ہم کیوں مسلمان ہوئے محترمہ آمنہ

714

قبولِ اسلام کی یہ روح پرور سرگزشت ماہنامہ ’’حکایت‘‘ لاہور کے شمارہ فروری مارچ 1980ء میں شائع ہوئی تھی اور اسے ستار طاہر مرحوم نے مرتب کیا تھا، میں نے پہلے حصے کی تلخیص کی ہے جبکہ واحد متکلم والا دوسرا حصہ من و عن ستار طاہر صاحب کے الفاظ میں ہے۔
(بشکریہ مدیر حکایت اور مترجم)
محترمہ آمنہ پچاس سالہ سیاہ فام امریکی خاتون ہیں جو اپنی سماجی خدمات کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتی ہیں۔ 1980ء میں ان کے بارے میں جو کتاب شائع ہوئی اس کے مطابق ساڑھے تین سو افراد نے ان کی ترغیب سے منشیات سے توبہ کی تھی اور اکیس مرد و زن نے اسلام قبول کرلیا تھا۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ’’شکاگو نیوز‘‘ سے وابستہ زبردست صلاحیتوں کی حامل یہ صحافی خاتون جسمانی اعتبار سے معذور ہے۔ وہ شکاگو کے سلم (SLUM) نامی حبشیوں کے ایک ایسے محلے میں پیدا ہوئی جو غلاظت، جرائم، منشیات اور غربت و افلاس کا گڑھ تھا۔ اس کا پیدائشی نام سنتھیا (SYNTHIA) تھا اور اس کا باپ بھی اکثر حبشیوں کی طرح آوارہ منش، نشہ باز اور جرائم پیشہ آدمی تھا اور اس کی ماں ہی سفید فاموں کے گھروں میں مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلاتی تھی۔ باپ کی غیر ذمہ داری اور سنگ دلی کی وجہ سے وہ بہت بچپن میں پولیو کا شکار ہوگئی مگر وہ غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں کی مالک تھی۔ پانچ سال کی عمر میں اس کی ماں ایک سستی سی پہیوں والی کرسی خرید لائی اور اسے ایک اسکول میں چھوڑ آئی۔ سنتھیا نے جب سے بولنا شروع کیا تھا وہ بار بار کہا کرتی تھی ’’میں اسکول جائوں گی‘ میں اسکول جائوں گی‘‘۔
سنتھیا بڑی سمجھدار اور ذہین بچی تھی۔ وہ اپنی کرسی کو گھسیٹتی ہوئی اسکول چلی جاتی، گھر آجاتی اور کتابیں پڑھتی رہتی۔ اس کے اساتذہ اس کی ذہانت سے بہت متاثر تھے۔ وہ بڑی صابر اور باہمت بچی تھی۔ وہ کسی احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوئی۔ دوسرے بچوں کو بھاگتے دوڑتے دیکھ کر وہ اپنی معذوری پر کبھی آنسو بہاتی نہ پریشان ہوتی اور سر جھکائے بڑے اطمینان اور یکسوئی سے مطالعہ کرتی رہتی۔ اس نے اسکول میں اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا دی تھی۔ اسے ہر سال انعام ملا کرتا تھا۔ وقت گزرتا گیا اور سنتھیا سترہ سال کی ہوگئی۔ اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کرلی تھی اور اب یونیورسٹی میں داخلہ لینا تھا۔ چونکہ اس کی اعلیٰ تعلیم کارکردگی اور ذہانت سے سبھی متاثر تھے اس لیے اسے وظیفہ مل گیا اور پانچ تک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی رہی۔ اعزاز کے ساتھ اسے مکمل کیا اور ایک مقای اخبار ’’شکاگو نیوز‘‘ میں اسے ملازمت بھی مل گئی۔
یہی وہ زمانہ تھا جب سنتھیا امریکا کے مشہور سیاہ فام رہنما میلکم ایکس کے کردار سے متعارف ہوئی۔ موصوف مشہور و معروف جرائم پیشہ اور منشیات فروش حبشی تھا۔ وہ بے شمار سنگین وارداتوں میں ملوث تھا اور زندگی کا بڑا حصہ جیلوں میں گزار چکا تھا۔ پھر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میلکم مسلمان ہوگیا اور نہ صرف اس کی اپنی زندگی میں زبردست انقلاب آگیا اور وہ ایک صالح پاک باز مسلمان بن گیا بلکہ اس کی تبلیغ و ترغیب سے ہزاروں سیاہ فام لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں۔ اس نے سیکڑوں ایسے رضا کار تیار کیے جو خاص طور پر حبشیوں کو راہِ راست پر لانے اور نشے سے نجات دلانے کے لیے دن رات کوشاں رہتے تھے۔ یہ ایک نئی تحریک تھی، ایک نیا انقلاب تھا جو آہستہ آہستہ امریکی حبشیوں میں آرہا تھا اور جو انہیں وقار سے زندہ رہنا سکھا رہا تھا۔ سنتھیا، میلکم ایکس کی زندگی کے دونوں پہلائوں سے واقف تھی، اس لیے اس کے دل و دماغ نے مذاہب اسلام سے بھی گہرا اثر قبول کیا تھا اور چونکہ وہ مطالعے کی رسیا تھی اس لیے اس نے اسلاب کے بارے میں بہت کچھ پڑھ ڈالا اور اسے اپنے تصورات اور انسانی فطرت کے عین مطابق پایا تو اسے قبول کرلیا اور ایک روز جب کہ حسب معمول اس کا والد شراب کے نشے میں دھت اس کی ماں کی پٹائی کرنے والا تھا اس نے اپنے باپ کو سمجھانا شروع کردیا اور ماں کو صبر کی تلقین کرنے لگی اور گفتگو کی تیزی میں انہیں بتادیا کہ وہ اسلام قبول کرچکی ہے جس کے بعد جو کچھ ہوا اسے خود سنتھیا بلکہ آمنہ کی زبانی سنیے۔
