محترمہ امینہ کا تعلق امریکا سے ہے‘ انہوں نے 1977ء میں اسلام قبول کیا۔ اس سے قبل وہ امریکا کے سنڈے اسکولوں میں عیسائیت کی تعلیم دیا کرتی تھیں۔ قبول اسلام کے بعد انہیں غیر معمولی قسم کی قربانیاں دینی پڑیں‘ مگر انہوں نے کسی موقع پر حوصلہ مندی اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا چنانچہ اپنے بے پناہ علم‘ شفقت‘ خوش طبعی‘ حسن اخلاق اور انسانی احترام کی وجہ سے وہ اپنے حلقۂ تعارف اور خواتین میں Smiling Lady یعنی متبسم خاتون کے لقب سے یاد کی جاتی ہیں اسی خوش خلقی اور کریم النفسی کی وجہ سے لوگ انہیں عقیدت سے سسٹر امینہ بھی کہتے ہیں حالانکہ چند برسوں سے ان کی ریڑھ کی ہڈی میں درد ہے اور وہ بیساکھیوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ مگر نہ تو وہ نماز پنج وقتہ کو قضا ہونے دیتی ہیں اور نہ دینِ حق کی تبلیغ میں کوتاہی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ اس معذوری کے باوجود ہزاروں میل کا سفر طے کرکے فروری 90ء میں پاکستان آئیں اور اسلام پر اپنے محکم یقین سے بے شمار خواتین اور مردوں کو متاثر کر گئیں۔ وہ ایک عمل خاتون ہیں اور قرآن و سنت کے ایک ایک حکم کو بجا لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ سفر پاکستان میں ان کے ساتھ ان کا دس سالہ بیٹا ’’محمد‘‘ بھی تھا جو بڑا ذہین اور حساس بچہ ہے اور سسٹر امینہ اس کی اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت کر رہی ہیں۔
محترمہ موصوفہ نے مختلف مواقع پر اپنے قبولِ اسلام کی وجوہ بیان کی ہیں۔ میں نے اس نوعیت کے تین مختلف مضامین سے استفادہ کرکے ذیل کی خود نوشت مرتب کی ہے۔ ان میں سے مفصل مضمون مس منور صادق کا ہے جو مجھے میرے بزرگ اور مہربان دوست کنور سعید اللہ خان صاحب (سرگودھا) نے فراہم کیا۔ میں اس کے لیے کنور صاحب اور مس منور صادق دونوں کا ممنون ہوں۔
…٭…
میں جنوری 1945ء میں امریکا کی ریاست لاس اینجلس کے علاقے ویسٹ میں پیدا ہوئی۔ میرے والدین پروٹسنٹ عیسائی تھے اور ننھیال و ددھیال دونوں طرف مذہب کا بڑا چرچا تھا۔ میں اسکول کے آٹھویں گریڈ میں تھی کہ میرے والدین کو فلوریڈا منتقل ہونا پڑا اور باقی تعلیم وہیں مکمل ہوئی۔ میری تعلیمی حالت بہت اچھی تھی، خصوصاً بائبل سے مجھے خاص دلچسپی تھی اور اس کے بہت سے حصے مجھے زبانی یاد تھے۔ اس سلسلے میں میں نے متعدد انعامات بھی حاصل کیے۔ میں غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی اور ویمن لبریشن موومنٹ (تحریک آزادی نسواں) کی پر جوش کارکن تھی۔
ہائی اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو میری شادی ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی میں ماڈلنگ کے پیشے سے منسلک ہو گئی۔ خدا نے مجھے اچھی شخصیت عطا کی تھی اور میں خوب محنت کرتی تھی، اس لیے میرا کاروبار خوب چمکا۔ پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ شوفر، بہترین گاڑیاں غرض آسائش کا ہر سامان میسر تھا۔ حالت یہ تھی کہ بعض اوقات ایک جوتا خریدنے کے لیے میں ہوائی سفر کر کے دوسرے شہر جاتی تھی۔ اس دوران میں ایک بیٹے کی ماں بھی بن گئی، مگر سچی بات ہے کہ ہر طرح کے آرام و راحت کے باوجود دل مطمئن نہ تھا۔ بے سکونی اور اداسی جان کا گویا مستقل آزار بن گئی تھی اور زندگی میں کوئی زبردست خلا محسوس ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے ماڈلنگ کا پیشہ ترک کر دیا۔ دوبارہ مذہبی زندگی اختیار کر لی اور مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی تبلیغ کی رضاکارانہ خدمات انجام دینے لگی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے مزید تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ خیال تھا کہ اس بہانے شاید روح کو کچھ سکون ملے گا۔ اس وقت میری عمر تیس سال تھی۔
اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ مجھے ایک ایسی کلاس میں داخلہ ملا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علموں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ بڑی پریشانی ہوئی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ مزید گھٹن یہ دیکھ کر محسوس ہوئی کہ ان میں خاصے مسلمان تھے اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ عام یورپین آبادی کی طرح ،میرے خیال میں بھی، اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مہذب، عیاش، عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنے مخالفوں کو زندہ جلا دینے والے لوگ تھے۔ امریکا اور یورپ کے عام مصنفین اور مؤرخین یہی کچھ لکھتے آ رہے ہیں۔ بہرحال شدید ذہنی کوفت کے ساتھ تعلیم شروع کی، پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک مشنری ہوں۔ کیا عجب کہ خدا نے مجھے ان کافروں کی اصلاح کے لیے یہاں بھیجا ہو، اس لیے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے چنانچہ میں نے صورت حال کا جائزہ لینا شروع کیا تو حیرت میں مبتلا رہ گئی کہ مسلمان طالب علموں کا رویہ، دیگر سیاہ فام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ شائستہ، مہذب اور با وقار تھے۔ وہ عام امریکی نوجوانوں کے برعکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیا تھے۔ میں تبلیغی جذبے کے تحت ان سے بات کرتی، ان کے سامنے عیسائیت کی خوبیاں بیان کرتی تو وہ بڑے وقار اور احترام سے ملتے اور بحث میں الجھنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔
میں نے اپنی کوششوں کو یوں بے کار جاتے دیکھا تو سوچا کہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ اس کے نقائص اور تضادات سے آگاہ ہو کر مسلمان طالب علموں کو زچ کر سکوں، مگر دل کے گوشے میں یہ احساس بھی تھا کہ عیسائی پادری، مضمون نگار اور مؤرخ تو مسلمانوں کو وحشی، گنوار، جاہل اور نہ جانے کن کن برائیوں کا مرقع بتاتے ہیں، لیکن امریکی معاشرت میں پلنے بڑھنے والے ان سیاہ فام مسلمان نوجوانوں میں تو ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی، بلکہ یہ باقی سب طلبہ سے مختلف و منفرد پاکیزہ رویے کے حامل ہیں، پھر کیوں نہ میں خود اسلام کا مطالعہ کروں اور حقیقت ِ حال سے آگاہی حاصل کروں۔ چنانچہ اس مقصد کی خاطر میں نے سب سے پہلے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتاب دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی اپیل کرتی ہے۔ عیسائیت پر غور و فکر کے دوران اور بائبل کے مطالعے کے نتیجے میں ذہن میں کتنے ہی سوال پیدا ہوتے تھے، مگر کسی پادری یا دانشور کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا اور یہی تشنگی روح کے لیے مستقل روگ بن گئی تھی، مگر قرآن پڑھا تو ان سارے سوالوں کے ایسے جواب مل گئے، جو عقل اور شعور کے عین مطابق تھے۔ مزید اطمینان کے لیے اپنے کلاس فیلو مسلمان نوجوانوں سے گفتگوئیں کیں۔ تاریخ ِ اسلام کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ میں اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میرا نقطۂ نظر صریحاً بے انصافی اور جہالت پر مبنی تھا۔
