’’سنتھیا یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟‘‘
اس کے چہرے پر طنز تھا۔ میرے والد نے بھی جو رات بھر شراب پینے کے بعد اب کرسی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے اپنی سرخ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور قہقہہ لگایا۔
’’ممی یاد رکھیے میرا نام آمنہ ہے سنتھیا نہیں‘‘
آ… آمنہ… کیا نام ہوا۔ یہ بھلا‘‘ ماں نے کہا… ’’لڑکی تیرا دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘۔
میں نے اپنی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں انہیں بتا چکی ہوں کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور اب میں مسلمانوں کی طرح باقاعدہ زندگی کا آغاز کررہی ہوں۔ ’’تمہاری جگہ جہنم میں ہے‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’ممی آپ کو میرے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں اگر کوئی بات کرنی ہے تو جب میں دفتر سے آئوں گی تو کرلینا اس وقت مجھے دیر ہورہی ہے‘‘۔ میں وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوئی باہر نکل گئی۔ حبشیوں کی اس گندی بستی میں جس کسی نے مجھے اس لباس میں دیکھا وہ پہلے تو حیران ہوا پھر مذاق اڑانے لگا مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنی راہ چلتی رہی۔ جب میں اپنے اخبار کے دفتر پہنچی تو وہاں بھی شدید ردعمل پیدا ہوا۔ بہت سے لوگ میرے اردگرد جمع ہوگئے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں مسلمان ہوگئی ہوں اور مسلمان عورتیں ایسا ہی لباس پہنتی ہیں تو بعض لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی اور بعض بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ اتفاق سے اس روز تنخواہ کا دن تھا۔ تنخواہ ملی تو میں نے اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے علاقے کی مسجد کے فنڈ میں جمع کرادیا۔ جب میں گھر لوٹی تو میری والدہ میرا انتظار کررہی تھی۔ میرے والد بھی گھر پر موجود تھے… میں تنخواہ کا نصف حصہ اپنی والدہ کو دے دیا کرتی تھی۔ اس رقم سے میرے والد اپنے نشے کے لیے کچھ پیسے اینٹھ لیا کرتے تھے۔ میں نے جب اپنی تنخواہ کی کچھ رقم اپنی ماں کو دی تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پوچھا… ’’تم نے اس بار دس ڈالر کم دیئے ہیں‘‘۔
’’ہاں اب ہر ماہ آپ کو اتنی رقم ہی ملے گی۔ میں نے اپنی تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ میری یہ بات سنتے ہی وہ مجھے، مسلمانوں اور مسجد کو کوسنے لگی۔ میں نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سجھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں بہت دیر تک اپنی والدہ کو بکتے جھکتے سنتی رہی۔ بیچ بیچ میں میرے والد کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ ’’…اب سنتھیا ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ مسلمانوں نے اس کا دماغ خراب کردیا ہے۔ ہم نے تو کبھی گرجے کو چندہ نہیں دیا، یہ تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے لگی ہے‘‘۔ میرے والد اور والدہ کے نزدیک مسلمان لٹیروں سے کم نہ تھے جو ان کی بیٹی کی کمائی لوٹ کر لے گئے تھے۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی زندگی اسلام کے قوانین و ضوابط کے مطابق ڈھال لی۔ وہ لوگ جو پہلے مجھ پر انگلیاں اٹھاتے تھے مجھ سے بے پروا ہوگئے۔ میرے اور اسلام کے خلاف زہر اگلنے والی زبانیں بھی خاموش ہوگئیں۔اور پھر کرسمس کا تہوار آگیا۔ ہم خواہ کتنے ہی غریب اور بدحال کیوں نہ ہوں کرسمس کو ٹھاٹھ باٹھ سے منانے کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ کرسمس کے روز شراب پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔ اب میں نے مہمانوں کے ساتھ شراب کے جام کو چھونے سے ہی انکار کردیا تو ہمارے گھر میں قیامت برپا ہوگئی۔ والد تو صبح سے نشے میں دھت تھے، والدہ بھی دو ایک بار مہمانوں کے ساتھ پی چکی تھی۔ نشے کی حالت میں وہ مجھ پر برسنے لگے۔ مہمان بھی نشے میں تھے وہ بھی جو ان کے منہ میں آیا بکنے لگے۔ان سب کی حالت قابل رحم تھی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس کمرے سے چلے جانا چاہیے مگر جب میں اپنی وہیل چیئر کو دھکیل کر جارہی تھی تو ایک مہمان لڑکا اور میرے والد میرے پیچھے لپکے اور وہیل چیئر کے سامنے کھڑے ہوگئے… ’’راستہ چھوڑدیں‘‘… میں نے کہا… ’’مجھے جانے دیں‘‘۔’’یہ پی لو پھر چلی جانا‘‘۔ لڑکے نے میرے راستے سے ہٹے بغیر شراب کا جام میرے آگے کیا۔ ’’میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر‘‘۔