میرے والدین کے لیے ’’مسلمان‘‘ کا لفظ اجنبی بھی نہ تھا۔ میں نہیں جانتی کہ اسلام اور اسلام کے پیروکاروں کے بارے میں امریکیوں کا رویہ بلارنگ و نسل کیوں معاندانہ اور مخالفانہ ہے۔ میری زبان سے یہ سننے کے بعد کہ میں مسلمان ہوچکی ہوں میرے والدین کو بے حد تعجب ہوا۔ خاص طور پر میری ماں کو بے پناہ صدمہ ہوا۔ اس کا یہ ردِعمل تب بہت پریشان کن تھا۔ میں اسے ایک مظلوم عورت سمجھتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میرے مسلمان ہونے پر زیادہ واویلا نہ کرے گی۔ مگر ہوا اس کے برعکس، میرے والد کے چہرے پر نفرت، حقارت اور استہزاء کے ساتھ ساتھ بے پروائی کی جھلک بھی دکھائی دے رہی تھی مگر میری ماں مسلسل بولتی جارہی تھی۔ آج جب وہ منظر مجھے یاد آتا ہے تو میں بے اختیار مسکرا دیتی ہوں لیکن اس وقت میرا ردمل کچھ مختلف تھا۔ میں یہ محسوس کرنے لگی تھی کہ میں نے اسلام قبول کرنے کا اعلان کچھ جلدی میں کردیا ہے، اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ میرے ایمان میں کوئی کمی تھی، بلکہ یہ کہ میں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جب تک میں مسلمانوں کے پورے طور و اطوار باطنی اور ظاہری طور پر اپنا نہیں لیتی تب تک اسلام لانے کا اعلان نہ کروں گی مگر اس لمحے میں خاصی جذباتی ہوگئی تھی۔ اپنے مسلمان ہونے کا ذکر بڑے جوش اور جذبے سے کردیا۔ میرے والد بڑبڑاتے ہوئے باہر چلے گئے۔ میری والدہ مجھے سمجھانے لگیں۔
’’ممی!‘‘ میں نے کہا۔ ’’جو ہونا تھا ہوچکا ہے، میں جو قدم آگے بڑھا چکی ہوں وہ پیچھے نہیں ہٹا سکتی‘‘ میری ماں نے اور زیادہ شدت سے مجھے سمجھانا بجھانا شروع کردیا، میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا وقت بلاوجہ ضائع کررہی ہیں، میں مسلمان ہوچکی ہوں اور اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ میری والدہ نے سوچا شاید میں ضد کررہی ہوں یا جذباتی ہوگئی ہوں، انہوں نے اپنا طویل لیکچر ادھورا چھوڑا اور بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئیں۔
میں مسلمان کیوں ہوئی؟
یہ بات مجھ سے کئی لوگوں نے پوچھی ہے اور میں کئی بار جواب دے چکی ہوں، اس کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ مجھے اس سوال کا جواب بڑے سکون اور اطمینان سے دینا چاہیے۔ میرے گھریلو حالات، امریکا میں حبشیوں کی مجموعی حالت سے زیادہ میری معذوری اور اپاہج پن نے مجھے اسلام کی طرف راغب کیا، اس کی تفصیل بھی سن لیں۔ ایک اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے میں ہر روز میلکم ایکس اور مسلمان ہونے والے حبشیوں کی اصلاحی تحریک کے بارے میں پڑھتی تھی۔ چونکہ پولیو کی وجہ سے میں معذور اور اپاہج ہوچکی تھی اور سوائے مطالعہ کے میرا اور کوئی شغل نہ تھا، اس لیے مجھ میں غور و فکر کی عادت بہت بڑھ گئی تھی۔ جب میں پڑھتی کہ میلکم ایکس اور اس کے رضا کار ساتھی لوگوں سے منشیات کی عادت چھڑانے میں کامیاب ہورہے ہیں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی۔ میں سمجھتی یہ صرف ایک خبر ہے جس میں صداقت نہیں ہے۔ لیکن پھر میں سوچتی کہ یہ خبر کس طرح جھوٹی ہوسکتی ہے؟ اور کس حد تک جھوٹی ہوسکتی ہے؟۔
