سال 2020 اپنے اَن مٹ گہرے نقوش چھوڑ کر رخصت ہوا۔ ’’کوویڈ 19‘‘کی ہلاکت خیزی کے باعث سوشل میڈیا کے پیغامات میں بے شمار لوگ اسے ’’منحوس اور قاتل سال‘‘ کے لقب سے نواز رہے ہیں۔ جب کہ ’’حدیث قدسی‘‘ ہے ’’انسان مجھ کو برا کہتا ہے جب وہ وقت کو کوستا ہے کیوں کہ میں وقت ہوں اور میرے قبضۂ قدرت میں دن اوررات کو تبدیل کرنا ہے۔‘‘
تکویمی کلینڈر ہو یا قمری‘ سب اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ نظامِ قدرت کی اکائیاں اور اس کی بے مثال طاقت کے مظہر ہیں۔ عظیم معجزاتی کتاب قرآن پاک میں متعدد مقامات پر پروردگار عالم انہی مظاہر قدرت پر غور وغوض کرنے اور خود تک پہچنے کی واضع ہدایت دی ہے ۔
آزمائش کتنی ہی کڑی کیوں نہ ہو، دکھ کے بادل کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں مومن کی شان استقامت اور صبر سے رجوع الا للہ ہی میں پنہاں ہے۔
حدیث نبویؐ ہے ’’جب تو کسی مشکل میں مدد کا طالب ہو تو خدا سے مدد طلب کر، خدا کو اپنا مددگار بنا اور اس بات کا یقین کر کہ لوگ متحد ہو کر تجھے نفع پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے سوائے اس کے جو تیرے لیے لکھ دیا گیا ہے۔‘‘
آیئے سال 2020 کا جائزہ کوویڈ19 کے تناظرمیں لیتے ہیں۔
چاند اور مریخ پر کمند ڈالنے اور موسموں کے تغیرات کو کنٹرول کرنے کے دعوے دار سائنس دانوں کے لیے ’’کوویڈ 19‘‘ بہت بڑا چیلینج ثابت ہوا۔
حیرت انگیز طور سے ’’جینیاتی سائنس‘‘ کے موجد ممالک جو مستقبل کے سوپر ہیومین اور سوپر آرٹی فیشل اینٹلی جنس بنانے کے دعوے دار ہیں، وہ ایک ’’خورد بینی جرثومے‘‘ کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔ ’’کوویڈ19‘‘نے پوری دنیا کو بدل ڈالا۔ کبھی کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ تیز رفتاری سے دوڑتی بھاگتی زندگی یوں اچانک لاک ڈاؤن سے منجمد ہو جائے گی اور معیشت کا پہیہ جام ہوجائے گا۔ بے روزگاری اور بیماری چاروں جانب سے گھیر لے گی۔ اقتصادی بحران کی وجہ سے ترقی یافتہ خو ش حال ممالک کے شہری بھی قطار لگائے ’’امدادی راشن بیگ‘‘ وصول کرتے دکھائی دیں گے ۔
’’لاک ڈائون‘‘ سے آب و ہوا پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیں تو یقینا آپ کو یہ جان کر خوش گوار حیرت ہوگی کہ عالمی ائر کوالٹی انڈیکس 50 فیصد تک بہتر ہوا ہے۔ ذرائع آمد و رفت اور صنعتوں سے خارج ہوتی زہریلی کاربن نائٹروجن آکسائڈ(No2) کی مقدار میں50 سے 60 فیصد تک کمی ہوئی ہے جس کے باعث ہوا اور دریائوں کے پانی کا معیار ناقابل یقین حد تک شفاف ہوگیا۔ فضائی آلودگی میں کمی کے باعث برسوں بعد دل کش تاروں بھرے آسمان کا مشاہدہ اس کے حقیقی رنگوں میں کیا گیا… اس کے علاوہ قدرتی حفاظتی ڈھال اوزون کو نقصان پہنچانے والی ’’میتھین گیس‘‘ کے اخراج میں کمی سے اوزون کی تہہ بھی مستحکم ہوئی۔
