یہ ہفتہ سماجی میڈیا کے لیے بدترین ہفتوں میں سے ایک ہے۔ جھوٹ کو اس قوت کے ساتھ ، اس طرح سے بولا گیا کہ سچائی کی جانب سوچنا بھی مشکل ہو گیا۔نیٹیزن کی اکثریت بھیڑ چال پر مبنی ہے پھر یوٹیوب سے آمدنی کے لالچ میں بھی نیا منجن بنا بنا کر خوب بیچا گیا۔پہلے تو مینار پاکستان پر پی ڈی ایم کے جلسہ کا شور مچا رہا جس کی تصاویر کو حکومت اپنے پرانے جلسوں سے تعبیر کرتی رہی۔اسکے بعد وقار ذکا کو نامعلوم کہاں سے اسلام کے خلیفہ کی تلاش یاد آئی اور اُس نے بات تو کچھ اور سمجھانے کے لیے کی لیکن اپنی کم علمی کی وجہ سے معاملہ الٹ ہی کروا ڈالا۔ اُس نے لوگوں کو یہ کہاکہ لوگ اس غلط معلومات کو رپورٹ کریں کہ جب گوگل پر موجودہ اسلام کا خلیفہ لکھ کر ڈھونڈیں تو مرزا غلام قادیانی کا نام آتا ہے تو اس کے بعد آپ گوگل کو رپورٹ کریں کہ یہ معلومات غلط ہے ۔ اب کتنے لوگوں نے رپورٹ کیا یہ تو معلوم نہیں ہوا البتہ فضول میں یہ بات تلاش کرنے کی ریٹنگ ضرور بڑھ گئی ۔ ایک تو یہ کہ قادیانیت کے حوالے سے بے شک عام کیا خاص مسلمان کی معلومات بھی انتہائی کم ہیں دوسرا یہ کہ اس کے باوجود وہ کسی طور قادیانیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ یہ اتنے کمال کی بات ہے کہ قادیانی کوہم سب کافر قرار دیتے ہیں ، غیر مسلم نہیں۔جبکہ ہندو ، عیسائی کو ہم عام زبان میں غیر مسلم یا اقلیت کہتے ہیں ۔ قادیانیوں سے نفرت اتنی شدید ہے کہ کوئی ہلکا یا اُن کے اسٹیٹس کے مطابق بھی ہم اُنکو غیر مسلم کہنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ایسے میں اُن کی تلاش کرنا بھی اصولاً تو لا یعنی عمل تھا مگر وقار ذکا اور اُس کے فالوورز سے یہی امید تھی۔اس سے قدرے بہتر ٹرینڈ تحریک لبیک کی جانب سے’ فرانس سے تجارت اسلام سے بغاوت‘ کا ٹرینڈ بناکر پیغام دیا گیا۔اسکی بنیادی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فرانسیسی صدر مستقل اسلام و مسلمانوںکے خلاف اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے، دوسرا یہ کہ ابھی تک اس نے کوئی معافی نہیں مانگی لیکن پاکستان کے تمام اسٹورز میں فرانسیسی مصنوعات پر لگی پابندی خاموشی سے ختم ہو گئی ہے ۔لوگ از خود بے شک نہ خریدیں مگر کسی اسٹور پر فرنچ مصنوعات لکھ کر جو کام کیا گیا تھاوہ الگ احساس پیدا کرتا۔ایسے میں بار باریہ یاد دلانا اہمیت کا حامل ہے۔یاد رہے کہ فیس بک پر تا حال علامہ خادم رضوی کی تصویر یا ویڈیواکاؤنٹ پرپابندی کا سبب بن رہی ہے، البتہ ٹوئٹر پر پوسٹ جاری ہے ۔اسی دوران بیکن ہاؤس اسکول کے تحت چلنے والے ایجوکیٹر اسکول کے ایک آزمائشی پرچہ بھی سوشل میڈیا پر لیک ہوگیا، اس پر بھی خاصا شور مچایا گیا۔