میرے پاس میرے اپنے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا مگر اس زمانے میں میں نے یہ فیصلہ کرلیا کہ مجھے اسلام کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھنا چاہیے۔ میں نے کچھ کتابیں حاصل کیں اور پڑھنے لگی۔ ان کتابوں نے مجھے خاصا متاثر کیا۔ جب میں نے یہ پڑھ ڈالیں تو میرے دل میں قرآن پڑھنے کا خیال پیدا ہوا اور میں نے انگریزی میں ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ حاصل کرلیا۔ قرآنِ پاک کے اس ترجمے نے جھے عجیب طرح کا روحانی سرور بخشا جسے میں بیان نہیں کرسکتی۔ میں سمجھتی ہوں کہ اگر کوئی بھی شخص دلچسپی، انہماک اور لگن سے قرآن پاک کا مطالعہ کرے تو وہ اس مقدس کتاب کی حقانیت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
قرآن پاک کے مطالعے نے مجھے کئی دن بے چین رکھا، میرے دل میں ایک عجیب طرح کا جذباتی مدوجزر پیدا ہوگیا تھا۔ جی چاہتا کہ اب میلکم ایکس سے ملوں مگر وہ اس شہر سے بہت دور تھے۔ میں نے اخبار کے ذریعے یہ پتہ چلایا کہ یہاں ہمارے شہر میں کون سا ایسا شخص ہے جو مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کا پتہ مجھے جلد ہی مل گیا۔ میں نے اس شخص ’’محمد یوسف‘‘ کو فون کیا اور اس سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ دوسری طرف سے مجھے بڑی ہمدرد اور نرم آواز سنائی دی۔ محمد یوسف نے مجھے کہا کہ میں جس وقت چاہوں اسے مل سکتی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں کل بعد دوپہر ان سے ملوں گی۔ وقت طے ہوجانے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔
جب میں اگلے دن محمد یوسف سے ملنے گئی تو وہ مجھے دیکھ کر کچھ پریشان ہوگئے۔ میں نے ان کی پریشانی کے سبب کو بھانپ لیا۔ وہ کسی صحت مند اور توانا لڑکی سے ملنے کی توقع رکھتے تھے۔ جب انہیں وہیل چیئر میں بیٹھی، حرکت سے معذور مجھ جیسی لڑکی دکھائی دی تو وہ کچھ پریشان سے ہوگئے، مگر میری مسکراہٹ اور خوشدلی نے ان کی پریشانی کو جلد ہی ختم کردیا۔
محمد یوسف میری ہی طرح حبشی تھے… کبھی ان کا نام جانی بلیگڈن تھا اب وہ محمد یوسف کے خوبصورت نام کے مالک تھے۔ وہ اس شہر کے مسلمانوں کے سربراہ یا امام تھے۔ وہی مسجد میں نماز پڑھاتے تھے اور وہی قرآنی تعلیمات کا درس دیتے تھے۔ وہ ہمدردی بھرے لہجے میں مجھ سے میرے بارے میں گفتگو کرتے رہے۔ باتوں باتوں میں بڑے غیر محسوس انداز میں انہوں نے مجھ سے میرے اور میرے کنبے کے بارے میں سب معلومات حاصل کرلیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ مسلمان کیوں ہوئے تھے؟
محمد یوسف مسکرا دیئے پھر انہوں نے دھیمے سے بڑے میٹھے لہجے میں جواب دیا… ’’میں اس لیے مسلمان ہوا کہ خدا تعالیٰ کی یہ مرضی تھی کہ وہ مجھے سیدھا راستہ دکھائے‘‘۔ ان کا وہ جواب میں آج تک نہیں بھولی ہوں اور زندگی بھر نہیں بھول سکوں گی کیونکہ میں بھی یہی سمجھتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ جس انسان کو سیدھے راستے پر لانا چاہتا ہے اس کے دل میں اسلام کے لیے محبت پیدا کردیتا ہے۔
محمد یوسف نے مجھے بتایا کہ وہ بھی حبشیوں کے غریب اور نادار علاقے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بچپن غربت اور افلاس میں گزارا۔ بڑے ہوئے تو وہ ایک ایسے ہوٹل میں ملازم ہوگئے جہاں انہیں برتن مانجھنے کے لیے رکھا گیا تھا مگر ان سے ایک اور ضروری کام اور بھی لیا جاتا تھا۔ انہیں کچھ پیکٹ دے دیے جاتے کہ وہ انہیں کسی جگہ پہنچا آئیں اس کام کے عوض انعام میں انہیں ایک آدھ ڈالر مل جایا کرتا تھا۔ ایک دن ان کے جی میں آئی کہ اس پیکٹ کو کھول کر دیکھنا چاہیے۔ جب انہوں نے کھول کر دیکھا تو اس میں سے انہیں حشیش ملی۔ انہوں نے یہ حشیش مہنگے داموں بیچ دی اور ہوٹل واپس نہ گئے، مگر ہوٹل کی انتظامیہ نے انہیں ڈھونڈ نکالا، پیکٹ مانگا اور جب پیکٹ نہ ملا تو ان کی خوب پٹائی کی۔ وہ کئی دنوں تک بستر سے نہ اُٹھ سکے۔ اس واقعہ کے بعد وہ گناہوں کی دنیا میں پہنچ گئے۔ تیس برس کی عمر تک انہوں نے ہر بُرا کام کیا۔ وہ عورتوں کی دلالی کرتے، قحبہ خانوں کی نگرانی کا فرض انجام دیتے، ہیروئن اور دوسری منشیات کا خفیہ دھندا کرتے کرتے خود بھی ان منشیات کے عادی ہوگئے۔ انہیں کئی بار سزا ہوچکی تھی مگر وہ سزا کے خوف سے بے نیاز ہوچکے تھے۔ ایک بار جب وہ جیل میں تھے تو کچھ لوگ ان سے ملنے آئے۔ یہ رضا کار مسلمان تھے جو قیدیوں میں اسلام کی تبلیغ کررہے تھے۔ ان کی تبلیغ سے محمد یوسف بے حد متاثر ہوئے اور ان کا جی چاہنے لگا کہ وہ باعزت اور بے فکر زندگی بسر کریں۔ جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو خاصے بدل چکے تھے۔ مگر انہیں زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا تھا وہ کچھ بھی نہیں جانتے تھے اس لیے انہوں نے یہی سوچا کہ اب پھر انہیں جرائم کی زندگی بسر کرکے ہی اپنا پیٹ پالنا پڑے گا۔ وہی رضا کار جنہوں نے جیل میں ان کے خیالات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی وہ اُن سے ملے ان کے لیے روزگار کا بندوبست کیا، کچھ نقد رقم دی تا کہ جب تک انہیں تنخواہ نہیں ملتی وہ اس رقم سے گزر اوقات کریں۔ وہ انہیں اپنے ساتھ رکھتے۔ یوں محمد یوسف جو کبھی جانی بلیگڈن تھے، مسلمان ہوگئے۔
اسلام کے ساتھ ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ ایک برس میں انہوں نے کلام مجید عربی میں پڑھ لیا۔ اس راہ میں انہیں بہت سی وقتیں اور پریشانیاں پیش آئیں، مگر وہ کسی پریشانی سے نہ گھبرائے۔ قرآن مجید کی تعلیم کے بعد وہ اسلامی قواعد اور طرزِ زندگی کو اپنانے میں کامیاب ہوگئے۔ چار سال کے بعد انہیں اس علاقے میں مسلمانوں کا امام مقرر کردیا گیا۔ امام بنے کے بعد انہوں نے اپنی تگ و دو سے زمین کے لیے چندہ جمع کیا اور وہاں ایک چھوٹی سی مسجد تعمیر کرادی۔ اس مسجد کی تعمیر میں خود انہوں نے اور دوسرے مسلمانوں نے حصہ لیا تھا۔ وہ خود مزدوری کرتے اور اس کا معاوضہ نہ لیتے تھے۔
میں محمد یوسف کی زندگی اور ان کی باتوں سے بے حد متاثر ہوئی اور ان سے کہا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ محمد یوسف صاحب نے پہلی بار مجھے بھرپور نظروں سے دیکھا اور بولے… ’’خدا مبارک کرے‘ مگر مسلمان ہونا بہت مشکل ہے‘‘۔
’’میں ہر مشکل پر قابو پالوں گی‘‘۔
’’الحمدللہ‘‘… انہوں نے کہا‘‘… کیا تمہیں کلمہ اور نماز آتی ہے؟‘‘۔
میں نے نفی میں سرہلایا تو انہوں نے مجھے ایک چھوٹی سی کتاب دی اس میں رومن حروف میں کلمہ اور نماز لکھی ہوئی تھی۔ کہنے لگے: ’’اسے یاد کرلو اور اگر ہوسکے تو سہ پہر کو تھوڑی دیر کے لیے آجایا کرو‘‘۔ میں نے چند دنوں میں نہ صرف کلمہ اور نماز ازبر کرلی بلکہ ان کے معنی بھی سمجھ لیے۔ اس دوران میں محمد یوسف سے بھی ملتی رہی اور ان سے دین اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتی رہی۔
جمعہ کا دن تھا‘ مسجد میں تمام مسلمانوں کے سامنے میں نے کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوگئی۔ میرا نام آمنہ رکھ دیا گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد میں نے پہلا کام یہ کیا کہ کھانے کے ساتھ تھوڑی بہت شراب پینے کی جو عادت تھی اسے ترک کردیا۔ میں سگریٹ بھی پی لیا کرتی تھی یہ بھی چھوڑ دیئے اور مسلمان عورتوں جیسا لباس سلنے کے لیے دے دیا۔ میں سمجھتی تھی کہ جب میں مسلمان عورتوں کی طرح لمبے چغے میں اپنا جسم چھپائوں گی اور سر کو بھی ڈھانپوں گی تو وہیل چیئر میں بیٹھی ہوئی خاصی مضحکہ خیز دکھائی دوں گی۔ میں نے ہر طنز اور مذاق کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ جب میں پہلی بار مسلمان عورتوں کا لباس پہن کر گھر سے نکلنے لگی تو میری ماں نے مجھے حیرت سے دیکھا۔
’’سنتھیا یہ کیا پہن رکھا ہے تم نے؟‘‘
اس کے چہرے پر طنز تھا۔ میرے والد نے بھی جو رات بھر شراب پینے کے بعد اب کرسی پر بیٹھے اونگھ رہے تھے اپنی سرخ آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور قہقہہ لگایا۔
’’ممی یاد رکھیے میرا نام آمنہ ہے سنتھیا نہیں‘‘
