ناصر حسن انصاری بھی رخصت ہوئے

433

ناصرانصاری بھائی اچانک رخصت ہوگئے اور دل و دماغ کو جھنجھوڑ گئے۔ بہت دن سے سوچ رہا ہوں کہ اس حوالے سے کچھ لکھوں، مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ بات شروع کہاں سے کی جائے! ان کے ساتھ تعلق کے مختلف حوالے رہے… مختلف نوعیتیں… کبھی نشیب اور کبھی فراز… تعارف تو شاید 1990ء کی دہائی کے آخر میں ہوا، لیکن باقاعدہ ربط ضبط اُس وقت ہوا جب 2001ء میں ان کی یوسی نظامت کی مہم چلائی۔ ان کے ساتھ پینل میں ہماری والدہ بھی کونسلر کی امیدوار تھیں، اور خواتین کی مخصوص نشست پر الیکشن لڑنے کے بجائے جنرل نشست پر امیدوار تھیں، اور بڑی تعداد میں ووٹ لے کر منتخب ہوئی تھیں، جس پر ناصر بھائی نے ایک موقع پر یہ تبصرہ کیا کہ ’’بھابھی نے مردانہ وار مقابلہ کرکے الیکشن جیتا ہے۔‘‘ والدِ محترم مرزا لقمان بیگ شہید کے ساتھ ان کا ایک خصوصی تعلق تھا، بلکہ یہ کہا جائے کہ لقمان بیگ ان کے پیر اور ناصر بھائی ان کے مرید تھے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ وہ بڑے فخر سے اس بات کا بار بار ذکر کرتے تھے کہ ایک بار جب کسی مخالف کی جانب سے انہیں نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی اور یہ بات لقمان بھائی کے علم میں آئی تو وہ خاصے جذباتی ہوکر ان کے گھر پہنچے اور مخالفین کو ضرورت سے زیادہ سخت ردعمل دیا، جو کہ ان کے ٹھنڈے مزاج سے بالکل میل نہیںکھاتا تھا۔ یہ ذکر بھی ناصر بھائی سے کئی بار سنا۔ اس موقع پر یہ بھی ذکر کردوں کہ ناصر بھائی جب بھی لقمان بھائی کہتے تو تلفظ کی کوتاہی کہیں یا لہجہ ایسا تھاکہ ’’ق‘‘ کی جگہ ’’ک‘‘ محسوس ہوتا۔ ان کا مخصوص لہجہ اور اس میں گندھی محبت ذہن پر نقش ہے۔ بیسیوں بار خود بتایا کہ ہر عید پرلقمان بھائی سے ملنے آتا اور کہتا کہ اس غلط فہمی میں نہ رہیے گا کہ آپ سے ملنے آتا ہوں، میں تو آپ کے گھر کا ’’شیر خورمہ‘‘ کھانے آتا ہوں۔ والدہ نے بھی کئی بار بتایا کہ والدِ محترم نے کہہ رکھا تھا کہ کبھی عید کے موقع پر میں موجود نہ ہوں اور ناصر آئے تو اُسے شیر خورمہ کھائے بغیر مت جانے دینا۔ یوسی نظامت کے زمانے میں انہوں نے ایک روزہ تعلیمی میلے کا پروگرام کیا تھا جس میں بچوں کے صحت مند مقابلے منعقد کیے گئے اور تعلیمی اسناد دی گئی تھیں۔ میں اُس وقت کالج میں پڑھتا تھا اور جمعیت میں تھا۔ کئی دن تک صبح سے شام تک اس پروگرام کی موبائلنگ ہرگلی محلے میں جاکرکی تھی، اور جب پروگرام ہوا تو اس کی کمپیئرنگ کی ذمہ داری بھی نبھائی تھی۔ دن رات ایک کرکے وہ پروگرام منعقدکیا تھا۔ ناصر بھائی یوسی ناظم بننے سے پہلے فاروق ٹیکسٹائل میں شاید جنرل منیجر تھے، نظامت کے سارے عرصے میں کچھ لوگوں کو اُن سے بعض اوقات سخت رویّے کی شکایت تو رہی مگر الحمدللہ کوئی ایک روپے کی بھی کرپشن یا بدعنوانی کا الزام نہیں لگا سکا۔ اپنے اور پرائے سب ان کے شاندار ترقیاتی کاموں کے معترف تھے، ویسے بھی روپیہ پیسہ ان کے لیے مسئلہ نہیں تھا۔ لانڈھی کا ایک نوجوان جیسی ملازمت، تنخواہ اورعہدہ سوچ سکتا ہے اُس سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ناظم بننے سے پہلے عطا ک رکھا تھا۔ غالباً نئی سٹی کار تھی جو انہیں کمپنی کی جانب سے ملی ہوئی تھی، اس کے باوجود بہت بڑی خوبی اُن کی یہ تھی کہ گاڑی اور اسٹیٹس کبھی اُن کی کمزوری نہ بن سکے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود بس میں سفر کرتے تھے، موٹر سائیکل پر دوستوں کے ساتھ گھومتے تھے، چائے کے ہوٹل پر مستقل بیٹھک کرتے تھے اور اپنے عوام کے درمیان رہتے تھے۔ وقت کو روکا نہیں جاسکتا، یہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔ لانڈھی میں حالات انتہائی مشکل ہوگئے، جمال طاہر بھائی اور اسلم مجاہد شہید کردیئے گئے، ٹائون ناظم محمد شاہد پر دو قاتلانہ حملے ہوئے، اور دیگر بہت سے رہنما ٹارگٹ پر تھے جن میں ناصر بھائی بھی شامل تھے۔ سرگرمیاں محدود کردی گئیں، لانڈھی میں چلنا اور پھرنا تک گویا ناممکن بنادیا گیا۔ بہرحال جیسے ہر رات کے بعد صبح نمودار ہوتی ہے، اسی طرح صورتِ حال قدرے بہتر ہوئی، ایسے میں 2015ء کے بلدیاتی انتخابات کا اعلان ہوگیا۔ ناصر بھائی طویل عرصے سے انصار برادری کے مختلف امور میں خاصے مصروف تھے، شاید انہیں محسوس ہوا کہ برادری کے نمائندے کی حیثیت سے الیکشن لڑنا زیادہ مفید ہوگا، لہٰذا وہ برادری کے پینل سے میدان میں اترگئے۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ ہم سب کے لیے امتحان تھا، لیکن جماعت اور گھروں کی تربیت تھی کہ انہوں نے اور جماعت کے امیدواران اور ذمہ داران نے پوری مہم میں ایک دوسرے کے حوالے سے مخالفین کی پوری کوشش کے باوجود کوئی بات نہ کی۔ الیکشن ختم ہوئے، جو نتائج آنے تھے وہ آئے۔ اس کے بعد جب جماعت اسلامی نے ’کے الیکٹرک‘ کے خلاف جدوجہدکا آغاز کیا تو عوامی احتجاج کے پروگرام میں ناصر بھائی دوبارہ سے بھرپور طریقے سے آنا شروع ہوگئے۔ شارع فیصل کا وہ تاریخی دھرنا جس میں سندھ حکومت نے مظالم کے پہاڑ توڑے اور ہم سید عبدالرشید بھائی کی قیادت میں کبھی پتھروں سے پولیس کو دھکیلتے اور کبھی پولیس ہمیں… اس کشمکش میں جب شیلنگ، فائرنگ اور لاٹھی چارج بھی جاری تھا ناصر بھائی بھی اسی درمیان موجود تھے۔ اس دھرنے کے بعد نظم زون نے اُن سے باقاعدہ اجتماعِ کارکنان میں شرکت کا کہا اور انہوں نے شرکت شروع کردی۔ جب ناظم کے استصواب کا مرحلہ آیا تو کارکنان نے ان کے حق میں رائے دی… اور اس صورت حال میں جب اُن کو دوبارہ ناظمِ حلقہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو انہوں نے خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ جماعت کی تنظیم کو جاننے والے افراد سمجھ سکتے ہیں کہ یہ آسان بات نہیں تھی، مگر وہ تو شاید ماضی کو درست کرنے کا عزم لیے ہوئے تھے، اور انہوں نے اس کے بعد نہ دن دیکھا نہ رات… خود کو مکمل طور پر تحریک کے کاموں کے سپرد کردیا… قرآن کی دعوت کو پھیلانے کے لیے ساری توانائی صرف کردی… اور حلقہ بابر مارکیٹ کو ایک مثالی حلقہ بنا دیا۔ دو اور تین درجن کارکنان کی حاضری میں اجتماعِ کارکنان معمول بن گیا۔ ایک ہفتے میں درسِ قرآن کی دو محافل مستقل ہوتیں (جو تاحال جاری ہیں) اور سیکڑوں افراد ان دروس میں شریک ہوتے۔ درسِ قرآن گھر اور ڈرائنگ روم میں کرنے کے گویا قائل ہی نہ تھے۔ سڑک پر دونوں درس منعقد کرتے۔ بلامبالغہ اُن کا حلقہ صرف ضلع کورنگی نہیں بلکہ پورے کراچی کے ممتاز حلقوں میں شمار ہونے لگا… ورنہ دو متواتر شہادتوں کے بعد اس حلقے کی کیفیت یہ تھی کہ چرم مہم پر مَیں اور عبدالرحمان بھائی چند مخصوص گھروں کی کھالیں جاکر اٹھا لاتے تھے۔ کھالوں کے جمع ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا تھا، صرف درس و تدریس کی سرگرمیاں کبھی کبھی منعقد ہوجاتی تھیں۔
