منصوبہ

227

(دوسرا اور آخری حصہ)

فوراً ہی دروازہ کھل گیا اور ان کی چمکتی صورت نظر آئی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی انہوںنے گردن اکڑا لی اور جیب میں سے اپنا بد رنگا موبائل نکال کر فوراً کان سے لگا لیا اور ایسے باتیں کرنے لگے جیسے صدر صاحب نے انہیں اپنا عہدہ پیش کر دیا ہو۔’’تم بیٹھو افنان‘ میری بڑی ضروری کال آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’میں بیٹھنے نہیں آیا ایک چھوٹا سا کام ہے۔‘‘
’’بولو۔‘‘ پانچ منٹ بعد انہوں نے موبائل جیب میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو ہر دو‘ دو منٹ کے بعد اس نمبر پرمس کال دینی ہے۔‘‘ میں نے انہیں جبران بھائی کا نمبر بتاتے ہوئے کہا۔
’’بس ایک دو گھنٹی کے بعد بند کردیں۔ تھوڑی دیر بعد پھر ملانا ہے‘ کافی دیر تک آپ یہی کریں گے۔‘‘ میں نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر ان کی جیب میں ٹھونستے ہوئے کہا۔
جیلانی انکل مارے خوشی کے روہانسے ہو گئے۔ انہوں نے ایسا کرنے کی وجہ تک نہ پوچھی۔ خوشی سے سر ہلانے لگے۔
میں ایک گھنے درخت کی شاخوں میں بیٹھا تھا۔ سامنے میچ ہو رہا تھا۔ جبران بھائی زبردست بولنگ کرا رہے تھے کہ ان کا موبائل بجنا شروع ہوا۔ ان کی توجہ گھنٹی کی طرف ہوئی گیند ذرا ترچھی ہوگئی۔ زبردست چوکا پڑا۔ اس سے قبل وہ موبائل نکال کر کان سے لگاتے‘ وہ بند ہو چکا تھا۔ جبران بھائی کا پورا اوور ایسے ہی گزر گیا۔
’’یہ کون پاگل فون کر رہا ہے؟‘‘ موبائل پر نیا نمبر دیکھ کر ان کا موڈ سخت خراب ہو گیا۔ گھنٹیوں کا یہ سلسلہ کچھ دیر جار رہا تو انہوں نے جیب سے اپنا موبائل نکال کر سامنے گھاس پر ڈال دیا۔ میں دور سے جبران بھائی کا منہ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔
اب ان کی بیٹنگ شروع ہو چکی تھی۔ وہ بڑی شاندار بیٹنگ کرتے تھے۔ اب میں نے سائنس کی ایک دوسری ایجاد آزمائی۔ عین اُسی وقت جب جبران بھائی کی ٹیم میچ جیتنے کے قریب تھی‘ میں نے جیب سے ایک چھوٹا سا بم نکال کر عین پچ پر اچھال دیا۔ زخمی تو کوئی نہ ہوا البتہ بھگدڑ ضرور مچ گئی۔ میں پرسکون طریقے سے درخت سے اترا اور گھر چلا آیا۔
ہم دونوں اونچی اونچی آواز میں لڑ رہے تھے کہ ابو جان وہاں چلے آئے۔ جبران بھائی غصے میں تھے۔
’’میں سب سمجھتا ہوں وہ کالوں کا آنا‘ وہ بم‘ وہ بھگدڑ کا مچنا۔ سب تمہارا کیا دھرا ہے۔‘‘ وہ غصے میں کہہ رہے تھے۔
اسی وقت دادا جان بھی آتے دکھائی دیے۔ ذرا دیر انہوں نے ہماری بحث سنی تو مسکرانے لگے۔
’’بیٹھو بیٹھو۔‘‘ انہوں نے ابو جان کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ہم کو بھی دادا جان نے ابو جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:
’’تم کو پتا ہے سلمان! ہوا کیا تھا جبران یہ ثابت کر رہا تھا کہ سائنس کے بہت فوائد ہیں اور ہم سائنس کے بغیر جی نہیں سکتے جب کہ افنان یہ ثابت کر رہا تھا کہ سائنس کے کیا کیا نقصانات ہیں۔ جبران نے ثابت کر دیا کہ ہم نے اس دور میں ٹی وی‘ فرج‘ پنکھا‘ لائٹ‘ موبائل کو اپنے اوپر اس قدر لازم کر لیا ہے کہ ہم ایک لمحے بھی ان سب کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ درست ہے کہ سائنس کے بے شمار فوائد ہیں‘ ہم سائنس کی افادیت سے انکار کر ہی نہیں سکتے۔ مگر ہر چیز کے فوائد کے ساتھ اس کے نقصانات بھی ہیں۔ ان سے بھی بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا۔ موبائل کے بے شمار فوائد کے ساتھ آج کل اس کا بڑا غلط استعمال بھی ہو رہا ہے۔ یہی حال کیبل کا ہے۔ نوجوان نسل اس سے بگڑ رہی ہے اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہی ہے اور پھر یہ دور تو ایٹم بم کا دور ہے۔ سیکنڈوں میں تباہی ہی تباہی‘ بربادی ہی برباد۔‘‘ دادا جان خاموش ہوگئے۔
’’اس کا مطلب ہے ہم دونوں کے پوائنٹس برابر رہے۔‘‘ میں مسکرایا۔
’’لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ سائنس کو نہ پڑھا جائے اور صفر نمبر لے کر فیل ہواجائے۔‘‘ جبران بھائی بولے اور میں جھینپ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔

حصہ