ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

821

قلم کی طاقت بھی کتنی انمول شے ہے۔ ذرا کہیں نگاہ پڑتی ہے، ذہن کا حصہ حرکت میں آتا ہے، آنکھ مشاہدہ کرتی ہے، دل میں جذبات کا سمندر رواں ہوتا ہے جو ہاتھوں کو مجبور کرتا ہے کہ یہ صدا جو دل کے نہاں خانوں سے پنپ کر آرہی ہے، اسے الفاظ کا پیراہن پہنا دو۔ اگر اس خداداد صلاحیت کو بہترین لوگوں کی صحبت میں مانجھا جائے تو یقینا تحریر کو چار چاند لگ جائیں اور پیغام قاری کے دل پر کاری وار کرجائے۔
اسی تناظر میں شعبۂ علم و ادب کراچی، اسلامی جمعیت طالبات نے وسط نومبر میں قبا آڈیٹوریم میں قلمکاران کی بزم سجائی۔ اتفاق سے ہم مقررہ وقت پر ہال میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوگئے، جہاں انتظامی طور پر مقررہ لڑکیاں انتہائی مستعدی سے اپنے کاموں میں جتی ہوئی تھیں۔ ایک ولولہ تھا جو اُن کے انگ انگ سے عیاں تھا۔ ابھی ہم نشست کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ دیدہ زیب اور دلنشین تزئین و آرائش نے ہمیں مبہوت کرکے رکھ دیا اور بے ساختہ ہمارے منہ سے تعریفی کلمات نکل پڑے۔ ہال کی آرائش کا نہایت باریک بینی سے خیال رکھا گیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی ماہر مصور نے کینوس پر خوب صورت رنگ بکھیر دیے ہوں۔ سیاہ اور سنہرے غباروں کی کہکشاں نے تو ماحول میں ایسا سماں باندھ دیا کہ ساری کلفت دور ہوگئی۔ ہمارے اندر موجود بچہ جاگ اٹھا جس کی خواہش تھی کہ وہ صرف ان غباروں سے ہی محظوظ ہوتا رہے۔ شرکا کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ محترمہ آمنہ صدیقی نے سورہ رحمن کی تلاوت سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ سماویہ وحید نے نعتِ رسولِ مقبولؐ پیش کی۔
معروف موٹیویشنل اسپیکر زبیر منصوری کو دعوتِ گفتگو دی گئی۔ انہوں نے اپنے منفرد اسلوبِ بیان اور طاقتِ گفتار کی بدولت پروگرام کی شان میں مزید اضافہ کیا۔ مائیک سنبھالتے ہی انہوں نے غیر متوقع سرگرمی کروائی کہ اپنے برابر والوں کے جوتے پہن لیں۔ زبیر صاحب نے اس انوکھی سرگرمی کے ذریعے یہ نکتہ ابھارنا چاہا کہ جب تک دوسروں کے جوتوں میں اتر کر، ان کو پہن کر اُن کے دل میں چھپے درد اور جذبات کو محسوس نہیں کریں گے تب تک بہترین قلمکار نہیں بنا جاسکتا، یہی لکھنے کا پہلا اصول ہے۔ ایک صاحبِ طرز ادیب کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اردگرد موجود لوگوں کو دیکھنا، غور کرنا اور محسوس کرنا اچھے ادب کی ابتدا ہے۔ پھر ہی ہر گلی کے کونے میں ایک نیا موضوع نظر آنے لگے گا، کیوں کہ درحقیقت ہر انسان اپنے اندر کوئی نہ کوئی کہانی سموئے ہوئے ہے۔


اس کے بعد دوسری سرگرمی کے ذریعے پانچ ایسی باتیں تختۂ سفید پر لکھیں جو اکثریت کے خیال میں تحریر کے بنیادی اجزا اور لوازم تھے، جن میں سبق، نئی بات، معاشرتی حالات، مخاطب اور دل چسپ انداز شامل ہیں۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے پانی سے بھرے گلاس کی مثال دی جس میں چینی گھلی ہوئی ہو۔ بظاہر وہ عام سا پانی نظر آئے گا لیکن جب وہ پانی ہماری رگوں کو سیراب کرے گا تب ہی ہمیں مٹھاس کا احساس ہو پائے گا۔ یہی حال تحریر کا بھی ہے۔ سبق تحریر میں صرف اس حد تک سمویا جائے جو قاری کی طبیعت کو بوجھل نہ لگے اور وہ سبق کی چاشنی کو دل میں محسوس کرے۔ اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے ایک آکسیجن سلینڈر کی مثال بھی دی جس میں ایک مقررہ حد تک ہی آکسیجن بھری جاسکتی ہے جو 21 فیصد ہوتی ہے اور 79 فیصد حصہ نائٹروجن کا ہوتا ہے۔ انسان کی اصل ضرورت تو آکسیجن ہے، اور نائٹروجن کا استعمال ہمارا جسم نہیں کرتا، لیکن ہوا میں نائٹروجن کا تناسب آکسیجن سے زیادہ ہے۔ اسی طرح ایک تحریر میں سبق اتنا ہی موجود ہو جتنی اس کی گنجائش ہے، اور باقی اس کے تفریحی لوازم ہوں جس سے تحریر جان دار بن جائے۔ پیغام جتنا کم ہوگا، تحریر اتنی خوب صورت ہوگی۔ ایسا پیغام جو صاف اور واضح ہو، کیوں کہ لوگ تحریر سبق کے لیے نہیں بلکہ دل چسپی کے لیے پڑھتے ہیں، اور ساتھ میں پیغام یوں پوشیدہ ہو کہ قاری خود سوچنے، سمجھنے اور پیغام کھوجنے میں مصروف ہوجائے۔ نئی بات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر تحریر میں نیا اسلوب، معلومات، شماریات اور دلائل پیش نہ کیے جائیں تو ایسی عمومی تحریر کوئی نہیں پڑھتا۔ اگر آپ کو قاری کو تحریر کے کانٹے میں پھنسانا ہے تو کانٹے کے ساتھ چارہ لگانا پڑے گا جو حقیقت میں ایک اچھوتا اور مزیدار ابتدائیہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لوگ چاہتے ہیں ان کے بارے میں بات کی جائے، کیوں کہ انسان کو اپنے بارے میں سننا اچھا لگتا ہے، اور اگر ساتھ میں تعریف بھی کردی جائے تو اسے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اگلا نکتہ معاشرتی حالات تھے، کیوں کہ جب تک ہماری تحریر معاشرتی حالات کی عکاس نہیں ہوگی تب تک ہم یہ کیسے باور کرا سکتے ہیں کہ سارے معاشرے کا درد ہم دل میں سمیٹ چکے ہیں! آخری بات ’دل چسپ انداز‘ تھی اور یہ بات اپنی جگہ قائم ہے کہ پرانی، گھسی پٹی اور عمومی تحریر پڑھنا کوئی پسند نہیں کرتا۔ یوں موٹیویشنل اسپیکر اور ہزاروں لوگوں کے دل میں اترنے والے زبیر منصوری صاحب نے ورکشاپ کے اختتام تک حاضرین کی توجہ مرکوز رکھی۔
پھر ہمیں ایک کورا کاغذ تھما دیا گیا جس میں اقبال کے ایک مصرعے ’’دلیل صبحِ روشن ہے ستاروں کی تنک تابی‘‘ کے بارے میں پچاس الفاظ پر مبنی تحریر لکھنی تھی۔ شرکا نے خوب دل چسپی دکھائی۔ انتظام کام و دہن کے بعد سلسلے کو دوبارہ جوڑا گیا۔ پینل ڈسکشن بعنوان ’’تیرے سینے میں ہے پوشیدہ رازِ زندگی کہہ دے‘‘ کا آغاز ہوا جس کی صدارت فریحہ منیر اور مسفرہ رضوان نے کی۔ اس پینل ڈسکشن میں شہر کی نامور ادیب، بلاگرز اور شعرا مدعو تھیں جن کے قیمتی مشورے، خیالات اور آراء نے شرکاء کی سوچ و فکر کو وسعت عطا کی۔ شاعرہ اور مصنفہ ڈاکٹر عزیزہ انجم نے شاعری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’آمد‘‘ ایک برجستہ احساس ہوتا ہے۔ شاعری میں موضوع اور وزن ضروری ہے۔ انہوں نے شاعری کے تکنیکی نکات پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر قافیہ ردیف نہیں تو وہ شاعری ہرگز نہیں۔ انہوں نے شاعری سے دل چسپی رکھنے والے افراد کو اچھے، منجھے ہوئے شعرا کے مطالعے کا مشورہ دیا۔
شاعری کے ذریعے اصلاحِ معاشرہ پر خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر عزیزہ انجم نے کہا کہ شاعری ایک فطری صلاحیت ہے۔ محنت، اچھی آمد اور موسیقی سے بہترین شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ شاعری ذات اور کرب کا اظہار ہے۔ اچھی شاعری تو وہ ہوتی ہے جو کہے کہ وہ اچھی ہے۔ کا، کی، کے کا استعمال شاعری کو بدنما کردیتا ہے۔
