گالیوں کی سیاست اور سوشل میڈیا

536

گالیوں کا انسانی تہذیب یا ابلاغی کلچر سے پرانا و گہرا تعلق ہے۔ سچ میں۔غلط مت سمجھیے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے اپنے جذبات کے اظہار لیے باڈی لینگویج کے ساتھ زبان کا بھی خوب استعمال کیا ہے۔
آپ نے ضرور یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ دنیا کی ہر زبان میں ہر خطے میں گالیاں ایک ہی جیسے معنی و مفہوم پر مبنی ہوتی ہیں۔(گو کہ بہت ساری گالیوں کا کوئی مطلب نہیں ہوتا)
البتہ وہ الفاظ جو خاص حرکت یا صفت کی وجہ سے منسوب کیے جاتے ہیں جیسے ذلیل، کمینہ، مردود بس۔۔
اس سے آگے فوراً کچھ جانوروں کے نام آجاتے ہیں جو بطور گالی ہی استعمال ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر تو دو جانوروں کے نام ہی بطور گالی استعمال ہوتے ہیں اور وہ بھی خاندان سمیت مطلب جیسے کتے کے بچے۔ کتےکی بچی یہی نہیں براہ راست کہنا ہوتو “کتیا“ کا بھی عام استعمال ہے۔
اب یوں جان لیں کہ ایک گالی تو وہ ہے جو انسان کسی خاص حالت جیسے غصہ میں دیتا ہے یا کسی بات پر ناراض ہونے پر دوسرے کو کسی ایسے لفظ سے پکارتا ہے جس سے وہ شخص اپنی غلطی کی اصلاح کے بجائے شدید توہین یا حقارت محسوس کرےیا اپنی سزا جان لے۔غصہ کے بعد لڑائی شروع ہوتی ہے، میں نے اکثر یہی دیکھا ہے کہ اسکے پیچھے یعنی لڑائی کے پیچھے گالی ہی موجود ہوتی ہے کیونکہ پہلی غلط حرکت کے جواب میں دوسرا گالی دیکر مخاطب کرتا ہے جسے فریق دوم شدید برہم ہو کر گالی دینے کے جواب میں گالی کا استعمال اگر کر دیتا ہے تو بات پھر آگے چل نکلتی ہے اور وجہ برہمی یا تنازعہ بہت بعد میں۔ صلح صفائی کے بعد یاد دلایا جاتا ہے۔یہ واقعات سڑکوں پر بہت دیکھے ہیں۔
تو گالی کی دوسری کیفیت انتہائی عامیانہ اور فقط جہالت کی مثال ہے اسے ہم تکیہ کلام کی مانند بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسے افراد جو خوشی غمی سمیت عمومی حالت گفتگو میں بھی بلاوجہ چسکا لگانے کی خاطر اپنی زبان سے گالیوں کی برسات کو اپنی مادری زبان ہی سمجھتے ہیں۔ یہ شکل سب سے بدترین اور سمجھ نہ سنے والی ہوتی ہے۔ یہ افراد جگہ کا، وقت کا، جنس کا،یاکسی بڑے چھوٹے کا بھی کوئی لحاظ نہیں کرتے ہیں کیونکہ انکو پتہ ہی نہیں چلتا وہ کیا کچھ کہہ جاتے ہیں۔اچھا یہ صرف مردوں میں نہیں بلکہ خواتین میں بھی پایا جاتا ہے۔
اس کو مزید تقویت بھارتی ویب چینلز اور کئی فلموں نے ’ریئیلٹی‘ کے نام پر بھی دی ہے۔ حالیہ چند سال بلکہ دو سال میں ہی جتنی مشہور بھارتی کرائم سیریل ویب پر ریلیز کی گئیں وہ عالمی سطح پر پھیلے ناظرین میں گالی کو بطور زبان کا حصہ متعارف کروانے کا مظہر رہیں۔مطلب جیسے ہمیں پڑھایا جاتا کہ اردو گرائمر میں جملہ سازی کے بنیادی قوائد میں اسم، ضمیر، فعل، حرف وغیرہ شامل ہیں اسی طرح گالی بھی شامل ہے۔
یہ جو دکانوں پر چھوٹے معصوم بچوں کو کام پر لگایا جاتا ہے آپ کچھ دیر کسی مکینک، درزی یا کسی دکان پر کھڑے ہوکر خود مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ ان معصوم بچوں کو وہ دکان پر ملازمت کے گھنٹے کاریگری کے علاوہ کیا کچھ سکھاتے ہیں؟
اس ہفتہ پاکستان میں ٹوئٹر کے ٹاپ ٹرینڈز کے کالم میں رائیونڈ، پاکپتن اور زمان پارک کے نام سے ایسے ہیش ٹیگز ٹرینڈ کرتے رہے ، جن میں گالی جیسی فحش زبان استعمال کی جاتی رہی۔
مطلب الفاظ تو وہ تھے جو ہر اردو لغت میں موجود ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ وہ ایک ایسے پیشہ کا نام ہیں جو برصغیر کی تاریخ میں ایک عام اردو کا لفظ ہی تھا۔
یہ ضرور ہوا کہ گزرتے وقت کے ساتھ اب اسی کام کے عنوانات نئے کر دیئے گئے مثلاً ماڈل گرل، اداکارہ، آرٹسٹ، ڈانسر، گلوکارہ وغیرہ
