دنیا میں پاکستان جیسی ریاست کا تصور محال ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیٹھ کر کوئی بھی شخص اخبار، ریڈیو یا ٹیلی وژن پر یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ پاکستان قائم ہونا چاہیے تھا یا نہیں؟ سابق سوویت یونین تقریباً دو کروڑ لاشوں پر قائم ہوا تھا اور اس نے دو ہزار سال کی عیسائیت کو چار دن میں زندہ دفن کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود 70 سال تک کسی کو یہ سوال اٹھانے کی جرأت نہ ہوئی کہ سوویت یونین بننا چاہیے تھا یا نہیں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ یہ سوال اٹھانے والا اگلے دن یا تو زندہ ہی نہ ہوتا تھا، یا پھر اسے ساری زندگی سائبیریا میں گزارنی پڑتی۔ چین کا انقلاب چار کروڑ لوگوں کو نگل گیا، اور اس انقلاب کے مخالفوں کی کمی نہیں تھی، مگر چین میں کسی نے آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ مائو کا انقلاب درست تھا یا غلط تھا؟ امریکہ جیسے آزاد ملک میں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ یہ سوال اٹھائے کہ امریکہ کو وجود میں آنا چاہیے تھا یا نہیں؟ امریکہ میں اس حوالے سے ’’آزادیٔ رائے‘‘ کا یہ عالم ہے کہ نوم چومسکی کو امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں سے اختلاف ہے اور وہ امریکہ کے تین بڑے دانش وروں میں سے ایک ہیں، اس کے باوجود آپ انہیں امریکی ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے میں بیٹھ کر کبھی کلام کرتا ہوا نہیں پائیں گے۔ وہ کبھی سی این این اور فوکس نیوز پر نمودار نہیں ہوسکتے، حالانکہ وہ امریکہ کے حکمرانوں کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف نہایت ٹھوس شواہد کی روشنی میں بات کرتے ہیں۔ یادش بخیر ایزرا پائونڈ امریکہ کے سب سے بڑے شاعر اور سب سے بڑے نقاد تھے مگر انہیں امریکہ کے نظام کی مخالفت اتنی مہنگی پڑی کہ انہیں دوچار نہیں پندرہ برس نفسیاتی اسپتال میں ’’نفسیاتی مریض‘‘ بن کر گزارنے پڑے، حالانکہ وہ نفسیاتی مریض نہیں تھے، مگر ان کی جان بخشی کی اس کے سوا کوئی صورت نہ تھی۔ لیکن پاکستان میں کوئی بھی شخص کسی بھی اخبار، کسی بھی ریڈیو اور کسی بھی ٹی وی چینل پر پاکستان کے خلاف زہر اگل سکتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ یہ سوال بھی اٹھا سکتا ہے کہ پاکستان بننا چاہیے تھا یا نہیں؟اس کی تازہ ترین مثال کامران خان ہیں جو جیو ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں مولانا ابوالکلام آزاد کی ایک تقریراور انٹرویو کے اقتباسات پڑھ کر سنا رہے تھے اور بڑی ’’معصومیت‘‘ کے ساتھ فرما رہے تھے کہ بظاہر مولانا ابوالکلام آزاد کی آراء درست معلوم ہوتی ہیں لیکن ہمیں انہیں غلط ثابت کرنا ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی جس تقریر کے اقتباسات کامران خان سنا رہے تھے اُس میں مولانا نے ایک بات یہ کہی ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان تعلق کی بنیاد صرف مذہب ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان کو متحد رکھنے والی کوئی شخصیت موجود نہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک بات یہ کہی کہ پاکستان کے قیام سے خطے میں بڑی طاقتوں کی مداخلت بڑھ جائے گی۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک خیال یہ بھی تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے مفادات کا زیادہ بہتر طریقے سے تحفظ ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان غلط بن گیا، اسے وجود میں نہیں آنا چاہیے تھا۔ کامران خان اور ان جیسے لوگوں کے بقول بظاہر ابوالکلام آزاد کی رائے صحیح معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ ایک برخود غلط خیال ہے اور شعوری طور پر مگر نہایت چالاکی کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں کو مسموم کرنے کے لیے اسے بعض قوتوں کے اشارے پر عام کیا جارہا ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ جدید برصغیر نے تین بڑی شخصیات پیدا کیں، اور تینوں شخصیتوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی تقدیر کو بالآخر ایک ہی تناظر میں دیکھا۔ سرسید احمد خان سرتاپا ایک جدید شخص تھے بلکہ کہنے والوں نے تو انہیں ’’بابائے جدیدیت‘‘ بھی کہا ہے۔ سرسید کی وسیع المشربی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ہندوئوں اور مسلمانوں کو ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں کہا ہے۔ مگر سرسید بالآخر مسلمانوں کو یہ مشورہ دیتے ہوئے پائے گئے کہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کانگریس میں شامل ہونے کے بجائے اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرو۔ غلط یا صحیح، اس بنیاد پر بعض لوگ سرسید کو دو قومی نظریے کا بانی کہتے ہیں۔اقبال کی وسیع المشربی سرسید سے بھی آگے بڑھی ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری میں شری کرشن کی تعریف کی ہے، شری رام کو امام ہند قرار دیا ہے، گرونانک کو سراہا ہے، گوتم کا ذکر تکریم کے ساتھ کیا ہے، ہمالہ اور ترانۂ ہندی جیسی قوم پرستانہ نظمیں لکھی ہیں، مگر بالآخر اقبال کی شخصیت میں بھی یہ تغیر آیا کہ ترانۂ ہندی کی ضد یعنی ترانۂ ملّی لکھ دیا اور ’’ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا‘‘ کے بعد ’’مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا‘‘ کا نعرہ بلند کردیا۔ یہاں تک کہ اقبال نے برصغیر میں مسلمانوں کی جداگانہ ریاست کا تصور پیش کیا اور مصورِ پاکستان کہلائے۔
قائداعظم کا معاملہ یہ تھا کہ وہ کانگریس کے اہم رہنما تھے۔ گاندھی جی افریقہ سے بیرسٹری کرکے لوٹے تو ان کے اعزاز میں ممبئی میں جو تقریب منعقد ہوئی قائداعظم اس کی صدارت فرما رہے تھے۔ سروجنی نائیڈو ان حالات میں فرما رہی تھیں کہ محمد علی جناح ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر ہیں۔ لیکن محمد علی جناح دیکھتے ہی دیکھتے کانگریس سے نکل کر مسلم لیگ میں چلے گئے اور چند برسوں میں محمد علی جناح سے قائداعظم بن گئے۔ برصغیر کی ملّت ِاسلامیہ کی تین اہم شخصیتوں، تین اہم رہنمائوں کی یہ قلبِ ماہیت معمولی بات نہیں۔ اس قلب ِماہیت کی پشت پر بڑی بڑی قوتوں کی موجودگی کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔
ان قوتوں میں سب سے بڑی قوت اسلام کی ہے۔ قائداعظم نے کہا ہے کہ پاکستان اسی دن بن گیا تھا جس دن پہلے مسلمان نے برصغیر میں قدم رکھا۔ اس ایک فقرے میں مسلمانوں کی پوری تہذیب اور پوری تاریخ سمٹ آئی ہے۔ اس لیے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی پوری تہذیب جداگانہ تشخص کی تہذیب ہے اور مسلمان اس تاریخ کے ہر دور میں اپنے جداگانہ وجود پر اصرار کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ دو قومی نظریہ قائداعظم یا سرسید کی ایجاد نہیں ہے۔ یہ نظریہ اُس وقت بھی موجود تھا جب برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی اور حضرت مجدد الف ثانیؒ جہانگیر کو چیلنج کررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ تم نے سجدۂ تعظیمی کو اپنا لیا جو توحید کے اصول کے خلاف ہے، اور تم نے گائے کے ذبیحے پر پابندی لگادی ہے جو خلاف ِاسلام ہے، تمہیں اسلام عزیز ہے تو سجدۂ تعظیمی منسوخ کرو اور گائے کا ذبیحہ جاری کرو۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو قائداعظم پاکستان کا مطالبہ کرتے ہوئے اسلام کی روح سے پوری طرح ہم آہنگ تھے اور ابوالکلام آزاد مفسرِ قرآن ہونے کے باوجود اسلام کے تقاضوں سے نابلد تھے۔ یہاں اہم بات یہ بھی ہے کہ قائداعظم نے جو کچھ کہا اسے برصغیر کی پوری ملّتِ اسلامیہ کی رائے بنادیا۔ اس کے برعکس ابوالکلام آزاد کی رائے کل بھی صرف ایک فرد کی رائے تھی اور آج بھی صرف ایک فرد کی رائے ہے۔ سوال یہ ہے کہ پوری ملّتِ کی رائے کو نظرانداز کرنا اور ایک فرد کی رائے کو نمایاں کرنا کہاں کا انصاف ہے؟
