سرور جاوید ہمہ جہت شخصیت تھے‘ وہ شاعر‘ صحافی‘ نقاد اور ماہر تعلیم بھی تھے‘ انہوں نے بھرپور زندگی گزاری‘ وہ بنیادی طور پر ترقی پسند تھے لیکن اپنے ہم عصر ترقی پسندوں کے روّیوں کے خلاف تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ ترقی پسند تحریک کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جب کہ سچائی کا اظہار کرنا شاعری کا منشور ہے جو شعرا زمینی حقائق بیان نہیں کرتے وہ مٹ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرور جاوید بہت سخت مزاج تھے‘ وہ ہمیشہ کھری تنقید کرتے تھے‘ وہ مصلحت پسند نہیں تھے بلکہ حقیقت پسند تھے‘ اپنی اس عادت کے سبب انہوں نے اپنے دشمنوں میں اضافہ کیا۔ ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وہ زندگی بھر اردو ادب کی ترقی کے لیے کام کرتے رہے۔ وہ ایک پڑھے لکھے خاندان کے فرد تھے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر و صحافی اختر سعیدی نے بزم اردو پاکستان کے تحت سرور جاوید کی یاد میں منعقدہ مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بزم اردو پاکستانی ایک نوزائیدہ ادبی تنظیم ہے جس کا آج پہلا مشاعرہ ہے۔ اس تنظیم کے بانی و چیئرمین جمیل ادیب سید ہیں جو کہ اپنی ٹیم کے ساتھ میدانِ عمل میں اترے ہیں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا فرمائے۔ مشاعرے کی نظامت تاج علی رانا نے کی جب کہ یوسف چشتی نے تلاوتِ کلام مجید اور نعت رسولؐ کی سعادت حاصل کی۔ جمیل ادیب سید نے اپنے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ کراچی ایک بڑا شہر ہے‘ یہاں بے شمار ادبی تنظیمیں کام کر رہی ہیں‘ ہم نے بھی اردو کی ترقی کے لیے ایک پلیٹ فارم بنایا ہے اور ہم ہر مہینے کے پہلے ہفتے کو مشاعرہ کریں گے جس میں ’’یادِ رفتگاں‘‘ کے حوالے سے کسی بھی ایک اہم ادبی شخصیت پر سیرِ حاصل گفتگو ہوگی۔ اس موقع پر اختر سعیدی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ جمیل ادیب سید‘ یوسف چشتی‘ محسن سلیم‘ افضل ہزاروی‘ کامران طالش اور تاج علی رانا نے اپنا کلام پیش کیا۔