بوئے جنت جُوں گل ریحان میں موجود ہے
عشق احمدؐ یوں مرے وِجدان میں موجود ہے
کر رہا ہوں میں سرِ محفل ثنائے مصطفی
روک لے ہمت اگر شیطان میں موجود ہے
آج اس شہرِ وفا میں موت کی بس اک دوا
ہے وہی قرآن‘ جو جزدان میں موجود ہے
تیری بخشش کا ٹھکانہ تا قیامت میرے رب
اور فقط میری دُعا اس جان میں موجود ہے
جو تھا نفرت کی علامت راج ہے اُس کا یہاں
اور محبت خوف کے زندان میں موجود ہے
آپ ہٹیے گا ذرا یہ آپ کے قدموں تلے
دل ہمارا زخمی‘ پائیدان میں موجود ہے
کھا چکا ہے تو بھی شاید نازینوں سے دغا
درد ہجراں یوں ترے سُر تان میں موجود ہے
اجنبی ہوتے ہوئے شہر سخن میں اے نظرؔ
اک شناسائی تری مُسکان میں موجود ہے