روزنامہ جسارت کی ایک حالیہ اشاعت میں مولانا مودودی کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے اسلامی نظام کے بارے میں کچھ توضیحات پیش کی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب اسلامی نظام کا غلغلہ حکومت کے ایوانوں سے لے کر عوامی کوچہ و بازار تک بلند ہورہا ہے مولانا کا یہ انٹرویو ہمیں فکر و تامّل کی ایک ایسی فضا میں لے جاتا ہے جس میں ہم حقائق اور مسائل کو زیادہ تیز روشنی میں دیکھ سکتے ہیں۔ مولانا نے اسلامی نظام کے بارے میں ایک بنیادی بات یہ کہی ہے کہ یہ ایک کُل ہے۔ جس کے اجزا کو باہم الگ الگ نہیں کیا جاسکتا، چناں چہ اجزا کو کُل سے الگ کرکے ان کے نفاذ کی کوئی کوشش بار آور نہیں ہوسکتی۔ اور مطلوبہ نتائج نہیں پیدا کرسکتی، مثلاً اسلامی نظام تعزیرات کُل اسلامی نظام کا ایک حصہ ہے۔ اب اگر ہم اسلامی تعزیرات کو پورے اسلامی نظام سے الگ کرکے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے تو کام یاب نہیں ہوں گے۔
مولانا کے اپنے الفاظ یہ ہیں: ’’اسلام ایک مکمل ترین ضابطہ حیات ہے، اسے مختلف حصوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ صرف اسلامی قوانین کے نفاذ کا نام اسلامی نظام کا نفاذ نہیں ہے، بلکہ زندگی کی اُس پوری اسکیم کو نافذ کرنا ضروری ہے جو اسلام نے ہمیں دی ہے اور قانون اس اسکیم کا ایک اہم حصہ ہے جو مجموعے سے الگ کرکے نافذ کردیا جائے تو یہ اسلامی نظام کا نفاذ نہ ہوگا۔ اگر ہم زندگی کے پورے نظام کو اسی طرح جاہلیت کی راہ پر چلنے دیں جس طرح چل رہا ہے اور صرف اسلامی قانون کو عدالتوں کے ذریعے نافذ کردیں تو اس کے وہ نتائج نہیں ہوسکتے جو اسلام کو مطلوب ہیں‘‘۔
اسلامی قانون کا جزوی نفاذ کیوں مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کرسکتا، مولانا نے اس کا تجزیہ اپنی مخصوص بصیرت کے ساتھ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرض کیجیے یہ قانون نافذ کردیے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے تحت مجرموں کو پکڑنے والا کون ہوگا؟ کیا یہی پولیس جس کی بدعنوانیاں پورے معاشرے پر ظاہر ہیں۔ اور پھر مجرموں کے جرموں کی گواہی کون دے گا؟ کیا یہی جھوٹے گواہ جو چند سکوں کے عوض جھوٹے حلف اٹھا کر اپنا ایمان بیچتے ہیں؟ اس کے علاوہ ایک مسئلہ محرکات کا ہے، مثلاً مولانا سوال اٹھاتے ہیں کہ معاشرے میں فلمیں، عریاں تصاویر، فحش لٹریچر، عورتوں کی بے مہار آزادی اور بے پردگی کے ہوتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے کہ زنا کی اسلامی سزا کا نفاذ کیا جاسکے، اور کیا یہ نفاذ موثر ہوگا۔ خلاصہ ان دلائل کا یہ ہے کہ زندگی کے ایک جزو کو بدلنے کے لیے زندگی کے پورے نظام کو بدلنا پڑے گا۔ وجہ ظاہر ہے جس طرح خیر ایک کُل ہے اسی طرح شر ایک کُل ہے اور خیر کی طرح شَر کا بھی پورا نظام اپنے اجزا سے وابستہ ہوتا ہے۔ مولانا نے اس کی بڑی اچھی مثال پیش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انگریزوں نے جب یہاں اپنا نظام قائم کیا تو اس نے صرف اتنا ہی نہیں کیا کہ ہمارے قانون کو منسوخ کرکے اپنا قانون جاری کردیا، بلکہ اُس نے ہر طرف سے ہمارے نظام زندگی پر حملہ کیا۔ نظام تعلیم، نظام معیشت، نظام سیاست، زندگی کے ہر پہلو میں تبدیلی کی۔ اور جب یہ تغیرات برپا ہوئے تو بقول ’’مولانا‘‘ انگریز کو یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کہ اپنا دین بدلو، اپنے عقائد بدلو، اپنے افکار و نظریات بدلو، اپنی اخلاقی اقدار بدلو، اپنی تہذیب بدلو۔ یہ سب کچھ خود ہی بدلتے چلے گئے، یہاں تک کہ جب انگریز چلا گیا تو بھی ہم تبدیل نہ ہوئے اور اس نے جو نظام قائم کردیا تھا اس کے کل پُرزوں کی حیثیت سے اب بھی کام کررہے ہیں، بلکہ آزادی کے بعد ہماری انگریزیت غلامی کے دور سے زیادہ ہے۔ ان خیالات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم خیر اور شر کی آمیزش نہیں کرسکتے۔ ہمیں اگر شر کے نظام میں رہنا ہے تو جلد یا بدیر پورے شر کو قبول کرنا پڑے گا۔ اور اگر خیر کے نظام میں رہنا ہے تو شر کے نظام کو ایک سرے سے بدلنا ہوگا، چناں چہ مولانا کہتے ہیں:
