وقت کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سب سے بڑا مرہم ہے۔ مگر کبھی کبھی یہ بات بالکل غلط ثابت ہوئی۔ کچھ سانحات ایسے زخم چھوڑجاتے ہیں کہ کئی برس ہی نہیں دہائیاں بھی ان کو مندمل نہیں کرسکتیں، زخم خودرو مگر زہریلی گھاس کی طرح اُگے چلے جاتے ہیں… اور جاں گسل اور روح فرسا ماضی ہمیشہ حال کے ساتھ جڑا رہتا ہے، اس لیے کہ اس قیامت کے پیچھے انسانی اناؤں اور جفاؤں سے گندھی سفاک غلطیاں رقم ہوتی ہیں۔
سانحۂ مشرقی پاکستان ایسا ہی خون آشام ماضی ہے جو گزر کے نہیں دیتا۔ ملک کا ٹوٹنا چھوٹا غم تو نہیں، اور ملک بھی وہ جو بے حد قربانیوں اور جانفشانیوں کا نتیجہ ہو۔ بہرحال یہ وہ شامِ فراق نہ تھی جو آئے اور آکے ٹل جائے۔ یہ تو نظریے اور قومی زبان کو اپنی اَنا، لسانیت اور نفرت کی بھینٹ چڑھانے کا منطقی انجام تھا، یہ ایک بھائی کا دوسرے بھائی کو انصاف نہ دینے اور حقیر جاننے کا سنگین انجام تھا۔
’’میں ہی میں‘‘ یا ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کی اَنا پرستی کا بھیانک خمیازہ جو نسلیں بھگت رہی ہیں، تاحال اُدھر بھی اور اِدھر بھی کہانی کا انجام ہی نہیں ہوکے دیتا۔ میری امی کے جانے کے بعد یہ پہلا دسمبر ہے۔
جدائیوں کا ماہِ حزن
بچھڑنے کا موسمِ ملال
وہ ہر دفعہ یہی بتاتی تھیں کہ بیٹا! لوگ گھروں سے گلیوں چوباروں تک میں ایک دوسرے سے یوں تعزیت کرتے تھے جیسے قریبی عزیز کی جواں مرگ ہوئی ہو ۔ مگر اتنی بڑی تباہی اچانک تو نہیں ہوئی، بنگال سے تو تحریکِ پاکستان شروع ہوئی، وہ لوگ اس تحریک کا ہراول دستہ تھے۔ مگر ناانصافی اور حقارت کے رویّے اُن میں بغاوت کے بیج بوتے گئے۔ ان کی تذلیل کی انتہا تھی کہ چھوٹے قد کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں فوج میں بھرتی نہیں کیا جاتا تھا۔ ظلم کی کھیتی کب پنپتی ہے؟ البتہ خوں ریز قیامتیں بیت جاتی ہیں اور وہ بیت گئیں۔
بہرحال سفاکانہ اور قاتلانہ غفلتیں، لسانی تعصب کی شرم ناک مثالیں اس سانحے کا سبب بنیں۔ کیا اس کو جرم سمجھ کر کوئی باز آیا؟ جی نہیں۔ حکمرانوں سے عوام تک کسی نے ان ہتھیاروں کو توڑ کر نہیں پھینکا۔ لسانی تعصب، عدم انصاف، میرٹ کو ٹھکراکر قد، رنگ، نسل اور زبان پہ حق دینا کیا نظریہ پاکستان کی توہین کی انتہا نہیں…! پھر جرائم کے ساتھ ایک مسلسل جرم اس سانحے کو بھلاتے جانا…
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھیرے نہیں حادثہ دیکھ کر
