پندار

245

تیز قدم بڑھاتی، گھر کی جانب رواں تھی۔ آج تو نگہت باجی نے بھی حد ہی کردی تھی۔ تفسیر بتا رہی تھیں یا دلوں پہ بوجھ ڈال رہی تھیں!… گھر پہنچتے ہی چادر ایک طرف ڈالی اور پانی لانے کے لیے بہو کو آواز دی۔ ناگواری چہرے پہ عیاں تھی، تبھی شاید بہو کچھ کہے بنا گلاس رکھ کر چلی گئی۔ مدرّسہ کو جواب دینا چاہتی تھی کہ ان کے الفاظ اندر تک خراش دے گئے تھے:۔
’’ہم سب اپنے پندار میں مغرور ہیں‘‘… ’’میں تو مغرور نہیں ہوں‘‘ میں کہنا چاہتی تھی، مگر کہہ نہ پائی، جانے کیوں! دلیل بن نہ پائی کہ دل نے ساتھ نہ دیا… مگر کیوں؟ کیا میرے دل میں کوئی چور تھا؟ خود سے الجھتے ہوئے کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی لفظوں کی ضرب دل پہ لگ رہی تھی۔ کیا چور ہے میرے دل میں؟ اس کا پتا کیسے لگے؟ اسی ادھیڑبن میں اپنی زندگی کا تجزیہ شروع کیا۔ ایسا کیا کیا ہے میں نے جو آج میں جواب نہ دے پائی؟ کیسا چور چھپا بیٹھا ہے دل میں، کیسی گتھی ہے یہ…؟
چھوٹی عمر میں شادی ہوئی اور ایک دَم سے اتنی ساری ذمے داریاں مجھ پہ آن پڑیں۔ سب کچھ اچانک سنبھالنا مشکل تھا، تو بوکھلائی سی رہتی، کیوں کہ عادت ہی نہ تھی… ساس پیار سے بھی کچھ سمجھاتیں تو چڑ جاتی۔ برا لگتا کہ کیا میرے پیچھے پڑی رہتی ہیں، ہر کام میں عیب نکالتی رہتی ہیں! جب کہ وہ نرم دل خاتون تھیں، میری اصلاح ہی کرتی تھیں۔ مگر دنیا ساس کے حوالے سے جو کچھ دماغ میں بھرتی رہتی ہے، آخر آنکھوں پہ پٹی آ ہی جاتی ہے۔
تھوڑا وقت سرکا، بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو سوچا جب مجھے ہی سنبھالنا ہے، سب کچھ میرا ہی ہے تو میں اس میں کسی کو بھی کوئی اختیارات کیوں دوں؟ ان کا کیا کام؟ اب میرے فیصلے ہونے چاہئیں۔ میرا گھر ہے، میرے بچے ہیں۔ پھر اقتدار کی ایک نئی جنگ شروع ہوئی، آئے روز کے تنائو سے بچے بھی ڈسٹرب ہوئے، مگر میں محاذ پر ڈٹی رہی۔ بھلا میں کیوں پیچھے ہٹتی! بالآخر کچھ عرصے کی کھینچا تانی کے بعد سب اختیارات میرے ہاتھ میں آگئے۔ بیٹے کو بھی ماں سے بے زاری ہونے لگی۔ میری کامیاب پالیسی رنگ لائی، میں اپنی جیت پہ خوش تھی۔ اب میں کسی کو جواب دہ نہیں تھی۔
کچھ عرصے بعد ساس چل بسیں… اب تو میدان کھلا تھا، جہاں چاہے بچوں کے رشتے کروں، جس سے چاہے ملوں نہ ملوں… میرا گھر، میرے بچے، میرا شوہر، اور میری حکمرانی۔ خود میں مگن وقت گزرتا گیا۔
آج تینوں بہوؤں کو میں اپنی مرضی سے لائی ہوں۔ میرے ہاتھ کے نیچے رہتی ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ اپنی مرضی کرے۔ ہاں میں تو کامیاب ہوں۔ شاید اسی زعم میں مبتلا میں دنیا سے چلی بھی جاتی… مگر جب سے نگہت باجی کی باتیں سننا شروع کی ہیں، دل میں ایک بوجھ ٹھیر گیا ہے۔ عجیب بے سکونی ہے۔ میں الجھی ہوئی تھی کہ سیڑھیاں چڑھتے اپنی بہوؤں کی باتیں میرے کانوں میں پڑیں، وہ میرے فیصلوں پر شکوے کررہی تھیں۔ ایک پل میں ٹھٹکی، غصے کی ایک لہر دوڑ گئی۔ شاید اپنے اقتدار پہ آنچ آنے کی بُو سونگھ لی تھی۔
ایسا پہلے بھی بارہا ہوا کہ جب بھی میرے اقتدار کی ڈور ڈھیلی ہوتی دِکھتی، میں اپنے رویّے کی سختی سے طنابیں مزید کَس لیتی۔ پَرآج نگہت باجی کے الفاظ میرے دل میں سر اٹھائے سامنے موجود تھے ’’ہم سب اپنے پندار میں مغرور ہیں…‘‘ اُف خدایا یہ میں کیا کرتی رہی… کیا یہ چور تھا میرے دل کا جس کو میں کھوج رہی تھی۔ اس وجہ سے میں اس دن کوئی جواب نہ دے سکی۔ جانے کتنی دیر وہاں کھڑی رہی اور واپس آگئی۔ اپنے پلنگ پہ ڈھیر ہوگئی۔ کیا میری جیت، میری کامیابی یہی تھی؟ صرف اپنے پندار پہ حاکمیت کی! ۔
اگر میں نے سوچا سمجھا ہوتا تو میرے گھر کا ماحول کس قدر پُرسکون اور مہذب ہوتا! مگر ایسا تو تب ہوتا جب میں ان کے دلوں میں اپنا خوف اور رعب ڈالنے کے بجائے محبت و اعتماد قائم کرتی!۔
آج چور پکڑا گیا تھا، اور اب شرمساری کے سوا کچھ نہ دِکھتا تھا، اپنے رب کے آگے بھی اور اپنی اولاد کے آگے بھی… میری اولاد نے تو میرا، میری ساس سسر سے رویہ بھی دیکھا ہوا تھا، وہ تو نجانے کس حد تک جاسکتے ہیں میرے خلاف۔ واقعی میں اپنے پندار میں بہت مغرور تھی۔کیا اب اس کا مداوا ممکن ہے؟
میری پریشانی میرے حواس پر طاری ہورہی تھی۔ میری ہمت جواب دینے لگی۔ لمحوں بعد دل نے سرگوشی کی ’’گیا وقت تو ہاتھ سے نکل گیا… یہ وقت جو میرے ہاتھ ہے کیا اس کو بھی گنوا دیا جائے؟ کوئی سرا تو ہوگا اس الجھن کا، کوئی تو راستہ ہوگا سدھار کا…‘‘ اے خدا! سجدے میں گرتے آنسو میرے دل کی پشیمانی کے گواہ تھے اور زندگی کے پرانے زاویے بھی دھو گئے تھے۔

حصہ