ایک مسئلہ اور اُس کا حل

357

فون پر اپنی قریبی جاننے والی سے بات ہورہی تھی۔ باتوں کا سلسلہ جاری تھا کہ شادیوں کا ذکر آنکلا۔ وہ کہنے لگی کہ ’’میری خالہ زاد بہن کی شادی تھی، لیکن میں تو نہیں جاسکی‘‘۔ ہم نے حیرت سے پوچھا ’’سب خیریت تو تھی؟ تم نے اتنی قریبی شادی میں شرکت کیوں نہیں کی؟ بچے وغیرہ بیمار تھے یا ساس سسر؟‘‘
اس پر اُس نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا: ’’بہن! بیمار تو کوئی نہ تھا اور گھر میں بھی سب خیریت تھی۔ ویسے نہ پوچھو تو بہتر ہے۔‘‘
اب تو ہمیں اور تجسس ہوا (آخر کو عورت جو ٹھیرے) لہٰذا اُس سے کریدنا شروع کیا کہ ’’پھر آخر بات کیا تھی؟ کیا خالہ سے جھگڑا چل رہا تھا، یا خالو سے خفا تھیں کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے سے کررہے تھے اور تمھیں غصہ اسی بات پر تھا کہ میرے پیارے خوب صورت بھائی کو تو ریجیکٹ کردیا اور کالے کلوٹے لڑکے سے اپنی بیٹی کا بیاہ کررہے ہیں!‘‘
اب تو وہ جھنجھلائی کہ ’’جب تک بات کی تہہ تک نہ پہنچ جاؤ تمھیں سکون نہیں ملتا۔ بہن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ دراصل بات یہ ہے کہ شادی بیاہ یا اور تقریبات میں جانا آسان تھوڑی ہے۔ سب سے پہلے تو ڈھنگ کے کپڑے ہوں۔ پھر رکشا یا ٹیکسی کا کرایہ، اور اُس کے ساتھ ہی لینا دینا۔ اچھا خاصا خرچا ہوجاتا ہے ایک ہی تقریب میں جانے کے لیے۔
اچھا چلو کپڑے ہم بہن بھائی ایک دوسرے کے بچوں سے ادل بدل کراکے پہنا لیتے ہیں، اور بندہ آنے جانے کا کرایہ بھی برداشت کرلے، لیکن یہ دینا دلانا بڑا بھاری پڑ جاتا ہے۔ پانچ سو سے کم تو نظروں میں ہی نہیں آتے۔ پھر اپنے قریبی کی شادی ہو تو مزید زیادہ۔
اب اسی مہینے میرے ماموں زاد بھائی کی بھی شادی تھی، اور دیور کا بچہ بھی پاس ہوا، اُسے بھی دینا پڑا کہ انھوں نے پوری تقریب رکھی تھی۔ اب بتاؤ ایک کمانے والا اور یہ سو خرچے۔‘‘
وہ یہ سب جب بول کر لمحہ بھر کے لیے رکی تو ہم نے کہا کہ ’’اس کا کوئی حل بھی تو نکالا جاسکتا ہے۔‘‘
’’کیا حل…؟ کیسا حل…؟ کیا یہ ریاضی کا سوال ہے جو تم تقریبات میں جانے کے لیے بھی حل نکال رہی ہو!‘‘ اب ہم نے اس سے کہا ’’اس فون کو ذرا اپنے کان کے قریب کرو‘‘۔ اب تو وہ مزید پریشان ہوئی کہ اس کو قریب کرنے سے کیا ہوگا؟
’’ارے بھئی تمھیں آواز ٹھیک سے سنائی دے گی اور تم غور سے ہماری بات سن لو گی‘‘۔ کہنے لگی ’’یہ کیا بات ہوئی بھلا…‘‘ اور پھر جھنجھلاتے ہوئے کہنے لگی ’’اچھا کہو‘‘۔
