جیسے ہی عالیہ سبزی لینے کے لیے اپارٹمنٹ کے گیٹ سے نکلی تو سامنے کے اپارٹمنٹ کے گیٹ پر اس کی نظر پڑی، جہاں سے ادھیڑ عمر باوقار خاتون اور ان کا شوہر نکل رہے تھے۔ یقینا یہ وہی مرد تھا جس کو وہ جوانی میں دھتکار چکی تھی۔ ابھی وہ یہی سوچ رہی تھی کہ گیٹ کے سامنے کھڑی گاڑی میں سے ایک ہینڈسم جوان لڑکا نکلا۔ ’’سلام بابا! سلام مما…‘‘
مما اور بابا نے اسے بڑے پیار سے سلام کا جواب دیا۔ خاتون شاید کسی پتھر وغیرہ سے ٹکراکر ذرا لڑکھڑائیں تو نوجوان نے بڑے پیار سے آگے بڑھ کر انہیں تھام لیا۔’’مما پلیز خیال سے، اگر آپ کو چوٹ لگ جاتی تو…‘‘
ماں نے بڑے لاڈ سے اسے دیکھا اور بولی ’’شاہ زیب بیٹا! کچھ نہیں ہوا مجھے، تم تو فوراً گھبرا جاتے ہو۔‘‘
خاتون کے منہ سے لڑکے کا نام سن کر وہ چونک گئی۔ شاہ زیب میرا بیٹا! میرا لعل… اس کا سر چکرانے لگا۔ اس نے دیوار کا سہارا لیا، اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی… وہ ہو بہو میری تصویر ہے… میری شبیہ ہے۔
شاہ زیب اس کا بیٹا… چند لمحوں کے لیے اس عورت کی جگہ شاہ زیب کی بانہوں میں اپنے آپ کو محسوس کیا۔ ’’مما! آپ ٹھیک تو ہیں؟کیا ہوا آپ کو…؟‘‘ اس نے فوراً ہی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا۔ وہ گاڑی اور اس کے سوار وہاں سے جا چکے تھے۔ شاید وہ سامنے والی رہائشی سوسائٹی میں کسی رشتے دار سے ملنے آئے تھے۔
وہ بڑبڑاتی ہوئی پلٹی۔ اپارٹمنٹ میں سامنے ہی گرائونڈ فلور پر اس کا فلیٹ تھا۔ دستک دینے پر زلیخا نے دروازہ کھولا۔ اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر بولی ’’سبزی نہیں لائیں…؟‘‘
’’ہاں… ہاں… وہ سبزی تازہ نہیں تھی۔‘‘
’’تو اب کیا پکائیں گے…؟ دال بنا لیتے ہیں۔‘‘ اس کی حالت عجیب ہورہی تھی۔ زلیخا نے آج سے پہلے کبھی اس کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا۔
’’تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں… ہاں… میں… میں ٹھیک ہوں۔‘‘ یہ کہتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ دروازے کی کنڈی لگاکروہ پلنگ پر ڈھے گئی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے جیسے بے قابو بند بہہ گیا ہو۔ 24 سال میں شاذ و نادر ہی اسے اپنے بیٹے کا خیال آیا تھا۔ لیکن اس نے اپنے ذہن کو جھٹک کر دھیان دوسری طرف کردیا تھا۔ لیکن آج… آج وہ اس کے اتنے قریب تھا… جوان، خوب صورت… یقینا وہ اس کی سوتیلی ماں تھی۔ اس کے ساتھ شاہ زیب کی والہانہ محبت… آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں تھام لینا… وہ منظر اسے بے چین کررہا تھا۔ یہ حق تو میرا تھا، میں اس وقت بے سہارا ناتواں عورت… وہ میرا سہارا ہوتا… ضمیر کی آواز آئی ’’ظالم عورت تیرا سہارا… جسے تُو نے چوبیس سال پہلے زمانے کے رحم و کرم پر بے سہارا چھوڑا تھا… کہاں مر گئی تھی تیری ممتا؟ تُو نے نہ صرف اس کے باپ کو دھتکارا بلکہ ضد، انا، خود غرضی، لالچ میں اپنی ممتا کا گلا بھی گھونٹ کر اپنی من مانی کی…‘‘ وہ خیالوں کی دنیا میں بہت دور نکل گئی۔
