سہ ماہی ’’جوہر‘‘ انٹرنیشنل کا پہلا شمارہ شائع ہوگیا

883

اختر سعیدی نے صحافت اور شاعری کے میدان میں قابل ِ قدر خدمات انجام دی ہیں‘ وہ ایک عرصے تک روزنامہ جسارت میں ادبی ڈائری لکھتے رہے بعدازاں جنگ کراچی سے وابستہ ہوئے اور 2018ء میں ریٹائرڈ ہوئے۔ اگست 2020ء میں عارف افضال عثمانی کی ادارت میں سہ ماہی ’’جوہر‘‘ انٹرنیشنل کی بنیاد رکھی جس کا پہلا شمارہ شائع ہو گیا ہے اور دوسرا شمارہ تیاری کے مراحل میں ہے۔ یہ جریدہ بہت جاذبِ نظر ہے‘ سرورق بھی اچھا ہے جس پر جوہر سعیدی‘ سلیمان خطیب‘ رضا علی عابدی‘ عقیل اشرف اور ابوالحسن نعمانی کی تصاویر ہیں۔ اس جریدے کے حسنِ ترتیب کو 10 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے پہلے باب میں حمد و نعت کے علاوہ مدیر اعلیٰ افضال عثمانی کی گفتگو شامل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیںگے۔ پروفیسر رضوی نے نعت نگاری کے بارے میں لکھا ہے نعت گوئی بہت مشکل فن ہے اس اعتبار سے ہے کہ اس میں مضمون اور اسلوب حد اعتدال میں ہونا ضروری ہے۔ بے احتیاطی سے شاعر کسی بھی گستاخی کا مرتکب ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ہلال نقوی نے لکھا ہے کہ رثائی ادب نے اردو زبان و ادب کی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔ اس شمارے میں کنور مہند سنگھ بیدی سحر‘ نقاش کاظمی‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ قمر وارثی‘ عباس عقیل جعفری‘ ڈاکٹر اختر ہاشمی‘ صبیح الدین رحمانی‘ سخاوت علی نادر‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ سید انیس جعفری‘ کشور عدیل جعفری‘ رشید خان رشید‘ رانا خالد محمود قیصر‘ سیدہ منور جہاں زیدی‘ کمال قادری اور عزیز الدین کے نذرانہ سلامِ امام حسینؓ شامل ہیں۔ جوہر سعیدی مرحوم کے بارے میں عبیداللہ علیم کا مضمون ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ جوہر سعیدی بڑے زندہ دل اور تیکھے آدمی تھے۔ وہ شعر خوب جما کے اور سجا کے لکھتے تھے اور بڑے اعتماد سے پڑھتے تھے ان کی شخصیت کا یہ عجیب المیہ ہے کہ وہ بوڑھے پہلے ہوئے اور جوان بعد میں۔ سلیمان خطیب کے بارے میں جو مضمون ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلیمان خطیب بہترین شاعر اور وضع دار انسان تھے ان کی پوری زندگی حیدر آباد رکن کی تہذیب و تمدن کی آئینہ دار ہے۔ سلیمان صدیقی نے اس شمارے میں پروفیسر منظر ایوبی کے لیے لکھا ہے کہ منظر ایوبی کی فکری جہت اپنی پوری سچائی کے ساتھ قارئین کے سامنے آئی ہے ان کا انتقال ادب کے لیے ایک سانحۂ عظیم ہے۔ طارق عزیز مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے صوفی مشتاق نے کہا کہ طارق عزیز میرے وطن کا وہ ہیرو ہے جس کے آواز کے آہنگ نے بغیر لفظوں کے شاعری کی اس کا ایک ایک حرف خودداری‘ بہادری‘ سچائی اور پاکیزگی کا امین ہے۔ عتیق صدیقی نے شمارے میں لکھا ہے کہ افتخار نسیم باکمال ادیب‘ منفر شاعر اور سچا پاکستانی تھا اس نے زندگی بھر شعر و ادب کی ترویج و اشاعت کی۔ ممتاز مزاح گو پروفیسر عنایت علی خان مرحوم کے لیے راقم الحروف نثار احمد کا مضمون بھی اس شمارے کا حصہ ہے۔ ڈاکٹر سلمان ثروت نے لکھا ہے کہ سرور جاوید نے زندگی کے متنوع تجربات کو شاعری کا موضوع تو ضرور بنایا مگر ترقی پسند تحریک کے بنیادی اصولوں سے رو گردانی نہیں کی۔ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی نے ڈاکٹر اسلم فرخی کے لیے لکھا ہے کہ اسلم بھائی نے اردو ادب کے لیے بہت کام کیا ہے‘ ان کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ محمود اختر خان نے ممتاز محقق نور احمد میرٹھی کی گراں قدر خدمات کا احاطہ کیا ہے۔ جمیل عثمان نے لکھا ہے کہ ابوالحسن نغمی کے نزدیک صرف بولی جانے والی زبانیں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں۔ وہ مزید لکھتے ہیں اردو ہمیشہ قائم رہے گی‘ اس کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ عارف افضال عثمانی نے اس شمارے میں رضا علی عابدی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ ایک عہد ساز شخصیت ہیں‘ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے اور عقیل اشرف کے لیے وہ لکھتے ہیں کہ اردو ادب کے لیے ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس شمارے میں شاعر علی شاعر نے پیرزادہ قاسم کے فن اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے۔ سید توقیر حسن ایڈووکیٹ نے سلیم کوثر کی شاعری پر خوب صورت تبصرہ کیا ہے۔ محمود شام نے طاہر حنفی کے شعری مجموعے ’’سناٹوں میں سفر‘‘ کا احوال لکھا ہے۔ ناصر علی سید نے عتیق صدیقی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اختر سعیدی نے آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے صدر احمد شاہ کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس ادارے کی عزت و شہرت میں اضافہ کیا ہے۔ اس شمارے میں جن شعرا کی غزلیں ہیں ان میں سحر انصاری‘ ڈاکٹر پیرزادہ قاسم‘ نصیر ترابی‘ افتخار عارف‘ جاذب قریشی‘ انور شعور‘ امجد اسلام امجد‘ صابر ظفر‘ سلیم کوثر‘ باقی احمد پوری‘ ڈاکٹر ساجد امجد‘ محسن اسرار‘ ڈاکٹر شاداب احسانی‘ سعید الظفر صدیقی‘ تاجدار عادل‘ اختر شمار‘ جاوید صبا‘ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ‘ خالد معین‘ اجمل سراج‘ منظر بھوپالی‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ واصف حسین واصف‘ ذکیہ غزل‘ شاہدہ لطیف‘ اقبال خاور‘ انور انصاری‘ سلیم فوز‘ سحر تاب رومانی‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ جمیل عثمان‘ کشور عدیل جعفری‘ شاہد مسرور‘ فرخ کامران‘ کامران ندیم‘ حمیدہ کشش‘ تقی کمال شامل ہیں۔ نظموں میں مہاجر نامہ (منور رانا بھارت)‘ مجسم خودی (طاہر حنفی)‘ گواہی (عرفان مرتضیٰ)‘ کمی (رضیہ سبحان)‘ ریت کا مسافر (شائستہ مفتی)‘ فہمیدہ ریاص کے نام (فرح کامران) شامل ہیں۔ ذرائع ابلاغ اور املائی مسائل پر ڈاکٹر رئوف پاریکھ نے بھرپور روشنی ڈالی ہے۔ نثری نظم کے صنفی مباحث کے عنوان سے اکرم کنجاہی کا پُر مغز مضمون موجود ہے۔ فاطمہ حسن کا افسانہ ’’زمین کی حکایت‘‘، ممتاز حسین کا افسانہ گھنیش کا شاہ دولہ‘ آصف الرحمن طارق کا افسانہ اختو بختو کی کہانی اور جنید ابن یوسف کا افسانہ سفید پوش اس شمارے کی شان بڑھا رہے ہیں۔ سید ثروت ضحیٰ نے اپنی تحریر میں ادبی تقریبات کا تذکرہ کیا ہے۔ آخر میں شکاگو (امریکا) کی ادبی تنظیم سخنور کے مشاعرے کی روداد بھی اس شمارے میں شامل کی گئی ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کا مختصر انشائیہ ’’جدیدیت ایک طرزِ فکر‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ راقم الحروف نے اس جریدے کا مطالعہ کیا ہے جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس جریدے میں اختر سعیدی نے اپنی تمام تر قابلیت کے جوہر دکھائے ہیں جس کے لیے وہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ یہ جریدہ 192 صفحات پر مشتمل ہے جس کی قیمت 300 روپے ہے لیکن فی زمانہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے کتاب ’’پیش‘‘ کی جائے۔ خرید کر پڑھنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے۔ جریدے میں اشتہارات کی موجودگی سے اندازہ ہو رہا ہے کہ جریدے کی اشاعت پر مالی نقصان نہیں ہو رہا ہوگا ورنہ آج کل اشتہار نہیں ملتے اور کراچی سے نکلنے والے بیشتر جریدے مالی بحران کے سبب بند ہوتے جارہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس جریدے کا معیار اچھا ہی اور بھرپور مضامین کی وجہ سے اس کی مارکیٹنگ کرنی چاہیے۔

پاکستانی بیانیہ ہماری ترقی کا ضامن ہے‘ پروفیسر شاداب احسانی

بیانیہ جسے انگریزی میں Narrative کہتے ہیں‘ اس کا آغاز کہانی کار سے ہوا۔ کہانی کار کا کہانی میں مؤقف بیانیہ یا Narrative قرار پایا۔ سماجی اور تاریخی مطالعوں کے غور و فکر کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ جس قوم کا اپنا بیانیہ نہیں ہوتا وہ قوم تقسیم در تقسیم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کا قیام ملّی تصور پر ہوا جب کہ وطنی تصور کو بیانیے میں اس طرح جگہ نہیں دی گئی جس طرح کہ اس کا حق تھا۔ دنیا کے تمام ممالک قومی اور وطنی تشخص سے جڑ کر مثالی ترقی کر رہے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اقتدار حاصل کرنے کے لیے انگریزی بیانیے کے زیرِ اثر پورے ہندوستان کو قابو کرتی جارہی تھی۔ امریکا کی نوآبادیات آزادی کی جدوجہد میں برطانوی بیانیے کو یکسر نظر اندازکرنے کے عمل سے دوچار تھی۔ 1770ء اور 1772ء میں جان ٹرم بُل اور فلپ فرینیو کی نظمیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی بھی ملک کی آزادی میں دانشوروں کا کیا کردار ہوتا ہے۔ مذکورہ دونوں شعرا نے برطانوی بیانیے کو یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ اب امریکا میں ہی ملٹن اور شیکسپیئر پیدا ہوں گے۔ دونوں ممالک کی زبان انگریزی ہے لیکن بیانیے کے فرق نے امریکن انگریزی کی نہ صرف طرح ڈالی بلکہ امریکا کو کو سپر پاور بنا دیا۔ ہمیں اگر پیروی ہی کرنی ہے تو 1772ء والے امریکا کی پیروی کریں۔ جارج واشنگٹن سے لے کر ابراہم لنکن تک امریکن بیانیہ مستحکم ہو گیا۔ ابراہم لنکن کے قتل کے بعد بھی امریکن بیانیے کو کوئی زک نہیں پہنچی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ نیویارک سے الاسکا کی ساڑھے چودہ گھنٹے کی فلائٹ ہے اور تب بھی امریکا کا اکائی کی مانند اپنے بیانیے کے ساتھ سپر پاور کی حیثیت سے موجود ہے۔ معاملہ جب بیانیہ کا ہو تو زبان ایک ہونے کے باوجود بیانیے میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ قیام پاکستان سے قبل 1911ء کی مردم شماری پر نظر ڈالیں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 29 کروڑ 74 ہزار انگریز کس طرح زیر نگیں رکھ سکتے ہیں؟ بیانیے کا معاملہ سمجھ لیا جائے تو با آسانی اندازہو سکتا ہے کہ 29 کروڑ میں دس کروڑ انگریزی بیانیے کے زیر اثر لوگ موجود تھے۔ پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مائو سے پہلی چین میں چینی زبان تھی لیکن چینی بیانیہ موجو نہیں تھا۔ یہی مثال انقلابِ فرانس اور 1917ء کے روسی انقلاب سے بھی دی جاسکتی ہے۔ یورپ کے Dark Ages سے نکلنے کا قصہ بھی بیانیہ سے منسلک ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لاطینی کے زیر اثر بیانیے نے پورے یورپ کو جہل اور بدامنی کی آماج گاہ بنایا ہوا تھا۔ جوں جوں یورپی ممالک اپنے اپنے قومی بیانیے سے منسلک ہوتے گئے اور ان کی زبانیں بھی اس سے جڑتی گئیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ثمرات ان تک پہنچتے گئے۔ یہ بات طے شدہ ہے کہ سوشل سائنسسز کے استحکام کے بغیر سائنس اور ٹیکنالوجی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ بہرحال آج کی دنیا میں قومی بیانیے کی حامل زبانیں اپنے اپنے خطوں میں ترقی کی ضمانت ہیں۔ میں تمام پاکستانیوں کو اور بالخصوص اربابِ اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی جملہ زبانیں پاکستانی بیانیے کی حامل ہو جائیں نیز پاکستان میں سہ لسانی فارمولے کو تعلیم کے لیے رہنما بنا لیا جائے۔ انگریزی کا احوال بھی پاکستانی بیانیے کے زیر اثر آجائے جس طرح دیگر ممالک انگریزی میں بھی اپنے بیانیے کا خیال رکھتے ہیں اور اگر پاکستانی قوم اور تمام صوبے کسی ایک زبان پر اتفاق کرکے اکائی کی طرح شاہراہ پاکستان پر چل پڑیں تو یہ مثالی صورت ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے راقم الحروف نثار احمد سے ایک ملاقات میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر و سخن کی ترقی کے لیے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا اپنے کردار سے مخلص نہیں۔ آج کل اردو زبان و ادب کے لیے کچھ غیر سرکاری ادارے بہت سرگرم ہیں جس کے سبب مشاعرے‘ مذاکرے‘ تنقیدی نشستیں اور دیگر علم و ادب کی تقریبات ہو رہی ہیں۔ یہ سب تنظیمیں قابل ستائش ہیں۔ نظر انداز قلم کاروں کے لیے بھی پلیٹ فارم نظر آرہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو حکومتی ادارے ادب کے فروغ کے لیے قائم کیے گئے ہیں ان کی کارکردگی بڑھائی جائے۔ قلم کاروں کے مسائل پر نظر ڈالی جائے اور ان کے لیے حکومتی بجٹ میں رقم مختص کی جائے اور اصل قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کی جائے‘ ہر صوبے کے قلم کاروں کو ان کا حق دیا جائے۔

بزم سلطان ادب کراچی کا نعتیہ مشاعرہ

