کو ناراض نہ ہونے دے۔ فلپائن میں اپنے دفاعی مراکز قائم رکھے اور مقامی آبادی میں اشتعال نہ پیدا ہونے دے۔ جنوبی کوریا میں اپنی فوجی موجودگی کو برقرار رکھے مگر شمالی کوریا کو غلط پیغام بھی نہ دیا دے۔ پال کینیڈی نے امریکہ کے معاشی زوال کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 1980ء میں امریکہ کا ہائی ٹیکنالوجی کی اشیاء میں تجارتی Surplus 27 ارب ڈالر تھا جو 1985ء میں کم ہوکر صرف 4 ارب ڈالر رہ گیا۔ بعد ازاں یہ رجحان خسارے کی جانب گامزن ہوگیا۔
پال کینیڈی نے لکھا ہے کہ معیشت اور مالیات کے شعبے میں امریکہ کا سب سے بڑا زوال یہ ہے کہ وہ قرض دینے والے ملک کے بجائے ’’مقروض ملک‘‘ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کے دفاعی اور سماجی شعبے کے منصوبوں سے متعلق اخراجات بڑھ رہے ہیں اور امریکہ کی حکومتیں 1960ء سے نئے ٹیکس عائد کرنے کے بجائے Deficit Finance کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہیں جس سے بجٹ کا خسارہ اور قرضوں کا بوجھ بے انتہا بڑھ گیا ہے۔ اس سلسلے میں پال کینیڈی نے 1985ء کے اعداد و شمار پیش کیے ہیں اور کہا ہے کہ 1980ء میں امریکی حکومت 913.3 ارب ڈالر کی مقروض تھی، جب کہ 1985ء میں یہ قرض بڑھ کر 1823.1 ارب ڈالر ہوگیا۔ 1980ء میں بجٹ کا خسارہ صرف 59.6 فیصد تھا جو 1985ء میں بڑھ کر 202.8 فیصد ہو گیا۔ اسی طرح 1980ء میں قرضوں پر 52.7 فیصد سود ادا کیا جارہا تھا جو 1985ء میں بڑھ کر 129 فیصد ہوگیا۔
ہم اپنے قارئین کو یاد دلانا چاہیں گے کہ پال کینیڈی کی یہ کتاب 1988ء میں شائع ہوئی تھی۔ اُس وقت سے اب تک امریکہ کی معاشی اور مالیاتی حالت مسلسل اور ہولناک حد تک خراب ہوئی ہے۔ اِس وقت امریکہ پر 3 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ قرضوں کا بوجھ ہے۔ امریکہ کا دفاعی بجٹ پانچ سو ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے جو دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے کئی بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں بے روزگاری کی شرح سات فیصد سے زیادہ ہے۔ معیشت کی شرح نمو اوسط درجے سے کم ہے۔ اس صورت حال نے امریکہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اس احتجاج کو منظم کیا جو دنیا کے 80 ملکوں تک پھیل گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ کی جن 20 ریاستوں کے لوگوں نے امریکہ سے الگ ہونے کے لیے عرضداشت پیش کی ہے انہیں مرکزی حکومت سے معاشی ناانصافی اور اقتصادی استحصال کی شکایت ہے، اور ان شکایت کرنے والوں میں امریکہ کی ریاست ٹیکساس بھی شامل ہے جو دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت کی حامل ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو امریکہ کی 20 ریاستوں کی عرضداشت کی نوعیت ’’علامتی‘‘ نہیں ’’حقیقی‘‘، اور ’’معمولی‘‘ نہیں ’’غیر معمولی‘‘ ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ تو امریکہ کے زوال کی معاشی، سیاسی اور عسکری بنیادیں ہیں۔
مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی وجہ ہمیشہ مابعدالطبیعاتی اور اخلاقی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکہ بدترین بحران میں مبتلا اور مسلسل آگے بڑھتے ہوئے زوال کی زد میں ہے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ معاشرہ کفر کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے مگر انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ بات ’’معاشرے‘‘ کے بارے میں جتنی درست ہے اتنی ہی ’’دنیا‘‘ کے بارے میں بھی درست ہے۔ اس لیے کہ معاشرہ ایک چھوٹی دنیا ہے، اور دنیا ایک بڑا معاشرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو طاقت عطا کرتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ وہ کمزوروں کے ساتھ انصاف کرتی ہے یا نہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انصاف خود ایک مذہبی تصور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت ایسی بنائی ہے کہ وہ انصاف کو پسند کرتا ہے۔ چنانچہ جو شخص انصاف کو پھلانگتا ہے وہ انسانی فطرت ہی کا انکار کردیتا ہے۔ اقبالؒ نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ افراد کی غلطیوں سے صرف ِنظر کرلیتے ہیں مگر قوموں اور ملتوں کے اجتماعی گناہوں کو معاف نہیں کرتے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب کوئی قوم ایک مخصوص مدت تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتی تو اس کو روئے زمین پر ایک طاقت کی حیثیت سے باقی نہیں رکھا جاتا۔ اس حوالے سے جب ہم امریکہ کے ریکارڈ پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ حد درجہ افسوس ناک نظر آتا ہے۔ امریکہ کی ممتاز دانش ور سوسن سونٹیگ کے بقول امریکہ وہ ملک ہے جس کی بنیاد ’’نسل کشی‘‘ پر رکھی ہوئی ہے۔ امریکہ دوسری عالمی جنگ میں بڑی طاقت بن کر ابھرا تو اس نے کسی جواز کے بغیر جاپان کے خلاف ایک جگہ نہیں دو جگہ ایٹم بم استعمال کیا۔ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوںنے عالمی مسائل کے حل کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کیا تو اس کی بنیاد انصاف کے بجائے ناانصافی کے تصور پر رکھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جو اکثریت کی نمائندہ ہے، محض مباحثے کا فورم ہے، اور سلامتی کونسل جو پانچ بڑی طاقتوں کی غلام ہے چھوٹی سی اقلیت کا مظہر مگر فیصلہ کن ادارہ ہے، اور اس کی بنیاد دلیل کیا جمہوریت پر بھی نہیں رکھی ہوئی۔ اس کی اصل صرف طاقت ہے۔ اس سلامتی کونسل نے 65 سال سے فلسطین اور کشمیر کے مسائل حل نہیں ہونے دیے۔ سلامتی کونسل میں جب بھی اسرائیل کے خلاف قرارداد آئی اسے امریکہ نے ویٹو کردیا اور فلسطینیوں پر عرصۂ حیات مزید تنگ ہوکر رہ گیا۔ امریکہ نے 65 سال میں اور کچھ کیا اقوام متحدہ کی اپنی قراردادوں کو بھی کشمیر کے سلسلے میں مؤثر نہیں ہونے دیا۔ امریکہ نے گزشتہ پچاس برسوں میں سو سے زائد مرتبہ بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کیا ہے۔ اس نے عراق کے خلاف دس سال تک اقتصادی پابندیاں عائد کیں جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ بچوں سمیت دس لاکھ افراد غذا اور دوائوں کی قلت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے، اور جب امریکہ کی سابق وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ سے پوچھا گیا کہ آپ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں، تو انہوں نے فرمایا:”It is acceptable and worth it” یعنی یہ قابل قبول بھی ہے اور قدروقیمت کا حامل بھی ہے۔ امریکہ نے افغانستان اور عراق کے خلاف جارحیتوں کا ارتکاب کیا اور تقریباً چھ لاکھ لوگ مار ڈالے۔ ایک لاکھ افغانستان میں، اور جان ہوپکنز یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق پانچ لاکھ عراق میں۔ عراق کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہاں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں، مگر وہاں سے کچھ بھی برآمد نہ ہوسکا۔ مگر اس بات پر امریکہ نے معذرت کا ایک لفظ بھی ادا نہ کیا۔
امریکہ کے فوجیوں نے افغانستان اور گوانتاناموبے میں اللہ کی کتاب قرآن مجید کی شعوری طور پر بے حرمتی کی ہے۔ بلاشبہ اس بے حرمتی میں امریکہ کی حکومت کا ہاتھ نہیں ہوگا، مگر اس نے یہ بے حرمتی کرنے والوں کو سزا دینا ضروری نہیں سمجھا۔ امریکہ نے ابوغریب جیل میں حکومت کے دائرے سے باہر اور گوانتاناموبے میں حکومت کے دائرے کے اندر ظلم کی نئی داستانیں رقم کیں۔ مغرب میں توہینِ رسالت کی جو پے در پے منظم وارداتیں ہوئی ہیں بعض لوگوں کو ان کی پشت پر بھی سی آئی اے کا ہاتھ نظر آتا ہے۔ ایسا ہے یا نہیں یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے، مگر امریکہ پاکستان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے قانون کے خاتمے میں گہری دلچسپی لیتا رہا ہے۔ امریکی جنگی صنعت نے نہ جانے دنیا میں کتنی جنگوں کو تخلیق کیا ہے اور امریکی سی آئی اے نے جانے کتنی حکومتوں کے تختے الٹے ہیں۔ امریکہ کے داخلی نظامِ انصاف کو ’’مثالی‘‘ کہا جاتا ہے، مگر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے نے اس نظامِ انصاف کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ اس لیے کہ اس نظامِ انصاف نے کسی شہادت کی موجودگی کے بغیر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا سنائی ہے۔ آخر یہ کیسی سپر پاور ہے جو کسی جواز کے بغیر عراق میں پانچ لاکھ لوگوں کو قتل کردیتی ہے اور ایک عورت کو کسی ٹھوس جواز کے بغیر 86 سال کی سزا کا مستحق گردانتی ہے؟ ان حقائق کو دیکھا جائے تو مابعدالطبیعاتی اور اخلاقی بنیادوں پر بھی امریکہ کے خلاف ایک مضبوط مقدمہ قائم ہوتا ہے، اور اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کے صدر اوباما اپنے دوسرے دور میں امریکہ کے اجتماعی جرائم کا بوجھ کم کرنے میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں یا نہیں؟ اوباما نے ایسا نہ کیا تو ایک عالمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ کے دن گنے جاچکے۔

حصہ