’’امی دادا نے اتنی زور سے مجھے ڈانٹا ہے‘ وہ بالکل اچھے نہیں ہیں‘ میں اب ان سے بات نہیں کروں گا۔ ہر وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ہیں‘ اب وہ میری بال بھی واپس نہیں کر رہے۔‘‘ عادل زور زور سے رو رہا تھا۔
بیگم ثاقب اس کی بات سنتی رہیں پھر خاموشی سے اسے کمرے میں بھیج کر خود اپنے سسر محسن صاحب کے پاس جا پہنچیں‘ جہاں وہ اپنے ٹوٹی عینک کی کرچیاں سمیٹنے میں مصروف تھے۔ وہ انہیں دیکھتے ہی بغیر کسی لحاظ و مروت کے گویا ہوئیں’’ابا! بچوں سے پیار اور محبت سے بات کرتے ہیں۔ یہ کوئی آپ کے بچے نہیں کہ جیسے چاہا جب چاہا ہاتھ جڑ دیے۔‘‘ وہ سنائے جارہی تھیں۔
اس پر ابا بولے ’’بہو! میری بھی تو سن لو۔ ٹی وی لاونج میں کرکٹ کھیل ریا تھا۔ بال میری آنکھ پر جا کر لگی وہ تو اللہ کا شکر عینک سے آنکھ بچ گئی لیکن عینک ٹوٹ گئی۔‘‘
’’ارے اتنی سی بات کے لیے آپ نے اتنی بری طرح اسے ڈانٹا… اگر آپ کا اس گھر میں دل نہیں لگ رہا تو تھوڑے دن آپی کے ہاں سے ہو آیئے۔ بیٹی کے بچوں سے مل کر آپ کا دل ویسے ہی بہت خوش ہو جاتا ہے‘ عینک کا کیا ہے۔ لائیے مجھے دیجیے آج ہی ثاقب کو دے کر ٹھیک کروا دوں گی۔ ہم ابھی سے بچوں پر اتنی سختی کریں گے تو وہ ہم سے باغی ہوجائیں گے۔‘‘
اور محسن صاحب سوچنے لگے کہ میں نے تو اپنے چھ بچوں پر سختی بھی کی اور پیار بھی کیا۔ لیکن وہ اتنے بے باک نہیں جتنا ان کا یہ چھ سالہ عادل۔ وہ خاموشی سے بہو کو عادل کی بال دے کر کمرے سے نکل آئے۔
’’امی! دادی جان خواہ مخواہ مجھ پر ناراض ہو رہی ہیں۔ صبح سے ہر بات پر وہ بار بار مجھے نصیحتیں کررہی ہیں۔‘‘ 12 سالہ ارسلان امی کے کمرے میں جا کر زور زور سے بات کر رہا تھا۔
اس پر بیگم عاقل بولیں ’’پہلے تو آپ آرام سے بات کریں اور اس کے بعد بتایئے آپ نے کیا کیا تھا۔‘ `
ارسلان گویا ہوئے ’’امی میری فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی نا۔ دادی نے پوچھا تو میں نے کہہ دیا کہ میں نے دوسرے کمرے میں پڑھ لی تھی۔ پھر انہوں نے مجھ سے 600 والا کارڈ منگوایا اور 1000 کا نوٹ دیا۔ 400 روپے مجھ سے خرچ ہوگئے۔ میں کہہ بھی رہا ہوں کہ میں آپ کو دے دوں گا پھر بھی وہ غصہ ہو رہی ہیں۔‘‘
بیگم عاقل کے چہرے کا رنگ بدل گیا وہ بولیں’’ارسلان! تم نے تو آج گناہ کے کام کیے ہیں اور اپنی غلطی پر نادم ہونے کے بجائے غلطی کی نشاندہی کرنے والی ہستی ہی کو برا سمجھ رہے ہو۔ فوراً لاحول پڑھو اور مجھے بتاو وہ چار سو کہاں خرچ کیے؟دادی سے معافی مانگو۔ آج تو تم بری طرح شیطان کے نرغے میں آگئے ہوئے۔‘‘
ارسلان کو اپنی غلطی پر شرمندگی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ دادی کے کمرے میں گیا۔ وہ اس وقت نماز پڑھنے میں مشغول تھیں۔ دادی نماز سے فارغ ہوئیں تو ایک خط اور 400 روپے ان کے بستر پر رکھے تھے۔ خط میں ارسلان میاں اپنی حرکت پر بہت شرمندہ تھے اور گلک سے نکالے گئے چار سو روپے دے کر اپنے قصور کی معافی کے طلب گار تھے۔
دادی فوری سجدے میں گرگئیں‘ وہ بہت مطمئن تھیں کیوں کہ ان کی اولاد اپنی اولاد کی پرورش نیک خطوط پر کر رہی تھی۔
یہ دو کیس اسٹڈیز آپ کے سامنے رکھی گئی ہیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کے کیسے والدین بننا پسند کرتے ہیں۔ اولاد بڑی نعمت ہے۔ ماں نو ماہ کی مشقت‘ درد تکلیف اور سختیوں کے بعد جب بچے کو پیدا کرتی ہے تو پھر سب درد زائل ہو جاتے ہیں۔ بچے کی پیدائش کے بعد ماں باپ دونوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے۔ بچے کی خوراک، تعلیم‘ صحت اور محفوظ ماحول کی فراہمی ماں باپ کی اوّلین ترجیح ہوتے ہیں۔
عربی زبان میں بچہ کو ’’طفل‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’اطفال‘‘ ہے اور یہ معاشرے کے کم سن افراد ہیں جن کی عمریں مختلف ممالک میں ان کے قوانین کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ مثلاً بعض ممالک میں 16 سال تک اور بعض ممالک میں 18 سال تک طفل، چائلڈ یا بچے کہا جاتا ہے لیکن اسلام میں طفل کا تصور بلوغت تک ہے چاہے وہ 13 سال کا ہو یا 16 سال کا ’’بچہ‘‘ کہلاتا ہے۔
