فیض احمد فیض کا انٹرویو

981

آخری قسط

طاہر مسعود: راول پنڈی سازش کیس تو خیر اب پرانی بات ہوگئی لیکن میں جس نسل کا نمائندہ ہوں، کم از کم اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی ہے کہ آپ کی شخصیت اور شاعری جتنی دل آویز ہے اس کے پیش نظر یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ بھلا آپ کا کسی سازش، بغاوت یا حکومت کا تختہ الٹنے سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ اب جب کہ اس واقعہ کو بھی برسوں بیت چکے ہیں۔ آپ اس بارے میں کچھ ارشاد فر مانا پسند کریں گے؟
فیض: بھئی قصہ یہ ہے کہ سارا پنڈی سازش کیس جو ہے وہ جسے بات کا بتنگڑ بنانا کہتے ہیں، وہ ہے۔ چوں کہ ہم فوج میں رہ چکے تھے اس لیے بہت سے فوجی افسر ہمارے دوست تھے۔ ان سے ہمارے ذاتی مراسم تھے۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جن سے ہمارے سیاسی نظریات ہم آہنگ تھے۔ قصہ صرف اتنا تھا کہ ہم لوگوں نے ایک دن بیٹھ کے بات کی کہ اس ملک میں کیا ہونا چاہیے؟ کس طریقے سے یہاں کے حالات بہتر بنائے جائیں؟ چوں کہ ملک کو بنے ہوئے چار پانچ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور نہ یہاں آئین بنا تھا، نہ سیاست کا ڈھانچہ ٹھیک طریقے سے منظم ہوا تھا۔ ملک کے بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہ لیاقت علی خاں تھے۔ کشمیر کا قضیہ بھی تھا۔ غرض یہ کہ اس طرح کے مسائل تھے جن عموماً گفتگو رہتی تھی۔ چوں کہ ان دوستوں سے میرے ذاتی مراسم تھے اس لیے ہم بھی ان کی گفتگو میں شریک ہوتے تھے۔ انھوں نے خود ہی ساری منصوبہ بندی کی اور ہم سے کہا:
’’ہماری بات سنیے!‘‘ ہم نے ان کی بات سن لی۔ پھر انھوں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ حکومت کا تختہ نہیں الٹنا ہے۔ انگریزوں نے سازش کا ایک قانون وضع کیا ہوا ہے کہ اگر تین آدمی ایک جگہ موجود ہوں اور ان میں سے دو آدمی کسی بات پر زبانی متفق ہو جائیں اور تیسرا آدمی گواہی دے دے کہ یہ دونوں اس بات پرمتفق ہوگئے تھے تو سازش ثابت ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے ضرورت نہیں رہتی کہ کسی قسم کی عملی کارروائی کی جائے۔ ہمارے معاملے میں اس قانون کے بجائے نیا قانون بنایا گیا تا کہ فوری طور پر صفائی کی جو گنجائشیں رکھی گئی ہیں، ان کو حذف کیا جاسکے۔ یہ قانون بھی پارلیمنٹ یا نیشنل اسمبلی کے ذریعے منظور نہیں ہوا بلکہ اسے قانون ساز اسمبلی نے وضع کیا تھا اور قانون ساز اسمبلی کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ جیسا کہ ہم نے بتایا، ہماری میٹنگ میں فیصلہ ہوگیا تھا کہ ہمیں حکومت کا تختہ نہیں الٹنا ہے اور کسی نے اوپر جا کر مخبری کردی کہ ہم لوگوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پھر فیصلہ کیا ہے کہ منصوبے پر عملدرآمد نہ کیا جائے لیکن ہم پر مقدمہ اس کے بر عکس بنایا گیا۔ دوسری طرف استغاثہ کے جو انچارج تھے، انھوں نے ہمیں بتایا کہ آپ لوگوں کی ساری باتیں ٹھیک تھیں یعنی یہ کہ آپ لوگ ملے تھے۔ آپ نے گفتگو کی تھی۔ آپ نے طے کیا تھا کہ حکومت کا تختہ نہیں الٹنا ہے۔ ہم نے تو صرف اپنی طرف سے اتنا اضافہ کر دیا تھا کہ آپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مزید یہ کہ جن لوگوں نے یہ سارا پلان بنایا تھا۔
طاہر مسعود: میجر جنرل اکبر خان نے؟
فیض: جی ہاں! انھوں نے ساری بات کا فیصلہ ہوجانے کے بعدکہا کہ کچھ نہیں کرنا ہے، جو کاغذات اس سلسلے میں تیار کیے تھے وہ تلف نہیں کیے تھے۔ وہ ان کے پاس موجود تھے اور جب کسی نے مخبری کی تو سارے کاغذات نکل آئے اور پھر بات کا بتنگڑ بنایا گیا۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ حکومت ہمارے دوست فوجی افسروں سے خفا تھی۔ دوسرے حکومت کا یہ تاثر بھی تھا کہ شاید یہ لوگ پوری طرح سے فرماں بردار نہیں ہیں۔ وہ ان سے کسی نہ کسی طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح انھیں ایک اچھا موقع ہاتھ آ گیا۔ ہم تو یوں ہی آگئے۔
