دوسری و آخری قسط
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ اس میں ایلی کا کردار خود آپ کا ہے؟
ممتاز مفتی: جی ہاں! میں خود ایلی ہوں اور اس میں کوئی بات غلط نہیں لکھی گئی ہے۔ اس کا ایک ایک حرف سچا ہے۔
طاہر مسعود: ’’علی پور کا ایلی‘‘ کے بعد آپ نے…
ممتاز مفتی: (سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے) اور سنیے ’’علی پور کاایلی‘‘ کی کہانی 47ء پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد میرا ارادہ تھا کہ میں 48ء سے لے کر اپنی موت تک کے عرصے پر دوسرا ناول لکھوں گا۔ میں نے اس کا نام رکھا تھا ’’ایلی اور الکھ نگری‘‘۔ اس میں جھگڑا پیدا ہوگیا کیوں کہ میرے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ کہنے لگے کہ اس طرح تو ہم پہچانے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ اپنے آپ کو نشر کرنا چاہتے ہیں تو بے شک کریں لیکن ہمیں اس میں شریک نہ کریں۔
طاہر مسعود: تو آپ نے ادب کے مطالبات کو نظر انداز کرتے ہوئے پڑوسیوں کے مطالبات کے آگے ہتھیار ڈال دیے؟
ممتاز مفتی: بالکل میرے نزدیک ادب کے مطالبات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ میرے قریب جو لوگ ہیں ان کی عظمت بڑی ہے، ادب کیا چیز ہے؟ تعلقات زیادہ عزیز ہیں۔
طاہر مسعود: ’’علی پور کا ایلی‘‘ کے بارے میں ابن انشا نے لکھا تھا کہ یہ کتاب اس لیے بڑی ہے کہ اسے آدم جی ایوارڈ نہیں ملا۔ کیا آپ کو ایوارڈ نہ ملنے کا رنج ہے؟
ممتاز مفتی: میرے پاس صرف یہی ایک امتیاز ہے کہ میں ان چند لوگوں میں سے ہوں جنہیں آج تک کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔ حالاں کہ قدرت اللہ شہاب کے زمانے میں ایوارڈ کا سلسلہ ہم لوگوں ہی نے شروع کرایا تھا اور چاہتے تو ہمیں خود بھی ایوارڈ مل سکتا تھا۔ شہاب صدر کے سیکریٹری اور میں شہاب صاحب کا آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی تھا، لیکن میں نے کبھی اس طرف توجہ نہیں دی۔ ایوارڈ ملے نہ ملے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
طاہر مسعود: اس کا مطلب یہ ہوا کہ بہ حیثیت ادیب کے آپ نے جو زندگی گزاری ہے اس پر آپ کو افسوس اور پچھتاوا ہے۔
ممتاز مفتی: بالکل نہیں۔ اگر اللہ مجھے زندگی دے تو میں ویسی ہی زندگی گزاروں گا۔ اسی طرح جیوں گا، وہی بدمعاشیاں کروں گا۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں اگر آپ ادیب ہیں تو کم از کم اپنے بیٹے کو بچالیں۔ اس میں نہ پیسا ملتا ہے اور نہ شہرت، لوگ الگ دشمن ہوجاتے ہیں۔
طاہر مسعود: میں نے فلوبیئر کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ تعطیل کے دن بڑی حسرت سے ان خاندانوں کو دیکھا کرتا تھا جو گاڑیوں میں بھر کر پکنک منانے جاتے اور خوش رہتے تھے۔ وہ سوچتا تھا کہ شاید یہی درست ہے لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج ہم یہاں بیٹھے فلوبیئر کا تذکرہ کررہے ہیں اور جو خوش باش طریقے سے زندگی گزارتے تھے وہ گم نام ہیں اور فلو بیئر ہی ان کی شناخت ہے۔