آ… آمنہ… کیا نام ہوا۔ یہ بھلا‘‘ ماں نے کہا… ’’لڑکی تیرا دماغ تو نہیں چل گیا؟‘‘۔
میں نے اپنی والدہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میں انہیں بتا چکی ہوں کہ میں مسلمان ہو چکی ہوں اور اب میں مسلمانوں کی طرح باقاعدہ زندگی کا آغاز کررہی ہوں۔ ’’تمہاری جگہ جہنم میں ہے‘‘ اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور کہتی میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا ’’ممی آپ کو میرے معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں اگر کوئی بات کرنی ہے تو جب میں دفتر سے آئوں گی تو کرلینا اس وقت مجھے دیر ہورہی ہے‘‘۔ میں وہیل چیئر کو دھکیلتی ہوئی باہر نکل گئی۔ حبشیوں کی اس گندی بستی میں جس کسی نے مجھے اس لباس میں دیکھا وہ پہلے تو حیران ہوا پھر مذاق اڑانے لگا مگر میں نے کسی کی ایک نہ سنی اور اپنی راہ چلتی رہی۔ جب میں اپنے اخبار کے دفتر پہنچی تو وہاں بھی شدید ردعمل پیدا ہوا۔ بہت سے لوگ میرے اردگرد جمع ہوگئے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں مسلمان ہوگئی ہوں اور مسلمان عورتیں ایسا ہی لباس پہنتی ہیں تو بعض لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی اور بعض بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ اتفاق سے اس روز تنخواہ کا دن تھا۔ تنخواہ ملی تو میں نے اس کا ایک چوتھائی حصہ اپنے علاقے کی مسجد کے فنڈ میں جمع کرادیا۔ جب میں گھر لوٹی تو میری والدہ میرا انتظار کررہی تھی۔ میرے والد بھی گھر پر موجود تھے… میں تنخواہ کا نصف حصہ اپنی والدہ کو دے دیا کرتی تھی۔ اس رقم سے میرے والد اپنے نشے کے لیے کچھ پیسے اینٹھ لیا کرتے تھے۔ میں نے جب اپنی تنخواہ کی کچھ رقم اپنی ماں کو دی تو اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور پوچھا… ’’تم نے اس بار دس ڈالر کم دیئے ہیں‘‘۔
’’ہاں اب ہر ماہ آپ کو اتنی رقم ہی ملے گی۔ میں نے اپنی تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے کا فیصلہ کرلیا ہے‘‘۔ میری یہ بات سنتے ہی وہ مجھے، مسلمانوں اور مسجد کو کوسنے لگی۔ میں نے کوئی جواب دینا مناسب نہ سجھا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ میں بہت دیر تک اپنی والدہ کو بکتے جھکتے سنتی رہی۔ بیچ بیچ میں میرے والد کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ ’’…اب سنتھیا ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ مسلمانوں نے اس کا دماغ خراب کردیا ہے۔ ہم نے تو کبھی گرجے کو چندہ نہیں دیا، یہ تنخواہ کا ایک چوتھائی مسجد کو دینے لگی ہے‘‘۔ میرے والد اور والدہ کے نزدیک مسلمان لٹیروں سے کم نہ تھے جو ان کی بیٹی کی کمائی لوٹ کر لے گئے تھے۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی زندگی اسلام کے قوانین و ضوابط کے مطابق ڈھال لی۔ وہ لوگ جو پہلے مجھ پر انگلیاں اٹھاتے تھے مجھ سے بے پروا ہوگئے۔ میرے اور اسلام کے خلاف زہر اگلنے والی زبانیں بھی خاموش ہوگئیں۔
اور پھر کرسمس کا تہوار آگیا۔ ہم خواہ کتنے ہی غریب اور بدحال کیوں نہ ہوں کرسمس کو ٹھاٹھ باٹھ سے منانے کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ کرسمس کے روز شراب پانی کی طرح بہائی جاتی ہے۔ اب میں نے مہمانوں کے ساتھ شراب کے جام کو چھونے سے ہی انکار کردیا تو ہمارے گھر میں قیامت برپا ہوگئی۔ والد تو صبح سے نشے میں دھت تھے، والدہ بھی دو ایک بار مہمانوں کے ساتھ پی چکی تھی۔ نشے کی حالت میں وہ مجھ پر برسنے لگے۔ مہمان بھی نشے میں تھے وہ بھی جو ان کے منہ میں آیا بکنے لگے۔
ان سب کی حالت قابل رحم تھی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اس کمرے سے چلے جانا چاہیے مگر جب میں اپنی وہیل چیئر کو دھکیل کر جارہی تھی تو ایک مہمان لڑکا اور میرے والد میرے پیچھے لپکے اور وہیل چیئر کے سامنے کھڑے ہوگئے… ’’راستہ چھوڑدیں‘‘… میں نے کہا… ’’مجھے جانے دیں‘‘۔