…٭…
عالیہ: مجھے تم سے نفرت ہے، مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ۔
سکندر: عالیہ! میں مسلسل دو سال سے صبر و برداشت سے کام لے رہا ہوں، لیکن تم… دیکھو حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے، تمہاری خوشی کے لیے میں دو ملازمتیں کررہا ہوں، پوری کوشش کررہا ہوں، کچھ بچت ہوجائے تو تمہارے لیے گاڑی بھی لے لوں گا۔
عالیہ: نہ جانے میرے بھائی بہنوںنے تمہارے اندر کیا خوبی دیکھی جو تمہارے پلے باندھ دیا، اور وہ تمہاری بڑی بہن اور بھابھی کہاں غائب ہیں مجھے اس عذاب میں جھونک کر…! بس اب مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا، میں اتنے بڑے بنگلے میں عیش کے ساتھ رہ رہی تھی، سارا دن یہاں چولہا جھونکتی رہتی ہوں…
سکندر (غصے سے): میں نے دو سال میں مسلسل تمہیں خوش رکھنے کی کوشش کی ہے، میرا نہیں تو اپنے نومولود بچے کا ہی خیال رکھو۔
عالیہ: بچہ… وہ تمہارا بچہ ہے، جیسا باپ ویسا ہی بیٹا ہوگا۔ میں فیصلہ کرچکی ہوں مجھے یہاں نہیں رہنا۔ اپنا بچہ خود سنبھالو…
…٭…
عالیہ شروع ہی سے خودسر، ضدی اور لالچی طبیعت کی تھی۔ سارے بھائی بہن اس کے رشتے کے لیے پریشان تھے۔ زلیخا کا مسئلہ تو اور تھا، اس کے لیے تو جو رشتہ بھی آرہا تھا وہ کسی رنڈوے اور عمر رسیدہ کا تھا جو بال بچوں والا ہوتا، لہٰذا وہ ہر مرتبہ انکار کردیتی تھی، اسی لیے بھائی بہنوں نے عالیہ کا رشتہ سکندر کے ساتھ کردیا جس کا دو کمروں کا ایک چھوٹا سا فلیٹ تھا اور مناسب نوکری، جس سے اس کی گزربسر ہوجاتی تھی۔ لیکن شریف بندہ تھا، سب کو امید تھی کہ آگے ترقی کرے گا۔ لیکن عالیہ بالکل مختلف طبیعت کی مالک تھی۔ سب بھائی اپنی اپنی فیملی کے ساتھ الگ رہتے تھے۔ یہ مکان انہوںنے فی الحال ان دونوں کنواری بہنوں کو دیا ہوا تھا، جہاں دونوں آزادی اور عیش سے زندگی بسر کررہی تھیں۔ خرچا پانی سارا بھائیوں کی ذمہ داری تھی۔
…٭…
آخر عالیہ اپنی ضد پر قائم رہی اور بچے کو بھی سکندر کے حوالے کرکے خود بڑی بہن زلیخا کے ساتھ رہنے لگی۔ سارا کام نوکرانی کرتی۔ دونوں بڑے آرام کی زندگی گزار رہی تھیں، نہ کوئی پریشانی، نہ فکر… بھائیوں نے بھی دونوں بہنوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔
کوٹھی جو دونوں بڑے بھائیوں کی تھی، اُن کے بچوں کے تعلیمی اخراجات کے لیے بیچنی پڑی۔ لیکن دونوں بہنیں جو اکیلے رہنے کی عادی ہوچکی تھیں، کسی کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ہوئیں، اور مجبوراً سب سے بڑی بہن رقیہ آپا نے پڑوس میں دوکمروں کا ایک چھوٹا اپارٹمنٹ لے کر ان دونوں بہنوں کو رہنے کے لیے دے دیا۔ اور اس طرح وہ دونوں ایک بڑی کوٹھی سے چھوٹے اپارٹمنٹ میں منتقل ہوگئیں۔
…٭…