تجزیہ کیا جائے تو قائداعظم صرف اسلام کے تقاضوں سے ہی نہیں بلکہ تاریخی تناظر سے بھی پوری طرح ہم آہنگ تھے۔ برصغیر کی تاریخ کا تناظر یہ تھا کہ مسلمان کبھی محکوم اور ہندو کبھی ان کے حاکم نہیں رہے تھے۔ یعنی ہزار سال کی تاریخ میں مسلمانوںکو محکوم بن کر رہنے کا تجربہ نہیں تھا، اور ہندوئوں کو حاکم بن کر دکھانے کا تجربہ نہیں تھا، اور ان دو تجربوں میں بڑا فصل اور بڑا تضاد تھا، اور مسلمانوںکی محکومی اور ہندوئوں کی حاکمیت سے بڑے سنگین مسائل پیدا ہونے والے تھے۔ برصغیر کی ملّتِ اسلامیہ شعوری سطح پر اس حقیقت سے بھی آگاہ تھی کہ مستقبل کے ہندو حکمران اعلیٰ ذات کے ہندوئوں سے آئیں گے، اور اعلیٰ ذات کے ہندوئوں کا سب سے بڑا تاریخی جرم یہ تھا کہ انہوں نے ہزاروں سال سے کروڑوں شودروں اور دلتوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسرکرنے پر مجبور کیا ہوا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہندو دھرم کے دائرے میں تھے اور سوال یہ تھا کہ جو لوگ ہندو دھرم کے دائرے میں موجود لوگوں کے ساتھ انصاف نہیں کرپائے وہ مسلمانوں کے ساتھ کیا انصاف کریں گے؟ بدقسمتی سے آزادی کے بعد سامنے آنے والی 64 سال کی تاریخ نے برصغیر کی ملّت ِاسلامیہ اور ان کے رہنما قائداعظم کے اس اندیشے کو سو فیصد درست ثابت کردیا ہے۔ آزادی سے پہلے مسلمان کسی محکمے میں پندرہ، کسی میں دس اور کسی میں آٹھ فیصد تھے، مگر آج صورت ِحال یہ ہے کہ بھارت کے مسلمان آبادی کے حساب سے پندرہ سے بیس فیصد ہیں مگر بھارت کے کسی محکمے میں ان کی موجودگی دو تین فیصد سے زیادہ نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ بھارت کے حکمران طبقے نے بھارت کے مسلمانوں کو سماجی، معاشی اور نفسیاتی اعتبار سے ہریجنوں اور دلتوں کی سطح سے بھی نیچے گرادیا ہے۔ بھارت میں گزشتہ 64 برسوں میں چار ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں اور مستقبل کا در اس حوالے سے کھلا ہے۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کا تاریخی تصور زیادہ پختہ تھا یا مولانا ابوالکلام آزاد تاریخ کے تناظر سے زیادہ ہم آہنگ تھے؟ بھارت اپنی مسلم آبادی کے ساتھ انصاف کرکے دکھاتا تو پاکستان کے قیام کا مقدمہ ازخود کمزور پڑجاتا۔ مگر بھارت اپنی مسلمان آبادی کے ساتھ انصاف کیا کرتا، وہ تو ان کے حوالے سے رحم کے تقاضے بھی پورے نہیں کرسکا، یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم کی حد مقرر کرنے میں بھی ناکام ہے۔ اس صورت حال نے پاکستان کے قیام کے مقدمے کو کمزور نہیں مضبوط کیا ہے۔
جو لوگ متحدہ ہندوستان کو مسلمانوں کے مفادات کے لیے بہترین خیال کرتے ہیں وہ بڑے بڑے حقائق سے صرف ِنظر کرتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں بنگال مسلم اکثریتی علاقہ تھا، لیکن علاقے کی معیشت، تعلیم اور سیاست پر ہندوئوں کا غلبہ تھا۔ سندھ میں ہندو معمولی اقلیت تھے مگر یہاں بھی کاروبار میں انہی کا سکہ چل رہا تھا۔ سرحد میں سرحدی گاندھی چھائے ہوئے تھے اور ان کا کسی ’مسلم کافر‘ سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ پنجاب 1946ء تک یونینسٹوں کے نرغے میں تھا اور ان کا بھی اسلام اور مسلمانوں کے کسی مفاد سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بلوچستان پر سرداروں کی حکومت تھی اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کے معاملات سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ سوال یہ ہے کہ جو لوگ آج آزاد پاکستان میں بیٹھ کر کامل آزادی سے ملک کے قیام کے بارے میں شکوک پھیلا رہے ہیں وہ متحدہ ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے؟ کہنے کے لائق بات تو یہ بھی ہے کہ متحدہ ہندوستان میں ہندوئوں کو جو غلبہ حاصل تھا وہ نہ صرف یہ کہ برقرار رہتا بلکہ مستحکم اور ’’دلکش‘‘ بنادیا جاتا۔ اس لیے کہ ہندوئوں کو ہر جگہ سے سیکڑوں سرحدی گاندھی، یونینسٹ، شیخ عبداللہ اور کامران خان فراہم ہوجاتے۔متحدہ ہندوستان کے مفہوم کو مزید جاننا ہو تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ بھارت نے خطے کے تمام ملکوں کے ساتھ کس طرح کے تعلقات کی تاریخ رقم کی ہے۔ بھارت پاکستان سے تین جنگیں لڑچکا ہے۔ چین کے ساتھ اس کی ایک جنگ ہوچکی ہے۔ نیپال ہندو ریاست ہے مگر نیپال کو بھارت نے اپنی طفیلی ریاست بنایا ہوا ہے۔