’’یہ پی لو پھر چلی جانا‘‘۔ لڑکے نے میرے راستے سے ہٹے بغیر شراب کا جام میرے آگے کیا۔ ’’میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر‘‘۔
میرے منہ پر ایک زور دار طمانچہ لگا جو میرے والد نے مارا تھا۔ میرا سر چکرا گیا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے مگر میرے والد اور اس لڑکے میں تو جیسے شیطان کی روح حلول کرگئی تھی۔ وہ مجھے پیٹنے لگے۔ انہوں نے مجھے روئی کی طرح دھنک دیا۔ میں خاموشی سے یہ ظلم برداشت کرتی رہی۔ وہ گالیاں بک رہے تھے۔ نشے میں ان کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ جب وہ تھک کر بیٹھ گئے تو میں کسی نہ کسی طرح اپنے کمرے میں پہنچ گئی۔ اس رات میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔
میرا پہلا ردعمل یہ تھا کہ مجھے امام مسجد محمد یوسف کو ساری بپتا سنانی چاہیے اور پھر یہ گھر چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن جوں جوں میرا غصہ اور جوش ٹھنڈا ہوتا گیا میری سوچ بدلتی گئی۔ میں نے سوچا کہ مجھے اپنی پریشانیاں لے کر محمد یوسف کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ ان کا حل خود تلاش کرنا چاہیے اور اپنے والدین کے ساتھ ہی رہنا چاہیے۔ ان کا مجھ پر حق ہے اور میرا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ میں ان کی زندگی بدلنے کی کوشش کروں۔ چنانچہ اس روز میں نے ایک اہم فیصلہ کیا اور اگلے روز میں نے اپنے اس فیصلے سے امام مسجد محمد یوسف کو مطلع کردیا۔
میں نے اخبار کی ملازمت چھوڑ دی اور رضا کار بن گئی۔ مجھے معمولی سا گزارہ الائونس ملنے لگا۔ جب میرے والدین کو میرے اس فیصلے کا علم ہوا تو بہت سٹپٹائے۔ وہ یہ سوچ ہی نہ سکتے تھے کہ میں اچھی بھلی ملازمت چھوڑ دوں گی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ فکر نہ کریں، ان کو ان کا حصہ ملتا رہے گا۔ میں اخباروں کے لیے لکھوں گی اور جو معاوضہ مجھے وہاں سے ملے گا وہ میں ان کو دے دیا کروں گی۔ میری اس عملی زندگی کا آغاز اس وقت ہوا جب میں مسلمان رضا کار بن گئی۔
محمد یوسف نے مجھے بہت سی ہدایات دیں اور جس کام کے لیے مجھے چنا گیا تھا اس راہ کے خطرات سے آگاہ کیا۔ مجھے خود بھی اندازہ تھا کہ یہ راستہ پرخطر ہے مگر اسلام نے مجھے حوصلہ بخشا جس کی وجہ سے میں کسی خطرے کو خاطر میں نہ لا رہی تھی۔ میں جیلوں میں جانے لگی وہاں میں قیدیوں سے ملتی ان کے سامنے اسلام کی عظمت بیان کرتی۔ انہیں ان کی زندگی کے گھنائونے پہلو دکھا کر ان کو بہتر زندگی بسر کرنے کا مشورہ دیتی۔ کچھ قیدی وقت کاٹنے کے لیے میری باتوں کو توجہ سے سنتے‘ کچھ میرا مذاق اُڑاتے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے میری جسمانی معذوری پر بھی قہقہے لگائے مگر میں مطلق ہراساں نہ ہوئی نہ میری ہمت نے جواب دیا۔
ان قیدیوں میں سے ایک حبشی قیدی اربنٹو بھی تھا۔ اس نے میری باتوں سے خاصا اثر قبول کیا اور ایک دن کہنے لگا… ’’تم بڑی باہمت لڑکی ہو۔ اگر تم واقعی یہ چاہتی ہو کہ برائی کا خاتمہ ہو جائے تو برنارڈو کا خاتمہ کردو‘‘۔
’’برنارڈو کون ہے؟‘‘… میں نے پوچھا۔
برنارڈو اس شہر میں ایک بڑی مافیا فیملی کا سربراہ ہے۔ وہی شخص ہے جو اس شہر میں منشیات کا اجارہ دار ہے۔ اگر وہ نہ ہو تو لوگوں کو منشیات ملیں اور نہ وہ ان کے عادی ہوں۔ وہ بڑا خطرناک آدمی ہے… آج میں جس حالت کو پہنچا ہوں اس کا ذمہ دار بھی برنارڈو ہے‘‘۔
’’میں برنارڈو سے کیسے مل سکتی ہوں‘‘؟
اس نے میرے کان میں مجھے برنارڈو کا پتہ بتادیا۔ جب میں جانے لگی تو اربنٹو کا لہجہ یکسر بدل گیا تھا۔ وہ ندامت کے ساتھ کہنے لگا…’’مجھ سے غلطی ہوئی کہ میں نے تم سے برنارڈو کا ذکر کیا۔ تم اس سارے واقعے کو بھول جائو۔ تم اندازہ نہیں کرسکتی ہو کہ برنارڈو کتنا خطرناک آدمی ہے؟‘‘۔
’’مگر میں اس سے لنے کا فیصلہ کرچکی ہوں‘‘… میں نے عزم سے کہا۔
