پیپلزپارٹی کی سیاست اور کراچی کا مقدمہ

388

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ کراچی قیام پاکستان کے بعد سے 1960ء تک، اور پھر 2001ء سے 2005ء تک تیزی سے ترقی کرکے دنیا کا ساتواں بڑا اور خوب صورت شہر قرار پایا۔ یہ شہر اب گزشتہ 15 سال سے اسی تیزی سے تنزلی کا شکار ہے۔ لیکن ایسے حالات میں بھی اس شہر کی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ماضی کی طرح اب بھی کراچی کا احساس کرنے والے لوگ، شہر کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھانے والی شخصیات نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے جدوجہد بھی کررہی ہیں۔ ان میں جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا نام اہم اور قابلِ ذکر ہے۔
کراچی کی ترقی اور کراچی کا مقدمہ لڑنے کے لیے انجینئر حافظ نعیم الرحمن جس طرح سرگرم ہیں، وہ مثالی ہے۔ وہ کراچی کے رہنے والے نوجوانوں کا مقدمہ لڑ رہے ہیں،اور انہیں ان کے حق کے مطابق روزگار دلانے کے لیے جس طرح کوششیں کررہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔ حال ہی میں انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے جونیئر ایلیمنٹری اسکول کی اسامیوں کے لیے شائع کرائے گئے اشتہار کی نشاندہی کرتے ہوئے کراچی کے رہنے والے نوجوانوں کا حق مارنے پر احتجاج کیا۔ اپنے ایک بیان میں امیر جماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ سندھ حکومت کی جانب سے جونیئر ایلیمنٹری اسکول ٹیچرز کی اسامیوں کے حوالے سے 6 ہزار اسامیوں میں سے کراچی کے 6 اضلاع کے لیے صرف343 اسامیاں شہریوں کے ساتھ بدترین زیادتی ہے۔
اشتہار کے مطابق 6ہزار اسامیاں سوائے کراچی کے، صوبے کے دیگر اضلاع سے پُر کی جائیں گی جوکہ کراچی کے شہریوں کے ساتھ ظلم و زیادتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی طویل عرصے سے کراچی کے شہریوں کے ساتھ اسی طرح سے تعصب کا مظاہرہ کررہی ہے، لوگوں میں جان بوجھ کر احساسِ محرومی پیدا کیا جارہا ہے، وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت نے کوٹا سسٹم غیر معینہ مدت کے لیے بڑھا دیا، اور سندھ میں پیپلزپارٹی سرکاری ملازمتوں میں کراچی کے شہریوں کے ساتھ مسلسل زیادتی کررہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ 6ہزار میں سے کراچی کے لیے 343 اسامیوں کی سیاسی بندر بانٹ کی جائے گی اور جعلی ڈومیسائل بنیں گے، اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ زیادتی ختم ہونی چاہیے، کراچی کے شہریوں کو ملازمتوں میں ان کا حق ملنا چاہیے تاکہ شہری عوام میں تعصبات پروان نہ چڑھیں، محرومیاں پیدا نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی کا نصف ہے، سندھ کی آبادی کو صحیح گن لیا جائے تو 6کروڑ 30 لاکھ بنتی ہے جس میں سے صرف کراچی کی آبادی 3 کروڑ ہے، اس کے باوجود اس شہرکے نوجوانوں کو گنتی کی چند ملازمتیں دینا سراسر ظلم ہے۔
حافظ نعیم الرحمن کا سندھی اور غیر سندھی حکمرانوں کے خلاف اس ردعمل کا اظہار نہ صرف بروقت بلکہ ناگزیر بھی ہے اور کراچی اور کراچی کے حقیقی شہریوں کے ساتھ محبت اور خلوص کا کھلا اظہار بھی ہے۔ کراچی کے لوگوں کو ان کا حق دلانے کے نام پر مسلسل 32 سال تک سیاست کرنے والی ایم کیو ایم کو آئینہ دکھانے کے لیے بھی حافظ نعیم الرحمن کا یہ بیان بہت اہم تھا۔ مگر شاید اس بیان سے ان پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیوں کہ ان کا اصل مقصد کل بھی سیاست کی آڑ میں مفادات حاصل کرنے اور سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
رہی بات سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی، تو اُس نے تو کبھی بھی کراچی اور کراچی کے لوگوں کے حقوق کے بارے سوچا تک نہیں، کیوں کہ اس شہر سے تعلق رکھنے والے مفاد پرست لوگ بغیر سوچے سمجھے پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے کراچی کے ساتھ ظلم و زیادتی اور تعصب کا اظہار کرتے ہوئے کل بھی اپنا گڑھ کہلانے والے لیاری کو نظرانداز کیا تھا اور آج بھی کررہی ہے۔ تاہم لیاری کے باشعور لوگوں نے اس علاقے سے جماعت اسلامی کے نوجوان رہنما سید عبدالرشید کو ایم پی اے منتخب کرکے دانش مندی کا اظہار کیا جس کے نتیجے میں اس علاقے کے مسائل حل ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
پیپلز پارٹی کراچی ہی کیا، پورے سندھ اور ملک میں اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کے باوجود اپنی مفاد پرستانہ سیاسی پالیسی کو بدلنے کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ اس پارٹی کے اصل لیڈر اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری مفادات کی سیاست کرتے کرتے بیمار اور بوڑھے ہوچکے ہیں، جب کہ چیئرمین بلاول زرداری موقع ملنے کے باوجود نہ سیاسی تربیت حاصل کررہے ہیں اور نہ ہی سیاست کو سمجھ پارہے ہیں۔
’’یوم ِسندھی کلچر‘‘ کے موقع پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری کا کہنا تھا کہ یومِ ثقافتِ سندھ ہم آہنگی و بھائی چارے کا پیغام ہے… مختلف ثقافتوں، مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگوں کو رواداری و امن کے ساتھ جینے کا حق دینے کا اظہارہے۔ یہ بیان جاری کرتے ہوئے شاید بلاول زرداری یہ بھول گئے تھے کہ سندھ میں اُن کی حکومت کا کراچی والوں کے ساتھ جو رویہ ہے وہ نہ سندھی تہذیب کا عکاس ہے اور نہ ہی مختلف ثقافتوں، مذاہب اور رنگ و نسل کے لوگوں کو رواداری و امن کے ساتھ جینے کا حق دینے کا اظہار ہے۔ ان کی حکومت تو سندھ خصوصاً کراچی میں تعصب اور نفرتوں کو پروان چڑھا کر صرف لسانی اور مفاداتی سیاست کو فروغ دے رہی ہے۔

حصہ