ممتاز مفتی: تو پھر ان لوگوں کے لیے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کا ہمارے ملک کے کسی رائٹر سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ وہ تو ایک کتاب لکھ کر لکھ پتی اور کروڑ پتی ہوجاتے ہیں۔ وہ تو بادشاہ لوگ ہیں۔
طاہر مسعود: وہ کمرشل رائٹر ہوتے ہیں جن کی کتابیں بیسٹ سیلر ہوتی ہیں۔
ممتاز مفتی: جی، وہاں ایک کتاب لکھ دیں تو پیسے والے ہوجاتے ہیں۔ لوگ آپ کی عزت بھی کرتے ہیں یہاں تو پیسے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
طاہر مسعود: روپے پیسے کو آپ اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں۔ کیا یہ بہت ضروری ہے؟
ممتاز مفتی: پیسہ آپ کی آزادی کے لیے ضروری جزو ہے۔ پیسے کی زیادتی آپ کو تباہ کردے گا لیکن پیسے کی شدت سے کمی بھی آپ کو تباہ کردے گی۔ پیسہ اسی حد تک ضروری ہے کہ آپ کی بنیادی ضروریات پوری ہوجائیں۔ پیسے کے اپنے نقصانات ہیں۔ دولت مند لوگ بھی سکھی نہیں رہتے۔ صحت تباہ ہوجاتی ہے، بچے پیدا نہیں ہوتے، اولاد بگڑ جاتی ہے۔
طاہر مسعود: ایک طرف آپ پیسے کی زیادتی کے خلاف ہیں۔ دوسری طرف ادیب کے بھی مخالف ہیں آخر آپ ادیبوں کو کیا مشورہ دینا چاہتے ہیں؟
ممتاز مفتی: میں ادیبوں کا ٹائم ٹیبل مرتب کرنے نہیں بیٹھا ہوں۔ میں خود ادیب بنا ہوں۔ بڑی مشقتیں برداشت کی ہیں۔ جوتے بھی کھائے ہیں، ان جوتوں میں لذتیں بھی محسوس کی ہیں لیکن میں یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ کوئی شخص ادیب بنے۔ اس میں بڑی پریشانیاں ہیں۔ زندگی میں روانی کم ہوجاتی ہے۔ آپ بہت دکھی رہتے ہیں۔
طاہر مسعود: اور معاشرے کو بھی ادب کی ضرورت نہیں؟
ممتاز مفتی: اس وقت معاشرے کو ادب کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ کتابیں بکتی نہیں۔ ہمارے ہاں صرف ایک ہزار کتاب چھاپنے کا مسئلہ ہے، حالاں کہ آپ کے ملک کی کتنی آبادی ہے۔
طاہر مسعود: آپ کے بارے میں ایک بات کہی جاتی ہے کہ آپ ہمیشہ establishment کے قریب رہے ہیں، ایک ادیب کی حیثیت سے آپ کے اس رویے کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ کیا آپ اس بارے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
ممتاز مفتی: میں نے بارہ سال بچوں کو پڑھایا… اسٹیبلشمنٹ سے دور رہا۔ اس زمانے میں، میں لکھتا تھا مگر بتاتا نہیں تھا۔ اگر کسی کو بتاتا تو وہ کہتا تھا کہ شرم کر کوئی نیکی کی بات کر۔ ادبی رسائل میں میرا نام ممتاز مفتی چھپ کر آتا تھا اور میرا نک نام ممتاز حسین تھا۔ بارہ سال بعد میں نے محسوس کیا کہ یہاں مجھے کچھ نہیں ملے گا۔ میں نے استعفا دے دیا۔ پھر مجھے آل انڈیا ریڈیو میں نوکری مل گئی۔ وہاں ایک نرمیلا دیوی تشریف لے آئیں۔ وہ بڑی خوب صورت عورت تھی۔ اس نے ہمیں ہنس کر دیکھ لیا، ہم اس پر مرمٹے۔ کمال ہوگیا۔ (قہقہہ) اس نے کہا، ’’ہمارے ساتھ چلیں رضیہ سلطانہ فلم دیکھیں‘‘۔ فلم دیکھنے گئے تو وہاں چھرے بازی شروع ہوگئی۔ ملک تقسیم ہوگیا۔ ہمیں وہاں ہزاروں روپے کا کام ملا، حالاں کہ میں مسلمان نہیں تھا۔ میں ایک منہ زبانی مسلمان تھا، لیکن میں نے احمد بشیر سے کہا کہ یار! اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں ہے۔ چلو پاکستان ہی چلتے ہیں۔ ہم پاکستان آگئے۔ یہاں نظامی صاحب مجھے اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے آزاد کشمیر لے گئے۔ اس وقت بھی میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہیں آیا۔ پھر میں نے پبلک سروس کمیشن کو غلطی سے عرضی دی اور منتخب ہوگیا۔ میرے چنے جانے کی وجہ شاید یہ تھی کہ کمیشن کا صدر بٹالے کا رہنے والا تھا میں بھی بٹالے کا رہنے والا ہوں۔ نتیجہ یہ ہے کہ مجھے انفارمیشن میں ایک چھوٹی سی اسامی مل گئی۔ میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب کہاں رہا؟ وہاں میں نے آٹھ سال گزارے، میرا افسر مجھ سے سخت ناراض تھا کہ پبلک سروس کمیشن نے کہا تھا کہ اسے ایک سال بعد ترقی دینا کیوں کہ اس نے آٹھ سال تک ترقی حاصل نہیں کی۔ ضرور اس میں کوئی خرابی ہے۔ اس نے مجھے کراچی بھیج دیا۔ کراچی میں مجھے فلمز اینڈ پبلی کیشن کی ذمہ داری سونپ دی گئی، وہاں کہیں حفیظ کو پتا چل گیا۔ اس نے محکمے کو خط لکھنا شروع کیا کہ اس آدمی کو ہمیں ادھار دے دو، سو انہوں نے ہمیں ادھار دے دیا۔ میں حفیظ کے پاس چلا گیا۔ میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب نہیں آیا۔ یہ دیہات سدھار کا محکمہ تھا۔ وہاں ابن انشا، احمد بشیر اور حفیظ جالندھری تھا۔ حفیظ نے مجھے اپنا پی اے بنالیا۔ دو سال وہاں رہا اور وہیں پہلی بار قدرت اللہ شہاب سے ملاقات ہوئی۔ یہ 1963ء کی بات ہے، پتا نہیں مجھے کیسے اسٹیبلشمنٹ کے قریب جانے کا موقع مل گیا، حالاں کہ میں ایڈمنسٹریشن کا آدمی کبھی نہیں رہا۔ آپ مجھے بیورو کریٹ بنادیں، میں ناکام ہوجائوں گا۔ بیورو کریٹ کے چند ایک خواص ہوتے ہیں وہ اگر آپ میں نہیں تو آپ ناکام ہوجائیں گے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ قدرت اللہ شہاب صاحب کی دوستی کی وجہ سے آپ کو ترقیاں ملیں؟
ممتاز مفتی: نہیں جی 1958ء میں تو ہماری ملاقات ہوئی اور ہم تین سال تک ایوب خان کے دفتر میں اکٹھے رہے، پھر امریکا نے کہا، ’’قدرت اللہ شہاب کو باہر نکال دو۔‘‘ انہیں نکال دیا۔ پھر میں الطاف گوہر کے پاس آگیا۔ میں نے ان سے کہا کہ میری ریٹائرمنٹ میں دو تین سال رہ گئے ہیں، اگر آپ گوارا کریں تو بیٹھا رہوں ورنہ استعاف دے کر چلا جائوں، کیوں کہ میرا اندازہ تھا کہ الطاف گوہر کے دل میں قدرت اللہ شہاب کی کوئی خاص عزت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’صرف ایک بات ہے آپ خاموشی سے بیٹھے رہیں گے‘‘۔ پھر انہوں نے مجھے او ایس ڈی بنا کر بٹھادیا۔ بس اتنی سی بات ہے۔ مجھ میں تو اسٹیبلشمنٹ سے وابستگی کا رجحان ہی نہیں ہے۔ شاید آپ کو معلوم نہ ہو کہ بھٹو صاحب نے ایوب خان نے کہا کہ مجھے وزیر خارجہ بنادیں تو ایوب نے جواب دیا کہ ’’جی نہیں‘‘۔ بھٹو نے پوچھا ’’کیوں‘‘ ایوب خان نے جواب دیا۔ ’’آپ بولتے بہت ہیں!‘‘