مگر وقت جو ٹھیرتا نہیں، اِس سانحے پہ ٹھیر گیا… جب بجائے اس المیے سے عبرت حاصل کرنے کے، اس کے اعادے کی کوشش کی گئی، حقوق کے نام پر لسانیت کا دیو محض 15برس کے بعد پھر رقص کرتے ہوئے سبز باغ دکھانے لگا۔ اب کے اس کا نشانہ تعلیم و تہذیب سے آراستہ اردو آبادی تھی۔ ایک سیلاب پھر سے آگیا۔ یہ نفرتوں اور دہشت گردی کا ایسا بھیانک دور تھا جس نے بوری بند لاشوں، بھتہ خوری اور معاشی تعطل کا کلچر روزانہ کی سطح پر دیا۔ محاذ آرائی کسی ایک کمیونٹی سے ہوتی تو پھر بھی سہا جاسکتا ہے، ہر قوم سے باقاعدہ جنگ ہوئی جس میں جانی، مالی، اخلاقی اور تہذیبی نقصانات ہوتے رہے۔ جینے والے دہشت سے جیون بِتاتے رہے۔ بوڑھے باپ جوان بیٹوں کے جنازے اٹھاتے رہے… جوان عورتیں بیوہ ہوئیں اور معصوم بچے یتیم۔ 35سال کی حکمرانی مفاہمت کی سوداگری میں پروان چڑھی۔ سانحے کو بھلانے، نظریے کو نظرانداز کرنے کا خمیازہ بھگتتے کئی دہائیاں بیت گئیں۔ محلے داری جو کبھی رشتے داری سے بڑھ کر تھی، مر مٹی یا برائے نام کہیں رہ گئی۔ عجیب دہشت تھی جس نے لوگوں کو ایک دوسرے سے بدگمان کردیا۔ پھر یہیں پہ بس نہیں، آپس میں ٹکڑے ہو ہوکر دشمن بنتے گئے۔ وہ سانحہ کیا تھا جو گزر کے نہیں دیتا، مگر عزیزو! گزرے بھی کیسے؟ ان زہریلے ہتھیاروں کو توڑ کر پھینک تو دے کوئی حاکم، کوئی شہریار، کوئی جمہوریت کی مالا جپنے والا، یا کوئی ریاستِ مدینہ کا دعوے دار۔ پھر ایک ہتھیار اپنی زبان کی تذلیل بھی ہے۔ عدم انصاف بھی، میرٹ کی ناقدری بھی ایک ہتھیار۔ اس سانحے سے نئی نسل کو ناشناس رکھنا بھی، اور اُدھر پاکستانیت کے جرم میں دہائیوں بعد پھانسی کے پھندے پہ چڑھانا کہہ رہا ہے کہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا دعویٰ جھوٹا تھا۔
جن ہتھیاروں سے ملک دولخت ہوا تھا، وہ پھر چلتے رہے سنہری خطے کے جدا ہونے سے روشنیوں کے شہرِ نگاراں کو آگ وخون کے سمندر میں ڈبونے تک، پھر اب ٹوٹی سڑکوں اور کچرے کے ڈھیر میں بدلنے تک… اندر سے باہر ایک ہی شور ہے، یہ سانحہ اب تک ہے… کیسی تبدیلی، کون سی ترقی، کہاں کا نیا دور! ہم آج بھی ان ہتھیاروں کی زد میں ہیں۔
واقعی یہ ماتم وقت کی گھڑی ہے
یہ خنک موسم موسمِ گریہ ہے
کچھ ہجر سدا زندہ رہتے ہیں… ہم لاکھ نظریں بچائیں، ہزار بھلائیں، زخم لہو دیتے ہیں۔ وقت کا مرہم بن جانا تو تب ہوتا جب ہم اس کو یاد رکھتے، اس سے سبق لیتے، اپنی نسلوں کے سامنے دہراتے اور ان ہتھیاروں کو توڑ کر سمندر برد کردیتے۔ مگر ہم جاہل غافل ٹھیرے کہ سوگ بھی نہیں مناتے۔
شامِ فراق ہے سولہ دسمبر کے خونچکاں سانحے کی میرے لوگو! آئو گریہ کرتے ہیں اُس ماضی کا جو گزر کے نہیں دیتا۔ زخموں کو ہرا رکھتا ہے۔ نظریے کا مرہم پاس ہے، مگر ہم بھولنے کے قومی عارضے میں مبتلا ہیں۔ غم کو توانائی میں بدلنا اب بھی چارہ سازی کرسکتا ہے۔
آئیے! حقارت، نفرت، لسانیت اور عدم انصاف کے بتوں کو توڑنے کا آغاز کریں ایک گریۂ ندامت سے، تاکہ وہ ارض و سما کا شہنشاہ ہمارے غم کا مداوا کرے۔ ہم کو ان لاعلاج زخموں کا مرہم دے دے… بھلانے والو! یہ یاد… مگر بھلائے نہیں بھولتی۔