اخبارات میں پڑھی جانے والی چند خبریں ایسی ہیں جو کئی سال گزرنے کے باوجود میرے ذہن سے نکلتی نہیں۔ آج بھی وہ واقعات کی صورت میں کوئی دہراتا ہے تو میرے اعصاب شل ہونے لگتے ہیں۔ انسانوں کی حیوانیت پر دل کڑھتا ہے۔ قیامت کا وقت اللہ علیم و خبیر ہی جانتا ہے، مگر اخلاقی زوال تو ہم کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک دردناک خبر پڑھی تھی تقریباً سات سال پہلے جب نارتھ کراچی کے رہائشی ایک نوجوان نے خودکشی کرلی تھی، کیوں کہ وہ بینک سے لیا گیا سودی قرض کسی طور واپس دینے سے قاصر تھا۔ جس کاروبار کے لیے قرضہ لیا تھا وہ کاروبار چل ہی نہ سکا۔ سود در سود قرضے کے حجم میں اضافے اور بینک کے ریکوری افسران کے دھمکی آمیز رویّے سے خوف زدہ نوجوان اپنی جان سے کھیل گیا، مگر پورے معاشرے کی اخلاقی پستی کو نمایاں کرگیا۔ سودخوری کی بے حساب نحوستوں کو عیاں کرگیا۔
اس کے مجرم ریکوری افسران اور بینک ہی نہیں بلکہ یہ پورا سودی نظام معیشت ہے جو عالمی سامراجی ایجنڈے کے تحت پوری دنیا پر مسلط ہے۔ لیکن مسلم خطوں میں اس نظام پر اطمینان کیوں اختیار کرلیا گیا ہے؟ ہم پوری دنیا کے مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی عزت و ناموس کے لیے جان قربان کرنے کے دعوے لیے پھرتے ہیں، مگر جس قبیح عمل کو اللہ اور رسولؐ سے جنگ کا مؤجب قرار دیا گیا اُس پر ہمارا اطمینان ہمارے دعووں کی ازخود نفی کررہا ہے۔
آج کفار اپنے ملکوں میں پیارے نبی محمدؐ کی ذاتِ اقدس پر رکیک حملے کرتے ہیں تو ہم آگ بگولا ہوجاتے ہیں۔ مگر عالمِ کفر کی تقلید میں سودی نظامِ معیشت اپناکر اور دشمنوں کی صف میں کھڑے ہونے پر مطمئن کیسے ہیں؟ کبھی ذہن وسیع کرکے مشاہدہ تو کریں سود کی نحوستوں کا۔ معاشرے میں لالچ، خودغرضی، مفاد پرستی، کنجوسی، حسد، ناانصافی پر مبنی پالیسیوں نے تباہ کن اثرات ڈالے ہیں۔ ہمدردی اور انکسار، ایک دوسرے کی مدد اور انفاق فی سبیل اللہ کا جذبہ خواب ہوتا جا رہا ہے۔ حلال و حرام کی تفریق تو دُور، اب تو دوسرے کے مال پر ہاتھ صاف کرنے پر بھی فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
عالمی سطح پر جو ابلیسی سوچ اس سودی نظام کا محرک تھی وہ اب ہر طبقے کے افراد پر اثرانداز ہوچکی ہے۔ مطلب پرستی اور سودی بینکاری کا شکار لوگوں میں اشتعال بڑھتا جارہا ہے، اسی لیے مجرمانہ اور انتقامی سوچ بڑھ رہی ہے۔ جب ایک فرد اس حد تک پریشان ہوجائے کہ اپنی زندگی کا ہی خاتمہ کرلے تو فکر کا مقام ہے کہ یہ ذہنیت ایک آتش فشاں ہی تیار کررہی ہے جو کسی بھی وقت تباہی پھیر سکتا ہے۔
پاکستانی معیشت میں جس رفتار سے شرح سود بڑھی ہے اس سے دگنی رفتار سے معاشی زوال بڑھا ہے۔ اب بھی کووڈ 19 کی وجہ سے دنیا بھر کی گرتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے جب پوری دنیا کے معاشی مگرمچھوں نے وقتی طور پر شرح سود صفر کردی ہے، ہمارے ملک میں آج بھی سات سے آٹھ فیصد شرح سود برقرار ہے۔
سود جیسا غیر فطری عمل کبھی ترقی و خوش حالی کا ضامن ہو ہی نہیں سکتا۔ کب یہ حقیقت مقتدر طبقے سمجھ سکیں گے‘ نہیں معلوم۔ مگر پاکستانی قوم یہ مطالبہ اپنے تمام مطالبات میں سر فہرست رکھے کہ ہمیں مملکتِ پاکستان میں سود قبول نہیں… قطعی نہیں۔