بھارت سری لنکا میں مداخلت کرچکا ہے اور ان دنوں سری لنکا میں بھارت مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ بھارت مالدیپ میں بھی فوج کشی کرچکا ہے۔ بھوٹان کے ساتھ اس کے تعلقات کبھی اچھے نہیں رہے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کا کردار بنیادی ہے مگر بھارت کی مداخلت بنگلہ دیش میں اتنی بڑھی کہ صرف تین سال میں بنگلہ دیش کی فوج نے بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن اور اس کے پورے خاندان کو قتل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ بلاشبہ آج کل وہاں شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد کی حکومت ہے، لیکن بنگلہ دیش میں بھی بھارت مخالف جذبات عروج پر ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو سوال یہ ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد مسلمانوںکو متحدہ ہندوستان میں رکھ کر ان سے ’’محبت‘‘ کرنا چاہتے تھے؟ یا انہیں صدیوں تک ان کے ناکردہ گناہوں کی ’’سزا‘‘ دلانا چاہتے تھے؟ اس سلسلے کا مزید سوال یہ ہے کہ پاکستان بنانے والے محمد علی جناح کی بصیرت زیادہ تھی یا مولانا ابوالکلام آزاد کی؟
قیام پاکستان عظیم تاریخی اور سیاسی تجربہ تھا اور اتنے بڑے تجربے میں اندیشے بھی ہوا کرتے ہیں۔ مگر پاکستان کے تجربے کی اہم بات یہ تھی کہ اس میں امکانات بہت زیادہ اور اندیشے بہت کم تھے، اور قیام پاکستان سے یہ بات ثابت ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کو ’’معجزاتی‘‘ کہے بغیر چارہ نہیں۔ لیکن مولانا ابوالکلام آزاد کی یہ بات درست ہے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اسلام ہی مشترک چیز تھا۔ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن تاریخ کے اس مرحلے پر دونوں علاقوں کے درمیان اسلام محض ایک ’’جذبہ‘‘ تھا جس نے قیامِ پاکستان کے ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا۔ اس کامیابی سے اس جذبے کے ’’امکانات‘‘ ظاہر ہورہے تھے، لیکن جذبے کو آگے چل کر ’’شعور‘‘ بننا تھا۔ تاہم قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی انتقال کرگئے اور جذبے کو شعور بنانے والی شخصیت موجود نہ رہی۔ لیکن تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یہ ہوجائے گا! ابوالکلام آزاد کی یہ بات بھی درست ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان کے سوا دونوں علاقوں کو جوڑنے والی کوئی اور شخصیت پاکستان میں موجود نہ تھی۔ لیکن یہ مسئلہ تو بھارت کے ساتھ بھی تھا۔ گاندھی اور نہرو کے سوا بھارت کو سنبھالنے والا کون تھا؟ فرق یہ ہے کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان جلد ہی منظر سے ہٹ گئے۔ ان کے مقابلے پر گاندھی اور نہرو طویل عرصے تک بھارت کی قیادت کے لیے موجود رہے۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں بے چارے پاکستان اور بانیٔ پاکستان کا کیا قصور ہے؟ اور اس حوالے سے نکتہ چینی کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟
ابوالکلام آزاد کی یہ بات بھی درست نہیں کہ قیام پاکستان سے خطے میں بڑی طاقتوں کی مداخلت کی راہ ہموار ہوگی۔ انگریز وقت کی سپرپاور تھے اور وہ منقسم ہندوستان میں نہیں متحدہ ہندوستان میں یہاں آئے تھے۔ اور اُس وقت وہ ہندوستان آنے والی واحد بڑی طاقت نہیں تھے۔ ہندوستان میں فرانسیسی بھی آگئے تھے اور ولندیزی بھی یہاں موجود تھے۔ مطلب یہ کہ بڑی طاقتوں کی آمد کا کسی خاص سیاسی واقعے سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔ البتہ پاکستان کی موجودگی سے یہ ضرور ہوا ہے کہ وقت کی دو سپرپاورز افغانستان میں یکے بعد دیگرے شکست سے دوچار ہوئی ہیں۔ کیا پاکستان کے بغیر افغانستان میں سوویت یونین اور امریکہ کی شکست کا تصور کیا جاسکتا ہے؟