جنگلی اور آبی حیات نے بھی سکھ کا سانس لیا۔ سیاحوں کے ہجوم ختم ہوئے تو وینس کی نہروں کا پانی اتنا شفاف ہوا کہ عرصے بعد سطح پر مچھلیاں تیرتی دیکھی گئیں۔ کچھوئوں کی نایاب نسلیں دن کے اجالے میں ساحل سمندر پر دکھائی دیں۔ یورپ اورامریکا کے کئی ممالک میں ہرن‘ پہاڑی بکرے اور کوالاز سڑکوں پر اطمینان سے گھومتے دیکھے گئے۔
انسانی معاشرے پر بھی ’’کوویڈ 19‘‘ کے مثبت اثرات دکھائی دیے۔ لاکھ چاہنے کے باوجود بھی تیزرفتار زندگی کی مصروفیات میں ہمیں فرصت سے اکٹھے بیٹھنے کا موقع نصیب نہیں ہوتا تھا۔ لاک ڈاؤن کے دوران گھروں میں محصور ہو کر اپنوں کے ساتھ ’’کوالٹی ٹائم‘‘ گزارنے کا موقع ملا۔ ایک دوسرے کو جاننے اور سمجھنے کا موقع ملا اور دوریاں کم ہوئیں۔ اس مالی تنگی کے دور میں انسانیت کو ہم نے بلندیوں کے عروج پر دیکھا…باہمی ایثار و ہمدردی کے جذبے کے تحت غریبوں‘ مسکینوں اور ناداروں کے لیے دنیا بھر میں سینکڑوں ویلفیئر اداروں اور صاحبِ حیثیت افراد نے دل کھول کر عطیات دیں۔ ماضی میں اتنے بڑے پیمانے پر ’’چیئریٹی‘‘ کی ایک مثال بھی ڈھونڈنا مشکل ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں رضا کاروں نے اسپتالوں اور اداروں کواپنی خدمات مفت پیش کیں۔
’’کوویڈ 19‘‘ کے دوران زندگی کی بے ثباتی اور اپنی بے بسی اور کم مائیگی کے شدید احساس نے ابنِ آدم کو اپنے خالق کے قریب کردیا۔ ہر عقیدہ کا انسان اپنی مذہبی اقدار میں سکونِ قلب کا متلاشی دکھائی دیا۔ وہائٹ ہاؤس میں وبا کے اثرات سے بچنے کے لیے خصوصی دعائیہ تقریبات ہوئیں۔500 سال بعد اسپین میں اذان کی آواز گونج اٹھی۔ چین میں مساجد میں خصوصی دعائیں کروائی گئیں۔ فرانس اور اٹلی میں بالکنیوں میں نمازی دعائیں کرتے دکھائی دیے۔
بحیثیت ایک مسلمان ہمارا یہ عقیدہ راسخ ہے کہ پروردگار عالم کی مرضی کے بغیر کائنات میں ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ مسلمان ہر حال میں مطمئن رہتا ہے کیوں کہ اسے صبر اور شکر کے ذریعے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کی امید ہوتی ہے۔ اسی لیے کوویڈ19 کی خوف ناک لہر کے دوران مسلم ممالک میں ڈپریشن اور خودکشی کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے برعکس لادین معاشروں میں عدم اطمینان،خوف اور خودکشی کے درجنوں کیس رپورٹ ہوئے۔
2020 کے اختتام تک ’’کوویڈ 19‘‘ کی ویکسین امریکا چین اور فرانس میں تیار ہوچکی ہے۔ کچھ عرصے بعد تمام ممالک کی دسترس میں بھی ہوگی اور مستقبل کا انسان اس موذی وبا سے چھٹکارا بھی حاصل کر لے گا۔ لیکن کیا ہم نے سوچا ہے کہ اگر ہم نے اپنی روش نہ بدلی اور رب کی عطا کردہ قدرتی وسائل سے مالا مال دنیا کو اجاڑتے رہے تو مستقبل میں ہمیں شاید اس سے بھی بھیانک وبا کا مقابلہ کرنا پڑے ۔ ہمیں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کو روکنا ہوگا‘ صنعتی اور مصنوعی اشیا کے غیر ضروری استعمال کو چھوڑنا ہوگا‘ گرین ہاؤس کی زہریلی گیس سے چھٹکارا پانا ہوگا اور اپنے رب کی عطاکردہ نعمتوں کی قدر کرنی ہوگی جب ہی ہم آنے والی نسلوں کو اَن دیکھے خطرات سے محفوظ دنیا دے پائیں گے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتاہے۔‘‘