طاہر مسعود: اس واقعے نے تو آپ کی زندگی پر نہایت گہرے اثرات مرتب کیے ہوں گے؟
فیض: ہم چار سال تک جیل میں رہے۔ بہت کچھ سیکھا، بہت کچھ پڑھنے لکھنے، دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا۔ ہمارا ضمیر مطمئن تھا کیوں کہ ہم نے کچھ کیا ہی نہیں تا۔ ہم بے گناہ تھے۔
طاہر مسعود: ایسی سزا جو بے گناہ اور بے قصور ہونے کے باوجود ملے، کیا شدید غم و غصہ اور جھنجھلاہٹ کو جنم نہیں دیتی؟
فیض: غصہ تو آتا ہے لیکن اس سے مورال بلند رہتا ہے۔ ہمت بلند رہتی ہے۔
طاہر مسعود: کوئی ایسا مرحلہ درمیان میں آیا جب معافی نامہ وغیرہ لکھ کر رہائی پالینے کی پیش کش ہوئی ہو؟
فیض: سازش کیس میں معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسا کوئی موقع نہیں آیا۔ ہاں البتہ ایوب خان کے دور میں سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے تھے، اس میں پیش کش ہوئی کہ معافی مانگ لو اور رہا ہوجائو، لیکن ظاہر ہے معافی مانگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
طاہر مسعود: آپ کے سیاسی نظریات کی وجہ سے ملک میں ایک طبقہ آپ کا شدید مخالف رہا ہے۔ اس نے آپ کی سیاسی اور نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر آپ کو ہمیشہ اپنی تنقید اور طعنہ زنی کا نشانہ بنایا لیکن آپ میں ایک خوبی جسے میں نے ہمیشہ مستقل مزاجی کے ساتھ آپ کے اندر موجود پایا اور وہ یہ کہ آپ نے ان عناصر کو کبھی پلٹ کر جواب نہیں دیا اور نہ ہی ان کی سطح پر اترے۔ یہ خوبی اتفاق سے میں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے اندر بھی پائی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کبھی اس نوع کی مخالفتوں کے پیش نظر دل گرفتہ، مایوس یا تلخ ہوئے؟
فیض: ہم اپنی ذات کو اہمیت ہی نہیں دیتے اور نہ اسے مناسب سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات کے لیے کسی سے لڑائی جھگڑا شروع کردیں۔ کوئی اصول یا نظریے کی بات ہو تو اس پر بحث کی جاسکتی ہے کیوں کہ بحث کرنے کا جواز موجود ہے لیکن اگر کوئی ذاتی اعتراض ہو اور آپ اس کا اسی شدت سے جواب دیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ معترضین کی سطح پر اتر گئے ہیں۔ خصوصاً ایسی صورت میں جب کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کی ذات پر اعتراضات آپ کی ذات کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے عقائد ونظریات کی وجہ سے کیے جارہے ہیں، سوال یہ ہے کہ آدی اپنی ذات کو اتنی اہمیت کیوں دے؟ اپنی شخصیت کے حوالے سے باتیں کرنا محض تضیع اوقات ہے۔
طاہر مسعود: اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی روشنی میں فرمائیں کہ کیا کسی ادیب کو کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے یا نہیں؟
فیض: اس کا کوئی لگا بندھا اصول یا قاعدہ قانون نہیں ہے جس کا مزاج سیاست سے ہم آہنگ، ہو وہ بے شک سیاست میں حصہ لے اور جو مزاجاً سیاست سے الگ تھلگ ہو، ظاہر ہے اسے سیاست میں حصہ نہ لینا چاہیے۔ سیاست زندگی سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ ہر آدمی کسی نہ کسی طرح سیاست سے وابستہ ہے۔ سیاست سے عملاً علیحدہ رہتے ہوئے اس سے ذہنی اور جذباتی تعلق رکھنا ایک بات ہے اور سیاست میں عملی طور پر شامل ہونا یعنی کسی سیاسی جماعت میں داخل ہو کر اس کا ضابطہ اور قاعدہ اختیار کرنا بالکل دوسری بات ہے۔ اس کا تعلق اپنے اپنے مزاج سے ہے، لہٰذا جو سیاست کرسکتے ہیں انھیں کرنا چاہیے اور جنہیں کرسکتے انھیں نہیں کرنا چاہیے۔ ادب اور شاعری کا قاعدہ تو صرف اس حد تک ہے کہ زندگی کی چند بنیادی قدریں ہیں جن کی حفاظت کرنی چاہیے۔ نیکی، انسان دوستی، صداقت کا تحفظ، ادیبوں اور شاعروں کا اولین فریضہ ہے اور جن سیاسی کارروائیوں پر ان کا اطلاق ہوتا ہے اس حد تک جدوجہد بھی کرنی چاہیے، جہاں تک کسی پارٹی یا جماعت میں شامل ہوکر ان کے قواعد کی پابندیوں کا تعلق ہے، شاعر و ادیب پر ان کی پابندی لازم نہیں ہے۔