میرے منہ پر ایک زور دار طمانچہ لگا جو میرے والد نے مارا تھا۔ میرا سر چکرا گیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے مگر میرے والد اور اس لڑکے میں تو جیسے شیطان کی روح حلول کرگئی تھی۔ وہ مجھے پیٹنے لگے۔ انہوں نے مجھے روئی کی طرح دھنک دیا۔ میں خاموشی سے یہ ظلم برداشت کرتی رہی۔ وہ گالیاں بک رہے تھے۔ نشے میں ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ جب وہ تھک کر بیٹھ گئے تو میں کسی نہ کسی طرح اپنے کمرے میں پہنچ گئی۔ اس رات میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔
میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ مجھے امام مسجد محمد یوسف کو ساری بپتا سنانی چاہیے اور پھر یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن جوں جوں میرا غصہ اور جوش ٹھنڈا ہوتا گیا میری سوچ بدلتی گئی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اپنی پریشانیاں لے کر محمد یوسف کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ ان کا حل خود تلاش کرنا چاہیے اور اپنے والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ ان کا مجھ پر حق ہے اور میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں ان کی زندگی بدلنے کی کوشش کروں۔ چنانچہ اس روز میں نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اگلے روز میں نے اپنے اس فیصلے سے امام مسجد محمد یوسف کو مطلع کردیا۔
میں نے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور رضا کار بن گئی۔ مجھے معمولی سا گزارہ الائونس ملنے لگا۔ جب میرے والدین کو میرے اس فیصلے کا علم ہوا تو بہت سٹپٹائے۔ وہ یہ سوچ ہی نہ سکتے تھے کہ میں اچھی بھلی ملازمت چھوڑ دوں گی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں، ان کو ان کا حصہ ملتا رہے گا۔ میں اخباروں کے لیے لکھوں گی اور جو معاوضہ مجھے وہاں سے ملے گا وہ میں ان کو دے دیا کروں گی۔ میری اس عملی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں مسلمان رضا کار بن گئی۔
محمد یوسف نے مجھے بہت سی ہدایات دیں اور جس کام کے لیے مجھے چنا گیا تھا اس راہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔ مجھے خود بھی اندازہ تھا کہ یہ راستہ پرخطر ہے مگر اسلام نے مجھے حوصلہ بخشا جس کی وجہ سے میں کسی خطرے کو خاطر میں نہ لا رہی تھی۔ میں جیلوں میں جانے لگی وہاں میں قیدیوں سے ملتی ان کے سامنے اسلام کی عظمت بیان کرتی۔ انہیں ان کی زندگی کے گھنائونے پہلو دکھا کر ان کو بہتر زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیتی۔ کچھ قیدی وقت کاٹنے کے لیے میری باتوں کو توجہ سے سنتے‘ کچھ میرا مذاق اُڑاتے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے میری جسمانی معذوری پر بھی قہقہے لگائے مگر میں مطلق ہراساں نہ ہوئی نہ میری ہمت نے جواب دیا۔
ان قیدیوں میں سے ایک حبشی قیدی اربنٹو بھی تھا۔ اس نے میری باتوں سے خاصا اثر قبول کیا اور ایک دن کہنے لگا… ’’تم بڑی باہمت لڑکی ہو۔ اگر تم واقعی یہ چاہتی ہو کہ برائی کا خاتمہ ہو جائے تو برنارڈو کا خاتمہ کردو‘‘۔
’’برنارڈو کون ہے؟‘‘… میں نے پوچھا۔
برنارڈو اس شہر میں ایک بڑی مافیا فیملی کا سربراہ ہے۔ وہی شخص ہے جو اس شہر میں منشیات کا اجارہ دار ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو منشیات ملیں اور نہ وہ ان کے عادی ہوں۔ وہ بڑا خطرناک آدمی ہے… آج میں جس حالت کو پہنچا ہوں اس کا ذمہ دار بھی برنارڈو ہے‘‘۔
’’میں برنارڈو سے کیسے مل سکتی ہوں‘‘؟
