حکومت کے لاکھ حربوں کے باوجود اپوزیشن اتحاد بالآخر مینار پاکستان لاہور میں اپنا جلسہ کرنے میں کامیاب ہوہی گیا۔ اب اس جلسے کی کامیابی اور ناکامی پرتبصرہ کیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کے رویوں میں جہاں سختی روز بروز بڑھ رہی ہے وہیں حکومت بھی کچھ جگہ پر دفاعی پوزیشن پر آتی نظر آرہی ہے۔ حکومت نے وزارتوں میں بھی تبدیلیاں کی ہیں اور شیخ رشید کو وزیر ریلوے سے وزیر داخلہ بناکر اپنے عزائم سے آگاہ کردیا ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن نے بھی 31 جنوری تک حکومت کو مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دے کر پاکستان کی سیاست میں ایک نئی ہلچل مچا دی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے لاہور جلسے کے بعد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 31 دسمبر تک ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی اپنے استعفے اپنی جماعتوں کے قائدین کے پاس جمع کرادیں۔ حکومت اگر ہماری جانب سے دی گئی ڈیڈلائن پر مستعفی نہ ہوئی تو یکم فروری کو حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا اعلان کردیا جائے گا۔ ہم اب حکومت سے کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہتے۔ استعفوں اور اسمبلی کی تحلیل کے اعلان کے بعد کوئی تجویز آئے تو پی ڈی ایم فیصلہ کرے گی۔ اسٹیرنگ کمیٹی نے صوبوں کو لانگ مارچ کے لیے جو شیڈول دیے ہیں وہ برقرار رہیں گے، لہٰذا عوام آج سے ہی لانگ مارچ کی تیاری شروع کردیں ۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان نے بھی پی ڈی ایم کے مطالبوں کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مکمل طور پر بے نقاب ہوگئی ہیں، عوام کے سامنے جعلی بیانیے کی مکمل حقیقت آچکی ہے، یہ لوگ جتنے چاہے جلسے کرلیں انھیں این آر او نہیں ملے گا، پی ڈی ایم نے جلسے کے ذریعے حکومت کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم نے پارٹی رہنمائوں کو بھی پی ڈی ایم کے خلاف متحرک ہونے اور ہر فورم پر جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہاکہ اب ہم سارے فیصلے مل کر ہی کریں گے، میں سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کا پابند ہوں اور اعتزاز احسن بھی اس کے پابند ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے لاہور کے جلسے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں اتنا بڑا جلسہ نہیں دیکھا، مجھے پتا ہے کہ حکمرانوں کی صفوں میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے ، ہم عوام کی عدالت میں جا چکے ہیں اور سلیکٹڈ اور سلیکٹرکو پیچھے جانا ہوگا، گفت وشنید کا وقت اب جاچکا ہے۔ اپوزیشن نے وزیراعظم سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ پاکستان میں ایک آئین، ایک نظام ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کا ٹکرائو ملک کو تصادم کی طرف لے جارہا ہے، اور ملک بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت نے گفت و شنید نہ کی تو ملک میں عدم استحکام پیدا ہوسکتا ہے۔ پی ڈی ایم اور حکومت کو کھلے دل کے ساتھ مذاکرات کرنے ہوں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پی ڈی ایم کے کہنے پر مستعفی نہیں ہوں گے، حکومت پی ڈی ایم کی ڈیڈلائن کو یکسر مسترد کرتی ہے، اپوزیشن ہٹ دھرمی سے باز آجائے، ان کی خواہش پر نہ پارلیمنٹ تحلیل ہوگی اور نہ ہی وزیراعظم مستعفی ہوں گے۔ بلاول بھٹو نے کوٹ لکھپت جیل میںشہبازشریف سے اُن کی والدہ کے انتقال پر تعزیت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم مکمل طور پر ایک پیج پر ہے، ہمارا ٹارگٹ ہے کہ ملک میں جمہوریت کو بحال کریں، استعفیٰ ہمارا ایٹم بم ہے، ہم جمہوری طریقے سے اس نااہل حکومت کو گھر بھیجیں گے۔
