ایک زمانہ تھا کہ سیاست کا تصوراخلاقیات کے بغیر کیا ہی نہیں جاسکتا تھا، اور ایک زمانہ یہ ہے کہ سیاست اور اخلاقیات کے درمیان تعلق تلاش کرنا دشوار ہے۔ یہاں تک کہ لوگ سیاست کو اخلاقیات کی نظر سے دیکھتے ہی نہیں۔ سیاست دان بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں اور بدعنوانی کو ایک سیاسی یا سماجی مسئلہ سمجھا جاتا ہے، حالانکہ بدعنوانی اپنی اصل میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ حکمران طاقت کے بے جا استعمال کرتے ہیں اور دنیا طاقت کے غلط استعمال کو طاقت کی حرکیات کے تناظر میں دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ طاقت کا غلط استعمال ایک انتظامی یا طاقت کے دائرے سے متعلق مسئلہ ہے۔ حالانکہ طاقت کا غلط استعمال اپنی اصل میں ایک اخلاقی مسئلہ ہے۔ بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو بڑی طاقتیں جنگیں ایجاد کرتی ہیں اور کمزور اقوام پر جارحیت مسلط کرتی ہیں اور اس صورت حال کو طاقتور اور کمزور کے تعلقات، امارت و غربت، ترقی اور پسماندگی، شمال اور جنوب یا مشرق و مغرب کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے… حالانکہ جنگیں ایجاد کرنا اور جارحیتیں مسلط کرنا اصولی اعتبار سے ایک اخلاقی معاملہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ دنیا سیاست اور اخلاقیات کے ناگزیر تعلقات کی منکر کیوں ہوگئی ہے؟
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اخلاقیات کا تصور مذہب کے سوا کہیں سے آ ہی نہیں سکتا، اور دنیا پر غلبہ رکھنے والی اقوام مذہب کو عرصہ ہوا ترک کرچکی ہیں۔ چنانچہ اخلاقیات کا ذکر آتے ہی انہیں یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ پورا مذہب بھی اس کے ساتھ نہ چلا آئے۔ اخلاقیات کو سیاست سے یکسر بے دخل کرنے کی بہترین صورت یہ نکالی گئی ہے کہ مذہب کو انفرادی مسئلہ قرار دے دیا گیا ہے اور اعلان کردیا گیا ہے کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ چونکہ یہ تصور غالب اقوام کا تصور ہے اس لیے اس کا اثر پوری دنیا پر مرتب ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مسلم معاشرے جو اسلام کو سینے سے لگائے کھڑے ہیں وہ بھی مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے قائل ہیں۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ مذہب کا انکار کرنے والے معاشروں نے چوری، ڈاکے اور بدعنوانی کو ’’حلال‘‘ قرار دے لیا ہے۔ انہوں نے ایسا نہیں کیا اور وہ ایسا کر بھی نہیں سکتے کیونکہ ایسا کرکے وہ اپنے پائوں پر آخری کلہاڑی ماریں گے۔ تاہم یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ ان معاشروں کے نزدیک چوری، بدعنوانی اور اختیارات کے غلط استعمال کی نوعیت ’’تکنیکی‘‘ ہے۔ ’’افادی‘‘ ہے۔ اور اس کا تعلق ’’تصور جرم‘‘ کے ساتھ ہے ’’تصور گناہ‘‘ کے ساتھ نہیں۔ گناہ کا تعلق خدا کے ساتھ ہے اور جرم محض ایک سماجی حقیقت ہے۔ گناہ سے انسان کا پورا وجود متاثر ہوتا ہے اور جرم کا اثر انسان کے ذہن سے آگے مشکل ہی سے جاتا ہے۔ چنانچہ مذہب کا انکار کرنے والے معاشروں میں اخلاقیات ایسے انسان پیدا کرتی ہے جو دنیا کے سامنے پارسا بنے رہتے ہیں مگر دنیا کی آنکھوں سے دور وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں اور ان کے اندر کوئی احساس جرم، کوئی اضطراب اور کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی۔ ایسے معاشروں میں فرد کا حال اس شعر کے شیخ صاحب جیسا ہوتا ہے:
