جہیز

264

’’ارے بھابھی کا فرنیچر دیکھا تم نے… کتنا خوب صورت ہے، جہیز کی ایک ایک چیز کتنی اچھی اور قیمتی لائی ہیں، پورا گھر بھر گیا ان کے جہیز سے۔‘‘ سدرہ نے چھوٹی بہن نادیہ کو تفصیل سے بتایا، جوکہ ابھی ساری کارروائی دیکھ کر کمرے میں داخل ہوئی تھی۔
’’ہاں کتنی شان سے گھر میں آرہی ہیں۔ آنے سے پہلے اپنی چیزوں کا رعب جما رہی ہیں۔‘‘ نادیہ نے ناک بھوں چڑھاکر کہا۔
’’کیوں نہ جمائیں! جب ان کے پاس اتنا ہے تو دکھائیں گی تو… ویسے بھی جہیز جتنا زیادہ ہو، اتنی ہی بہو کی سسرال میں عزت ہوتی ہے۔‘‘ سدرہ نے کہا۔
’’ہاں یہ تو ہے‘‘، نادیہ نے رُکھائی سے تائید کی۔
سدرہ اور نادیہ کے اکلوتے بھائی ساجد کی شادی طے پا چکی تھی، آج جہیز گھر میں آچکا تھا۔ دو دن بعد نکاح تھا۔ گھر میں خوب جوش و خروش سے شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ بھابھی کا فرنیچر دیکھ کر لوگ تعریف کررہے تھے۔ جہیز کی ایک ایک چیز دیکھ کر خاندان والے واہ واہ کررہے تھے۔
بہو عائشہ متوسط گھرانے کی اکلوتی بیٹی تھی، لیکن ماں باپ نے جہیز کی ایک ایک چیز بنائی تاکہ سسرال سے طعنے سننے کو نہ ملیں۔ ساجد کی ماں فاخرہ بھی چیزیں دیکھ کر خوش ہورہی تھی۔
’’امی مجھے بھی آپ اتنا جہیز دیجیے گا میری شادی میں۔‘‘ سدرہ نے انوکھی فرمائش کر ڈالی۔
’’کیوں بھئی! میں تو اتنا جہیز نہیں دے سکتی۔‘‘
’’کیوں نہیں دے سکتیں…؟ آپ بھائی کے سسرال والوں سے اتنا جہیز لے رہی ہیں تو مجھے کیوں نہیں دے سکتیں جہیز؟‘‘
’’وہ الگس بات ہے، وہ اپنی مرضی سے دے رہے ہیں۔‘‘ فاخرہ نے گڑبڑا کر کہا۔
’’تو آپ منع بھی تو کرسکتی تھیں، لیکن نہیں، آپ کو اپنی واہ واہ کروانی ہے خاندان میں… مجھے نہیں پتا، میرا جہیز بھی اتنا شان دار ہونا چاہیے بتادیں بھائی کو… آخر میں بھی چاہتی ہوں میری بھی سسرال میں عزت بڑھے۔‘‘ سدرہ نے غصے سے کہا۔
’’عائشہ کے ابو حیات ہیں اور کمپنی میں اچھی پوزیشن پر ہیں، وہ دے سکتے ہیں، ان کی اکلوتی بیٹی ہے۔ تمھارے ابو حیات نہیں۔ تمھارا ایک ہی بھائی ہے، اس کی بھی ابھی نئی جاب لگی ہے… ایسا شان دار جہیز تو وہ نہیں بنا پائے گا، اپنے حالات کو سمجھو… خودغرض مت بنو۔‘‘ فاخرہ نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
آپ بھی تو خودغرض بن گئیں، آپ نے بھی تو عائشہ کے امی ابو کو منع نہیں کیا، اب دیکھیے گا عائشہ بھابھی ہم پر اپنے جہیز کا رعب جمائیں گی۔‘‘
’’کیوں بھئی ہم پر کیوں جمائے گی؟ اپنے لیے لائی ہے، ہمارے لیے تھوڑی لائی ہے‘‘۔ فاخرہ بیگم نے لاپروائی سے کہا۔
شادی خیر و عافیت سے انجام پاگئی۔ عائشہ اور ساجد کی ساری دعوتیں ختم ہوگئی تھیں۔ معمول کی زندگی شروع ہوچکی تھی، لیکن عائشہ زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں گزارتی۔ ساجد کو آفس بھیج کر اپنے کمرے میں مقید ہوجاتی تھی۔ فاخرہ بیگم نے کئی دفعہ اسے کہا کہ ہمارے پاس بیٹھو، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیا کرو، لیکن وہ ہر بار ٹال جاتی۔
’’امی میں یہ ڈنر سیٹ نکال لوں؟‘‘ سدرہ نے الماری سے نیا ڈنر سیٹ نکالتے ہوئے پوچھا۔
’’ہاں نکال لو… آج خاص مہمان آئیں گے، ایک ایک چیز خاص ہونی چاہیے۔‘‘ سدرہ کو دیکھنے لوگ آرہے تھے جس کی تیاری زور و شور سے جاری تھی، اس لیے وہ ہر چیز خود گھر پر بنا رہی تھی۔
’’یہ میرا ڈنر سیٹ کیوں نکالا؟ کس سے پوچھ کر نکالا…؟‘‘ عائشہ نے اپنا ڈنر سیٹ ڈائننگ ٹیبل پر دیکھ کر پوچھا۔
’’کیا مطلب…؟‘‘ فاخرہ بیگم عائشہ کے انداز دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔
’’مطلب یہ کہ یہ میری کراکری ہے… یہ میں ہی استعمال کرسکتی ہوں، میری کسی چیز کو کوئی میری اجازت کے بغیر ہاتھ نہیں لگائے گا۔‘‘ عائشہ نے اپنا ڈنر سیٹ ٹیبل سے اٹھاتے ہوئے کہا۔
’’بہو! یہ تم کس لہجے میں بات کررہی ہو! ہم تمھارے کچھ نہیں لگتے کیا؟‘‘ فاخرہ بیگم نے فکرمند لہجے میں کہا۔
’’لگتے ہیں، لیکن میری چیزیں فالتو نہیں کہ ہر ایرے غیرے کے لیے نکال باہر کریں، اس لیے آپ اپنی چیزیں استعمال کریں۔‘‘ یہ کہہ کر عائشہ وہاں سے چلی گئی۔
فاخرہ بیگم بہو کے جہیز کا رعب و دبدبہ لے کر بیٹھی ہوئی تھیں جس کا اثر خاندان پر تو پڑ چکا، لیکن اب ان کی باری تھی۔

حصہ