مزید اطمینان کی خاطر میں نے پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیا تو یہ دیکھ کر مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ امریکی مصنفین کے پروپیگنڈے کے بالکل برعکس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کے عظیم محسن اور سچے خیر خواہ ہیں، خصوصاً انھوں نے عورت کو جو مقام و مرتبہ عطا فرمایا ، اس کی پہلے یا بعد میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماحول کی مجبوریوں کی بات دوسری ہے، ورنہ میں طبعاً بہت شرمیلی ہوں اور خاوند کے سوا کسی مرد سے بے تکلفی پسند نہیں کرتی۔ چنانچہ جب میں نے پڑھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بے حد حیا دار تھے اور خصوصاً عورتوں کے لیے عفت و پاکیزگی اور حیا کی تاکید کرتے ہیں تو میں بہت متاثر ہوئی اور اسے عورت کی ضرورت اور نفسیات کے عین مطابق پایا۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا مقام جس درجہ بلند فرمایا، اس کا اندازہ اس قول سے ہوا کہ ”جنت ماں کے قدموں میں ہے” اور آپ کے اس فرمان پر تو میں جھوم اٹھی کہ ”عورت نازک آبگینوں کی طرح ہے” اور ”تم میں سے سب سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے۔”
قرآن اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے میں مطمئن ہو گئی اور تاریخ اسلام کے مطالعے اور اپنے مسلمان کلاس فیلو نوجوانوں کے کردار نے مسلمانوں کے بارے میں میری ساری غلط فہمیوں کو دور کر دیا اور میرے ضمیر کو میرے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔ تو میں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا ذکر میں نے متذکرہ طالب علموں سے کیا، تو وہ21مئی 1977ء کو میرے پاس چار ذمے دار مسلمانوں کو لے آئے۔ ان میں سے ایک ڈینور (Denever) کی مسجد کے امام تھے۔ چنانچہ میں نے ان سے چند مزید سوالات کیے اور کلمہ شہادت پڑھ کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو گئی۔
میرے قبول اسلام پر پورے خاندان پر گویا بجلی گر پڑی۔ ہمارے میاں بیوی کے تعلقات واقعی مثالی تھے اور میرا شوہر مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرتا تھا، مگر میرے قبول اسلام کا سن کر اسے غیر معمولی صدمہ ہوا۔ میں اسے پہلے بھی قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور اب پھر سمجھانے کی بہت سعی کی، مگر اس کا غصہ کسی طرح ٹھنڈا نہ ہوا اس نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی اور میرے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا۔ عارضی طور پر دونوں بچوں کی پرورش میری ذمہ داری قرار پائی۔
میر ے والد بھی مجھ سے گہری قلبی وابستگی رکھتے تھے، مگر اس خبر سے وہ بھی بے حد برافروختہ ہوئے اور غصے میں ڈبل بیرل شاٹ گن لے کر میرے گھر آئے تاکہ مجھے قتل کر ڈالیں۔ مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں بچ گئی اور وہ ہمیشہ کے لیے قطع تعلق کر کے چلے گئے۔ میری بڑی بہن ماہر نفسیات تھی، اس نے اعلان کر دیا کہ یہ کسی دماغی عارضے میں مبتلا ہو گئی ہے اور اس نے سنجیدگی سے مجھے نفسیاتی انسٹی ٹیوٹ میں داخل کرانے کے لیے دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ میری تعلیم مکمل ہو چکی تھی، میں نے معاشی ضرورتوں کے پیش نظر ایک دفتر میں ملازمت حاصل کر لی، لیکن ایک روز میری گاڑی کوحادثہ پیش آ گیا اور تھوڑی سی تاخیر ہو گئی تو مجھے ملازمت سے نکال دیا گیا۔ فرم والوں کے نزدیک میرا اصل جرم یہی تھا کہ میں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی حالت یہ تھی کہ میرا ایک بچہ پیدایشی طور پر معذور تھا۔ وہ دماغی طور پر بھی نارمل نہ تھا اور اس کی عام صحت بھی ٹھیک نہ تھی، جبکہ بچوں کی تحویل اور طلاق کے مقدمے کے باعث امریکی قانون کے تحت مقدمے کے فیصلے تک میری ساری جمع پونجی منجمد کر دی گئی تھی۔ ملازمت بھی ختم ہوئی تو میں بہت گھبرائی اور بے اختیار رب جلیل کے حضور سر بسجود ہو گئی اور گڑ گڑا کر خوب دعائیں کیں۔ اللہ کریم نے میری دعائیں قبول فرمائیں اور دوسر ے ہی روز میری ایک جاننے والی خاتون کی کوشش سے مجھے ایسٹر سیل پروگرام میں ملازمت مل گئی اور میرے معذور بیٹے کا علاج بھی بلا معاوضہ ہونے لگا۔ ڈاکٹروں نے دماغ کے آپریشن کا فیصلہ کیا اور اللہ کے فضل سے یہ آپریشن کامیاب رہا۔ بچہ تندرست ہو گیا اور میری جان میں جان آئی۔، لیکن آہ! ابھی آزمائشوں کا سلسلہ ختم نہ ہوا تھا۔ عدالت میں بچوں کی تحویل کا مقدمہ دو سال سے چل رہا تھا، آخر کار دنیا کے اس سب سے بڑے ”جمہوری” ملک کی” آزاد ” عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ اگر بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو تو اسلام سے دستبردار ہونا پڑے گا کہ اس قدامت پرست مذہب کی وجہ سے بچوں کا اخلاق خراب ہو گا اور تہذیبی اعتبار سے انھیں نقصان پہنچے گا۔