طاہر مسعود: ایک نقاد نے آپ کی شاعری کے بارے میں لکھا ہے کہ جانے آپ کی شاعری میں ایسا کیا جادو ہے کہ اسے پڑھ کر ایک طرف سرمایہ داروں کی کوٹھیوں پر ہل چلانے کے خواب دیکھنے والے انقلابی بھی جھومتے ہیں اور دوسری طرف ان ہی کوٹھیوں کے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر انقلابیوں کو غدار کہنے والے سرمایہ دار بھی آپ کی شاعری سے اس قدر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ترقی پسندانہ نقطہ نظر سے آپ اپنی شاعری کی اس خوبی کی کیا تعبیر کریں گے؟
فیض: میری شاعری کے اس پہلو کی کوئی ترقی پسندانہ توجیہ ہوسکتی ہے تو وہ غالب یہی ہے کہ زندگی کی بعض حقیقت ایسی ہیں جن کا اطلاق بھی پر ہوتا ہے۔ ترقی پسند کے علاوہ اگر کوئی سرمایہ دار بھی میرے شعر پڑھ کر جھومتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے اندر بھی ضمیر موجود ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شعر کا ایک فن پہلو بھی ہوتا ہے جس کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔ غالب، میر یا شیکسپیئر کی شاعری کا بھی ایک جمالیاتی پہلو ہے جو ماورائے طبقہ ہے بین غیر طبقاتی ہے۔ شعر پڑھنے والا شاعری میں سے اپنی پسند کا عضر الگ کر لیتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے جیسے ملک میں لازم ہے کہ آپ کی بات صرف ایک طبقے تک نہ پہنچے بلکہ ہر طبقے تک ہماری آواز پہنچے کیوں کہ معاشرے میں ہر طبقے کا کوئی نہ کوئی کردار ہوتا ہے۔ ساری کاروبار میں، معاشرے کی ترتیب و تنظیم میں ان کا اپنا رول ہوتا ہے۔ لہٰذا کوشش کرنی چاہیے کہ آپ کا پیغام کی ایک طبقے تک محدود نہ رہے تا کہ وہ لوگ جن کا تعلق مظلوم و محکوم طبقے سے نہیں ہے، ان کے ذہن یا ضمیر پر بھی یہ حقیقت واضح ہو کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اس میںا نھیں ترمیم کرنی چاہیے۔ ان کے اندر تبدیلی واقع ہوگی تو لازماً اس کا اثر عوام پر بھی مرتب ہوگا۔
طاہر مسعود: ویسے بھی شاعری انسان کو بہتر انسان بننے میں مدد دیتی ہے۔
فیض: جی ہاں ہماری بات ان تک پہنچنی تو چاہیے۔ خاص طور پر ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں طبقاتی مسائل ابھی تک اس قسم کے ہیں کہ ایک طبقے کی بات دوسرے طبقے تک پہنچ ہی نہیں پاتی یا پہنچتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو ہمدردی سے سمجھنے سے معذور ہوتے ہیں۔
طاہر مسعود: آپ نے ایک انٹرویو میں ترقی پسند تحریک سے اپنے اختلاف کا ذکر کیا ہے جس میں آپ نے ترقی پسندوں کی جانب سے تنظیمی سطح پر قرۃ العین حیدر، منٹو یا عصمت وغیرہ کے خلاف جو موقف اختیار کیا گیا اور علامہ اقبال کی جو غلط تفسیریں پیش کی گئیں اسے آپ نے ترقی پسند تحریک سے اپنا اختلاف کا سبب گنوایا ہے۔ اس حوالے سے میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آپ کے خیال میں اردو ادب کی سب سے بڑی تحریک کے روبہ زوال ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ ہمارے بعض بزرگ نقادوں کا خیال ہے کہ قیام پاکستان کے واقعہ نے اس تحریک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا کیوں کہ پاکستان کا قیام ترقی پسند تحریک کی توقع اور خواہش کے بالکل برخلاف تھا اور یہیں سے تحریک کو فکری اور عملی طور پر گہرے صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔
فیض: قیام پاکستان سے قبل برصغیر میں آزادی کی جو تحریک چلی تھی۔ وہ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں کے درمیان ایک متحدہ محاذ کے قیام کا نتیجہ تھی۔ اس متحدہ محاذ میں جو لوگ شامل تھے، ان کے سیاسی نظریات کلّی طور سے ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہی تھے۔ لیکن چند ایک باتوں پر سبھی کا اتفاق تھا یعنی یہ کہ انگریزوں سے آزادی ملنی چاہیے، عام آدمی کی زندگی میں آسائش اور سکون کا اضافہ ہونا چاہیے۔ اس محاذ میں دیگر معاملات اس حد تک اختلافی نہیں تھے لیکن پاکستان بنے کے بعد ذہنی انتشار پیدا ہوا۔ ایک مسئلہ یہ بھی پیدا ہوا کہ آزادی تو حاصل ہوگئی لیکن اب اس کے بعد کیا کرنا چاہیے؟ اس پر ترقی پسند تحریک میں شامل ہمارے دوستوں نے ذرا زیادہ ہی انتہا پسندانہ رویہ اختیار کیا کہ ہمیں اس کے بعد فوراً انقلابی ہوجانا چاہیے۔ مطلب یہ تھا کہ پورے طور پر جو لوگ انقلابی رویہ اختیار نہیں کرتے، وہ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گے۔ یہ رویہ اختیار کرکے ایک طریقے سے انہوں نے حالات کا غلط اندازہ لگایا۔ کچھ یہ بھی تھا کہ ترقی پسند تنظیم میں جو نوجوان شامل ہوئے ان کا ذہن پورے طور پر صاف نہ تھا اور نہ سیاسی اعتبار سے وہ تجربہ کار تھے اور نہ ہی انہیں حالات سے اچھی طرح سے واقفیت تھی۔ اس ناواقفیت کی وجہ سے ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں۔ یہ ایسی کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے۔ ملک بنے کے بعد ایک بالکل نئی صورت حال پیش آئی جس کا ہمیں پہلے سے کوئی اندازہ نہیں تھا۔ آزادی کا ایک بہت مبہم سا تصور تو تھا لیکن آزادی کے بعد واقعی صورت کیا بنتی ہے، اس کے بارے میں ذہن صاف نہیں تھا۔ جس کے نتیجے میں بعض لوگ جذباتی ہو کر انتہا پسندی کی طرف چلے گئے اور ہوا یہ کہ جو لوگ ہمارے ساتھ تھے، جن کو ہمارے ساتھ رہنا چاہیے تھا ان کو ساتھ رکھ کر تحریک کو آگے بڑھانے کے بجائے ہم نے دائرہ یا حلقہ محدود کرلیا جو ظاہر ہے صحیح نہیں تھا۔ اصولاً ہمیں ادیبوں اور شاعروں کے نظریات تک محدود رہنا چاہیے تھا اور ہمیں ان کی تخلیقات کا احاطہ کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ تخلیقات کا احاطہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ منٹو، عصمت اور قرۃ العین حیدر جیسے ادیبوں کو اپنے دائرے سے خارج کرنا پڑا جس کا میں مخالف تھا۔
طاہر مسعود: آپ نے اس غلط فیصلے کے خلاف اسٹینڈ کیوں نہ لیا۔ اس فیصلے میں جو مضرات آپ دیکھ رہے تھے، اگر ان کے خلاف آپ آواز اٹھاتے تو شاید ترقی پسند تنظیم کو آگے چل کر جو نقصان اٹھانے پڑے، وہ اس سے محفوظ رہتی۔
فیض: نقصان تو یقینا پہنچا اور صرف ترقی پسند ہی کو نقصان نہیں پہنچا بلکہ جو دوسری تنظیمیں تھیں مثلاً مزدوروں میں اور دوسرے طبقوں میں، ان سب کو نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ سارا کام جذباتیت کی وجہ سے خراب ہوا۔ آزادی کے بعد جو ایک نشہ ہوتا ہے اور جس میں سارے پہلو دکھائی نہیں دیتے، یہ اسی نشے کا اثر ہے۔ انہوں نے اس طرح سے سوچا کہ آزادی ملی ہے تو بس انقلابی ہوجانا چاہیے۔ خیر ہو جاتی ہیں غلطیاں۔
طاہر مسعود: فیض صاحب! ترقی پسند تحریک تو تحریک پاکستان کی حمایت میں نہیں تھی۔ اس لیے قیام پاکستان کے نتیجے میں جو آزادی ہمیں میسر آئی، اس کی یہ شکل و صورت تو یقینا ترقی پسند تحریک کے زعما کی نظروں میں نہیں ہوگی؟
فیض: جی ہاں! یہ صورت تو یقینا نہیں تھی۔ صورت یہ تھی اور ہم نے سمجھا بھی یہی تھا کہ مسلم لیگ اور کانگریس کے آپس میں جو اختلافات ہیں اور جس کی وجہ سے انگریزوں کا برصغیر پر تسلط قائم ہے وہ اختلاف آزادی ملنے کے ساتھ ہی ختم ہوجائیں گے۔ یہ تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ پنجاب تقسیم ہوجائے گا اور اس قدر کشت و خون اور قتل و غارت گری ہوگی۔ یہ نقشہ ذہن میں بالکل نہیں تھا۔ نقشہ تو یہ تھا کہ جو جھگڑے وغیرہ چل رہے ہیں آزادی کے بعد ان کا خاتمہ ہوجائے گا۔ پاکستان بن گیا اور ہندوستان کو آزادی مل گئی۔ ان معنوں میں ہماری خواہش تو پوری ہوگئی لیکن دوستانہ طریقے سے اختلافات کے خاتمے کی خواہش پوری نہ ہوئی، کچھ اپنی غلطیاں، کچھ انگریزوں کی ریشہ دوانیاں، کچھ عوام کی مرضی، کچھ خود غرض طبقوں کے مفادات، سب مل ملا کر ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ اپنے ذہن میں جو نقشہ تھا وہ ادھورا اور تشنہ تکمیل رہ گیا۔ اسی وجہ سے ہمیں آج تک یہ طعنہ ملتا ہے کہ ہم نے کہا تھا:
