دل کے ٹکڑے

394

’’میرے بیڈ کا ستیا ناس کردیا تم لوگوں نے! کوئی احساس ہے، جاہل نالائق بچے…‘‘ بیگم شمیم نے غصے سے اچھلتے ہوئے بچوں کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری ماؤں کو تو خیال نہیں، چیزوں کی قدر ہی نہیں ہے۔ مجال ہے کہ کوئی تمیز سکھائی ہو۔‘‘ بچے دادی کی ڈانٹ سن کر سہم گئے اور اچھلنا بھول کر اپنی ماؤں کی نظروں سے چھپنے کی کوشش کرنے لگے۔
یہ روز کا معمول تھا، بچوں کو کسی نہ کسی بات پر بیگم شمیم سے ڈانٹ کھانی پڑتی۔ کبھی کھڑکی کے شیشے توڑنے پر، کبھی بلب توڑنے پر، کبھی دروازے کی جالی توڑنے پر بچوں کو صلواتیں سننے کو ملتی تھیں۔ کچھ بڑھاپے کا تقاضا تھا کہ وہ وقت کے ساتھ چڑچڑی بھی ہوتی جارہی تھیں کہ بہوؤں کو بھی طعنے دینے لگتی تھیں۔
بیگم شمیم کے تین بیٹے تھے، سب الگ الگ پورشن میں رہتے تھے، لیکن شام کے وقت تمام بچے آپس میں مل کر خوب شرارتیں کرتے تھے جس سے بیگم شمیم چڑتی تھیں۔
تینوں بیٹے بچوں کو دادی کے پورشن میں اودھم مچانے سے منع کرتے۔ لیکن بچے کہاں ماننے والے تھے! بچوں کی وجہ سے وہ بہوئوں، بیٹوں سے تعلقات خراب کرلیتی تھی اور سب کو صلواتیں سناتیں۔ آہستہ آہستہ بچوں نے ان کے پورشن میں آنا کم کردیا۔
دادی کے ساتھ چھوٹی بہو شگفتہ مع بچوں کے رہتی تھی، اُس کے بھی تینوں بچے بہت شرارتی تھے، کوئی نہ کوئی چیز خراب کرنے پر ڈانٹ کھاتے۔ شگفتہ یہ سب باتیں برداشت کرلیتی تھی۔
ایک دفعہ شگفتہ کے چھوٹے بیٹے نے دادی کی شیشی فرش پر پھینک دی جس سے پورا فرش نیلا ہوگیا۔ شمیم بیگم غصے سے آگ بگولہ ہوگئیں اور کہا ’’ہاں بھائی خراب کرو، آپ کو مفت کا گھر جو مل گیا ہے، کرو خراب…… کوئی طریقہ سلیقہ نہیں ہے، ایسی چیزیں بچوں کے ہاتھ میں دی ہوئی ہیں۔ بچوں کی تربیت کرنی نہیں آتی، بگڑتے ہی جارہے ہیں، ڈھیٹ اولاد ہیں۔‘‘
شگفتہ یہ سب سن کر نظرانداز کرکے فرش صاف کرنے لگی، لیکن فرش کا دھبہ صاف ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، اور شمیم بیگم فرش دیکھ کر ہولنے لگ گئیں ’’اللہ، میرے شوہر نے محنت کی کمائی سے گھر بنایا، کیسے ستیاناس ہورہا ہے میرے گھر کا!‘‘
بچوں کی تربیت میں بہت برے اثرات مرتب ہوتے جارہے تھے۔ ایک دفعہ شگفتہ کے دونوں بیٹوں کی لڑائی ہوگئی، چھوٹے بیٹے نے غلطی سے کھیلتے ہوئے بڑے بیٹے کا بیٹ توڑ دیا، بڑے بیٹے سے برداشت نہیں ہوا اور اس نے غصے میں آکر وہی بیٹ اپنے چھوٹے بھائی کے سر پر مار دیا۔
اس طرح کے واقعات دیکھ کر شگفتہ کو اندازہ ہوگیا کہ بچوں کی گھر کے ماحول کو دیکھ کر یہ تربیت ہورہی ہے کہ چیزیں رشتوں سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔
اُس نے اس بارے میں اپنے شوہر سے بات کی۔ شوہر کا ایک ہی جواب تھا کہ بچوں کو سمجھاؤ، ماں کو میں نہیں سمجھا سکتا کیوں کہ اُن کی سمجھنے کی عمر گزر چکی ہے، برداشت کے سوا کچھ نہیں کرسکتے، لیکن یہ بات سچ ہے کہ بچے جو دیکھتے ہیں وہی سیکھتے ہیں۔

حصہ