طفل کے زمانے میں جو کردار والدین گھر کے بزرگوں کے ذریعے بچے کے بناتے ہیں وہ ساری عمر بچے کے ساتھ رہتے ہیں۔ اللہ والدین کو حقیقی طور پر باکردار شخصیات کے ساتھ بچوں کی تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ بات بھی درست ہے کہ بعض بزرگ والدین بھی اپنی اولاد کے بچوں میں یعنی آپ کی اولاد اور آپ کے بھائی کی اولاد میں فرق رکھتے ہیں۔ کبھی آپ کے بچوں کو وہ حقوق نہیں مل رہے ہوتے جو ہم سوچتے ہیں۔ لیکن یہ باتیں ہمیں خود سے حل نہیں کرنی۔ آپ کو اس وجہ سے اپنے والدین کے حقوق میں ذرہّ برابر بھی کمی کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ کے والدین اپنے ہر عمل کے اپنے رب کے سامنے خود ذمے دارہیں۔ بس آپ اپنے فرائض ادا کر کے مطمئن ہوجایئے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں باز پرس ہو گی، حاکم ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے اس سے اس کی رعایا کے بارے میں یعنی بیوی بچوں کے بارے میں سوال ہو گا۔‘‘ (متفق علیہ)مغربی معاشروں میں خاندانی نظام کی زوال کے باوجود ان کی تقلید کرتے ہوئے ہم اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال کے بجائے انہیں بوجھ سمجھتے ہیں۔ ہم اتنے محتاط ہیں کہ ہم انہیں شیلٹر ہوم یا اولڈ ہوم میں تو نہیں بھیجتے لیکن گھر کے کسی کونے میںان بوڑھے والدین کے لیے خوب صورت سا کمرہ بنا کر اپنے تمام فرائض سے بری الذمہ ہوکر خوش ہوجاتے ہیں۔ گھر کے تمام بچے اس کمرے کے آس پاس بھی نہیں آنا چاہتے کیوں کہ وہ اپنے بڑوں کی اندھی تقلید کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خوش نصیب ہیں وہ گھرانے جہاں آج بھی بزرگوں کی خدمت کی جاتی ہے اور انہیں عزت و احترام دیا جاتا ہے۔ ان کو گھر کے ہونے والے تمام مشوروں میں شامل رکھا جاتاہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے دلوں میں بڑے بزرگوں کی محبت پیدا کریں۔ دم توڑتی روایات کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ رات کو سونے سے پہلے بچوں کو بزرگوں کے پاس بیٹھنے اور ان سے ان کی زندگی کے واقعات سننے کی ترغیب دلائیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو بڑوں کی باتوں پہ عمل کرنا سکھائیں۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فرماں بردار بندے حضرت ابراہیم ؑ کا ذکر کتنی بار کس اور قدر پیارے انداز میں اپنے محبوبؐ پر نازل ہونے والی کتاب میں کیا ہے۔ انہوں نے اپنی اولاد کو بھی اپنی طرح فرماں بردار بنایا۔ ایسی بیوی کا انتخاب کیا جو اپنی اولادکی بہترین پرورش کرے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ ایک پہاڑکے قریب پہنچے توحضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے کہا۔ جوبات آپؑ نے کہی اس کی گواہی اللہ پاک کی کتاب قرآن مجیدکاپارہ 23دیتاہے۔ترجمہ: ’’اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھاکہ تم کو اپنے ہاتھ سے ذبح کر رہا ہوں اب بتا تیری کیا رائے ہے؟‘‘ حضرت اسماعیل ؑ نے جواب دیا ’’ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے وہ پورا کیجیے‘ مجھے آپؑ ان شاء اللہ صبرکرنے والاپائیں گے۔‘‘ علامہ اقبالؒنے کیاخوب کہا۔
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی
صرف یہی نہیں کہ ان کی تربیت بہت احسن انداز میں کی تھی بلکہ حضرت حاجرہ ؓ نے اپنے کردار کی روشنی میں حضرت اسماعیلؓ کی ایسی تربیت کی اور اللہ کو ان کا یہ انداز اتنا پسند آیا کہ رہتی دنیا تک ان کا یہ کردار اللہ نے ہر ایمان والے کے دل میں محفوظ کر دیا۔