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
جنہوں نے وہ نقشہ نہیں دیکھا جو ہم نے دیکھا ہے کہ آزادی ہم کو کس طرح ملی۔ اس وقت تو ہم یہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ اس آزادی کے نتیجے میں ہمیں اس قدر قربانی دینی پڑے گی اور ایسی گہری اذیت برداشت کرنی پڑے گی، نجات کے بجائے قتل و غارت گری کے غیر انسانی مناظر دیکھنے پڑیں گے۔
طاہر مسعود: مجنوں گورکھ پوری صاحب نے ایک انٹرویو میں رائے ظاہر کی تھی کہ ترقی پسند تحریک اس لیے ختم ہوگئی کہ پاکستان کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ آپ ان کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟
فیض: مگر ترقی پسند تحریک ختم کہاں ہوئی ہے؟
طاہر مسعود: ظاہر ہے 36ء والی صورت حال تو نہیں رہی۔ ادب میں نئی تحریکات اور نئے رجحانات در آئے ہیں۔
فیض: ترقی پسند کے ختم ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تنظیم ختم ہوگئی ہے۔ تنظیمیں تو ختم ہوتی اور بنتی رہتی ہیں لیکن تحریکیں ختم نہیں ہوتیں۔ ترقی پسندی ہم نے تو پیدا نہیں کی تھی وہ تو شروع سے چلی آرہی ہے۔ حالات کے تقاضے نے ایک تنظیم کو جنم دیا اور پھر حالات ہی کی بنا پر تنظیم ختم بھی ہوگئی لیکن تحریک کہاں ختم ہوئی ہے۔ ترقی پسند تنظیم اس زمانے میں قائم ہوئی تھی جب ترقی پسند تحریکیں چل رہی تھیں اور ادب میں داخلیت پسندی، ذاتی اور غیر شعوری تجربات کا اظہار کرنے والے موجود تھے۔ اس وقت بھی دونوں تحریکیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں اور بعد میں جو نئی تحریکیں پیدا ہوئیں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ادب میں تحریکیں پیدا ہوتی ہی رہتی ہیں۔ جہاں تک ترقی پسند تحریک کا تعلق ہے یعنی اس نقطہ نظر کا کہ عوام کے مصائب و آلام کو ادب میں منعکس ہونا چاہیے تو اس میں کوئی بُعد نہیں آیا۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ تنظیم نہیں بن سکی۔
طاہر مسعود: فیض صاحب! تنظیم تو ختم ہوئی لیکن ساتھ ہی تحریک کی شدت میں بھی کمی آئی۔یعنی اس نقطہ نظر کی شدت میں جس کے زیر اثر یک رنگا اور یک رخا ادب لکھا گیا تھا۔
فیض: بھئی یہ بات صرف ترقی پسندی تک محدود نہیں ہے۔ پاکستان و ہندوستان بننے کے بعد جو ایک متفقہ تحریک حصول آزادی کے لیے چل رہی تھی، وہ ختم ہوگئی۔ اس لیے کہ آزادی مل گئی۔ آزادی کے بعد اگلی منزل کون سی ہے یا اس سے آگے کیسے جانا ہے؟ اس کے بارے میں صرف ترقی پسندوں ہی میں نہیں، زندگی کی ہر سطح پر مختلف خیالات و نظریات پیدا ہوئے۔ اس سے ساری سیاسی زندگی متاثر ہوئی۔ یہ بالکل غلط بات ہے کہ پاکستان بننے کی وجہ سے تحریک ختم ہوگئی۔ اگر پاکستان نہیں بنتا اور ہندوستان میں آزادی کے بعد اسی قسم کے مسائل پیدا ہوجاتے تو؟ آزادی تو ایک مجرد چیز ہے۔ صرف یہ کہہ دینا تو کافی نہیں کہ ملک آزاد ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا سیاسی نقشہ کیا ہوگا؟ اقتصادی نظام کیسا ہوگا؟ معاشرے کا کاروبار کیسے چلے گا؟ ان ساری چیزوں کے بارے میں نئے طریقے سے سوچنا، تجاویز و منصوبے بنانا تشریح کی صورتیں پیدا کرنا، ظاہر ہے ان تمام مسائل پر ہم متفق نہیں تھے۔ آزادی کے بعد اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی نظام کو ایک مخصوص سانچے میں ڈالنے کے عمل کے بارے میں کسی کا ذہن بھی صاف نہیں تھا۔
طاہر مسعود: ادیبوں کو اس وقت قومی تعمیر کے سلسلے میں جو کردار ادا کرنا چاہیے تھا کیا انہوں نے وہ کردار ادا کیا یا اس ذمہ داری سے پہلو تہی کی؟
فیض: ادیب کا کردار محدود ہوتا ہے کیوں کہ وہ حکومت تو چلاتا نہیں ہے۔ وہ تو محض عوام کا ترجمان ہوتا ہے اور عوام کی ذہنی اور جذباتی تربیت کرتا ہے۔ اس زمانے میں اچھے ادیبوں کے مقدور میں جتنا کچھ تھا انہوں نے کیا، لیکن ہر دور میں اچھے ادیبوں کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی ہے۔