طاہر مسعود: اسلام آباد آکر مجھے معلوم ہوا کہ یہاں کے بیورو کریٹ نے ’’سلسلہ‘‘ کے نام سے اپنا ایک ادبی حلقہ بنا رکھا ہے جس میں گریڈ بیس یا اس سے اوپر کے افسران شرکت کرتے ہیں۔ اس کا اجلاس باقاعدگی سے ہوتا ہے اور اس کی روداد اخبارات میں شائع نہیں کی جاتی۔ آپ بھی اس اجلاس میں باقاعدگی سے شریک ہوتے ہیں۔ کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ یہ کیا سلسلہ ہے؟
ممتاز مفتی: ادا جعفری نے یہاں ایسے افسران جن میں ادبی صلاحیتیں ہیں، ان کے مل بیٹھنے کی صورت پیدا کی ہے۔ ایک دن قدرت اللہ شہاب نے مجھ سے کہا کہ آج تمہیں ادا جعفری کے گھر لے چلنا ہے۔ ہم وہاں چلے گئے، وہاں کسی نے اپنی غزل سنائی، کسی نے نظم سنائی، پھر کھانا ہوا جس کی صورت یہ تھی کہ ہر شخص اپنے گھر سے کھانا لے کر آیا تھا۔
طاہر مسعود: سنا ہے کہ اس محفل میں صرف بیوروکریٹ ہی شرکت کرسکتے ہیں؟
ممتاز مفتی: میں پوری بات بتاتا ہوں۔ جب دوسری دفعہ مجھے لے کر گئے تو ادا جعفری ایک رجسٹر لے آئیں اور کہا اس پر دست خط کر دیجیے۔ میں نے دست خط کردیے۔ پھر انہوں نے کہا، ’’اب آپ اس کے ممبر ہوگئے‘‘۔ میں نے پوچھا، ’’اس کے اصول و قوانین کیا ہیں؟‘‘ اس نے کہا، ’’کوئی نہیں‘‘۔ پھر میں اس محفل میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگا مگر اس میں نان بیوروکریٹ بھی تھے، مثلاً ضمیر جعفری، کرنل محمد خان۔
طاہر مسعود: یہ لوگ فوج میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں اور بہرحال ان کا ادب کے علاوہ سماجی مرتبہ بھی ہے۔
ممتاز مفتی: شہاب صاحب نے مجھ سے کہا کہ ’’بھئی یہ نستعلیق لوگ ہیں ان کے ساتھ بات ذرا نستعلیق طریقے سے کیا کرو‘‘۔ میں نے کہا، ’’یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔ میں تو صرف اس محفل میں شرکت کرسکتا ہوں جس میں مختلف قسم کی باتیں کی جائیں‘‘۔ میں نے ان سے کہا کہ ’’مجھے نہیں معلوم آپ نے مجھے کیوں ممبر بنایا ہے لیکن اگر آپ مجھے ممبر بنا چکے ہیں تو میری شرط ہے کہ میں آپ کو مجبور کروں گا کہ آپ اپنے دفتری فرئض کے علاوہ بھی تخلیقی کاموں کو وقت دیں گے۔ آپ کو پہلے ہی اتنے اختیارات حاصل ہیں کہ اب آپ کو مزید اختیارات کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔ میں نے مختار مسعود سے کہا کہ ’’مختار مسعود صاحب! آپ کی یہ سیکریٹری شپ کام نہیں آئے گی۔ آپ نے جو کتاب لکھی ہے وہ کام آئے گی۔ میں ایک سال تک ان کا ممبر رہا۔ چھ مضامین، زبردستی ایک شخص سے لکھوائے۔ آغا ناصر سے ڈرامے لکھوائے۔ میں نے ان کی پروڈکشن بڑھوائی۔
طاہر مسعود: ’’سلسلہ‘‘ کے تقریباً کتنے اراکین ہیں؟
ممتاز مفتی: بارہ تیرہ اراکین ہیں۔
طاہر مسعود: اس کی رکنیت کو عام کیوں نہیں کیا گیا؟
ممتاز مفتی: اس لیے کہ ایک تو وہ پبلسٹی سے بہت خائف ہیں۔ مجھ سے بھی ڈرتے ہیں کہ میں ان پر عام اجلاس میں کوئی مضمون نہ پڑھ دوں۔ بیورو کریٹس، ادیب سے ہمیشہ ڈرتے ہیں کیوں کہ ادیب دو ٹوک بات کرتا ہے۔