یہ تو آغاز تھا پھر آگے معاملات اسی طرح چلے ۔ایک اسرائیلی اخبار کی خبر کہ ’ ایشیائی ملک کامسلم وفد اسرائیل کیوں آیا‘ کا اسکرین شاٹ لگا کرخوب پیٹا گیا۔ ایک نامعلوم وقت کی تصویر شیئر کر کے ذلفی بخاری کو نامزد کر دیا گیا جبکہ خبر میں وفد کا ذکر تھا۔وزیر اعظم پاکستان کے ڈھیروں قریبی مشیروں میں سے برطانوی پاسپورٹ رکھنے والے ایک ذوالفقار(ذلفی) بھی ہیں ۔ ذلفی بخاری نے سختی سے ایسے کسی دورے کی تردید کی اور اسے بھارتی و اسرائیلی مشاہروں پر چلنے والے میڈیا نمائندوں کاایجنڈا قرار دیا ۔یہی نہیں بلکہ یہ ریکارڈ کا حص ہے کہ پاکستان کے وزارت خارجہ کی جانب سے مستقل اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے ظاہری یا خفیہ ملاقات کی خبروں کو جھوٹ قرار دیا ہے۔مذکورہ خبر میں اشاروں میں بات کی گئی تھی اسطرح اخبار کی خبر بھی موقر نہیں کہی جا سکتی جس طرح اُس نے شائع کی ہے۔ اس بات کا غالب امکان موجود ہے کہ یہ خبر اسرائیلی ایجنڈے کا حصہ ہو ۔ اسکے نتیجے میں اسرائیل مستقل پاکستان میں زیربحث رہے چاہے کسی بھی بہانے سیہی کیوں نہ ہو۔اس بحث کا سب سے زیادہ فائدہ ناپاک اسرائیل کو ہی ہوتا ہے۔اسی کے ذیل میں 2015میں ایک پاکستانی اخبارٹریبیون کی خبر کا اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا جاتا رہا جس میں پی ٹی آئی پر یہودی و ہندو لابی سے فنڈنگ کا ذکر تھا۔یہ انکشاف تحریک انصاف کے رہنما اکبر ایس بابرالیکشن کمیشن میں تحریر ی طور پر کر چکے تھے ۔گو کہ پانچ سال سے کیس جاری ہے ہوا کچھ بھی نہیںلیکن اس موضوع سے اُس کو بھی نتھی کر دیا گیا۔ اسی عنوان یعنی عمران خان کی اسرائیل نوازی سے متعلق ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا مشہور پیش گوئی کلپ بھی خوب شیئر کیا جاتا رہا۔مزے دار بات یہ ہوئی کہ مریم نواز بھی اس موضوع میں کود پڑیں، یوں نواز شریف بھی اسرائیلی یار بن کر ابھرے ۔اسرائیل کون غدار گیا تھا، مریم اسرائیلی ایجنٹ، اسرائیلی ایجنٹ عمران خان، مریم ایکسپوزڈ نواز، جیسے ٹرینڈ کے ساتھ چند ہی گھنٹوں میں بلکہ دن بھر عمران خان سے لیکر نواز شریف تک سب اسرائیلی یار اور غدار پاکستان بن چکے تھے ۔پچھلے ہفتے گالیوں کا سلسلہ چلا جو مینار پاکستان جلسہ پر جا کر ختم ہوا تو اس ہفتہ یہ منجن شروع ہوا۔حیرت اس بات پر ہوئی کہ جو تردید ذلفی بخاری نے جاری کی اُسے شیئر کرنے کے بجائے آپس میں الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔
اسی طرح 16دسمبر کے لیے 15-16دسمبر کو منصوبے کے مطابق سوشل میڈیا پرسقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ سے کہیں زیادہ شور آرمی پبلک اسکول کے سانحہ کا منایا گیا۔ کہیں بلیک ڈے کے عنوان سے تو کبھی اے پی ایس مارٹر ڈے، اے پی ایس پشاور، اے پی ایس ٹو ہیون، ان فارگیٹ ایبل ہیروز، اے پی ایس وی کانٹ فارگیٹ یو، ریمیمبرنگ اے پی ایس مارٹرز، کے ٹرینڈ بنائے گئے ۔جبکہ اس سے کہیں بڑے سانحہ کو قومی شعور کا حصہ نہ بننے دینے کے لیے صرف payback1971begins، ڈھاکہ ہم بھولے نہیں کے عنوان سے جماعت اسلامی نے ہیش ٹیگ چلا کر ٹرینڈ بنایاجو بمشکل ۴ گھنٹے لسٹ پر ٹھہر سکا۔اسی دوران مدارس کو کورونا کی وجہ سے بند کرنے کا اعلان آگیا اور ساتھ ہی اسرائیلی خبر نے 16دسمبر کی شام سے ماحول بدلنا شرو ع کر دیا۔ اس دوران ایک ٹرینڈ کشمیر پر نئے قانون کے نفاذ اور محاصرہ کے 500دن مکمل ہونے پر بھی بنا۔پاکستان میں ارتغرل کی مقبولیت کا سورج مستقل طلوع ہے کیونکہ ابھی تو صرف دوسرا سیزن ہی سرکاری ٹی وی پر جاری ہے ۳ سیزن اب بھی باقی ہیںاور یہ جب نشر ہونگے تو یقیناً ارتغرل سے پاکستانی عوام کو مزید جوڑ دیں گے ۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم کی ہدایت پر ایک اور شاندار ڈرامہ سیریز ’ یونس ایمرے۔راہ عشق‘ بھی اردو ڈبنگ کے ساتھ نشر ہونا شروع ہو گئی ہے ۔یہ سیریز بھی ارتغرل سیریز کے خالق ’مہمت بوزداغ‘ کا تحریر کردہ شاہکار ہیں ۔یہ ٹھیک ہے کہ اس میں ویسے شاندار تلوار بازی و جنگ کے مناظر نہیں لیکن ماحول وہی ہے البتہ موضوع ،کہانی اور اثرات کے اعتبار سے بہت اثر انگیز ہے ۔
میری دعا اس میں یہی ہے کہ اس سارے روحانی مواد کے ذریعہ اللہ پاک ناظرین کے دل کی دُنیا کو بھی بدل دے اور اُنہیں اپنے مقصد وجود یعنی اقامت دین اور اس کے لیے اُن کے پسندیدہ کردار یعنی ارتغرل جیسے کردار و اوصاف سے بہرہ مند فرما۔ ویسے بچوں بڑوں میں ارتغرل کی طرز پر تلوار، کلہاڑیاں چلانے کا شوق ضرور بیدار ہوا ہے ۔ یو ٹیوب پر اس کی نقل میں کئی پاکستانی بچے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا کر ریٹنگ لے رہے ہیں ۔ یعنی اصلی ارتغرل توپہلے ہی راج کرر ہا ہے ۔ نقلی والے بھی کسی سے کم نہیں ۔اس میں ارتغرل ( اینگن التان ) کی مشابہت رکھنے والے سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ مصطفیٰ حنیف بھی سر فہرست ہیں۔صرف دو تین ماہ میں ہی اُن کے سبسکرائبرز کی تعداد کوئی پونے دو لاکھ تک پہنچ گئیں اور یو ٹیوب نے اُسے سلور بٹن بھیج دیا۔ویسے مصطفیٰ حنیف نے جو ترکی کا دورہ کیااور ارتغرل کے مزار و اسکی ویڈیو ز جو شیئر کیں اُس کے بھی خاصے ویوز آئے۔
اینگن التان ہوں یا ارتغرل سیریز کے دیگر اداکار سب سے پاکستانیوں کی دلی محبت کا تعلق پیدا ہوا ہے۔ اس میں کاروباری اداروں نے بھی اپنے مفادات کے تحت سیریز کے اداکاروں کو اپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں سیریل کی مرکزی ہیروئن اسرا بیلجک جنہوں نے حلیمہ سلطان کا کردار ادا کیا وہ تو خاصا کامیاب رہیں ۔کئی اداروں کے ساتھ انکے معاہدے ہوئے اور وہ اسکرین پر نظر آئیں ۔اینگن التان کے ساتھ معاملہ خاصا الگ رہا۔اینگن التان سے اب تک کوئی 62 پاکستان کی نجی کمپنیوں نے رابطہ کیا تھا۔اس میں ایک ادارے کے ساتھ تو معاہدہ سائن بھی ہوا لیکن افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ مذکورہ کاروباری حریفوں نے منفی خبریں پھیلا کر ایسا ماحول بنایا کہ اینگن التان کو احتیاطی تقاضوں کے تحت اپنی و ترکی کی ساکھ بچانے کی خاطر معاہدہ ختم کیا۔ایسے میں ایک پاکستانی کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار اور معروف ٹک ٹاکر کاشف ضمیر بھی میدان میں کود پڑے۔