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اخلاقیات کا مفہوم کیا ہے؟ اخلاقیات دراصل شعورِ بندگی اور اس کے خدا اور انسانوں کے ساتھ تعلق پر اطلاق کا نام ہے۔ اسلام کے تصور اخلاق کی تین جہات ہیں: روحانی جہت، جمالیاتی جہت اور افادی جہت۔ اسلام کے تصور اخلاق کی روحانی جہت کا مفہوم یہ ہے کہ اخلاقیات پر عمل خدا اور بندے کے حقیقی تعلق کی گواہی اور اس پر اصرار ہے اور اخلاقی تصورات پر عمل کرنے سے خدا اور بندے کا تعلق مسلسل مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسلام کے تصور اخلاقیات کی جمالیاتی جہت کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی تصورات پر عمل انسان کے انفرادی اور اجتماعی ظاہر اور باطن کو جمیل بناتا ہے اور جمال سے محبت کرنے والے بھی دراصل اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ اسلام کے تصور اختیارات کی افادی جہت کے معنی یہ ہیں کہ اخلاقیات پر عمل سے دنیا اور آخرت میں فائدہ ہی فائدہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مذہب میں اخلاقیات کی بنیاد کہاں ہے؟
اسلام میں حقیقی اخلاقیات کی جڑیں تصور آخرت میں پیوست ہیں۔ انسان کے ان حیلے بہانوں میں طاقت ہوتی ہے۔ چنانچہ لوگوں کے سامنے اخلاقیات بگھارنا چنداں دشوار نہیں ہوتا۔ اس میں ہینگ لگتی ہے نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آتا ہے۔ لیکن اپنے باطن میں اخلاقیات کی آبیاری اور پاسداری کرنا آسان نہیں۔ لیکن مذہب کا تصور خدا انسان کو ظاہر اور باطن دونوں جگہ اخلاقیات کا پابند بناتا ہے۔ اس لیے کہ مذہب کا تصور خدا یہ ہے کہ خدا کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ وہ ہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے دل میں پیدا ہونے والے خیال کے ذرے سے بھی آگاہ ہے۔ چنانچہ انسان دنیا سے جھوٹ بول سکتا ہے مگر خدا سے جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ تصور انسان کو حقیقی معنوں میں اخلاقیات کا پابند بناتا ہے۔ تصورِ خدا کے نتیجے میں انسان کی ’’جلوت‘‘ ہی نہیں ’’خلوت‘‘ بھی روشن ہوجاتی ہے اور جس انسان کی خلوت اچھی ہوتی ہے جلوت بھی اس کی اچھی ہوتی ہے۔ سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ انسان کو زیادہ سے زیادہ خارج پرست یا دنیا دار بنا سکتی ہے اور سیاست کے تقاضے اور ماحول انسان کو اس کے باطن سے کاٹتے ہیں۔ لیکن جو شخص مذہب کے تصور خدا کا دل سے قائل ہوجاتا ہے وہ سیاست کی منفی کشش ثقل سے آزاد ہوجاتا ہے۔
عقیدئہ آخرت کی اہمیت یہ ہے کہ وہ نفس کی فرعونیت کو چیلنج کرتا ہے اور انسان کو بتاتا ہے کہ زندگی ہمیشہ باقی رہنے والی نہیں، ہر انسان کو ایک دن موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور بالآخر اپنے خالق و مالک کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ انسان کے نفس میں ایسی قوت ہے کہ نفس کی اماریت انسان کو خدا سے بھی جھوٹ بولنا سکھا دیتی ہے۔ مگر عقیدئہ آخرت انسان کو یاد دلاتا ہے کہ خدا سے جھوٹ بول کر بھی انسان حتمی حساب کتاب سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ انسان کی ہر چیز لکھی جارہی ہے اور بالآخر ہر شے اس کی جانب لوٹا دی جائے گی۔ چنانچہ انسان میدان حشر میں خدا کے سامنے جواب دہی کے تصور سے ڈر جاتا ہے اور حقیقی اخلاقیات کو اختیار کرنے پر خود کو مائل یا مجبور پاتا ہے۔ مذاہب کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مذاہب نے دنیا میں انسانوں کا اعلیٰ ترین معیار پیدا کیا ہے۔ مذاہب نے خدا اور انسانوں سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے، سب سے زیادہ سچ بولنے والے سب سے زیادہ خیر پیدا کرنے والے، سب سے زیادہ نرم خو اور اپنے وسائل میں دوسروں کو شریک کرنے والے پیدا کیے ہیں اور اس کی وجہ مذاہب کا تصور خدا اور تصورآخرت ہے۔ دنیا کی تاریخ میں جب کہیں صاحب اختیار لوگوں نے جبر کیا ہے، ظلم اختیار کیا ہے، انسانیت سوزی کی ہے، جھوٹ اور مکر کو پھیلایا ہے اس کا سبب تصورِ خدا اور تصور آخرت سے روگردانی رہی ہے۔ تاریخ کا یہ طرز یا Pattern آج بھی برقرار ہے اور ہمیشہ برقرار رہے گا۔
