’’ارے واہ خمیسو! سارے دوست تمہاری تلاش میں پڑے ہیں اور تم ہوکہ گھر میں چارپائی توڑ رہے ہو، کوئی ناراضی وغیرہ تو نہیں؟ چلو اٹھو، خانوں کے ہوٹل پر کچہری لگی پڑی ہے، وہاں چل کر گپ شپ لگاتے ہیں۔‘‘
’’یار میرو! دوستوں سے کیا ناراض ہونا، کچھ طبیعت خراب ہے اسی لیے گھر میں آرام کررہا ہوں۔‘‘
’’پورا ہفتہ آرام! یہ کون سی بیماری ہے کہ تم گزشتہ کئی روز سے گھر سے باہر نہ نکلے، اور تو اور پچھلے اتوار ٹوپی اجرک ڈے پر بھی نظر نہیں آئے۔ اْس دن بہت مزہ آیا، بس تمہاری کمی تھی۔‘‘
’’ٹوپی اجرک ڈے؟ کون سی ثقافت؟ فضول باتیں چھوڑو، کوئی اور بات کرو۔ سنائو کیسی گزر رہی ہے؟‘‘
’’پاگل ہوگئے ہو! کیسی باتیں کررہے ہو! تمہیں خبر نہیں کہ ہر سال کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر اور صوبے کے تمام شہروں میں بسنے والے سندھی ٹوپی، اجرک اور روایتی قمیص شلوار زیبِ تن کرکے سندھی ثقافت سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ثقافتی جلسوں کی مدد سے سندھی عوام اپنی روایات اور ثقافت سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، اور یہ دن سندھی کلچرل ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن نوجوان سندھ دھرتی سے اظہارِ یکجہتی اور سندھ کی ثقافت کو روشناس کرانے کے لیے نکلتے ہیں۔ نوجوانوں کی جانب سے سندھی اجرک ٹوپی پہن کر علاقائی دھنوں پر رقص کیا جاتا ہے، جبکہ ثقافتی رنگوں میں رنگ کر خواتین اور بچے بھی پُرجوش نظر آتے ہیں۔ یہ دن نہ صرف سندھ میں یکجہتی کے طور پر منایا جاتا ہے، بلکہ دنیا بھر میں آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے اس دن کی مناسبت سے خصوصی پروگراموں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کہیں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، تو کہیں ڈھول کی تھاپ پر جھوم جھوم کر رقص کیا جاتا ہے، اور کہیں لوک فنکار اپنے دل چھو لینے والے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ دن ایک ایسا ثقافتی جشن ہے جسے لڑکے، لڑکیاں، بچے اور بوڑھے بھرپور جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔‘‘
’’یار میرو! میں نے کہا ناں کہ اس بات کو چھوڑو، کوئی دوسری بات کرو۔ دوستوں کے کیا حال ہیں، تمہارا کاروبار کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’کیسے چھوڑ دوں! تم سندھ کی تہذیب کے خلاف بات کررہے ہو۔ ٹوپی اجرک تو ہماری ثقافت ہے، اور تم بجائے اس سے محبت کا اظہار کرنے کے، جو منہ میں آئے بولے جا رہے ہو۔ یار یہ اچھی بات نہیں۔‘‘
’’میرو تم میری بات کو غلط رنگ دینے کی کوشش نہ کرو، میں بھی اس دھرتی کا سپوت ہوں، مجھے بھی اس سے پیار ہے، میں بھی اس کی ثقافت سے محبت کرتا ہوں، میرے دل میں بھی ٹوپی اجرک کی اتنی ہی قدر و محبت ہے جتنی کسی اور کے دل میں ہے۔ لیکن اس بارے میں میری رائے تم سے کچھ مختلف ہے۔ دیکھو ہر بات کو تعصب اور لسانیت کی طرف نہ لے جایا کرو۔ میں مانتا ہوں کہ ثقافتی ڈے منانا اچھی بات ہے، بلکہ پورے پاکستان کی ثقافت کا پرچار کیا جانا چاہیے، لیکن ذرا یہ بھی تو سوچو جہاں غریب آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں ایسے تہوار منانا پیٹ بھروں کا مشغلہ تو ہوسکتا ہے، ایک عام شہری کے دل کی آواز نہیں۔ حقائق تو یہ ہیں کہ پاکستان میں ہر سال تین سے ساڑھے چار ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں اور ان میں سب سے بڑی تعداد صوبہ سندھ میں ’’کاروکاری‘‘ کے نام پر قتل ہونے والی خواتین کی ہے۔ کیا کسی نے کبھی کوئی ایک دن بھی کاروکاری یا نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہونے والی ان خواتین کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایا؟ تھانوں میں پولیس، اور وڈیروں، خانوں، چودھریوں کی اوطاقوں، ڈیروں پر ہاری و مزارع کی پگ میں ہر روز ہاتھ پڑتے ہیں… کیا کبھی جاگیردارانہ نظام کے خلاف بھی کوئی دن منایا گیا؟ پچھلے پانچ برس میں 1300 سے زائد افراد نے اپنے ہی ہاتھوں زندگی کا خاتمہ کرلیا… عمر کوٹ، تھرپارکر اور میرپورخاص میں خودکشی کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے جہاں 646 واقعات رپورٹ کیے گئے، جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں اور خواتین کی ہے۔ صرف تھر کی بات کریں تو اس میں غربت، بے روزگاری، ذہنی امراض اور قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث لوگ خودکشیاں کررہے ہیں۔ تھر میں بھوک نے تو پہلے ہی ڈیرے ڈال رکھے تھے، اب بات خودکشی تک جاپہنچی ہے۔ تھر میں جہاں قحط سالی سے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں وہیں قحط سے پیدا ہونے والی مایوسی نے گزشتہ برس کم از کم پچاس خواتین، مرد اور بچوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اگر پچھلے پانچ برسوں پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اب تک 366 افراد نے خودکشی کی ہے جس پر مختلف فلاحی اداروں کی رپورٹیں کئی بار منظرعام پر آچکی ہیں، جن کے مطابق 2012ء میں 24 افراد نے، جبکہ 2017ء میں 74 لوگوں نے خودکشی کی۔ اعداد و شمار صاف بتا رہے ہیں کہ لوگوں کے مالی حالات انتہائی خراب ہیں، ایسی صورت میں ٹوپی اجرک پہن کر مصنوعی خوشی تو حاصل کی جاسکتی ہے، اصل خوشیوں کا حصول ممکنات میں سے نہیں۔‘‘
’’جن مسائل کی تم نے نشاندہی کی، وہ اپنی جگہ درست ہوں گے۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی اپنے عروج پر ہے، لوگوں کا معیارِ زندگی بھی بہتر نہیں، عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ سب زندگی کے ساتھ چلتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی ثقافت کو ہی بھول جائیں، اور پھر یہ روز کا معاملہ تو نہیں، صرف ایک دن کی بات ہوتی ہے۔ ہم اپنی زندگی میں سے سال کا ایک دن ٹوپی اجرک ڈے کے طور پر منالیں گے تو کون سی قیامت آجائے گی۔‘‘
’’میرو! نہ زلزلہ آئے گا اور نہ ہی کوئی قیامت آئے گی، تم میری بات سمجھنے کے بجائے اب بھی اسی حصار میں جکڑے ہوئے ہو۔ جب تک تم میری بات خالی الذہن ہوکر نہیں سنو گے، سمجھنے سے قاصر رہو گے۔ چلو میں اپنی بات اور آسان کردیتا ہوں، تم نے پوچھاتھا کہ میں ایک ہفتے سے گھر میں کیوں بند ہوں، تو سنو، دس دن قبل میری نوکری ختم ہوگئی ہے یعنی مجھے نوکری سے نکال دیا گیا ہے،اب میں بے روزگار ہوں، حساب کیے جانے کے بعد کمپنی کی طرف سے مجھے جو پیسے ملے تھے وہ اب ختم ہوچکے ہیں، ظاہر ہے پانچ سات دن لگائی جانے والی دہاڑیوں کی رقم اتنی زیادہ تو نہیں ہوگی جس سے پورا مہینہ گزارا کیا جاسکے۔ جیسے رقم ہاتھ آئی تھی ویسے ہی چلی گئی۔ اب گھر میں سوائے فاقوں کے کچھ نہیں۔ محلے کے دکاندار نے بھی ادھار دینے سے منع کردیا ہے۔ بچوں کو اْن کے ننھیال بھیج کر اپنی قسمت پر ماتم کر رہا ہوں۔ کئی کمپنیوں سے رابطہ کیا، ہر جگہ سے منفی جواب ہی ملا۔ اب تم ہی بتائو جب نوکری نہ رہے اور جیب میں ایک ٹکا تک نہ ہو ایسی صورت میں ثقافت ڈے منانے سے روزگار مل سکتا ہے؟ ٹوپی اجرک پہن کر ڈالے جانے والیدھمالوں سے میرے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے؟اگر ایسا ہے تو ہر غریب اور بے روزگار آدمی کو میرا مشورہ ہوگا کہ وہ غربت اور بے روزگاری سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایسے تہوار نہ صرف سال میں ایک مرتبہ بلکہ ہر روز منائے۔‘‘
’’تمہارا دماغ اپنی جگہ نہیں، نوکری جانے کے ساتھ ساتھ تمہاری عقل بھی جا چکی ہے۔ خمیسو تم جانتے نہیں کہ ان فضول باتوں سے نجانے کتنے لوگوں کا دل دْکھے گا۔ تم نے ٹوپی اجرک ڈے نہیں منایا تمہاری مرضی، مگر ایسی باتیں کرکے اپنی ثقافت کا مذاق تو نہ اڑائو، میں تمہیں اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
’’تم پھر ثقافت کو بیچ میں لے آئے ہو۔ میں کب اس سے انکاری ہوں! دیکھو میں نے بھی اجرک اوڑھ رکھی ہے۔ اللہ کے بندے میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس قسم کے دن منانا اچھی بات ہے، بلکہ میں تو سارے پاکستان کی بات کررہا ہوں، میں تو یہاں تک کہہ رہا ہوں کہ تمام زبانیں بولنے والوں کو اپنا اپنا کلچرل ڈے منانا چاہیے، مجھے اس سے کوئی اختلاف نہیں، لیکن تم اس بات کا جواب تو دو کہ 2009ء سے پہلے یہ دن کیوں نہیں منایا جاتا تھا؟ 2009ء سے قبل ٹوپی اجرک ہماری ثقافت نہیں تھی؟ دیکھو سندھ کی تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے، یہ دس بارہ سال کی بات نہیں۔ ہم ہزاروں سال سے اپنی معاشرتی تہذیب کے امین ہیں، ہمیں اس زمین کا وارث ہونے پر فخر ہے، ہم سندھ دھرتی کے بیٹے ہیں، لہٰذا ہماری وفاداری پر کسی کو شک کرنے کی ضرورت نہیں۔ تہذیب اور ثقافت سیاست سے پاک ہوا کرتی ہیں، ان میں محبتوں کے خوبصورت رنگ ہوتے ہیں جس کی خوشبو سے سارا چمن مہکتا ہے۔ اگر میری بات ٹھیک ہے تو سوچو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ تہذیب اور ثقافت کی خوشبو صرف محلات میں رہنے والوں کے لیے ہی ہو! نہیں ایسا بالکل نہیں ہے، خدا نے ہر انسان کو واجب تکریم پیدا کیا اور انہی میں سے چند لوگوں کو اقتدار دیا تاکہ وہ اس کی مخلوقِ کی تمام ضروریاتِ زندگی پوری کریں، انصاف کی فراہمی یقینی بنائیں، طبقاتی تفریق کا خاتمہ کریں، رزق کی فراوانی میں رکاوٹ نہ بنیں، یعنی قرآن کا وہ نظامِ حکومت قائم کریں جس کی مثال ریاست مدینہ کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ایسا نظامِ حکومت جہاں انسانی زندگی کی قدروقیمت ہو، جہاں زکوٰۃدینے والے ہوں مگر لینے والا نہ ہو، جہاں طبقاتی تفریق نہ ہو۔ ایسی ریاست کے قیام سے ہی نہ صرف غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے بلکہ لوگوں کو خودکشی جیسے انتہائی اقدام سے بھی بچایا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ یکساں نظام ہی خوشحال پاکستان کی ضمانت اور ہماری ثقافت کی مٹھاس ہے، بصورتِ دیگر ہماری ثقافت کے نام پر منایا جانے والا دن سیاسی شعبدہ بازی کے سوا کچھ نہیں۔‘‘