اس نے میرے کان میں مجھے برنارڈو کا پتا بتادیا۔ جب میں جانے لگی تو اربنٹو کا لہجہ یکسر بدل گیا تھا۔ وہ ندامت کے ساتھ کہنے لگا…’’مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے تم سے برنارڈو کا ذکر کیا۔ تم اس سارے واقعے کو بھول جائو۔ تم اندازہ نہیں کرسکتی ہو کہ برنارڈو کتنا خطرناک آدمی ہے؟‘‘۔
’’مگر میں اس سے ملنے کا فیصلہ کرچکی ہوں‘‘… میں نے عزم سے کہا۔
’’تم اس سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اس کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کروں گی…‘‘
وہ ہنسنے لگا۔ اس کے قہقہے دور تک میرا پیچھا کرتے رہے۔
صبح کا وقت تھا جب میں وقت طے کیے بغیر برنارڈو کے عالیشان گھر کے اندر داخل ہوئی۔ اس گھر کو دیکھ کر کوئی بھی شخص اندازہ نہ کرسکتا تھا کہ اس گھر میں رہنے والا شخص بہت بڑا مجرم ہے۔
’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘ ایک ملازم نے مجھے روک کر پوچھا۔ وہ میرے لباس اور میری وہیل چیئر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے مسٹر برنارڈو سے ملنا ہے‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہیں…‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’مسٹر برنارڈو سے ملنا اتنا آسان نہیں‘‘۔
’’آخر کیوں‘‘؟ میں نے کہا… ’’وہ بھی انسان ہے اور انسان انسانوں سے ملا جلا کرتے ہیں‘‘۔
ہم دونوں میں تُو تکرار ہونے لگی۔ اسی وقت ایک ادھیڑ عمر کا مضبوط حبشے والا آدمی ایک کمرے سے باہر نکلا اور غصے سے بولا… ’’یہ کیا ہورہا ہے؟ شور کیوں مچا رکھا ہے؟‘‘ ملازم نے اس شخص کے سامنے سر جھکا کر کہا… ’’یہ لڑکی آپ سے ملنے پر اصرار کررہی تھی‘‘۔
’’مجھ سے‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا کام ہے؟‘‘
میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں‘‘ میں نے کہا۔ برنارڈو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا پھر ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ جب ملازم چلا گیا تو برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا… ’’میں اس طرح کسی سے ملاقات نہیں کرتا۔ تم معذور ہو اس لیے رُک گیا ہوں۔ کہو میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا… ’’مسٹر برنارڈو! کیا واقعی آپ اس معذور لڑکی کے کسی کام آنا چاہتے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دینے سے پہلے کچھ سوچا پھر مسکرا کر کہا… ’’ہاں کہو میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
میں نے پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مسٹر برنارڈو کچھ بے چینی محسوس کررہا ہے۔ وہ میری نظروں سے نظریں چرا رہا تھا۔
’’مسٹر برنارڈو‘‘… میں نے کہا… ’’اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے‘ سچی ہدایت کی‘‘۔
’’لڑکی!… میں نہیں جانتا تم کون ہو۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ دو منٹ میں اپنی بات ختم کرو‘‘۔
میں نے جب بات شروع کی تو برنارڈو کا چہرہ طیش اور غصے سے سرخ ہوگیا، اس نے غصے کو دبا کر کہا… ’’تم پاگل ہو، نکل جائو یہاں سے، تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں یہ کام کرتا ہوں؟۔ میں تمہیں اور تم کو یہ بتانے والے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
میں نے بڑے اطمینان سے کہا ’’آپ کے اس غصے اور جوش ہی سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں جو اطلاع ملی ہے وہ درست ہے‘‘۔
’’تم بکتی ہو، چلی جائو یہاں سے۔ مجھے تمہارے اپاہج پن کا خیال آرہا ہے ورنہ…‘‘
’’میں جانتی ہوں مسٹر برنارڈو آپ طاقتور ہیں اور سارا شہر آپ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔
’’تو تم چاہتی کیا ہو‘‘؟ برنارڈو نے گرج کر کہا۔
’’میں چاہتی ہوں کہ آپ خلق خدا کے فائدے کے لیے اپنا یہ دھندا چھوڑ کر کوئی اور کام کریں اگر آپ سے یہ ممکن نہیں تو پھر مجھ معذور لڑکی پر کرم کریں اور مجھے ہر روز پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کریں‘‘۔
وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا، پھر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم ضد کی پکی ہو… تم کل پھر آسکتی ہو اسی وقت…‘‘۔