’’جس طرح انگریز نے ہر طرف سے ہمارے نظام حیات پر حملہ کرکے اور ہر پہلو سے اس کو گھیر کر اپنے سانچے میں اسے ڈھالا تھا اُسی طرح اب ہمیں اس کی چھوڑی ہوئی پوری میراث پر ہر جہت سے حملہ کرنا چاہیے اور ہر شعبہ حیات میں اس کا قلع قمع کرکے اسلام کے پورے نظام کو قائم کرنا چاہیے‘‘۔
قبل اس کے کہ ہم اس بنیادی تصور پر گفتگو کریں، آئیے ایک نظر ان تجاویز کو دیکھ لیں جو مولانا نے نظام کو نظام سے بدلنے کے لیے پیش کی ہیں۔ (1) نظام تعلیم کو یکسر بدلا جائے۔ (2) درس گاہوں کے لیے صحیح استادوں کا انتخاب کیا جائے۔ (3) مخلوط تعلیم کو ختم کیا جائے۔ (4) لاء کالجوں کی تعلیم میں بلاتاخیر عربی زبان، قرآن، حدیث اور فقہ کی تعلیم کا پورا انتظام کیا جائے۔ (5) تمام اداروں میں اسلامی تعلیم اور اخلاقی تربیت کا انتطام کیا جائے۔ (6) سرکاری ملازمین کے کردار کی چھان بین کی جائے۔ (7) تفتیش جرائم کو چھوڑ کر سی آئی ڈی کا پورا محکمہ پولیس سے الگ کرلیا جائے اور وہ حکومت کے افسروں اور ملازمین کے طرزِ عمل کی نگرانی کرے۔ (8) خلاف اسلام نظریات کی اشاعت کا سدباب کیا جائے۔ (9) ذرائع نشرواشاعت اور ذرائع ابلاغ کو اسلامی تعلیمات کی ترویج کے لیے استعمال کیا جائے۔ (10) ملک کے معاشی نظام کو اسلامی احکام کے مطابق بدلا جائے۔
اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلے میں مولانا مودودی نے جو تجاویز اپنے انٹرویو میں پیش کی ہیں، آئیے اب ان میں سے کوئی تجویز مثال کے طور پر لیں اور دیکھیں اس پر عمل سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ مولانا کی تجویز ہے کہ ہماری درس گاہوں میں ایسے اساتذہ ہونے چاہئیں جو نظریات اور کردار کے اعتبار سے اسلامی معیارپرپورے اُترتے ہیں، چناں چہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ جو اساتذہ بھری کیے جائیں ان کا انتخاب اسی نقطہ نظر سے کیا جائے، لیکن آئندہ کے انتظام کے ساتھ ہی موجودہ حالت کو بھی بدلنا پڑے گا، جس کے معنی یہ ہوں گے کہ جو اساتذہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے اُن سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کرلیا جائے۔ زیادہ صاف لفظوں میں انہیں برطرف کیا جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ نئے لوگوں کی بھرتی اور پُرانے لوگوں کی برطرفی کا کام کون کرے گا؟ ظاہر ہے کہ وہ لوگ تو کر نہیں سکتے جو قابل اعتراض کردار اور نظریات رکھتے ہوں، اس لیے ضروری ہوگا کہ تعلیم کے اعلیٰ شعبوں میں ایسے لوگ لائے جائیں جو مطلوبہ شرائط کو پورا کرتے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تعلیم کے شعبے میں ہر سطح پر تبدیلیاں کرنی پڑیں گی اور ہر جگہ اسلامی ذہن و فکر کے لوگ لانے پڑیں گے۔ اب یہ کام چوں کہ ضابطے اور قانون کی تبدیلی کے بغیر نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے تعلیم کے ساتھ دیگر متعلقہ شعبوں میں بھی ایسی تبدیلی لانی پڑے گی اور ان شعبوں کے بعد ان سے متعلقہ شعبوں میں پانی کے واکروں کی طرح تبدیلیوں کا یہ سلسلہ پھیلتا ہی جائے گا۔ اور آخر میں آپ دیکھیں گے کہ صرف اساتذہ کو بدلنے کے عمل میں ایک پوری دنیا کو بدلنا ضروری ہوگا۔ اب ہم مولانا مودودی کی تجویزوں میں بھی ان کے بنیادی خیال کی جھلک دیکھ سکتے ہیں، وہ یہ کہ کسی ایک چیز کو بدلنا ناممکن ہے۔ بدلنا ہے تو پورے کے پورے نظام کو بدلنا ہوگا لیکن اب یہاں سے مسئلے کا سب سے اہم رُخ سامنے آتا ہے۔ یہ ہمہ گیر تبدیلی کون کرے گا، دوسرے لفظوں میں یہ تجاویز کس کے سامنے پیش کی گئی ہیں؟ نظریہ ظاہر غالباً ان تجاویز کا رُخ صدر ضیاء الحق کی طرف ہے۔ جہاں تک صدر ضیاء الحق کا تعلق ہے لوگ ان کے اسلامی جذبے کو تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کے حامی لوگوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان کی اخلاص نیت پر شبہ کرتے ہوں، لیکن یہ بات بار بار سوچنے کی ہے کہ کیا صدر ضیاء الحق اس موقف میں ہیں کہ اتنی بڑی تبدیلیوں کو عمل میں لاسکیں۔ کم از کم میرا یہ جواب نفی میں ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ مجھے صدر ضیاء الحق کے اخلاص یا جوش و جذبہ پر شک ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ صدر ضیاء الحق خود ایک نظام کا حصہ ہیں اور جس نظام کا وہ حصہ ہیں اسے وہ تبدیل نہیں کرسکتے۔ زیادہ صاف لفظوں میں صدر ضیاء الحق کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے مشیروِں، وزیروں، گورنروں اور نوکر شاہی کے موجودہ نظام کو بدل دیں۔ اور جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں کہ اس تبدیلی کے بغیر تبدیلی کی ہر کوشش بیکار ہوگی، یا صرف سطحی تبدیلیوں پر ختم ہوجائے گی۔ حقائق تلخ ہیں مگر ہمیں دیوار سے ٹکرانے کے بجائے دیوار کے وجود کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ صدر ضیاء الحق نے جب قانونِ تعزیرات کے نفاذ کا اعلان کیا تو عوام نے بڑی خوشی کا اظہار کیا، کیوں کہ عوام مسئلے کی نوعیت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انہیں تو اسلام کے حق میں چھوٹی چھوٹی بات بھی اچھی لگتی ہے، لیکن جیسا کہ ریکارڈ پر موجود ہے یہ خوشی عوام تک محدود نہیں تھی بلکہ خواص بھی اس میں شریک تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خواص کو بھی اس اصول کی آگاہی کے باوجود اس بات کا دھوکا ہوگیا تھا کہ شاید اس قسم کی تبدیلیوں سے کوئی بہتر نتیجہ برآمد ہوگا یا پھر ان کی خوشی کی مثال اس شخص کی خوشی جیسی تھی جو پورے مکان کی تعمیر سے مایوس ہو کر صرف ایک اینٹ دیکھ کر خوش ہوجائے۔ بہرحال اب عوام اور خواص دونوں میں مایوسی کا اظہار کیا جارہا ہے اور کچھ صاحب نظر لوگ ایسے بھی ہیں جو اس قسم کے جزوی، سطحی اور نیم دلانہ اقدمامات کے خطرے کو محسوس کررہے ہیں اور انہیں صاف نظر آرہا ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کا شور مچا کر اگر صرف اس قسم کے اقدامات پر تکیہ کرلیا گیا تو عوام کی توقعات کو شدید صدمہ پہنچے گا اور اس کے نتائج خود اسلام اور اسلامی نظام کے حق میں اچھے برآمد نہیں ہوں گے۔ مثال کے طور پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی ایک مطبوعہ تقریر میرے سامنے ہے جس میں انہوں نے دلی بیتابی کے ساتھ ہمیں بتایا ہے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی ذمہ داری ایک بہت نازک ذمہ داری ہے جس سے کھیلنے کے نتیجے میں اسلام اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہے۔
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے اپنی تقریر میں ایک بات تو وہ کہی ہے جو مولانا مودودی نے کہی ہے کہ چند حدود جاری کردینے کا نام نفاذِ شریعت نہیں ہے۔ نفاذِ شریعت اس وقت ہوگا جب اسلام کو زندگی کے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے گا اور دوسری بات یہ کہی ہے کہ اسلامی نظام کا نفاذ کوئی کھیل تماشہ نہیں ہے۔ یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے جس کے لیے اخلاص، تدبر، صلاحیت اور وہ سب کچھ چاہیے جو کسی بڑی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ دُنیا میں ایک ایسی چیز تھی جس کے متعلق کہا جاسکتا تھا کہ جب وہ تیر ترکش سے نکلے گا تو پھر دنیا میں خیر و برکت کا دروازہ کھل جائے گا، یعنی جب نظام شریعت کا نفاذ ہوگا تو انسانوں کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے اور خدا کے بندے خدا کی دُنیا میں سُکھ چین کا سانس لیں گے جیسا کہ ہمارا دعویٰ ہے، اور جیسا کہ ہم دنیا کے سامنے اسلام کو پیش کرتے رہتے ہیں، لیکن اگر یہ تیر ترکش سے نکل جائے اور وہ نتیجہ برآمد نہ ہو توا تو مولانا کہتے ہیں ’’جب تک ترکش کا کوئی تیر آزمایا نہ جائے اُس تیر کے متعلق ہر قسم کا حسن ظن قائم کیا جاسکتا ہے۔