کاشف کو اللہ تعالیٰ نے خاصے فضل سے نوازا ہے اور وہ اس کا اظہار برملا اپنے ظاہری اعمال سے کرتے ہیں۔ چیف آف آرمی اسٹاف سے لیکر ڈاکٹر عبد القدیر خان سمیت ملک کی تمام سیاسی و شوبز کی سیلیبریٹیز کے ساتھ بلکہ یہی نہیں اژدھے، شیر، مگر مچھ کے ساتھ بھی اُس کی منفرد ویڈیوز مقبول ہیں۔اب یہ اپنے مشن کے ساتھ ترکی پہنچ گئے وہاں ارتغرل سیریز کے کئی اداکاروں سے ملے ۔’ارتغرل‘ کی محبت میں وہ 2ماہ پہلے استنبول آیا جہاں اُس کی ملاقات ٹی آر ٹی اُردو سروس کے ہیڈ ڈاکٹرفرقان سے ہوئی ۔کاشف نے اینگن سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا اور اُس نے اپنے موقر ہونے کے لیے گورنر پنجاب محمد سرور سے ویڈیو کال پر بات کرائی اور اپنے باا عتبار ہونے کی سفارش کرائی۔یہی نہیں بلکہ سابق وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی سے بھی اسی طرح ویڈیو کال پر بات کروائی ۔ دونوں افراد نے کاشف کو پاکستان کا معزز شہری اور اپنا قریبی تعلق دار بتایا ۔ کاشف نے یہ بھی بتایا کہ اس سے قبل گورنر پنجاب کے سفارشی خط کی بدولت ترکی کا ویزہ اُسے ملاکیونکہ کسی کاغذ کے کم ہونے پر وہ پہلے ریجکٹ ہو چکا تھا۔بہر حال اُس کے وسیع اور قابل اعتماد تعلق کو دیکھ کر ڈاکٹر فرقان نے اینگن سے رابطہ کروا دیا ۔ اینگن التان کے محتاط ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُس کے ایسے پاس (خطوط )تحریری دستاویز موجود تھے جس کے مطابق سعودی عرب کی جانب سے اینگن التان کو پاکستان میں کام دینے یا مشہور ہونے سے روکنے کی شعوری کوشش کی گئی تھی ۔
کاشف ضمیر اپنے مزاج کے مطابق اینگن کے ساتھ ڈیل بنانے میں کامیاب رہے۔اپنی کمپنی کے لیے اشتہاری مہم کے لیے برانڈ ایمبیسیڈر کی ڈیل ایک ملین ڈالر میں بنی۔معاہدے کے مطابق آدھی رقم کی پہلے ادائیگی ہونی تھی باقی نصف کی ریکارڈنگ شروع ہونے سے قبل ہونی تھی۔کاشف کی دعوت پر اینگن 2روزہ مختصر دورے پر پاکستان آئے ، جس میں پریس کانفرنس کے ذریعہ اعلان ہونا تھا ۔ حساسیت کی وجہ سے اینگن کے پاکستان پہنچنے پر ہی خبر سوشل میڈیا پر جاری کی گئی۔بس پھر کیا تھا،آپ سوچ سکتے ہونگے ۔دور دور سے پرستار اُن سے ملنے لاہور کی جانب چل پڑے ۔نعمان شاہ کراچی سے بائی روڈ سخت سرد موسم اور دھند کے باوجود پہنچ گئے وہاں انہوں نے اینگن سے ملاقات کی تصویر بنوائی اور ترکی زبان میں پڑھے گئے اپنے ترانے کے اشعار بھی گا کر سنائے ۔کاشف ضمیر نے اپنے کاروباری معاہدے کے مطابق اینگن التان کو طے شدہ رقم کی منتقلی کی رسید فراہم کی اور ڈاکٹر فرقان حمید سمیت اُنکی ٹیم کو لاہور پی سی میں ٹھہرایا۔یہ بات حکمت پر مبنی تھی کہ کم ترین وقت میں ایک بڑی جامع پریس کانفرنس کرکے سب کو وقت دیا جائے ناکہ کسی کو یا سب کو الگ الگ انٹرویو دیا جائے ۔اس دورے کی اطلاع ملنے کے بعد ارتغرل کے شائقین کی فہرست میں سب سے فطری شائقین یعنی پاک فوج کا ہونا بھی معلوم ہوا۔