عدالت کا یہ فیصلہ میرے دل و دماغ پر بجلی بن کر گرا۔ ایک مرتبہ تو میں چکرا کر رہ گئی۔ زمین آسمان گھومتے ہوئے نظر آئے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ اس کی رحمت نے مجھے تھام لیا اور میں نے دو ٹوک انداز میں عدالت کو کہہ دیا کہ میں بچوں سے جدائی گوارا کر لوں گی، مگر اسلام اور ایمان کی دولت سے دستبردار نہیں ہو سکتی، چنانچہ بچی اور بچہ دونوں باپ کی تحویل میں دے دیے گئے۔
اس کے بعد ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ میں نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنا تعلق گہرا کر لیا اور تبلیغ دین میں منہمک ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ساری محرومیوں کے باوجود ایک خاص قسم کے سکون و اطمینان سے سرشار رہی۔ میرے خیر خواہوں نے اصرار کے ساتھ مشورہ دیا کہ مجھے کسی با عمل مسلمان سے عقد ثانی کر لینا چاہیے کہ عورت کے لیے تنہا زندگی گزارنا مناسب و مستحسن نہیں ہے۔ چنانچہ ایک مراکشی مسلمان کی طرف سے نکاح کی پیشکش ہوئی تو میں نے قبول کر لی۔ یہ صاحب ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے تھے۔ قرآن خوب خوش الحانی سے پڑھتے اور سننے والوں کو مسحور کر دیتے۔ میں دین سے ان کے گہرے تعلق سے بڑی متاثر ہوئی اور ان سے نکاح کر لیا۔ عدالت نے میری رقوم وا گزار کر دی تھیں، چنانچہ میں نے اپنے خاوند کو اچھی خاصی رقم دی کہ وہ اس سے کوئی کاروبار کریں، مگر وائے ناکامی کہ شادی کو صرف تین ماہ گزرے کہ میرے خاوند نے مجھے طلاق دے دی۔ اس نے کہا مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں، میں تمھارے لیے سراپا احترام ہوں، مگر اکتا گیا ہوں، اس لیے معذرت کے ساتھ طلاق دے رہا ہوں۔ میں نے اسے جو بھاری رقم دی، چونکہ اس کی کوئی تحریر موجود نہ تھی، اس لیے وہ بھی اس نے ہضم کر لی اور اس کی مدد سے جلد ہی دوسری شادی رچا لی۔
طلاق کے چند ماہ بعد اللہ نے مجھے بیٹا عطا فرمایا۔ اس کا نام میں نے محمد رکھا۔ اب یہ بیٹا ماشاء اللہ دس برس کا ہے۔ وجیہ و شکیل اور بڑا ذہین ہے۔ اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں جیتی ہوں۔ اب میں نے اپنے آپ کو اللہ کے فضل سے دین اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے وقف کر دیا ہے اور جی چاہتا ہے کہ بقیہ زندگی اسی مبارک فریضے کی نذر ہو جائے۔ یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ میں نے قرآن کو خوب پڑھا ہے۔ امریکا میں اس وقت قرآن کے ستائیس ترجمے دستیاب ہیں، میں نے ان میں سے دس کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہے۔ عربی زبان بھی سیکھ لی ہے اور جہاں ترجمے میں کوئی بات کھٹکتی ہے، فون پر عربی کے کسی ا سکالر سے معلوم کر لیتی ہوں۔ الحمد للہ میں مختلف کتب حدیث یعنی بخاری، مسلم، ابو داؤد اور مشکوٰ?ۃکا کئی کئی بار مطالعہ کر چکی ہوں اور اسلام کو جدید ترین اسلوب میں سمجھنے کے لیے مختلف مسلمان علما کی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی رہتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ جب تک ایک مبلغ قرآن، حدیث اور اسلام کے بارے میں بھرپور معلومات نہ رکھتا ہو تو وہ تبلیغ کے تقاضوں سے کما حقہ عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
(جاری ہے)