برنارڈو اطالوی نژاد تھا، دل کا کھلا۔ اس کو زندگی میں شاید ہی مجھ سا کوئی انسان ملا ہو۔ وہ میری ذات میں دلچسپی لینے لگا۔ ایک دن کے بعد دوسرا دن… وہ مجھے ہر روز بلاتا مجھ سے باتیں کرتا۔ پانچ منٹ کی گفتگو کا دائرہ پھیل کر گھنٹوں تک پہنچ گیا۔ میں اس کے سامنے انسانوں کی بدحالی کا ذکر کرتی، منشیات کی تباہ کاریاں بیان کرتی اور اسلام کی حقانیت کا ذکر کرتی۔ آہستہ آہستہ اس کے خیالات میں کچھ لچک پیدا ہونے لگی۔
’’آمنہ!‘‘… ایک دن اس نے مجھ سے کہا… ’’میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو؟ مسلمان کیا ہوتے ہیں؟ مگر میں ایک بات جان گیا ہوں کہ تم انسان کی نفسیات کو خوب سمجھتی ہو‘‘۔
’’اسلام انسانوں کا مذہب ہے، ایک مکمل دین ہے، مکمل دین‘‘… میں نے جواب دیا… ’’اس لیے اسلام مسلانوں کو انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے‘‘۔
میں نے محسوس کیا کہ اب جب میں اس سے ملنے جاتی ہوں تو وہ کچھ بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا… ’’آمنہ! کیا واقعی انسان کی زندگی فانی ہے، انسان کو دنیا میں اچھے کام کرنے چاہئیں اور دوسروں کا بھلا سوچنا چاہیے؟‘‘
’’الحمدللہ… میں نے جواب دیا… ’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ بات آپ کے ذہن میں سما گئی ہے‘‘۔
چند دنوں بعد برنارڈو نے اپنا دھند اچھوڑ دیا اور راہِ راست پر آگیا۔ اس نے بلا ہچکچاہٹ قبول کرلیا کہ وہ مافیا کا رکن ہے۔ اس نے مافیا کے سربستہ رازوں کو کھول کر رکھ دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر فورڈ کے عہد صدارت میں برنارڈو کے اس عمل سے امریکا میں کتنا تہلکہ مچا تھا۔ برنارڈو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا… ’’ایک اپاہج اور معذور لڑکی نے مجھے یہ طاقت پرواز بخشی ہے کہ میں نے برائی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اور کھلی آزاد فضائوں میں اُڑنے کی ہمت اپنے اندر محسوس کررہا ہوں‘‘۔
اس روز میں بہت روئی تھی جب مجھے یہ خبر ملی کہ برنارڈو کو جیل میں گولی مار دی گئی ہے۔ اس کو مافیا کے آدمیوں نے قتل کردیا تھا۔ اس کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جو راستی کی راہ پر چل نکلا تھا۔ وہ زندہ رہتا تو بڑا مصلح ثابت ہوسکتا تھا۔برنارڈو کے تائب ہونے کی وجہ سے مجھے پریس نے بڑی شہرت دی میری تصویریں شائع ہونے لگیں۔ اخباروں اور رسالوں میں میرے انٹرویو شائع ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مجھے بلایا گیا اور میری خدمات کو بے حد سراہا گیا۔عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن محمد علی مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے میری بڑی تعریف کی۔ صدر فورڈ نے مجھے وائٹ ہائوس میں بلایا اور میری تعریف کی۔ اس شہرت اور عزت کے باوجود مجھ میں تکبر پیدا نہیں ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے۔اسلام نے میری زندگی میں جو انقلاب پیدا کیا، میں ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتی ہوں اور اگر یہ میرے بس میں نہیں تو میرے دل میں یہ خواہش ضرور ہے کہ اسلام کی برکات اور فیوض سے امریکا کے سیاہ فام ضرور فیض یاب ہوں۔میرے والد شراب سے توبہ کرچکے ہیں اور نشہ چھوڑ چکے ہیں۔ میری والدہ میری عزت کرتی ہیں، اگرچہ انہوں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا مگر ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں میری کوششوں کی وجہ سے ساڑھے تین سو افراد نے منشیات سے توبہ کی ہے اور اکیس مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
میں ایک اپاہج عورت ہوں مگر میں اپنے آپ کو اپاہج نہیں سمجھتی کیونکہ میرا ایمان ہے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے وہ کبھی اپاہج نہیں ہوسکتا، خدا کا سہارا بن جاتا ہے… میری زندگی اسلام کے لیے وقف ہوچکی ہے۔ میں اسلام ہی کے لیے کام کروں گی اور اسلام کی روح انسانوں میں پھونک دینا چاہتی ہوں۔
جب بھی کوئی انسان برائی کا راستہ ترک کرتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ اسلام کی فتح ہوئی ہے۔ تو یہ ہے میری کہانی … سنتھیا سے آمنہ بننے کی!! اختتام