دن و رات گزر ہی جاتے ہیں، جوانی بھی گزر گئی، اب تو بڑھاپے نے دونوں کی زندگی پر دستک دی تھی۔ ان گزرے برسوں میں چند بار اسے بیٹے کا خیال آیا، لیکن اس نے اسے ذہن سے جھٹک دیا۔ دونوں اپنی زندگی میں مگن تھیں، کبھی کبھار بہن بھائیوں سے ملنا جلنا ہوتا ہی رہتا تھا، عالیہ کو دیکھ کر بہنوں اور بھابھیوں کو بڑا تعجب ہوتا کہ کتنی سخت دل عورت ہے، اس نے نہ ہی پلٹ کر بیٹے کی کبھی خبر لی اور نہ ہی اسے یاد کیا۔ اب اگر اسے کبھی کبھار بیٹا بڑھاپے کی وجہ سے یاد بھی آتا تو وہ ذہن سے جھٹک کر اپنے معمولاتِ زندگی میں لگ جاتی۔
آج اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد بیٹا اُس کے سامنے آیا تھا جو کسی اور عورت کی ممتا کا محور تھا۔
…٭…
نہ جانے وہ کتنی دیر روتی رہی۔ پچھتاوا تھا، یا ممتا تھی جو اس کے اندر کہیں چھپی ہوئی تھی جس نے آج اسے تڑپا دیا تھا۔ آج اگر شاہ زیب میرے ساتھ ہوتا تو میرے بڑھاپے کا سہارا بنتا… اسے یوں لگا کہ وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ بڑی ہوگئی ہے… بھرپور بڑھاپا… ناتواں کمزور جسم… آپا زلیخا بھی بوڑھی ہوچکی ہیں، وہ کب تک میرا ساتھ دیں گی! باقی بہن بھائی… انہیں تو… اور اب باقی تمام زندگی میری یونہی تڑپ تڑپ کر گزرے گی۔ یااللہ میں کتنی بے بس ہوں۔ میں نے اپنی ممتا کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ نہ جانے میرے بیٹے کو معلوم بھی ہے یا نہیں کہ میں زندہ ہوں بلکہ زندہ لاش۔
کاش میں سکندر سے اُس وقت اپنا بیٹا ہی لے کر آتی۔ سکندر کا خیال آتے ہی اسے اپنی دوسری غلطی کا احساس بھی چوبیس سال گزرنے کے بعد آج ہورہا تھا۔ سکندر نے میری کتنی منتیں کی تھیں، کیسے کیسے مجھے منانے کی کوشش کی، لیکن میں اندھی اور بہری بن گئی۔ ہر موقع پر اُسے ذلیل کرتی، دھتکارتی۔ آج وہ کتنا پُرسکون لگ رہا تھا جیسے اپنی موجودہ زندگی سے بہت زیادہ مطمئن ہو… میں نے… میں نے اُسے دو سال سوائے طعنوں کے دیا ہی کیا تھا…! لیکن پھر بھی وہ مجھ سے ہر قسم کا سمجھوتا کرنے کے لیے تیار تھا۔
…٭…
دروازے پر زور سے دستک کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھی، دروازہ کھولا تو سامنے زلیخا آپا تھیں… ’’کھانا تیار ہے اور… اور یہ تمہیں کیا ہوا۔‘‘ اس کی سوجی سرخ آنکھیں اس کے دل کا حال بیان کررہی تھیں۔
’’خیریت تو ہے؟ تم تین گھنٹے تک اپنے کمرے میں بند رہی ہو، کیا بات ہے؟‘‘ زلیخا نے اس کا ہاتھ پکڑا تو بالکل ٹھنڈا ہورہا تھا۔ ’’عالیہ تم بول کیوں نہیں رہیں…؟‘‘ زلیخا کے زور سے جھنجھوڑنے پر اس نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا ’’میرا بیٹا… میرا شاہ زیب، میرا لعل، وہ ابھی یہیں تھا۔ وہ میرا سہارا ہے بڑھاپے کا… میں اسے اب اپنے سے الگ نہیں کروں گی… دیکھو دیکھو شاید دروازے پر دستک ہورہی ہے… وہی ہوگا… ہاں ہاں ضرور وہی ہوگا۔‘‘
…٭…
آج عالیہ زندہ تو ہے لیکن خیالوں کی دنیا میں صرف اپنے بیٹے کے ساتھ جی رہی ہے… شاید بیٹے کے ساتھ ناانصافی کے برتائو کا پچھتاوا تھا جو اُس کے اندر چھپی ممتا کو جھنجھوڑ کر بیدار کررہا تھا… لیکن اب بہت دیر ہوچکی تھی، اس کی زندگی میں اب سناٹے تھے یا خیالوں کی دنیا میں شاہ زیب کی پرچھائیاں… زندگی کی حقیقی خوشی سے اس نے اپنے آپ کو محروم کرلیا تھا۔