صرف یہی نہیں، بلکہ انہوں نے فنا فی التحریک کارکن کی مثال قائم کردی۔ اپنے سامنے کے بچے فرحان بیگ کو، جو ان کے یوسی کے پروگرامات کا ادنیٰ سا کارکن تھا لیکن اب ضلع کے ذمہ دار ہونے کی حیثیت میں پروگرامات کے لیے رابطہ کرتے تو عمر وغیرہ کا فرق محسوس ہی نہیں ہونے دیتے۔ درس کا پروگرام ہو یا عیادت وتعزیت… بڑی محبت سے مدعو کرتے۔ جس برق رفتاری اور عوامی رنگ سے وہ مصروفِ عمل تھے ہم انہیں مستقبل میں علاقے اور ضلع میں دیکھ رہے تھے… مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کے ہارٹ اٹیک کی اطلاع ملی تو اس کے اگلے روز آفس میں اہم میٹنگ تھی، لہٰذا فیصلہ کیا کہ ابھی اسپتال نہیں جائوں گا، کل میٹنگ کے بعد جاکر ملاقات کروں گا۔ پھر شاید خدا کی جانب سے اسپتال جانے کا فیصلہ کروایا گیا اور ساتھیوںکے ساتھ اسپتال روانہ ہوا۔ ہم میں سے کسی کے بھی وہم وگمان میں انتقال ہوجانے کا خیال تک نہ تھا… مگر یہ زندگی جس کے پیچھے ہم بھاگتے رہتے ہیں ایسی ہی بے بھروسا شے ہے۔ کارڈیو پہنچے تو تھوڑی دیر میں اطلاع آگئی۔ یقین ہی نہیں ہورہا تھا، بس یہی خیال گزرتا کہ ابھی اطلاع آئے گی کہ غلط خبر دے دی گئی ہے۔ میں نے سہیل بھائی کے ساتھ جسدِ خاکی وصول کیا۔ دستاویزات کے لیے سہیل بھائی وغیرہ چلے گئے اور میں اکیلا ناصر بھائی کے ساتھ موجود تھا۔ دل کی کیفیت یہ تھی کہ بار بار ہاتھ لگاتا اور یہی خیال گزرتا کہ بس ابھی اٹھ بیٹھیں گے۔ مگر جانے والے کب اٹھتے ہیں؟ ایمبولینس میں بھی ساتھ آتے ہوئے بس یہی خیال آتا رہا کہ ناصر انصاری جیسا دبنگ آدمی ایسے کیسے جا سکتا ہے! انہیں تو ابھی بہت آگے جانا تھا، پورے لانڈھی کورنگی کو متحرک کرنا تھا، کتنے ہی لوگوںکے مسائل حل کرنے تھے… مگر یہ موت ایسی ہی ظالم شے ہے۔ ہم اپنی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور اس کے پاس اپنا منصوبہ ہوتا ہے۔ کئی دن اس اچانک موت پر حیرانی اور پریشانی رہی، مگر پھر دل کو اس خیال سے بہلایا کہ شاید اللہ تعالیٰ کو بھی پسند نہیں تھا کہ ناصر انصاری جیسا بہادر آدمی بستر پرضعف کے ساتھ پڑے… اس لیے وہ اِس شان سے رخصت ہوا کہ ہر آنکھ کو اشک بار کر گیا… اس وقار سے گیا کہ دوست اور دشمن سب آنسو بہانے پر مجبور ہوگئے۔
باتیں بے شمار ہیں، مگر اہم ترین بات یہ ہے کہ کچھ کر گزرنے کا عزم، اس کے لیے انتھک محنت، عوام کے لیے دل اور بانہوں کو وا کرنا، عوام کی خوشی اور غم میں ہمہ وقت شریک رہنا، اور بیک وقت بڑی تعداد میں لوگوں کو اپنے جلو میں لے کر چلنا اُن کا وصف تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جس طرح وہ جدوجہدکرتے ہوئے، دین کی دعوت میں مصروف اُس کی بارگاہ میں پہنچے ہیں… ان کی کامل مغفرت فرمائے اور ان کے جاری کاموں کو مزید ترقی دے، آمین۔

حصہ