گھر گھر کی کہانی

260

’’ایک جھوٹی لو اسٹوری‘‘ پاکستان کی طرف سے ’’چڑیلز‘‘ کے بعد چلنے والی دوسری ڈرامہ سیریل ہے۔ یہ ڈرامہ سیریل ان دنوں ویب سیریز دیکھنے والے شائقین میں بے حد مقبول ہے۔ اس ویب سیریز کو پاکستان کی معروف ڈرامہ نگار ’’عمیرہ احمد‘‘ نے لکھا ہے اور پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی منجھی ہوئی ہدایت کارہ ’’مہرین جبار‘‘ نے اس کی ہدایت کاری کی ہے۔ اس ڈرامے کو لکھنے، بنانے اور ایک ایسے پلیٹ فارم پر چلانے والے تمام افراد داد کے مستحق ہیں۔ چونکہ ایک طویل مدت سے ہمارے پاکستانی ڈرامے ہماری تہذیب، ہماری روایات اور اخلاقیات کے منافی بن رہے ہیں، ایسے وقت میں اتنے حساس موضوع پر ڈرامہ بناکر معاشرے کو دکھانا ایک خوش آئند قدم ہے۔ یہ ویب سیریز ایک سوشل کامیڈی ہے۔ اس کا موضوع سوشل میڈیا کے دور میں ’’محبت‘‘ اور ہمارا ’’رشتہ کلچر‘‘ ہے۔ اس سیریل کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ اخلاق سے گرے ہوئے جملوں اور’’گلیمر‘‘ سے بالکل پاک ہے۔ یہ سیریل ایک ہلکی پھلکی کامیڈی ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی کی سادگی، روزمرہ کے گھریلو اور خاندانی رشتوں کی نہایت شائستہ اور دلچسپ انداز میں عکاسی کرتی ہے۔ اس ویب سیریز کے سارے کردار بہت حقیقی انداز میں زندگی سے قریب تر دکھائے گئے ہیں۔ ڈرامے کے سارے کردار روایتی ڈراموں کے ڈرامائی انداز سے دور ہیں۔ عمیرہ احمد نے جس طرح دیکھنے والوں کو ڈرامے کے سارے کردار دکھائے ہیں وہ کمال ہے۔ دیکھنے والوں کے لیے اس میں بے شمار حکمتیں پنہاں ہیں۔ یہ فیملی سیریل دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور اس گھٹے ہوئے ڈرامائی کلچر میں ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں۔
بنیادی طور پر ڈرامے کی کہانی لوئر کلاس اور مڈل کلاس کے دو گھرانوں کے گرد گھومتی ہے۔ والدین اپنی جوان اولاد کے لیے رشتے تلاش کررہے ہیں اور خوب سے خوب تر کی تلاش میں وقت گزرتا چلا جا رہا ہے، دوسری طرف جوان اولاد بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور سماجی مسائل کا شکار ہوتی چلی جارہی ہے۔ ڈرامے کے سارے کردار پڑھ لکھ کر عملی زندگی میں قدم رکھ چکے ہیں اوراپنے آئیڈیل ساتھی اور آئیڈیل زندگی کی تلاش میں ’’محبت‘‘ اور ’’احساس‘‘ سے بھرے رشتوں کو کھورہے ہیں، اور ایک آئیڈیل دنیا کے بت کے سامنے بیٹھ کر حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔ ڈرامے کے سارے کرداروں نے نوجوانوں اور والدین کے معاشرتی اور نفسیاتی مسائل کو بڑی خوبصورتی سے ادا کیا ہے۔ اس سیریل کی کہانی حقیقت میں اب ایک کلاس تک محدود نہیں رہی بلکہ گھر گھر کی کہانی بن چکی ہے۔
اس سیریل کے ذریعے معاشرے کو دو اہم باتوں ’’ہمارا رشتہ کلچر‘‘ اور ’’نکاح کی اہمیت‘‘ کے حوالے سے سوچنے اور اسے عملی طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دفعہ پھر سے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نکاح کے ذریعے ہی انسان بندگی کے اس مقام پر فائز ہوتا ہے جہاں پر وہ اللہ کی منشا کے مطابق دنیا اور آخرت دونوں کی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرتا ہے۔ نکاح انسان کی فطری ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ بے شمار معاشرتی، نفسیاتی اور سماجی مسائل سے تو نجات دیتا ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو یہ نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نکاح ہی انسان کے ’’دین‘‘ اور ’’ایمان‘‘ دونوں انتہائی قیمتی چیزوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ہم نے دنیا کے پیچھے چل کر اور مادیت کی چکا چوند میں غرق ہوکر ان دو انتہائی قیمتی چیزوں کی حفاظت چھوڑ دی ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ اتنے مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اکثریت کے نزدیک آج بھی دولت اور حسن ’’دین‘‘ اور’’ایمان‘‘ سے بھی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ یقینا دولت اور حسن دونوں کی اپنی اہمیت ہے جس سے انکار نہیں، لیکن صرف انہی دو چیزوں کو بنیاد بناکر نکاح میں تاخیر کرنا درست نہیں۔ رشتے تلاش کرتے ہوئے لڑکی اور لڑکے کے لیے صرف حسن اور دولت کو بنیاد نہ بنائیں۔ ہمارا دین ِ اسلام چونکہ دین ِ فطرت ہے اس لیے وہ ہمیں پوری آسانی کے ساتھ رشتہ تلاش کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ شریعت اس بات کی پوری آزادی دیتی ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت اس بات کا پورا پورا خیال رکھا جائے کہ لڑکے اور لڑکی کے قد کاٹھ، شکل صورت اور تعلیم وتربیت میں ہر ممکن حد تک مناسبت پائی جانی چاہیے۔ دین اس چیز کی پوری آزادی دیتا ہے کہ اس مقدس رشتے میں بندھنے سے پہلے ہر طرح سے دونوں خاندانوں، لڑکے اور لڑکی کی ہر طرح سے تسلی کرلی جائے۔ اس لیے اپنے اختیار کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی پوری تسلی کرکے رشتہ تلاش اور طے کرنا چاہیے۔
دین ِ اسلام جیسے زندگی کے باقی معاملات میں انسان کو آسانی کے ساتھ زندگی گزارنے کا شعور دیتا ہے، اسی طرح نکاح کے معاملے میں بھی خاموش نہیں۔ اکثریت شریعت کے بتائے ہوئے اصول یا تو جانتی ہی نہیں، اور جو جانتے ہیں وہ شرعی اصولوں کو اب غلط انداز سے عملی طور پر اپنا رہے ہیں، جس کی وجہ سے آج رشتے ٹوٹنا آسان اور بننا نہایت مشکل ہوچکا ہے۔ لڑکی اور لڑکے کے انتخاب کے لیے شریعت نے آسان اور سادہ سے اصول ہمیں بتا دیے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کے انتخاب کے لیے فرمایا: ’’عورتوں سے چار چیزوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، اُن کے مال و دولت کی وجہ سے، اُن کے حسب و نسب کی وجہ سے، اُن کے حسن و جمال و خوبصورتی کی وجہ سے، اور اُن کی دین داری کی وجہ سے۔ لہٰذا تم دین دار عورت کا انتخاب کرکے کامیاب بنو۔ (سنن ابنِ ماجہ۔1858)
لڑکے سے نکاح کے لیے نبیؐ نے فرمایا: ’’جب تمہیں ایسا شخص نکاح کا پیغام دے جس کا دین واخلاق تمہیں پسند ہو تو اُس سے نکاح کردو، اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فسادِ عظیم برپا ہوگا۔‘‘(ترمذی۔ 1084)
ان احادیث کے مطابق نکاح کی کامیابی دین کی بنیاد پر رکھی گئی ہے۔ ایک نکاح کی کامیابی ایک خاندان، ایک معاشرے اور دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کی چکاچوند اور اس کے لالچ میں ہم اپنی دنیا تو تباہ کر ہی رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان اپنی آخرت بھی تباہ کررہا ہے، وہ مادیت کی چکاچوند میں بالکل بھول چکا ہے کہ وہ اس جہاں میں آخرت کی تیاری کے لیے بھیجا گیا ہے، سب اسے اِس دنیا میں نہیں مل جائے گا۔ وہ حقیقت میں یہاں اللہ کے لیے جو گنوائے گاآخرت میں اسی کا اجر پائے گا۔
نکاح کے لیے نبیؐ کے بتائے ہوئے ان دو اصولوں کو پورے معاشرے کو عملی طور پر اپناکرکم عمری کے نکاح میں چھپی حکمتوں کو سمجھنے اور اس کلچر کو دوبارہ روا ج دینے کی اشد ضرورت ہے۔ نکاح کے ذریعے ہی ہم معاشرے میں پھیلے بے شمار مسائل پر قابو پا سکتے ہیں اور دنیا اور آخرت کی کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں۔
nn

حصہ