لیکن ظاہر سی بات ہے کہ وہ تمام کام مسلم معاشرے میں بھی معیوب تھے اور ہندو سماج میں بھی تاحال معیوب سمجھے جاتے ہیں۔
اب اگر اسی پیشہ سے جوڑ کر ٹوئٹر ٹرینڈز کے ذریعے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور سابق وزیر اعظم نوازشریف کی بیٹی مریم صفدر کو نشانہ بنایا جائیگا تو وہ بھی ہر اعتبار سے غلط اور برا فعل ہوگا۔
بات یہاں ختم نہ ہوئی بلکہ ساتھ ساتھ ان ہیش ٹیگز کے ساتھ خواتین سیاستدانوں سے لے کر خواتین صحافیوں کی کردار کشی بھی کی جاتی رہی۔ پاکستان میں یہ ٹوئٹر ٹرینڈز چلانے کا الزام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر عائد کر رہی ہیں۔
جماعت اسلامی پاکستان کی ایک اہم سیاسی جماعت ہے۔ اس صورتحال پر امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے بھی بتشویش کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ۔”‏آج ٹوئٹر ٹرینڈز میں گالیوں کا مقابلہ کیا جا رہا ہے۔ نئی نسل کو شیطانی کلچر میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ گالی دینا اور ایک دوسرے کی ماؤں بہنوں بیٹوں کو یوں رسوا کرنا کسی غیرت مند انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔ ہم نے اس کلچر سے لوگوں کو نجات دلانی ہے۔“
اظہر اقبال حسن لکھتے ہیں کہآج پارلیمنٹ کی 3 بڑی پارٹیوں کی ٹویٹر پر جو گندگی بھری مکالمے بازی دیکھی ہے۔ اس سے اللہ کی پناہ۔
یہ ہے ان پارٹیوں کا اصلی خمیر۔
کیا کسی پارٹی میں جرات ہے کہ اپنے کارکنوں کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کرے ؟؟ وہ ایسا نہیں کریں گے۔
اور اگر حکومت چاہے تو ان گندے لوگوں کو فورا” گرفتار کر سکتی ہے۔
مگر وہ ایسا نہیں کرے گی۔ اس لیے کہ یہ گندگی پھیلانا ہی ان کا کلچر ہے اور وہ اس کو پروموٹ بھی کر رہے ہیں۔
یہ پہلی بار نہیں ہو رہا اس سے پہلے بھی تواتر سے یہ سلسلہ کسی نہ کسی بہانے جاری ہے اور ہماری ذہنی پستی کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جب بات کے لیے دلیل نہیں گالی استعمال کی جائے۔
اس ضمن میں پرانی سہی مگراہم بات یہ کہ اس سے قبل امیر عزیمت علامہ خادم حسین رضوی علیہ رحمہ کی تقاریر میں گالیاں استعمال کرنے کا شوشہ چھوڑ کر ان پر بہت بات ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ ایک خاص طبقہ نے پین دی سری بھی کہنا شروع کر دیا جبکہ یہ الفاظ کسی طور بھی گالی کے یا کسی معیوب بات کا دائرے میں نہیں۔ اب اس میں جو صریح غلطی لوگوں سے ہوئی وہ یہ کہ اپنی کم علمی کی وجہ سے انہوں نے علامہ خادم جیسی قدآور علمی شخصیت کو مذاق بناکر علماء کرام کی تضحیک اور ان کی اہم ترین باتوں کو بھی پس پشت ڈالنے کی کوشش کی۔ پاکستان کے سینئر و نامور صحافی سہیل وڑائچ نے اپنے جیو کے معروف پروگرام ایک دن جیو کے ساتھ میں ان سے سخت الفاظ والا سوال ہمت کرکے پوچھ ہی لیا، انہوں نے بہت واضح الفاظ میں حضرت ابو قتادہ رض کا میدان احد والا مستند واقعہ بیان کیا جس میں انہوں نے مشرکین مکہ کے خلاف ایسے سخت جملے کہے کہ مولانا خادم فرماتے ہیں کہ کتاب وہیں رکھی ہے اگر میں وہ بتا دوں تو آپ نشر نہیں کر سکیں گے، اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔وہ صحابی رسول فرماتے ہیں کہ مجھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا خون مبارک دیکھ کر اتنا غصہ آچکا تھا کہ مجھے ہوش نہیں تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسری بار پکارنے پر بیٹھا۔انہوں نے فرمایا کہ حضور میرا یہ غصہ یہ جا و جلال صرف اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہیں۔ یہ دلیل سننے کے باوجود میزبان نے مزید سوال کیا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ گالی دینا جائز ہے تو انہوں نے وضاحت کی کہ نہیں صرف اللہ و اسکے رسول کی خاطر اس پر جو مفصل گفتگو علامہ صاحب نے کہ وہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ گالی دینے کے لیے نہیں بلکہ ناموس رسالت کی خاطر جذبات کے اظہار کے لیے۔ انہوں نے سیاست دانوں کی مثال دیتے ہوئے دانیال عزیز اور امین الحق کے تھپڑ والی مثال بھی دی کہ جب ہم اپنے لیڈر کے بارے میں ایک لفظ نہ برداشت کر سکیں اور تھپڑ لگا دیں وہاں۔ گستاخان رسول و انکے حامیوں کوسخت الفاظ کہہ دینے پر کیوں تلملا اٹھتے ہیں۔
