کیا قیامت کا سال گزرا ہے۔ جدائیاں اور فاصلے بچھا دینے والا سال۔کسے خبر تھی کہ جنوری 2020ء کے گزرتے ہی انسانوں کو ایک شدید اعصابی آزمائش کا سامنا ہوگا۔ فروری میں پراسرار خبریں تھیں اور مارچ میں ایک نئی اصطلاح متعارف ہوئی ’’لاک ڈاؤن‘‘۔ میدان، تفریح گاہیں ویران اور گلستان خالی، اسکول کالج بند، بازار سنسان، ائر پورٹ پر جہازوں کا اترنا چڑھنا جیسے خواب ہوگیا۔ جو جہاں تھا وہیں قید ہوگیا۔ لاکھوں لوگ دائمی سفر پر روانہ ہوگئے۔ اسپتال مریضوں سے بھر گئے اور ہر ملک کا محکمۂ صحت دہائی دینے لگا۔ بڑی لمبی داستان ہے جس کے بارے میں لکھنے بیٹھیں تو رات ختم ہوجائے مگر کہانی ختم نہیں ہوگی۔
یہ سال انسانوں سے انسانوں کے فاصلوں کا سال ٹھیرا کہ گلے لگانا، ہاتھ ملانا، پاس بیٹھ کر باتیں کرنا بیماری کا سبب قرار پایا۔ سوشلائزیشن، ملنا جلنا، محفل جمانا، دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں کے ساتھ بے تکلفی اور محبت کے لمحات گزارنا جو انسان کی سرشت میں شامل ہے اور جس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہے، سب ممنوع قرار پایا، اور گھروں میں قیدِ تنہائی مقدر بن گئی۔ بقول شاعر
تجھ سے قربت تو بہت ہے لیکن
فاصلہ فاصلہ کہلاتا ہے
فاصلے بڑھے تو ٹیکنالوجی نے بڑھ کر سہارا دیا، اور واٹس ایپ تعلقات قائم رکھنے کا ذریعہ بن گیا۔ لیکن اجتماعی سرگرمیوں کے لیے واٹس ایپ ناکافی رہا۔ ایسے میں ہماری زندگیوں میں ایک ایپ متعارف ہوئی ’’زوم‘‘۔ اللہ بھلا کرے جس نے بھی زوم بنایا۔
امریکا اور کینیڈا میں طویل فاصلوں کی وجہ سے بڑے پروگرام بھی آن لائن ہوتے ہیں، اور وہاں بجلی کے بہتر نظام کی وجہ سے وہ کامیاب رہتا ہے۔ لیکن پاکستان میں یہ اتنا آسان اور کامیاب نہیں تھا۔ پاکستان میں ملنا جلنا نسبتاً آسان تھا۔ اپنی گاڑی یا اپنے کسی پیارے کی گاڑی میں بہ مشکل ہنستے مسکراتے بیٹھے، پروگرام میں پہنچے، ایک دوسرے سے ملنے اور کچھ کام کی باتیں پلو میں باندھ کر اسی ترتیب سے واپس گھر کی طرف روانہ ہوئے۔
کورونا کی قیدِ تنہائی نے یہ سارے مزے خواب کردیے، اور ناصر کاظمی جو کہہ گئے وہی دہرانے کا دل چاہتا رہا:
’’نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے‘‘
اور پھر زوم نے قید تنہائی کی دیواریں توڑ دیں۔
تقریبِانعامات ہو، آفس میٹنگ ہو، کوئی ادبی نشست ہو یا تعزیتی اجلاس،کلاس ہو یا عید ملن پارٹی… سب زوم کے طلسماتی کمرے میں سما گیا۔ اور تو اور، نکاح اور شادی کی تقریب بھی زوم پر منعقد ہوگئیں، سات سمندرپار کے عزیز گھر بیٹھے شریکِ محفل ہوگئے۔ کیسی حیرت انگیز بات ہے… حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور میں اُڑنے والے قالین کی طرح فاصلوں کو منٹوں میں سمیٹنے والی ایجاد۔
اپنے اپنے گھر میں بیڈ روم ہو یا کچن، جہاں دل چاہے موبائل میں زوم کا متعلقہ پاس ورڈ ڈالیں اور انجمن آرائی کا لطف اٹھائیں۔ ایک دوسرے کو میک اَپ اور کپڑے دکھانے کا دل چاہے توکیمرہ آن کرلیں، ورنہ کیمرے کا جلباب گرا لیں۔
گئے برس نے جہاں ماسک، سینی ٹائزر، آکسی میٹر، آئسولیشن جیسے تکلیف دہ الفاظ زندگی میں داخل کیے، وہیں zoom گئے سال کا ایک مفید اور کارآمد تحفہ ثابت ہوا۔