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے ملک کی موجودہ صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن اور حکومت کے رویّے سے ملک میں سیاسی دھند پیدا ہورہی ہے اور دونوں جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیے جانے پر ملک روزبروز سیاسی عدم استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ ملک کی دو بڑی جماعتوں نے باری باری اقتدار کے مزے لوٹے اور اب تحریک انصاف تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی ہے، لیکن اوّل روز سے تحریک انصاف بھی اپنے بیانیے سے منحرف ہوچکی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوکر ملک میں مہنگائی، غربت، بے روزگاری کا طوفان برپا کردیا گیا ہے۔غربت انتہا کو پہنچ چکی ہے، ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ملک اگر آج بحرانی کیفیت سے دوچار ہے تو اس کے ذمہ دار بھی یہ لوگ ہیں جنھوں نے باری لگا لگا کر قوم کی دولت کو لوٹا۔ دوسری جانب عمران خان بھی وہ نتائج دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں جن نعروں اور وعدوں کے ذریعے یہ اقتدار میں آئے تھے۔ مرغی، بکری اور انڈوں سے انھوں نے خود اپناخوب مذاق اُڑوایا۔ ان کے دائیں بائیں وہی افراد براجمان ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ محض چہروں کی تبدیلی سے ملک میں کبھی تبدیلی نہیں آسکتی، جب تک اس ملک کا نظام تبدیل نہیں کیا جائے گا غریب عوام کے حالات تبدیل نہیں ہوسکیں گے۔ ملک میں آٹے اور چینی بحران پر رپورٹ وزیراعظم کے پاس آچکی ہے اور اس رپورٹ نے وزیراعظم کی ساکھ کو دائو پر لگا دیا ہے۔ وزیراعظم بظاہر اس اسکینڈل پر کوئی سمجھوتا کرتے نظر نہیں آتے، لیکن عوام کے سامنے مجرموں کو سزا ملتی بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی اس لڑائی نے زور پکڑا تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ تیسری قوت کو مداخلت کا موقع مل جائے۔ بلوچستان کے بعد سندھ میں بھی قوم پرست جماعتیں سر اٹھا رہی ہیں اور بھارت کے ایما پر دہشت گردی کی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔ جامعہ کراچی کے شیخ زید گیٹ کے سامنے رینجرز کی گاڑی پر دستی بم سے حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں رینجرز اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ اس سے قبل جماعت اسلامی کی کشمیر ریلی پر بھی کریکر بم پھینکا گیا تھا اور جماعت اسلامی کے ناظم رفیق تنولی اس حملے میں شہید ہوگئے تھے، جبکہ 30سے زائد افراد اس حملے میں شدید زخمی بھی ہوئے۔ شاہ فیصل کالونی کے علاقے میں ممتاز عالم دین مولانا محمد عادل کو دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے شہید کردیا تھا، وہ تو علمائے کرام کی فراست، تحمل، صبر اور حکمت عملی کو داد دینی چاہیے جس نے ملک کو بڑی خانہ جنگی سے بچا لیا تھا۔ اب بھی ملک دشمن قوتیں سر اٹھا رہی ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ دہشت گردی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ایسے حالات میں ملک کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے سیاست دانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک وقوم پر رحم فرمائیں اور اپنی تمام تر توانائی ملک و قوم کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا لیکن یہاں اسلام کا عادلانہ نظام نافذ ہونے کے بجائے چوروں اور ڈاکوئوں کو مسلط کیا گیا۔ عمران خان بھی بڑے زور وشور کے ساتھ ریاست مدینہ کا دعویٰ کررہے تھے لیکن انھوں نے بھی ریاست مدینہ کے نظام کو نافذ کرنے کے بجائے اسے بدنام کیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس صلاح الدین پہنور نے یتیم بچیوں کے نکاح اور حوالگی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس میں بالکل درست کہا کہ ایمبولینس ایدھی، کھانا سیلانی دے گا تو حکومت کیا کررہی ہے؟
حکومت پیپلز پارٹی کی ہو، مسلم لیگ(ن) کی ہو یا تحریک انصاف کی… اقتدار کا ہنٹر سب کے پاس ایک جیسا ہی ہے۔ یہ ظالم لوگ غریبوں کی کمر پر یہ ہنٹر برسا رہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔ جھولی بھر بھر کر ووٹ دینے والے یہ غریب اور مظلوم لوگ اب جھولی بھر بھر کرانھیں بددعائیں دے رہے ہیں۔