طاہر مسعود: جس دور کا ذکر ہورہا ہے۔ اس وقت تک معاشرے پر ادیبوں اور دانش وروں کے اثرات گہرے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ادیبوں پر بحیثیت مجموعی قومی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا الزام عائد کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً فرانس میں الجزائر کی جنگ آزادی کے معاملے میں سارتر نے جس بے باکی سے ایک موقف اختیار کیا یا جیسا کہ آپ نے لورکا اور نرودا وغیرہ کے نام لیے، انہوں نے شاعر ہونے کے باوجود جو سیاسی کردار ادا کیا، اس درجے کا کردار ہمارے ادیبوں میں نظر نہیں آتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
فیض: کیوں نہیں نظر آتا۔ جس حد تک ہمارے ادیبوں میں صلاحیتیں تھیں، اس کے مطابق انہوں نے اپنا کردار ادا کیا اور پھر سارتر اور لورکا جتنے بڑے ادیب بھی تو ہمارے ہاں نہیں تھے اور بڑے ادیب روز روز پیدا نہیں ہوتے، بڑے ادیب پیدا کرنے کا کوئی نسخہ تو ہے نہیں۔ فرانس میں بھی آپ سارتر یا اراگون کا نام لے دیں گے۔ اس سے زیادہ نام تو وہاں بھی نہیں ہیں اور بعض ملکوں میں تو ایک نام بھی نہیں ملے گا۔ یہ تو محض اتفاق ہے۔
طاہر مسعود: مثلاً دیکھیے کہ ہمارے ملک کا ایک حصہ علیحدہ ہوگیا، ایک بازو کٹ گیا، لیکن ادبی سطح پر جمود طاری رہا۔ اتنے عظیم سانحے نے ہمارے ادیبوں کے باطن میں کوئی ہلچل، کوئی طوفان برپا نہیں کیا۔ کوئی بڑا ناول کوئی ایسا ادب تخلیق نہیں ہوا جس کی بنیاد پر ہم یہ کہہ سکیں کہ اقتدار پرستوں کے ضمیر مرچکے ہیں لیکن ہمارے ادیب زندہ ہیں۔
فیض: ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ جو بازو کٹا ہے، ادب وہاں پیدا ہونا چاہیے کیوں کہ بازو ہمارا نہیں ان کا کٹا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے لوگوں کے لیے یہ بات کہ مشرقی پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟ کوئی تجربہ نہیں تھا۔ تجربہ تو مشرقی پاکستان یا بنگالیوں کے لیے تھا، لہٰذا انہیں بڑا ادب تخلیق کرنا چاہیے۔
طاہر مسعود: ہمارے مغربی پاکستان کے ادیبوں کے لیے یہ سانحہ ذہنی اور روحانی تجربے کی حیثیت تو رکھتا ہوگا نا؟
فیض: ان کے لیے یہ ذہنی اور روحانی تجربہ بھی نہیں تھا۔ اس لیے کہ دور دراز کی بات تھی، براہ راست تجربہ تو نہیں تھا نا۔ بنگلادیش میں بہت سی چیزیں لکھی گئیں۔ وہاں کے ادیبوں کا تجربہ ہمارے دانش وروں کی نسبت براہ راست تھا۔ یہاں کے ادیبوں کا تجربہ تو خیالی تھا۔ بنگالی تو ہمیں آتی نہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ وہاں کے افسانہ نگاروں اور لکھنے والوں نے بہت موثر چیزیں لکھی ہیں مثلاً شہید اللہ قیصر وغیرہ نے۔
طاہر مسعود: ہمارے لیے ذہنی اور روحانی تجربہ تو تھا۔ خود آپ ہی نے اس تجربے کو موضوع بنا کر بہت ہی اچھی غزل کہی:۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

فیض: ہم نے تو کوشش کی لیکن ہمارے لیے بھی یہ براہ راست تجربہ نہیں تھا۔ بہرحال یہ ایک ذہنی تجربہ ضرور تھا۔ اس سانحے سے جسمانی طور پر جو لوگ گزرے ہیں، وہ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ہمارے ہاں یہ ذہنی اور روحانی واردات اس لیے بھی نہیں بنی کہ ہمارے ہاں ایک دوسری الجھن پیدا ہوگئی تھی اور وہ یہ کہ یہاں ہندوستان کا حملہ ہوگیا تھا، لوگ اس میں الجھ گئے اور یوں سانحہ مشرقی پاکستان کی بات دور رہ گئی۔
طاہر مسعود: ایک طرف آپ کا شمار عہد حاضر کے پیغمبروں میں کیا جاتا ہے۔ آپ کو جو مقبولیت ملی ہے۔ وہ اقبال کے بعد آپ ہی کا حصہ ہے۔ حالاں کہ ن م راشد اور جوش بھی اسی زمانے کے ہیں لیکن آپ کے گلے میں جتنے ہار ڈالے گئے اور آپ کی آمد پر جتنی تالیاں بجتی ہیں ان کا عشر عشیر بھی دیگر شعرا کے حصے میں نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف آپ کے بعض ناقدین جن میں بالخصوص میراجی اور راشد کے مکتبہ خیال کے ادیب شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ کی شاعری کا مزاج سراسر رومانوی ہے۔ وہی دس بارہ مترنم بحریں، جھومتے ہوئے قافیے۔ وہ شاید اس طرح سوچتے ہیں کہ زندگی کے بنیادی جذبے مثلاً غصہ، نفرت، حقارت، خوف کا اظہار آپ کی شاعری میں نہیں ہوا ہے۔ برعکس اس کے آپ کے ہاں صرف چیزوں کو Beautify کردینے کا عمل ملتا ہے اور یوں آپ کی شاعری کا کینوس محدود ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