اب ہم سرگوشی کے انداز میں اُس سے کہنے لگے: ’’ایسا کیا کرو کہ لفافے پر یا تحفے پر نام لکھے بِنا دے دیا کرو، اور اس کے لیے اپنے ساتھ اور بھی کئی خواتین کو ملا لو جنھیں اس تقریب میں جانا ہو۔ بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ تقریب میں کوئی دو خواتین ایک جیسے پندرہ سے بیس لفافے اور گوند یا گم اسٹک بھی لے آئیں کہ جس جس کو پیسے دینے ہوں وہ ان ایک جیسے لفافوں میں پیسے رکھیں اور دے دیں بنا نام لکھے، اور ساتھ ہی گفٹ پیپرز بھی لے آئیں تاکہ جنھوں نے تحفوں پر نام لکھ بھی لیے ہوں تو اُن ناموں کی جگہ پر وہ گفٹ پیپر لگا دیے جائیں، تاکہ وہ نام بھی چھپ جائیں۔‘‘
اب اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا: ’’یہ تو ٹھیک ہے، لیکن یہ تو بتاؤ کہ اس سے ہوگا کیا؟ کیا تحفہ وصول کرنے والا سوچتا نہیں رہے گا کہ یہ دیا کس نے ہے؟‘‘
’’ارے سوچتا ہے تو سوچے۔ ویسے اسے تحفے سے مطلب ہونا چاہیے، نہ کہ نام سے کہ کس نے دیا؟‘‘
اب وہ پھر جھنجھلائی اور کہنے لگی: ’’بِنا ناموں کے تحفے یا لفافے دینے کا آخر مقصد کیا ہے؟‘‘
اب ہم نے اپنا سر پکڑا اور زبان پر آتے اس جملے (موٹی عقل والی بہنا) کو روکتے ہوئے بس یہ کہا: ’’اس سے ہوگا یہ کہ سب سے پہلے بہت سے افراد جو اسی لینے دینے کے چکر میں تقریبات میں شرکت نہیں کرپاتے کہ اُن کے پاس اس وقت پیسے نہیں، وہ شرکت کرلیں گے کہ کسی کو پتا نہیں چلے گا کہ کس نے ہزار روپے دیے، اور کس نے سو روپے… اور پھر ساتھ ہی ان لفافوں اور تحفوں کو وصول کرنے والے بھی ڈنر سیٹ دینے والے اور خالی میٹھے کے پیالے دینے والے کی محبتوں کو یکساں سمجھیں گے، اور ان مہمانوں کا آنا ہی ان میزبانوں کے لیے بہت ہوگا کہ یہ آنے والے اپنا اتنا قیمتی وقت نکال کر ہماری تقریب میں شرکت کے لیے آئے۔ اور ویسے بھی بسا اوقات متوسط طبقے کا شخص بھی ایک ماہ میں دو قریبی شادیاں یا دیگر تقریبات آنے پر یا تو قرض دار ہوجاتا ہے یا پھر وہ تقریب میں شرکت ہی نہیں کرتا۔ لہٰذا وہ اس سے بچ جائے گا، یہاں تک کہ خالی لفافہ دینے پر بھی کوئی ہچکچائے گا نہیں، کہ آنے جانے میں خرچ ہونے والا کرایوں کا پیسہ ہوگا تو وہ کم از کم شرکت تو کرلے گا۔‘‘
اس نے جب یہ سنا تو کہنے لگی: ’’ویسے کہتی تو تم ٹھیک ہو، اور یہ روایت قائم کی بھی جاسکتی ہے۔ خاندان میں جب کسی کی شادی آئی تو اس سے پہلے کم از کم کزنز وغیرہ سے بات کرکے یہ کیا جاسکتا ہے، اور یہ خالی لفافے بیس کیا میں تو پچیس لے جایا کروں گی اور گفٹ پیپر بھی کاٹ کر لے جانا کیا مسئلہ ہے!گم اسٹک کے ساتھ ہفتہ بھر پہلے ہی یہ تینوں چیزیں اپنے پرس میں رکھ لیا کروں گی۔‘‘
میری وہ جاننے والی تو اس بات کے لیے آئیں بائیں شائیں کیے بغیر ہی راضی ہوگئی۔ اب آپ بتائیں، کیا آپ بھی اس اچھی روایت کو قائم کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کہ کر بھلا تو ہو بھلا۔

حصہ