پھر اک پتا شجر عمر سے لو اور گرا
لوگ کہتے ہیں مبارک ہو نیا سال تمہیں
ہر لمحہ لمحہ گزرتا ہوا سال کرتا ہے کیا کھویا ان لمحوں میں کیا پایا ان لمحوں میں دسمبر کی اداس سرد راتیں بہت سارے گزر جانے والے کل یاد دلارہی ہیں اور یہ احساس بھی کہ بقول ابن انشاء
اک سال گیا اک سال نیا ہے آنے کو
پر وقت کا اب بھی ہوش نہیں دیوانے کو
۔2020ء کا سال بہت سارے محبت کرنے والے ساتھیوں سے بچھڑنے کا دکھ دے کر گیا ہے۔ جنہیں یاد کرکے آنکھیں نم ہوئی جاتی ہیں ملک و قوم کو ہی نہیں پوری دنیا پر کورونا جس طرح گھر گھر میں دکھ و مصائب کے بادل برسا گیا ہے اس کے اثرات نہ جانے کب تک باقی رہیں گے۔ گویا گزرنے والا سال ہمارے اوپر خاک ڈال گیا اور آنے والا وقت بھی خاک ہوجائے گا۔ نبی مہرباں صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے بڑی خوبصورت بات فرمائی ہے۔
۔(حدیث) مومن کا آج اس کے کل سے بہتر ہوتا ہے
اور ارشاد ربانی بھی ہے کہ … ہر ذی نفس یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا سامان کیا ہے؟ میرے لیے اس پر گزرتے لمحے میں پیغام ہے میں نے کیا کیا؟ اور اب کیا کرنا ہے۔ آنے والے سال میں کیسے حالات بدلنا ہے۔ بقول فیض لدھیانوی
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
سال نو کی آمد آرزوں امنگوں اور عزائم سے بھرپور نئے سورج کی کرنوں کے ساتھ تہنیت کا پیغام لارہی ہے مگر ساتھیوں آئیں سوچیں ان منور کرنوں سے اپنی زندگیاں کیسے روشن کرنا ہے۔
قحط الرجال کے اس دور میں مولانا مفتی محمد نعیمؒ کی وفات ہو یا عظیم علمی و روحانی شخصیت مولانا عزیز الرحمن ہزاروی ہوں۔ جامعہ اشرفیہ کے شیخ الحدیث علامہ خالد محمود ہوں یا جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسنؒ ہوں۔ نامور خطیب اور واعظ شیخ الحدیث مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری ہوں، تمام علماء کرام کی رحلت امت مسلمہ کا بہت بڑا خسارہ ہے۔
وہ عظیم لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگی کا مقصد جلیل متعین کیا اور وقت کے ایک ایک لمحے کو اپنے حق میں حجت بنالیا۔ ان کے پیچھے ان کے حق میں رہ جانے والی گواہیاں موجود ہیں جو انہیں ان شاء اللہ روز محشر بھی سرخرو کریں گی۔ سوال یہ ہے کہ ہم ہر موت کی خبر سن کر ہر گزرتے سال پہ کفِ افسوس مل کر اور آنے والے سال کا جشن منا کر کیا اپنی حجت پوری کررہے ہیں۔
حضرت ابوالاردؒ حسرت سے فرمایا کرتے تھے۔ تمہارے علماء اٹھتے جارہے ہیں اور جہلاعلم حاصل نہیں کرتے۔ لوگو علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ وہ اٹھالیا جائے۔ تم اس چیز کے پیچھے پڑے ہو جو تمہیں ضرور ملے گا یعنی رزق اور اس چیز سے بے خبر ہو جس کی تحصیل تم پر واجب ہے۔ یعنی علم میں تمہیں کھانوں سے لبریز اور علم سے خالی دیکھتا ہوں۔
آج جبکہ دنیا سے رخصت ہوجانے والے بہت سارے روشن کردار خود ہماری اپنی زبانوں پر جن کی تحسین رہتی ہے خود ہمارے لیے باعث تقلید ہیں یہ فقید المثال کردار اپنے حسن عمل کے ایسے ان مٹ نقوش چھوڑ گئے ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ بڑی حرمان نصیبی کی بات ہو کہ جب ان مہکتے کرداروں سے اپنی کل کو معطر نہ کریں۔ آئیے کچھ طے کرلیتے ہیں۔ زندگی کے باقی ایام اس ربّ حقیقی کو منالیں جو آج ہم سے روٹھ گیا ہے۔
غافل تجھے گھڑیال یہ کرتا ہے منادی
گردوں نے تیری عمر کی گھڑی اک اور گھٹا دی
برف مانند پگھلتے تیزی سے ختم ہوتے وقت کی رفتار نے ایک بار پھر صدا دی ہے سال 2020ء بھی بیت گیا گو کہ جتنی تیزی سے گردش لیل و نہار جاری ہے ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ جنوری 20ء شروع ہوا تھا مگر امسال اقوام عالم نے جیسے کرب و اندوہ ناک نظارے دیکھے شاید چشم فلک نے بھی کبھی نہ دیکھے ہوں گے۔ نامور علماء جید فقہا اکرام ہی نہیں خدمت خلق کے روشن چراغ ہزاروں مسیحا فرنٹ لائن ہیروز پیرا میڈیکل اسٹاف کے گم نام مجاہدین رضا کار خواتین و مرد حضرات فقید المثال قربانیوں کا تحفہ اپنی جان دے کر امر ہوگئے۔
حضرت حسن بصریؒ کا فرمان ہے کہ عالم کی موت سے اسلام میں ایسا شگاف پڑ جاتا ہے کہ گردش لیل و نہار بھی اسے پُر نہیں کرسکتی۔ اور اس سال علماء اکرام کی ایک کثیر تعداد ہم سے رخصت ہوگئی ہے۔ محمد بن سیرین افسوس کیا کرتے تھے کہ علم تو جاچکا اب کچھ یوں ہی تھوڑی سی کھرچن میلے برتنوں میں لگی رہ گئی ہے۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ آج علماء اکرام کی کثرت دنیا چھوڑ رہی ہے اور حاضر قوم کو احساس زیاں بھی نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروابن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’علم آدمیوں سے چھینا نہیں جاتا علماء کے مٹنے سے مٹ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب عالم باقی نہیں رہتے تو لوگ جاہلوں کو سردار اور پیشوا بنالیتے ہیں جو علم کے بغیر فتویٰ دیتے ہیں اسی طرح خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور مخلوق کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔ (بخاری)۔
دکھی انسانیت کے بجتے چراغ پھر سے روشن کریں گے۔ حق کے راستے کی شمع جلا کر اپنی حسن خلق سے، خدمت سے، محبت سے، سسکتے بلکتے درودیوار سکون کے، امن کے متلاشی ابن آدم کی رنجشیں، کدورتیں، بے سکونیاں مٹانے کے لیے، چلو اپنا کام کریں اس شہر تمنا میں
چلو ڈھونڈو مرہم زخموں کا
تعبیر کریں ان خوابوں کی جو اسلاف نے دکھلائے تھے
سر کو جھکائیں سجدے میں کہ اس عمر کا اک اور سال بیت گیا۔