فیض: راشد کی شاعری کا کینوس کون سا وسیع ہے۔ ان کی شاعری کا تو کوئی کینوس ہی نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں سوائے ان کی ذات اور لاشعور کے اور ہے کیا؟ اسی طرح میرا جی گیتوں کے شاعر ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شاعری کا سرے سے کوئی Content ہی نہیں ہے۔ شاعری میں کینوس سے مراد تجربے کی وسعت اور اس کا پھیلائو ہے۔ شاعر جب اپنی ذات سے باہر نکل کر کائنات سے اپنا تعلق جوڑنا چاہتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اپنے تجربات کو Beautify کرنے کی کوشش کی ہے، کیوں کہ اس کے بغیر ابلاغ ممکن نہیں تھا۔ راشد بہت اچھے شاعر ہیں لیکن انہیں کتنے لوگ سمجھتے ہیں، کتنے لوگ جانتے ہیں کہ انہوں نے لکھا کیا ہے اور کہنا کیا چاہتے ہیں۔ ان کی شاعری کا تو ابلاغ ہی نہیں ہوتا اور شعر تو اسی وقت شعر ہوتا ہے، جب وہ دوسروں تک پہنچے۔
طاہر مسعود: یعنی آپ کا اعتراض یہ ہے کہ راشد کی شاعری خواص تک محدود ہے؟
فیض: راشد تو خواص تک بھی نہیں پہنچتے۔ ان کا ابلاغ بہت ہی تھوڑے لوگوں تک ہوتا ہے۔ خواص میں بھی صرف ان چند لوگوں تک جنہیں ایک بہت ہی محدود قسم کی سہولت یا آسائش حاصل ہے کہ وہ کلاسیکی انگریزی مغربی شاعری اور مغربی ادب میں چلنے والی تحریکات مثلاً سریلزم اور ایکسپریشن ازم سے واقف ہیں اور اس محدود طبقے کو اپنی زبان و ادب سے واسطہ نہیں ہے اور پھر راشد صاحب کی تو زبان فارسی ہے اور نہایت مشکل فارسی۔ جن افراد کو دونوں زبانیں نہیں آتیں، وہ تو انہیں سمجھ بھی نہیں سکتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ راشد صاحب اس ملک میں رہے ہی نہیں۔ یہاں کے لوگوں کے ساتھ ان کا رابطہ کٹ گیا۔ ان کو یہ دریافت کرنے کا موقع ہی نہیں ملا کہ ان کی بات لوگوں تک پہنچی یا نہیں۔ میرا جی کی بات عوام تک پہنچتی ہے کہ وہ گیت کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری نہایت ہلکی پھلکی ہے۔
طاہر مسعود: آپ ابلاغ کی اہمیت پہ زور دے کر شاعری کو صحافت یا پروپیگنڈے کے قریب نہیں لارہے ہیں؟
فیض: شاعری اور صحافت میں بس اتنا فرق ہے کہ صحافت میں جمالیاتی پہلو نہیں ہوتا۔ جمالیات کو آپ ابلاغ میں شامل کرلیں تو ادب بن جاتا ہے اور جمالیات کو خارج کردیں تو وہ صحافت بن جاتی ہے۔
طاہر مسعود: کیا شاعری کی کوئی ایسی قسم ممکن نہیں جسے خود کلامی سے تعبیر کیا جائے؟
فیض: بالکل ممکن ہے۔ خالص جمالیاتی شاعری کا تصور بھی موجود ہے اور اس میں فرحت کا پہلو بھی ہے جو شاعری کے لیے لازم ہے لیکن اس کا میدان بہت محدود ہے۔ داغ کی شاعری بہت اچھی ہے لیکن آپ اسے غالب کے مقابلے پر تو نہیں رکھ سکتے۔ شاعری میں مضمون کو بھی اہمیت حاصل ہے۔ محض فنی کمال سے بڑی شاعری پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی محض پروپیگنڈے سے۔ دونوں چیزیں یک جا ہوں، تب جا کر بڑی شاعری جنم لیتی ہے۔ خالص رومانی یا خالص غنائیہ شاعری کی تحقیر نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی اپنی جمالیاتی افادیت ہے۔
طاہر مسعود: کہا جاتا ہے کہ راشد نے اظہار کے نئے نئے سانچے بتائے اور اسلوب میں بھی تجربات کیے؟
فیض: تجربات تو ضرور کیے مگر محض تجربہ کرنا کافی نہیں ہے۔ تجربے کی اہمیت تو اسی وقت ہوتی ہے جب تجربہ کامیاب ہو۔ ایک شاعر کا تجربہ جو اس کی حد تک محدود رہا اور شاعر کا حال یہ ہے کہ اسے آگے کا رستہ نہیں مل رہا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ تجربہ کا کمال یہ ہے کہ اس سے بڑا آرٹ پیدا ہو۔
طاہر مسعود: ایلیٹ نے لکھا ہے کہ ندرت تکرار سے بہتر ہے!