’’تم اس سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’اس کو سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کروں گی…‘‘
وہ ہنسنے لگا۔ اس کے قہقہے دور تک میرا پیچھا کرتے رہے۔
صبح کا وقت تھا جب میں وقت طے کیے بغیر برنارڈو کے عالیشان گھر کے اندر داخل ہوئی۔ اس گھر کو دیکھ کر کوئی بھی شخص اندازہ نہ کرسکتا تھا کہ اس گھر میں رہنے والا شخص بہت بڑا مجرم ہے۔
’’تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘ ایک ملازم نے مجھے روک کر پوچھا۔ وہ میرے لباس اور میری وہیل چیئر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’مجھے مسٹر برنارڈو سے ملنا ہے‘‘ میں نے کہا۔
’’تمہیں…‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر کہا۔ ’’مسٹر برنارڈو سے ملنا اتنا آسان نہیں‘‘۔
’’آخر کیوں‘‘؟ میں نے کہا… ’’وہ بھی انسان ہے اور انسان انسانوں سے ملا جلا کرتے ہیں‘‘۔
ہم دونوں میں تُو تکرار ہونے لگی۔ اسی وقت ایک ادھیڑ عمر کا مضبوط حبشے والا آدمی ایک کمرے سے باہر نکلا اور غصے سے بولا… ’’یہ کیا ہورہا ہے؟ شور کیوں مچا رکھا ہے؟‘‘ ملازم نے اس شخص کے سامنے سر جھکا کر کہا… ’’یہ لڑکی آپ سے ملنے پر اصرار کررہی تھی‘‘۔
’’مجھ سے‘‘ اس نے پوچھا ’’کیا کام ہے؟‘‘
میں آپ سے علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں‘‘ میں نے کہا۔ برنارڈو نے کچھ تعجب سے میری طرف دیکھا پھر ملازم کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ جب ملازم چلا گیا تو برنارڈو نے بڑی نخوت سے کہا… ’’میں اس طرح کسی سے ملاقات نہیں کرتا۔ تم معذور ہو اس لیے رُک گیا ہوں۔ کہو میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
میں نے اس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا… ’’مسٹر برنارڈو! کیا واقعی آپ اس معذور لڑکی کے کسی کام آنا چاہتے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دینے سے پہلے کچھ سوچا پھر مسکرا کر کہا… ’’ہاں کہو میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں؟‘‘
میں نے پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مسٹر برنارڈو کچھ بے چینی محسوس کررہا ہے۔ وہ میری نظروں سے نظریں چرا رہا تھا۔
’’مسٹر برنارڈو‘‘… میں نے کہا… ’’اللہ نے آپ کو سب کچھ دیا ہے اب آپ کو ہدایت کی ضرورت ہے‘ سچی ہدایت کی‘‘۔
’’لڑکی!… میں نہیں جانتا تم کون ہو۔ میرا وقت بہت قیمتی ہے۔ دو منٹ میں اپنی بات ختم کرو‘‘۔
میں نے جب بات شروع کی تو برنارڈو کا چہرہ طیش اور غصے سے سرخ ہوگیا، اس نے غصے کو دبا کر کہا… ’’تم پاگل ہو، نکل جائو یہاں سے، تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں یہ کام کرتا ہوں؟۔ میں تمہیں اور تم کو یہ بتانے والے کو زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
میں نے بڑے اطمینان سے کہا ’’آپ کے اس غصے اور جوش ہی سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ مجھے آپ کے بارے میں جو اطلاع ملی ہے وہ درست ہے‘‘۔
’’تم بکتی ہو، چلی جائو یہاں سے۔ مجھے تمہارے اپاہج پن کا خیال آرہا ہے ورنہ…‘‘
’’میں جانتی ہوں مسٹر برنارڈو آپ طاقتور ہیں اور سارا شہر آپ کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے‘‘۔
’’تو تم چاہتی کیا ہو‘‘؟ برنارڈو نے گرج کر کہا۔
’’میں چاہتی ہوں کہ آپ خلق خدا کے فائدے کے لیے اپنا یہ دھندا چھوڑ کر کوئی اور کام کریں اگر آپ سے یہ ممکن نہیں تو پھر مجھ معذور لڑکی پر کرم کریں اور مجھے ہر روز پانچ منٹ ملاقات کا وقت دے دیا کریں‘‘۔
وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگا، پھر اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’تم ضد کی پکی ہو… تم کل پھر آسکتی ہو اسی وقت…‘‘۔