اس کے بعد معروف مصنفہ افشاں نوید سے مستقل مزاجی کے بارے میں سوال کیا گیا۔ اس بارے میں اُن کا کہنا تھا کہ جمعیت نے ہمیں شعور دیا۔ اگر ہمیں معرفت حاصل ہوجائے اور نفس کو پہچان لیں تو اس عمر میں محمد بن قاسم، حسن البنا اور مولانا مودودی بن جاتے ہیں، کیوں کہ یہی تو وہ چنیدہ لوگ ہیں۔ اب آپ یہ سمجھ لیں کہ آپ کا مزاج کیسا ہونا چاہیے۔ اپنی بات اس قیمتی صلاح پر سمیٹی کہ ہمیں اپنے وقت کا صحیح استعمال کرنا چاہیے اور لکھنا ہماری ترجیحات میں شامل ہونا لازمی گُر ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ اور بچوں کی مصنفہ راحت عائشہ بھی شریکِ محفل تھیں، انہوں نے نہایت دل چسپ انداز میں تجربہ رکھا۔ اُن کے خیال میں ہر بچے کی کہانی کا الگ درجہ ہوتا ہے اور بچوں کی کہانیاں لکھنا، بچوں کا کھیل نہیں۔
محترمہ فریحہ مبارک نے کالم نگاری پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ کالم نگاری ایک خشک صنف ہے مگر اسے دل چسپ بنایا جا سکتا ہے۔ کالم کا ابتدائیہ مزیدار ہو۔ کالم میں واقعہ، منظرکشی، محاورہ، ضرب المثل اور لطیفے کا استعمال کریں۔ مطالعہ وسیع ہو اور ساتھ میں ایک مشاہدے والی آنکھ اور سوچنے والا ذہن موجود ہو۔ ان کے نزدیک محنت سے بہتر مشورہ کچھ نہیں۔ اس موقع پر محمد علی باکسر کا ایک مشہور قول بھی دہرایا کہ اس مُکّے کے پیچھے 21 سال کی ریاضت اور شکستیں شامل ہیں۔ معروف شاعرہ اور بلاگر سمیرا غزل نے کہا کہ بلاگنگ ایک قسم کی ڈائری ہے۔ سوشل میڈیا کا دور ہے جس کے ذریعے رسائی آسان ہوگئی ہے، اس لیے ہماری ذمے داری ہے کہ مثبت پیغام پہنچائیں۔ اس موقع پر محترمہ افشاں نوید کا کہنا تھا کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ لکھنا کیا چاہتے ہیں۔ اگر میں اس لیے لکھوں کہ زیادہ لائکس اور کمنٹس مل جائیں تو یہ نیت کا کھوٹ ہے جو ادبی دنیا کا بڑا المیہ ہے۔
سینئر افسانہ نگار فرحی نعیم نے افسانہ نگاری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ موضوع کے انتخاب پر اُن کا کہنا تھا کہ موضوع زندگی سے قریب تر اور حقیقی ہو۔ ذاتی مشاہدہ منفرد ہونا چاہیے، پامال موضوعات سے اجتناب کریں۔انہوں نے کہانی، افسانے اور ناول کا بڑی خوب صورتی سے فرق سمجھایا کہ ناول کردار کی زندگی پر محیط ہوتا ہے، اور کہانی سیدھا سادہ سپاٹ بیانیہ ہے، لیکن جب اسی کہانی کو فنی لوازم سے ہمکنار کردیا جائے تو وہ افسانہ بن جاتا ہے۔ ادبی چاشنی اور اسلوب کہانی کو افسانے میں بدل دیتے ہیں۔ افسانے میں وحدتِ تاثر یعنی ایک کہانی ہو۔ موضوعات پیوست، مختصر ہوں اور ساتھ میں پلاٹ کشمکش پر مبنی ہو۔
اس موقع پر محترمہ راحت عائشہ سے بچوں کے پسندیدہ موضوعات کے بارے میں دریافت کیا گیا، جس کے جواب میں انہوں نے اپنا ایک مشاہدہ پیش کیا۔ اُن کے مطابق ذہین بچے سائنسی اور خوفناک کہانیاں پڑھنا پسند کرتے ہیں جبکہ اوسط بچے شہزادی اور پریوں کی۔ اور جہاں تک بات آتی ہے انسانوں کی، تو ہر انسان کا سافٹ وئیر الگ ہے جو اپنی پسند کی چیز پڑھنا چاہتا ہے۔ پینل ڈسکشن کے اختتام پر ڈاکٹر عزیزہ انجم اور سمیرا غزل نے اپنا دل پذیر کلام حاضرین کے گوش گزار کیا۔
جلانا دل کا ہے گویا سراپا نور ہو جانا
یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمع انجمن بھی ہے
آخر میں کوئز سیشن منعقد کیا گیا جس میں چند ادبی سوالات کیے گئے۔
ناظمہ شہر اسلامی جمعیت طالبات عریشہ سلیم نے مہمانانِ گرامی میں اسناد پیش کیں جنہوں نے اپنے علم اور تجربے کی بیش بہا دولت سے ہمیں فیض یاب کیا تھا۔ حاضرین کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی اسناد تقسیم کی گئیں۔ ناظمہ کراچی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وسیع مطالعہ، مشاہدہ خوب تر ہو، مثبت پہلو نمایاں ہو، اور واضح مقصد ہی تحریر کو بامقصد بنا سکتا ہے۔ متحرمہ سمیہ رمضان کی دعا کے ساتھ ہی تاروں سے سجی اس محفل کا اختتام ہوا۔
nn

حصہ