غور کیا جائے تو تاریخ کے تصور میں خود ایک طرح کی مذہبیت موجود رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ماضی قریب میں بھی ایسے حکمرانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی تھی جن کو اس بات کی گہری فکر لاحق ہوتی تھی کہ تاریخ انہیں کن الفاظ میں یاد کرے گی؟ تاریخ کا یہ خوف حکمرانوں کو قابو میں رکھتا تھا اور انہیں بے لگام نہیں ہونے دیتا تھا۔ تجزیہ کیا جائے تو تاریخ کا یہ تصور بھی حیات بعد الممات ہی کی ایک صورت تھا، لیکن انسانوں نے خدا اور آخرت کے تصور کو ہی نہیں، تاریخ اور اس کے فیصلے کو بھی مسترد کردیا ہے۔ آج کی دنیا کے حکمرانوں کے نزدیک نہ ماضی کی کوئی اہمیت ہے نہ مستقبل کی، ان کے لیے ’’آج‘‘ ہی سب کچھ ہے۔ چنانچہ دنیا میں کہیں بھی حکمران تاریخ کے لیے عمل کرتے نظر نہیں آتے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آج کی سیاست مکمل طور پر ’’غیر تاریخی‘‘ ہوگئی ہے۔
ماضی قریب میں سوویت یونین دنیا کی دو سپر پاورز میں سے ایک تھا اور آدھی سے زیادہ دنیا اس کے جبر کا شکار تھی۔ اس جبر کی وجہ یہ تھی کہ سوویت یونین کمیونزم کا علمبردار تھا اور کمیونزم کا مذہب ہی کا نہیں تاریخ کا خانہ بھی خالی تھا۔ آج دنیا میں ہر طرف امریکا کے جبر کا شور برپا ہے۔ امریکا کی طاقت اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ اس نے مذہب کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ رہی تاریخ، تو تاریخ کے سلسلے میں امریکا کی دشواری سوویت یونین سے ذرا سی ہی کم ہے۔ امریکا کی مجموعی عمر ڈھائی تین سو سال ہے، اتنی کم مدت میں تاریخ قوموں کا ’’تجربہ‘‘ اور ان کا ’’علم‘‘ نہیں بن پاتی۔ رہی مستقبل کی تاریخ، تو امریکا کے حکمرانوں کے لیے وہ مسئلہ ہی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تاریخ جیسی کچھ بھی ہوگی ان کی طاقت ہی کا حاصل ہوگی۔ لیکن یہ ان کی خوش فہمی ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ آج کے دور میں عوام اور عوامی احتساب کا شور حکمرانوں کو راہ راست پر رکھتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے فی زمانہ عوام کی رائے خود سیاست کا حصہ بن گئی ہے اور اس کو نظر انداز کرنے، بدلنے، یہاں تک کہ عوام میں مصنوعی راستے پیدا کرنے کے لیے حکمرانوں نے طرح طرح کے حربے ایجاد کرلیے ہیں۔ ماضی کے ادوار کو بادشاہوں کا زمانہ کہا جاتا ہے اور بادشاہوں کے زمانے کے بارے میں یہ رائے عام ہے کہ اس میں عوام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اس زمانے میں عوام کی رائے کی نوعیت بھی مذہبی ہی تھی کیونکہ اس دور میں یہ خیال عام تھا کہ زبان خلق دراصل ’’نقارئہ خدا‘‘ ہے۔ بادشاہ عوام سے ڈرتے ہوں یا نہ ڈرتے ہوں مگر وہ ’’نقارئہ خدا‘‘ سے ضرور ڈرتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ماضی میں امن کیا جنگ کی بھی اخلاقیات تھیں۔ ان اخلاقیات کے تحت جنگ میں بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور میدان جنگ سے فرار ہونے والوں کے ساتھ تعارض نہیں کیا جاتا تھا۔ کھڑی فصلوں کو آگ نہیں لگائی جاتی تھی۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں زہر نہیں ملایا جاتا تھا۔ اور شب خون مارنے کو برا خیال کیا جاتا تھا۔ مگر اب جنگ کیا حکمرانی کی بھی اخلاقیات باقی نہیں رہیں۔ آج کی سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور جب تک سیاست کو اخلاقیات کا پابند نہیں بنایا جائے گا ہماری دنیا کا بحران بڑھتا ہی چلا جائے گا۔
(فرائیڈے اسپیشل: 16 ستمبر 2016ء