گزشتہ ہفتے کمال قادری کی رہائش گاہ پر بزم سلطان ادب کراچی نے ادارۂ فکرِ نو کراچی کے تعاون سے نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں ظفر محمد خان صدر تھے‘ قمر وارثی مہمان خصوصی اور حامد اسلام خان مہمان اعزازی تھے۔ عاشق شوقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں ظفر محمد خاں‘ قمر وارثی سید آصف رضا رضوی‘ اختر سعیدی‘ جمال احمد جمال‘ سلیم فوز‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ سراج الدین سراج‘ احمد سعید‘ گل انور‘ آسی سلطانی‘ اکرم رازی‘ نذر فاطمی‘ یاسر سعید صدیقی‘ کمال قادری‘ کاشف علی ہاشمی‘ علی کوثر اور عاشق شوقی نے اپنا کلام پیش کیا۔ میزبانِ مشاعرہ کمال قادری نے کہا کہ وہ آج کی محفل کے شعرا اور سامعین کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جن کے تعاون سے مشاعرہ کامیاب ہوا۔ وہ ادارۂ فکر نو کے عہدیداران کے بھی ممنون و شکر گزار ہیں کہ جنہوں نے اس مشاعرے کے انعقاد میں میری مدد کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعتیہ ادب کی ترویج و ترقی میں حصہ لینا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ جب تک ہم اپنے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہیں کریں گے ہمارا ایمان کامل نہیں ہوگا۔ نعت رسولؐ عشق رسولؐ کا اظہار ہے‘ یہ وہ صنفِ سخن ہے جو قیامت تک جاری رہے گی۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ آج بہت اچھا کلام پیش کیا گیا جس کے لیے منتظمین مشاعرہ قابل مبارک باد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت میں جھوٹ کی گنجائش نہیں ہوتی جب کہ غزل میں آپ اپنی مرضی کے مضامین شامل کر سکتے ہیں۔ نعت رسولؐ کا مرکز و محور آنحضرتؐ کے شمائل کے ساتھ ساتھ تعلیماتِ محمدی بھی ہے۔ ہر زمانے میں شعرائے کرام نے نعتیں کہی ہیں لیکن فی زمانہ نعتیہ ادب میں تحقیق و مطالعاتی کام بہت ہو رہا ہے یہ سب اللہ کا کرم ہے جس نے اپنے محبوبؐ کا ذکر بلند کیا ہے۔ مہمان اعزازی نے کہا کہ وہ جدہ میں اردو مجلس کے تحت بہاریہ مشاعروں کے علاوہ نعتیہ مشاعرے بھی ترتیب دیتے رہے ہیں انہیں خوشی ہے کہ کراچی میں بھی نعتیہ مشاعرے ترقی کر رہے ہیں۔ نعت و حمد کے طرحی مشاعروں کی انعقاد میں طاہر سلطانی اور قمر وارثی کے اسمائے گرامی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ آنحضرتؐ نے ہمیں ایک خدا کا تصور دیا اور بتایا کہ حشر کے دن ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا لہٰذا ہمیں نیک کام کرنے چاہئیں تاکہ قیامت میں شرمندگی نہ ہو۔ محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ میںکہا کہ ان کا ادارۂ دل و جان سے شعر و سخن کی ترقی میں مصروف عمل ہے جو لوگ ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ رشید خان کے انتقال کے سبب ہم نے اپنے ادارے کی تشکیل نو کی ہے۔ مہمان خصوصی قمر وارثی نے کہا کہ ان کا ادارہ دبستان وارثیہ بہت ذمے داری کے ساتھ نعتیہ ادب کے فروغ میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ہمارے ادارے کے تحت پاکستان بھر میں نعتیہ مشاعرے ہو رہے ہیں ہم طرحی ردیفوں کا انتخاب کرتے ہیں ہر شاعر اپنی مرضی کی بحر بنا کر نعت کہتا ہے ہمارے طرحی مشاعروں کے سبب بہت سے شعرا کے نعتیہ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت کامیاب ہے جس میں سامعین بھی موجود ہیں جس کا کریڈٹ کمال قادری اور اختر سعیدی کو جاتا ہے۔

حصہ