آج والدین اپنے بچوں کو دنیا کی تمام آسائش سے دیتے ہیں لیکن تربیت اور حسن اخلاق سکھانے میں سستی سے کام لیتے ہیں کیوں کہ اس کے لیے پہلے والدین کو اپنے اندر تبدیلی لانی پڑتی ہے۔
بچہ بڑے ہو کر اپنے والدین کا دہرا معیار اور بعض اوقات متشدد رویہ دیکھتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔ بلوغت کے بعد یا تو وہ گھر سے فرار میں عافیت محسوس کرتا ہے یا پھر خود کشی کی راہ اپناتا ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں خودکشی کے بارے میں سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعداد و شمار سرے سے موجود ہی نہیں ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں‘ یعنی تقریباً ہر گھنٹے ایک شخص اپنی جان لے رہا ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے 2012 میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق اس سال تقریباً 13 ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی جب کہ 2016 میں یہ تعداد پانچ ہزار کے قریب رہی۔ ڈبلیو ایچ او کی 2014 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر کے اپنی جان لیتے ہیں۔
بچوں کی بہتر تربیت اور احسن اسلوب پر کردار سازی کے لیے ضروری ہے کہ والدین خود پسندی کے خول سے باہر آ کر خود کو اس بچہ کی جگہ رکھ کر سوچیں۔ اس کی شخصیت سازی کریں، اسے اپنی تاریخ سے روشناس کروائیں، اسے خود پسندی کے خول سے باہر نکالیں۔ یاد رکھیے خود پسندی کی انتہا خود کشی ہے۔ اپنے بچوں کو قرآن سے متعارف کروایئے‘ حرام و حلال میں تمیز کرنا سیکھایئے ‘ سیرت کے مطالعہ خود بھی کیجیے اور بچوں کے سامنے بھی پڑھیے۔ حضرت لقمانؑ کی نصیحت بچوں کی تربیت میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس وقت کا ذکر کیجیے جب حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اے بیٹے! اللہ کا شریک نہ ٹھہرانا، بے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘ آگے حضرت لقمان نے فرمایا کہ ’’اے میرے بیٹے! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو (تو بھی اسے معمولی نہ سمجھنا، وہ عمل ) کسی پتھر میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا پھر زمین کے اندر (زمین کی تہہ میں چھپا ہوا ہو) اللہ تبارک وتعالیٰ اسے ظاہر کر دے گا، بے شک اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین و باخبر ہے، اے میرے بیٹے! نماز قائم کرو اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کرو اور برے کاموں سے منع کیا کرو اور جو کچھ پیش آئے اس پر صبر کیا کرو۔ بے شک یہ (صبر) ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے بے رخی مت اپنائو اور زمین پر تکبر سے مت چلو (کیوں کہ) بے شک اللہ تعالیٰ کسی متکبر کو پسند نہیں فرماتے اور اپنی چال میں میانہ روی اختیا رکرواور اپنی آواز کو پست رکھو، بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔‘‘ (سورۃ لقمان،آیت نمبر12 ‘ 16 تا 19 )
بچوں کی شخصیت کا احترام بھی ضروری ہے۔ بہت کم لوگ اپنے بچوں کی شخصیت کا احترام کرتے ہیں۔ جاہل تو جاہل اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس وصف سے محروم ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ بچوں کی ہتک کرتے ہیں، انھیں گالیاں دیتے ہیں، ڈانٹتے ڈپٹتے ہیں جھڑکتے رہتے ہیں، بات بات پر ٹوکتے رہتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات میں عیب نکالتے رہتے ہیں۔ انھیں نکما، نالائق، کام چور، بے وقوف کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ لعن طعن بچے کی شخصیت پر نہایت بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ اس قسم کے رویے سے بعض اوقات بچے کے دل میں والدین اور اس شخص کے خلاف ایسی گہری نفرت پیدا ہوجاتی ہے کہ آخر عمر تک دور نہیں ہوسکتی۔بچوں کی عزت کیجیے تاکہ وہ عزت کرنا سیکھیں۔