ہندوستان کے شہر الہٰ آباد سے میرا تعلق ہے میں نے اپنی تعلیم اسی شہر سے مکمل کی۔ ’’جمنا کرسچن کالج‘‘کا شمار الہٰ آباد کے بہترین کالجوں میں ہوتاتھا۔ میں نے انٹرمیڈیٹ یہیں سے پاس کیا۔ انٹر کا آخری سال تھا سن 1965 کی بات ہے کالج میں فنکشن تھا سارے طالب علم اور اساتذہ کالج ہال میں موجود تھے۔ اسٹیج پر پرنسپل و صاحب (مسٹر اوڈین) اور ان کے برابر میں ایک صاحب سفید شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ میں ملبوس، خوبصورت چہرہ، چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے تشریف فرما تھے معلوم یہ ہوا کہ یہ صاحب مہمانِ خصوصی ہیں دھلی سے تشریف لائے ہیں اور اسی کالج کی پیداوار ہیں یعنی سابق طالب علم ہیں۔ دھلی میں کسی اچھے ادارے میں برسرِ روزگار ہیں۔ لیکن اصل مسکن الہٰ آباد ہی ہے۔ پروگرام ہوتے رہے اور بعد میں مائک پر اعلان ہوا کہ اب مہمانِ خصوصی اور اس کالج کے سابق طالب علم جناب شمس الرحمن فاروقی صاحب آپ لوگوں سے خطاب فرمائیں گے(یہ اعلان انگریزی زبان میں ہوا تھا)۔ پہلے تو میں یہی سمجھا کہ کوئی شاعر وائر ہیں اس لیے کہ لباس سے تو یہی لگ رہا تھا۔ مگر جب فاروقی صاحب نے انگریزی زبان میں اپنی تقریر کا آغاز کیا اور ایسی دھواں دار تقریر کی کہ بس نہ پوچھیں سارے طالب علم ششدر رہ گئے کہ شیروانی پہن کر بھی اتنی اچھی انگریزی بولی جا سکتی ہے۔ ہال میں مکمل خاموشی، شمس الرحمن فاروقی کا موضوع تھا انسان دنیا میں کس طرح ترقی کرتا ہے اور ترقی کرنے کے لیے اسے کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ بقول مرزا غالب۔۔۔
دام ہر موج میں ہے حلقہء صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک
پروگرام ختم ہونے کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ فاروقی صاحب سے ملاقات کی جائے مگر ممکن نہ ہوسکا اس لیے کہ پرنسپل صاحب مسلسل ان کے ساتھ تھے اور ہم طالب علم ان سے بہت خوف کھاتے تھے۔
انٹرپاس کرنے کے بعد انجینئرنگ کالج گیا تعلیم مکمل کی اور پاکستان آگیا۔ اکثر کسی اخبار یا رسالے میں جب کبھی شمس الرحمن فاروقی صاحب کا نام دیکھتا تھا تو بہت خوش ہوتا تھا۔الہ آباد کا کرسچن کالج یاد آنے لگتا تھا۔
شمس الرحمن فاروقی الٰہ آباد سے ایک علمی اور ادبی رسالہ’’ شب خون‘‘ بڑی پابندی سے شائع کیا کرتے تھے رسالہ پاکستان میں بھی بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا تھا ۔اس رسالے کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ فاروقی صاحب نے نئے شاعروں اور ادیبوں کو زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل ہی آنے والے کل کے معمار ہوں گے۔ فاروقی صاحب ان نئے لکھاریوں پر تنقید بھی کیا کرتے تھے ،مگر وہ تنقید برائے اصلاح ہوا کرتی تھی تاکہ ان لکھاریوں کی بہترین نشوونما ہو سکے۔ فاروقی صاحب کی کلّیات اور چند دیگر کتابیں بھی کراچی کے رنگ ِادب پبلی کیشنز نے شائع کی جس کی ادبی حلقوں میں خوب پزیرائی ہوئی۔
آج صبح میرے بیٹے نے یہ د ل دوز خبر سنائی کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کا الٰہ آباد میں انتقال ہو گیا۔ موت کا مزہ تو ہر کسی کو چکھنا ہے مگر کسی عظیم شخص کا دنیا سے گزر جانا، خاص طور پر ادبی دنیا سے اور پھر ایسی شخصیت جس کا نعم البدل بھی بظاہر نظر نہ آرہا ہو، تو تکلیف تو ہوتی ہے ۔فاروقی صاحب ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ادب کا وہ میدان جس کے فاروقی صاحب بہترین شہسوار تھے اچانک خالی ہوگیا۔
’’ایک روشن دماغ تھا نہ رہا‘‘