اس صورتحال کے تناظر میں تحریک لبیک نے بھی سفیر کی واپسی کے وعدے کو جب ٹوئٹر پر #تاویلیں نہیں سفیر نکالو کا ٹرینڈ بنا کراسی روز یاد دلایا تو انتہائی عجیب افسوسناک
رد عمل سامنے آیا۔ویسے یہ بات بھی علامہ صاحب کے انتقال کے بعد سے نوٹ کی گئی کہ علامہ صاحب کی تصویر یا ویڈیو لگانے پر فیس بک و ٹوئٹر کسی کو تنبیہات، کسی کے اکاؤنٹ بند کیے جا رہے تھے۔ عجیب بات یوں کہ ایسا برہان وانی کیس میں آج بھی ہو رہا ہے ۔ اب بھلا بتاؤ کہ برہان وانی ہو یا علامہ خادم دونوں دنیا سے جا چکے لیکن ان کے نام لیواؤں سے اتنا خوف کہ آپ انکو دہشتگرد قرار دیکر ان کی بات بھی برداشت نہ کرو۔
“‏‎#تاویلیںنہیںسفیرنکالو حکومت نے ٹی ایل پی کے سارے آفیشل اکاؤنٹ بلاک کر دیے لیکن گالیاں دینے والوں کے لیے کھلی چھوٹ ہے۔ حکومت، اپوزیشن نظریاتی طور پر ایک ہیں۔ تحریک لبیک نظریہ پاکستان کو سینے سے لگائے کھڑی ہے۔ بیس لاکھ شہداء کے خون کی حرمت و تقدس کی امین ہے۔
اسی طرح بلاک کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے انکو یہ کہنا پڑا کہ ”
‏اداروں کی جانب سے اس بات کو واضح کردیا گیا ہے سوشل میڈیا پر گالیاں تو ٹرینڈ بن سکتی ہیں انکے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاسکتا،
لیکن سرکاری سطح پر فرانس کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف تحریک لبیک سے کیے گئے معاہدے کو ٹرینڈ کی شکل دینا جرم ہے!“
دوسری جانب گالیوں کے ٹرینڈز کے ذیل میں پرانی جلسوں و اجتماعات میں بھی جانے والی مغلظات کے کلپس بھی شیئر ہوتے رہے۔ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ “‏کتنا بڑا المیہ ہے کہ جنہوں نے ‎ٹینک چلانے تھے.وہ ‎غلیلظ ٹرینڈ چلا رہے ہیں اور جنہوں نے دشمن کی جان نکالنی تھی وہ اپنوں کو گالیاں نکال رہے ہیں.“
یورپی یونین کی جانب سے ترکی پر مختلف پابندیوں کی میعاد میں سو سال مکمل ہونے کے بعد اس میں اضافے کی سفارشات کے خلاف بھی پاکستان نے ہیش ٹیگ کو ٹرینڈ بنایا۔
یورپی یونین کے اس اقدام کے پیچھے فرانس کا ہی ہاتھ ہے۔
طیب ایردوگان کے بیان کے بعد سے جاری تناؤ میں ہی فرانس نے یورپی یونین کو ترکی پر حملہ کرنے سمیت پابندیاں لگانے کامشورہ دیا تھا۔ فرانس کو ترکی کے گیس پروجیکٹ سے بھی شدید تکالیف ہیں جسکی وجہ سے ترکی بڑی معاشی طاقت بن سکتا ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ترکی بہتر طور پر جانتا ہے کہ اسے سمجھوتہ کرنا ہے یا پھر مقابلہ کرنا ہے۔ ترکی کی معیشت کو چوٹ پہنچانے کے لیے ترکی کی ہائیڈروکاربن ایکسپلوریشن کو کم کر دیا جائےگا،شپنگ پر پابندی عائد کر دی جائے گی جبکہ بینکنگ اور انرجی کے شعبے میں پابندیاں عائد کی جائیں گی۔
جبکہ سفارشات کو سخت کرتے ہوئے ترکی کی یورپی یونین کے ساتھ تجارت کو بھی بین کیا جا سکتا ہے۔اصل میں ان سب پابندیوں اور ترکی کے خلاف فرانس کی اس قدر سرگرم مہم سائپرس کے جزیرے سے گیس نکالنا نہیں بلکہ ناموس رسالتؐ کے حوالے سے فرانسیسی پراڈکٹس کا بائیکاٹ ہے جس پر ترکی نے سختی سے عمل کیا ہوا ہے اور اس سے فرانس کی معیشت کو ڈھیروں نقصان پہنچا ہے لہٰذا اب وہ بدلے میں ترکی کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔

حصہ