فیض: تکرار سے تو ہر چیز بہتر ہے۔ آپ اقبال کی مثال لیں۔ ان سے زیادہ تکرار کس کے یہاں ملتی ہے مگر اس سے ان کی شاعری میں فرق تو نہیں آیا۔ تکرار کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ مکھی پر مکھی مارتے چلے جائیں اور دوسری یہ کہ آپ ایک پرانے مضمون کو اس طرح آگے بڑھائیں کہ اس میں حسن پیدا ہوجائے اور تکرار باقی نہ رہے۔
طاہر مسعود: مغرب میں بہت سے ادیب ایسے ہیں جنہوں نے بہ یک وقت تخلیق و تنقید سے اپنا رشتہ قائم رکھا۔ مثلاً ایلیٹ نے شاعری بھی کی اور تنقید بھی لکھی۔ لارنس نے بھی فکشن اور تنقید میں وسیع سرمایہ چھوڑا۔ ہمارے ہاں فراق اور حسن عسکری اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ آپ نے بھی شاعری کے ساتھ تنقید کو بھی اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا لیکن ’’میزان‘‘ کے بعد آپ نے تنقید پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ خصوصاً اس پس منظر میں کہ ہمارے ہاں مدتوں سے سنجیدہ تنقید کی کم یابی کا رونا رویا جاتا رہا ہے۔
فیض: (ہنس کر) توجہ دینی چاہیے تھی لیکن نہیں دی۔ بہت سے کام ایسے تھے جن پر توجہ نہیں کی، آخر کیا کیا کرتے۔ شاعری کرتے، صحافت کرتے، مدرسی کرتے یا تنقید لکھتے۔ زندگی میں بہت کچھ کرنا تھا لیکن ضروری تو نہیں کہ آدمی جو چاہے وہ پورا ہی ہو۔ آپ کی یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں تنقید نہیں لکھی گئی ہے۔ تنقید لکھنے کے لیے آدمی کو بہت کومپیٹینٹ (اہل) ہونا چاہیے۔ ہمارے بیش تر نقاد تخلیقی صلاحیت سے محروم ہیں اور تخلیقی نقاد تو صرف فراق صاحب ہیں۔
طاہر مسعود: حسن عسکری صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے؟
فیض: عسکری صاحب سمجھ دار نقاد تھے۔ ان میں حساسیت بھی تھی مگر وہ آخری عمر میں اس طرف نکل گئے تھے جو ان کا میدان نہیں تھا۔
طاہر مسعود: ان کی دو کتابیں ’’ستارہ یا بادبان‘‘ اور ’’انسان اور آدمی‘‘ کے بارے میں آپ کے تاثرات؟
فیض: اچھی کتابیں ہیں مگر سوائے چند ایک مضامین کے انہوں نے کوئی مستقل چیز نہیں چھوڑی۔ ویسے عسکری صاحب بہت ذہین آدمی تھے۔ افسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے تنقید کا میدان چھوڑ کر فلسفے کا میدان اختیار کرلیا جو ان کا اصل میدان نہیں تھا۔
طاہر مسعود: عزیز حامد مدنی ایک محفل میں گلہ کررہے تھے کہ جس طرح مغرب میں ہر بڑا شاعر اپنے پیچھے آنے والے شاعروں کے نام گنواتا ہے اور ان کی حیثیتیں متعین کرتا ہے، آپ نے اس ذمہ داری کو کبھی قبول نہیں کیا اور اپنے بعد کے شاعروں کےبارے میں خاموش رہے ہیں؟
فیض: بھئی بہت سے اچھے لکھنے والے ہیں، ان میں سے دو ایک نام لے دیں اور باقی دس نام رہ جائیں تو شکایت پیدا ہوگی۔ میرے کہنے سے کوئی اچھا ہوجاتا ہے اور نہ کوئی برا۔
طاہر مسعود: لیکن اس سے شاعر کو تو قوت ملتی ہے؟
فیض: دیکھیے ناقد کی رائے شاعر کو چھوٹا یا بڑا نہیں بناتی۔ شاعر پیدائشی طور پر چھوٹا یا بڑا شاعر ہوتا ہے۔

حصہ