شمس الرحمن فاروقی کا دور ادبی حلقوں میں دور ِفاروقی کہا جاتا ہے فاروقی صاحب دنیا سے کیا رخصت ہوئے ایک عہد کا خاتمہ ہوگیا ،ایک دور اپنے اختتام کو پہنچا، اب دیکھیے ’’کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق‘‘
کتابیں تو ان کی بہت ساری ہیں ،میں کس کس کا ذکر کروں’’ تفہیم ِغالب ‘‘،’’شعرِ شور انگیز‘‘،’’ ارمغانِ شمس الرحمٰن فاروقی‘‘… تین درجن سے زائد کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ فاروقی صاحب کی کلّیات تو بہت ضخیم ہے ایک غزل کے صرف دو اشعار پر اکتفا کر رہا ہوں…۔
مجبور ہوا وقت کی تنگی سے میں ورنہ
یہ آخری بازی یوں ہی ہرنی تو نہیں تھی
بے صرفہ و بے شہرہ سہی عمر ہماری
ناجنسوں میں یوں کٹ کے گزرنی تو نہیں تھی
شاعر یا ادیب دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں مگر اپنے پیچھے جو کلام چھوڑ جاتے ہیں اگر اس میں جان ہے تو صدیاں گزر جانے کے بعد بھی وہ زندہ رہتا ہے بقول میر تقی میرؔ…۔
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
شمس الرحمن فاروقی اردو ادب کو جو قیمتی سرمایہ دے کر گئے ہیں وہ کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اہلِ علم و ادب ہمیشہ اس سے مستفید ہوتے رہیں گے۔
شمس الرحمٰن فاروقی کو اللہ تعالی نے ان کی زندگی ہی میں بہت عزت اور شہرت سے نوازا کم ادیب اور شاعر ہی ایسے خوش قسمت ہوتے ہیں فاروقی صاحب کو جن جن اعزازات سے نوازا گیا اس میں بھارت کا ’’پدم شری ایوارڈ‘‘ پاکستان کا سرکاری اعزاز’’ امتیازِ پاکستان‘‘ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ڈائریکٹوریٹ کی اعزازی ڈگری غرضی یہ کہ اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے مگر یہ سارے اعزازات اگر ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیے جائیں اور دوسرے پلڑے میں ان کی شخصیت کا صرف ایک پہلو رکھ دیا جائے تو شخصیت کا پلڑا بھاری ہوگا ان کی عظیم شخصیت کے آگے سارے اعزازات ہیچ ہیں فاروقی صاحب سے کسی اعزاز کی وابستگی خود اس اعزاز کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اللہ تعالی آخرت میں بھی اسی طرح انہیں عزت بخشے آمین!۔
میں ذکر کر رہا تھا کراچی کا کہ جب کبھی فاروقی صاحب کا نام کسی اخبار یا رسالے میں دیکھتا تو بہت خوش ہوتا تھااور کبھی یہ سننے میں آتا کہ فاروقی صاحب کراچی تشریف لائے تھے اور واپس بھی چلے گئے تومجھے قلق ہوتا کہ میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکا۔ معروف افسانہ نگار علی حیدر ملک صاحب کی رہائش میرے گھر کے قریب ہوا کرتی تھی میں نے ان سے اصرار کیا کہ اب جب کبھی فاروقی صاحب کراچی آئیں تو مجھے ضرور بتا دیجیے گا۔ اور ایک دن ملک صاحب کا فون آیا کہ فاروقی صاحب بہت ہی مختصر دورے پر کراچی آرہے ہیں اور آج شام آرٹس کونسل میں خطاب فرمائیں گے۔ میں نے سارے کام چھوڑے اور آرٹس کونسل پہنچ گیا۔ فاروقی صاحب کا خطاب شروع ہوچکا تھا۔ اسٹیج پر وہی چہرہ جسے ہم نے آج سے 45 سال قبل الہٰ آباد میں دیکھا تھا’ جب آتش جوان تھا‘۔ میر تقی میرؔ کی شاعری پر تبصرہ فرما رہے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ کی تقریر صرف اور صرف میری تقی میرؔ کی شاعری کے ارد گرد گھومتی رہی ایسا لگتا تھا جیسے فاروقی صاحب فاروقی صاحب نہیں ہیں بلکہ میر تقی میرؔ کا انسائکلو پیڈیا ہیں۔ ہال سا معین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کچھ احباب ایسے بھی تھے جو کرسیوں سے محروم تھے مگر ادبی جذبے سے سر شار ہمہ تن گوش تھے۔