طاہر مسعود: ہمارے عوام میں بیورو کریسی سے سخت بیزاری پائی جاتی ہے کیوں کہ اس سے وابستہ لوگ خود کو عوام سے بالاتر ایک الگ تھلگ مخلوق تصور کرتے ہیں۔ ادب ہی ایک ایسا میدان تھا جہاں آکر محمود و ایاز ایک ہوجاتے ہیں اور ادیب کو صرف اس کی تخلیق کاوشوں کی بنا پر چھوٹا یا بڑا سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے بیورو کریٹس نے ادب میں بھی اپنا ایک جزیرہ بنالیا۔
ممتاز مفتی: میں سمجھتا ہوں کہ وہ ڈرتے ہیں۔ یہ جتنے بھی بیورو کریٹ ہیں، بہت بزدل ہوتے ہیں ہم اور آپ زیادہ آزاد ہیں۔ وہ تو ذرا سی بات پر محتاط رہتے ہیں۔ بھلا ایسی نوکری کو لے کر کیا کرنا۔ میں اپنے سے اونچے آدمی کے ساتھ خود کو وابستہ کرنے پر تیار نہیں۔
طاہر مسعود: لیکن آپ نے خود کو وابستہ تو کیا؟
ممتاز مفتی: ہاں! مگر میں نے وہاں جا کر لکھوانے کا کام کیا۔ میرا ایک اصول ہے کہ لوگ لکھنے کی طرف مائل رہیں۔
طاہر مسعود: اب دیگر موضوعات پر کچھ سوالات۔ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ میں سے آپ بڑا ادیب کسے تصور کرتے ہیں؟
ممتاز مفتی: بانو قدسیہ کو… اشفاق احمد تو پروپیگنڈے میں جا کر پھنس گیا۔ وہ تو ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھتا ہے۔ ادب کے لیے تو اس نے کچھ لکھا ہی نہیں۔ میں تو اسے مانتا ہی نہیں ہوں۔ بانو قدسیہ بہت اچھی رائٹر ہے۔ اشفاق تو پروپیگنڈہ رائٹر ہے۔ وہ ڈگڈگی بجاتا ہے۔ یہ میری دیانت دارانہ رائے ہے خواہ اس رائے پر مجھے کتنے ہی جوتے پڑیں۔
طاہر مسعود: ’’راجا گدھ‘‘، ’’بستی‘‘ اور ’’جنت کی تلاش‘‘ میں آپ کو کون سا ناول پسند آیا؟
ممتاز مفتی: مجھے ’’راجا گدھ‘‘ اچھا لگا۔
طاہر مسعود: ترقی پسندوں سے آپ کے کیا اختلافات تھے؟
ممتاز مفتی: یار یہ سوال نہ کرو۔ میں نے اس میں بڑی مارکھائی ہے۔ پہلے ہم بھی ترقی پسند تھے اور مونچھیں مروڑتے تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس کے پیچھے سیاست ہے اور میرے ذہن میں سیاست کا خانہ خالی ہے۔ جب میں نے محسوس کیا کہ ترقی پسند تحریک کے نام پر ادیبوں کو دانتوں کے برش کی طرح استعمال کیا جارہا ہے تو میں بیزار ہوگیا۔ اس تحریک میں تو ادیب پانچویں صف میں کھڑے تھے۔ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب پاکستان بنا اور احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ تحریک کو ہم یہاں سے کنٹرول کریں گے، حالاں کہ احمد ندیم قاسمی تو شوبوائے تھے ان کے پیچھے کام کرنے والا تو کوئی اور آدمی تھے۔ اس وقت اس کا نام مجھے یاد نہیں آرہا۔ بس پھر میں اس سے علاحدہ ہوگیا۔
طاہر مسعود: 1932ء میں اردو ادب کو افسانہ نگاروں کی ایک بڑی کھیپ ملی تھی، ادب سے لوگوں کو دل چسپی بھی تھی، لیکن آج صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ 36ء سے 83ء تک آتے آتے ادب میں عمومی دل چسپی پر جو انحطاط آیا ہے اس پر آپ کچھ کہنا چاہیں گے؟
ممتاز مفتی: دیکھیے یہ انگور ہمیشہ گچھوں میں پائے جاتے ہیں۔ 36ء میں انگوروں کا گچھاآیا تھا، پھر شاخ خالی ہوگئی۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی ہر ملک میں یہی ہوتا ہے۔ ان شاء اللہ موسم بدلے گا تو شاخ پر انگوروں کا پھر گچھا آئے گا۔