برنارڈو اطالوی نژاد تھا، دل کا کھلا۔ اس کو زندگی میں شاید ہی مجھ سا کوئی انسان ملا ہو۔ وہ میری ذات میں دلچسپی لینے لگا۔ ایک دن کے بعد دوسرا دن… وہ مجھے ہر روز بلاتا مجھ سے باتیں کرتا۔ پانچ منٹ کی گفتگو کا دائرہ پھیل کر گھنٹوں تک پہنچ گیا۔ میں اس کے سامنے انسانوں کی بدحالی کا ذکر کرتی، منشیات کی تباہ کاریاں بیان کرتی اور اسلام کی حقانیت کا ذکر کرتی۔ آہستہ آہستہ اس کے خیالات میں کچھ لچک پیدا ہونے لگی۔
’’آمنہ!‘‘… ایک دن اس نے مجھ سے کہا… ’’میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو؟ مسلمان کیا ہوتے ہیں؟ مگر میں ایک بات جان گیا ہوں کہ تم انسان کی نفسیات کو خوب سمجھتی ہو‘‘۔
’’اسلام انسانوں کا مذہب ہے، ایک مکمل دین ہے، مکمل دین‘‘… میں نے جواب دیا… ’’اس لیے اسلام مسلانوں کو انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھنے کی تلقین کرتا ہے‘‘۔
میں نے محسوس کیا کہ اب جب میں اس سے ملنے جاتی ہوں تو وہ کچھ بے چینی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس نے ایک دن مجھ سے کہا… ’’آمنہ! کیا واقعی انسان کی زندگی فانی ہے، انسان کو دنیا میں اچھے کام کرنے چاہئیں اور دوسروں کا بھلا سوچنا چاہیے؟‘‘
’’الحمدللہ… میں نے جواب دیا… ’’خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ یہ بات آپ کے ذہن میں سما گئی ہے‘‘۔
چند دنوں بعد برنارڈو نے اپنا دھند اچھوڑ دیا اور راہِ راست پر آگیا۔ اس نے بلا ہچکچاہٹ قبول کرلیا کہ وہ مافیا کا رکن ہے۔ اس نے مافیا کے سربستہ رازوں کو کھول کر رکھ دیا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر فورڈ کے عہد صدارت میں برنارڈو کے اس عمل سے امریکا میں کتنا تہلکہ مچا تھا۔ برنارڈو نے اخبار نویسوں سے کہا تھا… ’’ایک اپاہج اور معذور لڑکی نے مجھے یہ طاقت پرواز بخشی ہے کہ میں نے برائی کی زنجیروں کو توڑ دیا ہے اور کھلی آزاد فضائوں میں اُڑنے کی ہمت اپنے اندر محسوس کررہا ہوں‘‘۔
اس روز میں بہت روئی تھی جب مجھے یہ خبر ملی کہ برنارڈو کو جیل میں گولی مار دی گئی ہے۔ اس کو مافیا کے آدمیوں نے قتل کردیا تھا۔ اس کا زندہ رہنا ان کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جو راستی کی راہ پر چل نکلا تھا۔ وہ زندہ رہتا تو بڑا مصلح ثابت ہوسکتا تھا۔
برنارڈو کے تائب ہونے کی وجہ سے مجھے پریس نے بڑی شہرت دی میری تصویریں شائع ہونے لگیں۔ اخباروں اور رسالوں میں میرے انٹرویو شائع ہوئے۔ ٹی وی اور ریڈیو پر مجھے بلایا گیا اور میری خدمات کو بے حد سراہا گیا۔
عالمی ہیوی ویٹ چیمپئن محمد علی مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے میری بڑی تعریف کی۔ صدر فورڈ نے مجھے وائٹ ہائوس میں بلایا اور میری تعریف کی۔ اس شہرت اور عزت کے باوجود مجھ میں تکبر پیدا نہیں ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تکبر پسند نہیں ہے۔
اسلام نے میری زندگی میں جو انقلاب پیدا کیا، میں ساری دنیا میں پھیلا دینا چاہتی ہوں اور اگر یہ میرے بس میں نہیں تو میرے دل میں یہ خواہش ضرور ہے کہ اسلام کی برکات اور فیوض سے امریکا کے سیاہ فام ضرور فیض یاب ہوں۔
میرے والد شراب سے توبہ کرچکے ہیں اور نشہ چھوڑ چکے ہیں۔ میری والدہ میری عزت کرتی ہیں، اگرچہ انہوں نے اپنا مذہب نہیں چھوڑا مگر ان کی زندگی میں بڑی تبدیلی رونما ہوچکی ہے۔
پچھلے چند برسوں میں میری کوششوں کی وجہ سے ساڑھے تین سو افراد نے منشیات سے توبہ کی ہے اور اکیس مردوں اور عورتوں نے اسلام قبول کیا ہے۔
میں ایک اپاہج عورت ہوں مگر میں اپنے آپ کو اپاہج نہیں سمجھتی کیونکہ میرا ایمان ہے کہ جو شخص مسلمان ہوجائے وہ کبھی اپاہج نہیں ہوسکتا، خدا کا سہارا بن جاتا ہے… میری زندگی اسلام کے لیے وقف ہوچکی ہے۔ میں اسلام ہی کے لیے کام کروں گی اور اسلام کی روح انسانوں میں پھونک دینا چاہتی ہوں۔
جب بھی کوئی انسان برائی کا راستہ ترک کرتا ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ اسلام کی فتح ہوئی ہے۔ تو یہ ہے میری کہانی … سنتھیا سے آمنہ بننے کی!!

حصہ