پاکستان کے آرمی چیف نے بھی ترک مہمان سے ملاقات کے لیے دعوت دی اور باقاعدہ اپنے دفتر میں ملاقات کا شاندار انتظام بھی کیا لیکن شدید موسمی تغیرات ، دھندو بارش کی وجہ سے لاہور سے باہر کافوری ہوائی سفر ممکن نہیں ہو سکا۔لاہور میںہونے کی وجہ سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار و انکے اہل خانہ کے ساتھ اینگن کی ملاقات ضرور ہوئی ۔ ڈاکٹر فرقان کے مطابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بتایا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرح وہ اور اُن کے اہل خانہ بھی ارتغرل کے بڑے فین ہیں اور انتہائی شوق سے دیکھتے ہیں ۔ دورے کے آخری روزجب آرمی چیف سے ملاقات ممکن نہیں ہو سکی تو اینگن کو بادشاہی مسجد اور حکیم الامت علامہ اقبال علیہ رحمہ کے مزار کا دورہ کرایا گیا۔اس کے لیے مسجد و مزار کو خصوصی طور پر کھلوایاگیا۔اینگن نے بتایا کہ تمام ترکوں کے دلوں میں مولانا روم کی طرح علامہ اقبال بھی بستے ہیں اور ترکوں کو علامہ اقبال سے بے پناہ عقیدت و محبت ہے ۔ انہوں نے علامہ اقبال ؒکے مزار پر فاتحہ بھی پڑھی ۔اسکے بعد رات اُنکی بخیر وعافیت تری واپسی ہوئی ۔
یہ سب کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے رہے ۔ کہانی نے جب پلٹا کھایا جب ہمارے میڈیا کے چند نمائندوں کو اُس کے مختصر ترین دورے کے باوجود اینگن سے ملنے ، تصویر لینے یا انٹرویو کرنے کا موقع نہیں دیا گیا ۔یہ غصہ انہوں نے کاشف کو بدنام کرنے کے لیے بلکہ ساتھ ساتھپاکستان کو بھی بدنام کرنے کے لیے جھوٹی خبروں سے نکالا۔ اگلے ہی روز سے سوشل میڈیا پر کاشف کے خلاف جھوٹی خبروں، گرفتاری، جعل سازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔یہ سب خبریں ترکی بھی پہنچائی گئیں تاکہ اینگن ایک بار پھر معاہدہ ختم کر دے۔ اب معاملہ یہ تھا کہ لاکھوں ڈالرز کی رقم کو بیرون ملک منتقل ہونا تھا جس کا روٹ اسٹیٹ بینک سے تھا اسلیے رقم منتقلی میں تادم تحریر وقت لگا۔اب دلیل یہ سُنیں کہ کہا یہ جا رہا کہ ’ کیسے فراڈ کے کیسوں کو بھگتنے والا شخص ، ترکی کے مشہور اداکار کی میزبانی کر سکتا ہے ؟‘ اب یہ دلیل ہی کافی ہے ۔ اس کے بعد یہ خبر چلی کہ ’کاشف ضمیر کو لاہور پولیس نے نئے مقدمات بنا کرگرفتار کرلیا۔‘اس میں سارا زور NOC، پہلے سے بتانے، پہلے سے سیکورٹی نہ لینے جیسے بے تکے مواد پر مبنی بودے دلائل دے کر موضوع کو ہائپ دی گئی۔جس فراڈ کے کیسز کا یہ میڈیا گروپ و مفاد پرست صحافی و اینکرشور مچاتے رہے یقین کریں اس سے بڑے بڑے سند یافتہ ملکی چوروں کے ساتھ تصویر کھنچوانے ، اُنکے ساتھ انٹرویو کے لیے مرے جا رہے ہوتے ہیں ۔ اب تکلیف و مروڑ سب کو یہ ہے کہ کسی طرح کاشف کو نیچا دِکھا کرافسوس کا رونا رویا جائے کیونکہ اُس نے ہمیں اینگن سے ملنے کا موقع نہیں دیا۔حد تو یہ ہے کہ رپورٹروں و اینکروں کو کاشف کے والد کا یا کاروبار تک کا علم نہیں تھا اور اسٹوری ایسے بریک کرتے رہے جیسے کہ وہ بہت بڑے چیمپئن ہیں۔