تقریر ختم ہونے کے بعد میں نے اسٹیج پر جا کر الہٰ آباد اور کرسچن کالج کا حوالہ دیا، بہت خوش ہوئے گلے لگا لیا یہ کہہ کر کہ ’’یار تم تو اپنے گراہیں ہو۔ اور سناؤ کراچی میں کیا کر رہے ہو‘‘ میں نے تفصیلاً اپنی مصروفیات بیان کی۔ خوش ہوتے رہے اور غور سے میری باتیں سنتے رہے۔ اپنی کتاب ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ تحفتاً مجھے دی اپنی دستخط کے ساتھ جو میرے لیے اعزاز ہے۔
موقع کو غنیمت جانتے ہوئے کیوں نہ تھوڑی سی گفتگو اس ناول کے بارے میں بھی ہوجائے مگر اس سے قبل ناول نگار کے بارے میں بھی کچھ باتیں ہوجائیں تو بہتر ہے۔ حالانکہ میں اپنے آپ کو قطعی اس کا اہل نہیں سمجھتا۔ صورتِ حال حیرت انگیز ہے کہ جو احباب فاروقی صاحب کے مخالف ہیں وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ فاروقی صاحب دورِ حاضر کے اْردو اہلِ قلم میں جینئس کی حیثیت رکھتے ہیں۔موقع کی مناسبت سے مجھے عالم تاب تشنہ کا ایک شعر یاد آگیا۔
ہم اپنے عشق کی اب اور کیا ضمانت دیں
ہمیں ہمارے رقیبوں نے معتبر جانا
تحقیق، تنقید، تشریح، شاعری اور افسانہ نگاری کے بعد اب اس جینئس کا ادبی میدان میں ایک نیا کارنامہ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ کی شکل میں منظرِ عام پر آیا ہے۔ بظاہر یہ ناول ہے مگر اور ناولوں سے قدرِ مختلف اور پہلو دارہے اس کے تمام کرداروں کا تعلق تاریخ سے ضرور ہے۔ مگر فاروقی صاحب’’اظہارِ تشکّر‘‘ کے زیرِ عنوان فرماتے ہیں کہ ’’یہ تاریخی ناول نہیں ہے‘‘ مصنف کا خیال ہے کہ ’’اسے اٹھارویں انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب اور انسانی اور تہذیبی و ادبی سرو کاروں کا مرقّع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا‘‘۔
مندرجہء بالا سطور پر علی حیدر ملک صاحب کا تبصرہ کیا خوب ہے ’’یہاں دو باتیں قابلِ غور ہیں اوّل یہ کہ مرقّع کوئی ادبی صنف نہیں ہے، دوئم یہ کہ ہر ناول کسی نہ کسی تہذیب اور انسانی و تہذیبی سرو کاروں کو ہی پیش کرتا ہے یہ بات بہر حال طے ہے کہ ’کئی چاند تھے سرِآسماں‘ کا شمار ناول ہی کے زمرے میں ہوگا‘‘۔
آٹھ سو سے زائد صفحات پر مشتمل یہ ضخیم ناول اکہتر چھوٹے بڑے ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے تاریخی ناول عموماً کسی ایسے اہم ترین واقع کی یاد دلاتے ہیں جن کی کوئی تاریخی حیثیت ہوتی ہے اور جو اْس عہد کے حکمران یا فوجی جرنیلوں کے کارناموں سے تعلق رکھتی ہے اور یہی لوگ اس ناول کے اصل کردار اور ہیرو ہوتے ہیں۔ فاروقی صاحب نے اپنے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں اس روایت سے انحراف کیا ہے اور ان شخصیات کو بطور کردار پیش کیا ہے جو ثانوی درجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ناول میں کردار اچھے خاصے ہیں اصل کردار وزیر خانم کا ہے جو سارے ناول کی جان ہے۔ اگر آپ کو یہ ناول کہیں سے دستیاب ہوجائے تو ضرور پڑھیے گا مگر اس بات کا خیال رہے کہ ناول پڑھنے میں عجلت نہیں کرنی ہے، سکون سے پڑھنا ہے اب یہ ابنِ صفی کا کوئی جاسوسی ناول تو ہے نہیں جسے آپ ایک رات میں ختم کرلیں، اس کے لیے آپ کو اپنی کئی قیمتی راتیں قربان کرنی پڑے گی۔ تبھی تو وزیر خانم تک آپ کی رسائی ممکن ہوسکے گی۔
دورِ حاضر کے اْردو اہلِ قلم میں جینئس کی حیثیت رکھنے والے شمس الرحمن فاروقی کاتعلق اسی شہر سے ہے جو میری جائے پیدائش ہے اور اسی کالج سے ہے جہاں سے میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ آخر اس جینئس سے میری کوئی نسبت تو ہے نا۔